طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:احتیاط کے ساتھ کموڈ کا استعمال کرنا جائز ہے، تاکہ جسم اور کپڑے پر چھینٹے نہ پڑیں؛ البتہ بہتر اور صحت بخش طریقہ وہی ہے، جو فطری ہے اور جسے محمد B نے اپنایا ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق اگر اس فطری طریقے کے مطابق قضائے حاجت کے لیے بیٹھا جائے، تو اپنڈے سائیٹس (Appendiesitis) دائمی قبض، بواسیر (Piles)، گردوں کے امراض، گیس، تبخیر اور بدہضمی وغیرہ جیسے امراض ختم ہوجاتے ہیں (۱) علاوہ ازیں ایک روایت میں ہے کہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: علّمنا رسول اللّٰہ ﷺ: إذا دخل أحدنا الخلاء أن یعتمد علی الیسری و ینصب الیمنی۔(۲)
جو لوگ کموڈ کا استعمال کرتے ہیں ان کو مندرجہ ذیل آداب کا خیال رکھنا چاہیے (۱)اگر کموڈ صرف آپ کے ذاتی استعمال میں نہیں ہے (بلکہ مشترکہ یا پبلک کموڈ ہے) تو آپ کو اس کی سیٹ کی  طہارت پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ اس پر بیٹھنے سے قبل اسے دھوکر ٹشو پیپر سے خشک کرلیں (۲)کموڈ پر بیٹھنے سے قبل اس پر ٹشو پیپر کو اس طرح بچھا لیں کہ ٹشو کا کوئی حصہ دائیں بائیں لٹکا ہوا نہ ہو اور سیٹ کی طرح ٹشوبھی مکمل طور پر خشک ہو (۳)۔بول و براز سے قبل کموڈ کے بائول میں پانی کی سطح کے اوپر ٹشو پیپر کے اتنے ٹکڑے ڈال لیں کہ دورانِ فراغت نیچے کا پانی اچھل کر جسم کو نہ لگے (۴)۔بول و براز سے فراغت کے بعد پہلے فلش کو چلا کر غلاظت کو پانی بہادیں اس احتیاط کے ساتھ کہ اس دوران فلش
 کا پانی اچھل کر آپ کے جسم کو نہ لگے (۵) اب جسم دھلا ہوا اور خشک ہوگا۔ اب سیٹ سے اٹھ کر سیٹ کا ٹشو بھی بائول میں گرادیں اور ایک مرتبہ پھر فلش سے پانی کو بہادیں(۷)گندے اور آلودہ ہاتھ کو پہلے ڈیٹول صابن سے دھوئیں، پھر عام ٹوائلیٹ صابن سے دونوں ہاتھ دھو کر پاک کرلیں۔
(۱) محمد طارق محمود چغتائی، سنت نبوی اور جدید سائنس، حاجت ضروریہ اور جدید سائنس، ج۱، ص:۱۹۰
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب تغطیۃ الراس عند دخول الخلاء والاعتماد،‘‘ ج۱، ص:۹۶(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص94

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبرستان ایسی جگہ کا نام ہے کہ وہاں جا کرآدمی کو آخرت اور اللہ تعالیٰ کی رضاء کے کام کرنے کی طرف توجہ ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے آخرت کی طرف توجہ ہوتی ہے، کسی قبر پر یا قبروں کے قریب استنجا کرنا یا گوبر وغیرہ ڈالنا حماقت وجہالت ہے، یہ صورت بالکل ناجائز ہے، لوگوں کو اس سے روکا جائے اور قبرستان کی حفاظت کے جو عرفی طریقے ہیں وہ اختیار کئے جائیں۔
’’یحرم قضاء الحاجۃ فوق المقبرۃ وعلۃ ذلک ظاہرۃ فإن المقابر محل عظات وعبرۃ فمن سوء الأدب والخلق أن یکشف الإنسان فوقہا سوئتہ ویلوثہا بالأقذار الخارجۃ منہ علی أنہ قد صح عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ حث علی زیارۃ القبور لتذکر الآخرۃ فمن الجہل والحماقۃ أن یتخذ الناس الأماکن التي تزار للتذکروالاعتبار محلا للبول والتبرز‘‘(۱)
’’وفي مقابر لأن المیت یتأذي بما یتأذي بہ الحي والظاہر أنہا تحریمیۃ‘‘(۲)

(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: محبث آداب قضاء الحاجۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۱۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب القول المرجح علی الفعل‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص95

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں بغیر مسواک کے منہ کی صفائی کی سنت تو ادا ہو جائے گی؛ لیکن لکڑی کے فوائد سے محروم ہوں گے۔(۱)

(۱)عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ یجزئ من السواک الأصابع۔ و روی الطبراني عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنھا قالت : قلت یارسول اللہ ﷺ الرجل یذھب فوہ یستاک؟ قال نعم: قلت کیف یصنع؟ قال یدخل أصبعہ في فیہ۔ قال النووي : و یستحب أن یبدأ بالجانب الأیمن من فمہ عرضا ولا یستاک طولا لئلا یدمی لحیۃ أسنانہ فإن خالف صح مع کراھۃ۔ (علي بن محمد ملا علي، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’باب السواک،‘‘ ج۲، ص:۸۰مکتبۃ فیصل، دیوبند)؛ و تقوم الأصبع أوالخرقۃ الخشنۃ مقامہ عند فقدہ أو عدم أسنانہ في تحصیل الثواب لا عند وجودہ۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱، ص:۲۱ (شاملہ))؛  وعن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ  قال قال رسول اللّٰہ ﷺ تجزئ الأصابع مجري السواک۔ (أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الاستیاک بالأصابع،‘‘ ج۱، ص:۱۳۴، رقم:۱۷۸(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص199

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پانی سے استنجا کرنا شرعاً درست ہے؛ البتہ استنجا کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنے ہاتھ کو کلائی تک دھولے پھر مقعد کو خوب ڈھیلا کرکے (اگر روزہ دار نہ ہو) بائیں ہاتھ سے خوب استنجا کرے ’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان ’’إذا بال نتر ذکرہ ثلاث نترات‘‘(۱) اور بیچ کی انگلی کو ابتدا میں باقی انگلیوں سے کچھ اونچا کرے اور اس سے مقام نجاست کو دھوئے، پھر چھوٹی انگلی (جس کو عرف میں کنی انگلی کہتے ہیں) کے پاس کی انگلی اٹھائے اور اس سے اس مقام کو دھوئے، پھر چھوٹی انگلی کو اٹھائے اور پھر انگوٹھے کے پاس کی انگلی اٹھائے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو اس قدر دھونے میں مبالغہ کرے کہ اس کو یقین یا غالب گمان ہو جائے کہ صفائی ہوگئی ہے اور چکنائی بھی دور ہوگئی ہے اور اگر روزہ دار ہو، تو زیادتی نہ کرے اور نہ زیادہ پھیل کر بیٹھے، دھونے کی کچھ حد مقرر نہیں ہے، اگر کوئی شخص وسوسہ والا ہے تو اپنے لیے تین مرتبہ دھونے کی مقدار مقرر کرلے۔ جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے:
’’وصفۃ الاستنجاء بالماء أن یستنجی بیدہ الیسری بعدما استرخی کل الاسترخاء إذا لم یکن صائما ویصعد أصبعہ الوسطی علی سائر الأصابع قلیلا في ابتداء الاستنجاء ویغسل موضعہا ثم یصعد بنصرہ ویغسل موضعہا ثم یصعد خنصرہ ثم سبابتہ فیغسل حتی یطمئن قلبہ أنہ قد طہر بیقین أو غلبہ ظن ویبالغ فیہ إلا أن یکون صائما ولا یقدر بالعدد إلا أن یکون موسوسا فیقدر في حقہ بالثلاث۔ کذا في التبیین‘‘(۲)
مزید فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
استنجا میں تین انگلیوں سے زیادہ استعمال نہ کرے انگلیوں کی چوڑائی سے استنجا کرے انگلیوں کی پشت اور سر سے استنجا نہ کیا جائے پانی نرمی سے آہستہ آہستہ ڈالے پانی ڈالنے میں سختی نہ کرے، بعض علماء نے کہا ہے کہ انگلیوں کا استعمال نہ کرے؛ بلکہ ہتھیلی سے دھونا کافی ہے ایسے ہی عورت کے لئے بہتر ہے کہ کشادہ ہو کر بیٹھے ہتھیلی سے اوپر اوپر دھولے۔
’’ولا یستعمل في الاستنجاء إلا أکثر من ثلاث أصابع ویستنجی بعرض الأصابع لا برء وسہا، کذا في محیط السرخسي ویصب الماء بالرفق ولا یضرب بالعنف، کذا في المضمرات ویدلک برفق۔ وقال عامۃ المشایخ: یکفیہ الغسل  بکفہ من غیر أن یرفع أصبعہ وقال عامتہم: تجلس المرأۃ منفرجۃ وتغسل ما ظہر بکفہا ولا تدخل أصبعہا، کذا في السراج الوہاج وہو المختار، ہکذا في التتارخانیۃ ناقلا عن الصیرفیۃ وتکون أفرج من الرجل کذا في المضمرات‘‘(۱)
(۱) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستبراء عن البول‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۲، رقم: ۵۵۲۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثالث: فی الاستنجاء صفۃ الاستنجاء بالماء‘‘: ج:۱، ص:۳۰۱
(۱) أیضاً:            

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص96

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسواک جس طرح مردوں کے لیے سنت ہے، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی سنت ہے۔(۱) اگر مسواک کرنے میں کوئی دشواری ہو یا مسواک نہ ہو، تو انگلی کا استعمال مسواک کے قائم مقام ہوجاتاہے(۲)۔ اسی طرح اگر عورت مسواک کی نیت سے ’’علک‘‘ (ایک خاص قسم کا گوند) کا استعمال کرے، تو اس کو مسواک کی طرح ہی ثواب حاصل ہوگا۔(۳)

(۱) عن عائشۃؓ انھا قالت : کان نبی اللّٰہ ﷺ یستاک فیعطیني السواک لأغسلہ فأبدأ بہ فاستاک ثم أغسلہ و أدفعہ إلیہ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’باب غسل السواک،‘‘ ج۱، ص:۸، رقم: ۵۳، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) و تقوم الأصبع أو الخرقۃ الخشنۃ مقامہ عند فقدہ أو عدم أسنانہ في تحصیل الثواب لا عند وجودہ۔ (ابن نجم، بحرالرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۱، دارالکتاب دیوبند)؛  و عند فقدہ أو فقد أسنانہ تقوم الخرقۃ الخشنۃ أو الأصبع مقامہ، کما یقوم العلک مقامہ للمرأۃ مع القدرۃ علیہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في منافع السواک،‘‘ ج۱، ص:۲۳۶، زکریا بک ڈپو دیوبند)
(۳) سواک و یقوم العلک مقامہ للنساء، (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحاوی، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في سنن الوضوء،‘‘ص:۶۸، دارالکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص200

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1489/42-953

وباللہ التوفیق:۔ اے سی سے نکلنے والا پانی پاک ہوتاہے، اس سے وضو وغسل سب جائز ہے۔ البتہ اس بات کی تحقیق کرلی جائے کہ اس سے اعضاء کو کوئی نقصان تو نہیں پہونچتا۔ طبی اعتبار سے اگر مضر ہو تو بچنا چاہئے تاہم وضو و غسل ہوجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1962/44-1883

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  چھپکلی کی بیٹ ناپاک ہے، اس لئے  کپڑے اور جسم پر لگنے سے کپڑا اور جسم ناپاک ہوجائیں گے۔ اگر بیٹ خشک ہوگئی ہے تو کپڑے اور بدن پر نہیں لگے گی، لیکن اگر گیلی ہے تو کپڑے خراب ہوجائیں گے اور ناپاک ہوجائیں گے۔ مسجدوں میں صفائی کا اہتمام رکھنا چاہئے، ہر نمازی مسجد کی صفائی کو اپنی ذمہ داری سمجھے، اسی طرح نماز سے پہلے نماز پڑھنے کی جگہ کو اچھی طرح دیکھ لینا چاہئے کہ کوئی نجاست مصلی پر نہ ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 318):

"(و بول غير مأكول و لو من صغير لم يطعم) إلا بول الخفاش و خرأه ... (و خرء) كل طير لايذرق في الهواء كبط أهلي (و دجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولًا فطاهر و إلا فمخفف (و روث وخثي) أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور. و قالا: مخففة. و في الشرنبلالية قولهما أظهر.

(قوله: أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان) أراد بالنجاسة المغلظة؛ لأن الكلام فيها و لانصراف الإطلاق إليها كما يأتي، و لقوله و قالا: مخففة، وأراد بالحيوان ما له روث أو خثي: أي: سواء كان مأكولا كالفرس والبقر، أو لا كالحمام وإلا فخرء الآدمي وسباع البهائم متفق على تغليظه كما في الفتح والبحر وغيرهما فافهم. (قوله: وفي الشرنبلالية إلخ) عزاه فيها إلى [مواهب الرحمن] لكن في النكت للعلامة قاسم أن قول الإمام بالتغليظ رجحه في المبسوط وغيره اهـ ولذا جرى عليه أصحاب المتون".

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بالا صورت میں جب استنجا کے لیے جاتے ہوئے دعا یاد نہیں رہی، تو گندی جگہ پر پہونچنے سے پہلے اور ستر کھولنے سے پہلے دعا یاد آ جائے، تو دعا پڑھ لینی چاہئے؛ لیکن اگر بیت الخلا میں گندی جگہ ہے یا ستر کھول چکا ہے، تو اب زبان سے دعا نہ پڑھے، ہاں بہتر ہے کہ دل ہی دل میں دعاء پڑھ لے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دعاء پر بھی اجر عطا فرمائیں گے۔
’’قبل الاستنجاء وبعدہ إلا حال انکشاف وفي محل نجاسۃ فیسمی بقلبہ،قال ابن عابدین: فلو نسی فیہا سمی بقلبہ ولا یحرک لسانہ تعظیماً لإسم اللّٰہ تعالیٰ‘‘ (۲)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب سائر بمعنی باقي لا بعمنی جمیع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص98

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک ہی مسواک جب تک وہ کام دے سکے، اس کے استعمال میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اگر مسواک سستی ہو اور عام طور پر ملتی بھی ہو؛ لیکن اس کو ضائع کر دینا یا ترک کر دینا جب کہ اس سے کام لیا جا سکتا ہواوردوسری مسواک خرید کراستعمال کرنا، اس پر اسراف کا شبہ ہوتا ہے۔(۱)

(۱) فقہاء نے لکھا ہے کہ ایک بالشت کے بقدر ہونی چاہیے اس لیے اگر مسواک کرتے کرتے ایک بالشت سے چھوٹی ہوجائے، تو مسواک کو بدلا جاسکتا ہے و کونہ لینا مستویا بلا عقد في غلظ الخنضر و طول شبر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ،  مطلب: في منافع السواک،‘‘ ج۱، ص:۲۳۴)؛ و ندب إمساکہ بیمناہ و کونہ لینا مستویا بلا عقد في غلظ الخنصر و طول شبر الظاھر أنہ في غلظ الخنصر و طول شبر الظاھر أنہ في ابتداء استعمالہ فلا یضر نقصہ بعد ذلک بالقطع منہ لتسویتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’قبیل مطلب في منافع السواک،‘‘ ج۱،ص:۲۳۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص200

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر کسی شخص کے دونوں ہاتھ شل ہو جائیں، یا کٹ جائیں اور اس کی بیوی نہ ہو جو پانی ڈال سکے، تو وہ شخص استنجا نہ کرے یعنی اس سے استنجا ساقط ہوگیا اور اگر بایاں ہاتھ نہ ہو اور دایاں ہاتھ موجود ہو، تو داہنے ہاتھ سے وہ شخص استنجا کرے گا۔ ’’لو شلت یدہ الیسری ولا یقدر أن یستنجی بہا إن لم یجد من یصب الماء لا یستنجی وإن قدر علی الماء الجاری یستنجی بیمینہ، کذا في الخلاصۃ‘‘(۱)
اور اگر کوئی شخص بیمار ہو اس کی بیوی بھی نہ ہو اور اس کا بیٹا یا بھائی موجود ہو اور وہ بیمار شخص خود وضو اوراستنجا کرنے پر قادر نہ ہو، تو اس کو اس کا بیٹا یا بھائی وضو کرا دے اور استنجا اس بیمار شخص سے ساقط ہوجائے گا ’’الرجل المریض إذا لم یکن لہ امرأۃ ولا أمۃ ولہ ابن أو أخ وہو لا یقدر علی الوضوء فإنہ یوضئہ ابنہ أو أخوہ غیر الاستنجاء فإنہ لا یمس فرجہ وسقط عنہ الاستنجاء، کذا في المحیط‘‘(۲) اسی طرح اگر بیمار عورت کا شوہر نہ ہو اور وہ وضو کرنے سے عاجز ہو اور اس بیمار عورت کی بیٹی یا بہن ہو، تو وہ اس کو وضو کرا دے اور استنجا اس بیمار عورت سے ساقط ہو جائے گا۔
’’المرأۃ المریضۃ إذا لم یکن لہا زوج وعجزت عن الوضوء ولہا ابنۃ أو أخت توضئہا ویسقط عنہا الاستنجاء، کذا في فتاوی قاضي خان‘‘ (۳)
تاہم اگر گندگی پھیلنے یا اس سے بیمار ہونے کا اندیشہ ہو تو مرد کے لئے کوئی مرد اور عورت کے لئے کوئی عورت نجاست کو ہٹائے اور صفائی کردے، پردہ کا حتی الامکان خیال رکھے، نجاست دور کرتے وقت کپڑا یا گلپس وغیرہ کو حائل بنا لے۔

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب التاسع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث: في الاستنجاء صفۃ الاستنجاء بالماء‘‘: ج ۱، ص: ۴۹، ۱۰۵۔
(۲)  أیضًا:                        (۳)  أیضًا:
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص99