Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب باللّٰہ التوفیق:بندر کا جھوٹا ناپاک ہے، عام طور پر ٹینکوں میں موجود پانی ماء راکد قلیل (ٹھہرا ہوا تھوڑا پانی) ہوتا ہے، بندر کے جھوٹا کرنے کی وجہ سے ٹنکی میں موجود پانی کو نکال دے، پانی نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف سے پانی داخل کیا جائے اور دوسری طرف سے نکال دیا جائے جب ٹینک سے پانی نکل جائے گا تو ٹنکی اور پائپ سب پاک ہو جائیں گے ’’وسؤر خنزیر و کلب وسبع بھائم نجس‘‘(۱)
’’وقال أبوجعفر الھندواني: یطھر بمجرد الدخول من جانب والخروج من جانب وإن لم یخرج مثل ما کان فیہ، وھو أي قول الھندواني اختار الصدر الشہید حسام الدین لأنہ حینئذ یصیر جاریًا والجاری لا ینجس ما لم یتغیر بالنجاسۃ‘‘(۲)
نیز ٹنکی میں اگر بندر بول وبراز (گندگی) کردے تو اس صورت میں پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نجاست اور ٹنکی میں موجود پانی کو اولاً نکالا جائے گا اور اگر ٹنکی زیادہ بڑی ہو یا کسی وجہ سے مکمل خالی کرنا بہت مشکل ہو، تو اس میں ایک طرف سے پانی ڈالا جائے اورایک طرف سے جاری کردیا جائے، (یعنی مسلسل اس میں پاک پانی آتارہے اور ناپاک پانی نکلتا رہے) یہاں تک کہ پانی کے تینوں اوصاف (رنگ، مزہ، بو) اپنی اصلی حالت پر آجائیں، تو ٹنکی پاک ہو جائے گی؛ البتہ مسجد کے انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ ٹنکی کو بہتر طریقہ سے ڈھک دیں یا جال وغیرہ لگا دیں تاکہ بندر پانی کو ناپاک نہ کر سکیں۔
’’یجب أن یعلم أن الماء الراکد إذا کان کثیراً فہو بمنزلۃ الماء الجاري لا یتنجس جمیعہ بوقوع النجاسۃ في طرف منہ إلا أن یتغیر لونہ أو طعمہ أو ریحہ۔ علی ہذا اتفق العلماء، وبہ أخذ عامۃ المشایخ، وإذا کان قلیلاً فہو بمنزلۃ الحباب والأواني یتنجس بوقوع النجاسۃ فیہ وإن لم تتغیر إحدی أوصافہ‘‘ (۳)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في السؤر‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۲۔
(۲) إبراہم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في أحکام الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
(۳) برہان الدین، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارات: الفصل الرابع: في المیاہ التي یجوز التوضوء، في الحیاض والعذران والعیون‘‘: ج ۱، ص: ۹۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص73
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں ذکر کا اگلا حصہ، یعنی: حشفہ فرج کے اندر داخل ہو گیا؛ انزال ہو یا نہ ہو، غسل دونوں پر واجب ہو جائے گا(۱) ’’والتقاء الختانین من غیر إنزال لقولہ علیہ السلام إذا ’’التقی الختانان و توارت الحشفۃ وجب الغسل أنزل أو لم ینزل و بھذا اللفظ في مسند عبد اللّٰہ بن وھب و في مصنف من أبي شیبۃ ’’إذا التقی الختانان و توارت الحشفۃ فقد وجب الغسل‘‘(۲)
(۱) و عند إیلاج حشفۃ آدمي أو قدرھا من مقطوعھا في أحد سبیلی آدمي۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ ج۱، ص:۹۸-۲۹۹) ؛ وإذا التقی الختانان و غابت الحشفۃ فقد وجب الغسل أنزل او لم ینزل۔ (أبویوسف، الآثار، ’’باب الغسل من الجنابۃ‘‘ ج۱، ص:۱۲، رقم: ۵۶) ؛ ومن غیر إنزال یعني الإنزال لیس بشرط في التقاء الختانین في وجوب الغسل۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الغسل التقاء الختانین من غیر إنزال‘‘ ج۱،ص:۳۳۳)
(۲)ابن الھمام، فتح القدیر، ’’فصل في الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۶-۲۷-۲۸(مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص291
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جانوروں میں اصلاً ماں کا اعتبار ہوتا ہے، اگر بچہ بھیڑیئے کے پیٹ سے پیدا ہو، تو اسے بھیڑیا اور بکری کے پیٹ سے پیدا ہو، تو اسے بکری ہی کہا جائے گا، مذکورہ صورت میں بھیڑیئے نے بکری سے جفتی کی اور بکری کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوا ہے، تو اسے بکری ہی کہا جائے گا اور اس کا جھوٹا پانی پاک کہلائے گا، اس پانی سے کیا گیا غسل اور وضو وغیرہ درست ہے۔
’’لتصریحہم بحل أکل ذئب ولدتہ شاۃ اعتباراً للأم وجواز الأکل یستلزم طہارۃ السؤر کما لا یخفٰی، قولہ لتصریحہم الخ صرح في الہدایۃ وغیرہا في الأضحیۃ بجواز الأضحیۃ بہ حیث قال: والمولود بین الأہلي والوحشي یتبع الأم لأنہا الأصل في التبعیۃ حتی إذا نزا الذئب علی الشاۃ یضحی الولد‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب ست تورث النسیان‘‘: ج۱، ص: ۳۸۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص74
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل جنابت کے لیے وضو کے طریقہ پر کلی کرلی، ناک میں پانی ڈالا، تو وہ اس کے لیے کافی ہوگیا اور غسل اس کا صحیح ہو گیا؛ اگرچہ مبالغہ بہتر تھا، اب اس کو شک نہیں کرنا چاہیے کہ اس قسم کی باتیں شیطان کا وسوسہ ہوتی ہیں، اس کا غسل بھی صحیح اور نمازیں بھی صحیح ہو گئیں؛ کیوںکہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل میںفرض ہے، غرغرہ فرض نہیں ہے۔(۱)
(۱) غسل الفم والأنف أي بدون مبالغۃ فیھما فإنھا سنۃ فیہ علی المعتمد (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، کتاب الطہارۃ، فصل لبیان فرائض الغسل، ص:۱۰۲)المضمضۃ تحریک الماء في الفم۔ والاستنشاق أو إدخال الماء في الأنف۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۲۰۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص292
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اگر ڈھیلوں یا پتھروں کا ناپاک ہونا معلوم نہ ہو، تو کنواں حسب سابق پاک رہے گا اور اگر ڈھیلوں یا پتھروں پر نجاست غلیظہ لگی ہوئی ہو، تو کنواں ناپاک ہوگا اور سارا پانی نکالا جائے گا۔
’’ولو وقع في البئر خرقۃ أو خشبۃ نجسۃ ینزح کل الماء‘‘(۱)
’’الیقین لا یزول بالشک، الأصل بقاء ماکان علی ماکان‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۷، ص: ۸؛ وہکذا في الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۸۔
(۲) ابن نجیم، الأشباہ والنظائر: ’’القاعدۃ الثالثۃ، الیقین لا یزول بالشک‘‘: ص: ۱۸۳؍ ۱۸۷۔(دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص75
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح شہوت کی وجہ سے نکلنے والا پانی مذی کہلاتا ہے اس سے وضو واجب ہوتاہے، غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔(۲)
(۲) أجمع العلماء علی أنہ لا یجب الغسل بخروج المذي والودي (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، فصل فيعشرۃ أشیاء، لا یغتسل منھا‘‘ ج۱، ص:۱۰۱)؛ وللجمھور حدیث علي رضي اللّٰہ عنہ أن النبي ﷺ قال في المذي: یغسل ذکرہ و یتوضأ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایہ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۲۵۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص292
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب آدمی سوتا ہے، تو اسے یہ معلوم نہیں رہتا کہ اس کا ہاتھ کہاں کہاں لگا ہے، اسی طرح عام غفلت کے وقت بھی آدمی کا ہاتھ بدن میں کسی بھی جگہ لگ جاتا ہے؛ اس لئے جب آدمی سوکر اٹھے، تو اس کے لئے مسنون ہے کہ پہلے ہاتھ دھو لے، ہاتھ دھوئے بغیر پانی کے اندر ہاتھ نہ ڈالے۔
’’لحدیث الصحیحین: إذا استیقظ أحدکم من منامہ فلا یغمس یدہ في الإناء حتی یغسلہا ولفظ مسلم حتی یغسلہا ثلاثاً فإنہ لا یدري أین باتت یدہ‘‘(۱)
لیکن اگر پانی میں ہاتھ ڈال ہی دیا، تو پانی ناپاک نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ ہاتھ پر بالیقین ناپاکی نہیں ہے۔ ’’الیقین لایزول بالشک‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب سائر بمعنی باقی، یا بمعنی جمیع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸۔
(۲) ابن نجیم، الأشباہ والنظائر‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص76
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوسری بار صحبت کرنے کے لیے غسل کسی پر ضروری نہیں ہے، البتہ وضو بنا لینا اولیٰ ہے، اسی طرح کئی بار ہم بستری کے بعد ایک غسل کافی ہے۔(۱)
(۱) ولا بأس للجنب أن ینام و یعاود أھلہ قبل أن یتوضأ و إن توضأ فحسن۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الثاني، أو مما یتصل بذلک مسائل‘‘ ج ۱، ص:۶۸)؛ و إذا أتی أحدکم أھلہ ثم أراد أن یعود فلیتوضأ بینھما وضوئً ا۔(طحطاوي،حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل في أوصاف الوضوء‘‘ ج ۱، ص:۸۵ )
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص293
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جب کہ واقعۃً گٹر کا پانی ٹینک میں داخل ہو گیا اوراس پانی میں بدبو وغیرہ پیدا ہوگئی یا پانی کا ذائقہ تبدیل ہوگیا، تو یہ پانی شرعاً ناپاک ہے۔ ٹینک کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سارا پانی نکال کر اسے دھو لیا جائے یا اگر سارے پانی کا نکالنا ممکن نہ ہو، تو ٹینک میں مزیداس قدر صاف پانی داخل کیا جائے کہ پانی نکل کر بہتا رہے یہاں تک کہ صاف ہوجائے اور رنگ اور بدبو ختم ہوجائے تو پانی پاک ہو جائے گا۔
المحیط البرہانی میں ہے:
’’ویجوز التوضؤ بالماء الجاري، ولا یحکم بتنجسہ لوقوع النجاسۃ فیہ ما لم یتغیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ، وبعدما تغیر أحد ہذہ الأوصاف وحکم بنجاستہ لا یحکم بطہارتہ ما لم یزل ذلک التغیر بأن یزاد علیہ ماء طاہر حتی یزیل ذلک التغیر، وہذا؛ لأن إزالۃ عین النجاسۃ عن الماء غیر ممکن فیقام زوال ذلک التغیر الذي حکم بالنجاسۃ لأجلہ مقام زوال عین النجاسۃ‘‘(۱)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’الماء الجاري بعدما تغیر أحد أوصافہ وحکم بنجاستہ لا یحکم بطہارتہ ما لم یزل ذلک التغیر بأن یرد علیہ ماء طاہر حتی یزیل ذلک التغیر‘‘ (۲)
(۱) محمد بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الرابع في المیاہ ……التي یجوز التوضؤ بہا والتي لا یجوز التوضؤ بہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۰۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطارۃ: الباب الثالث في المیاہ، النوع الأول: الماء الجاري‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص77
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کچھا (انڈر ویئر) پہن کر غسل کرنے سے غسل درست ہو جاتا ہے؛ لیکن لوگوں کے سامنے صرف کچھا پہن کر غسل کرنا درست نہیں ہے۔ مرد کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہے، گھٹنہ بھی ستر میں داخل ہے اور ستر ڈھانکنا ضروری ہے، ستر دکھانا جائز نہیں ہے۔(۲)
(۲) عن أبي سعید الخدري أن النبی ﷺ قال: عورۃ الرجل من سُرَّتہ إلی رکبتہ ……(أخرجہ الحارث بن أبي أسامہ، في مسند الحارث، ’’باب ما جاء في العورۃ‘‘ج۱، ص:۲۶۴، رقم:۱۴۳) ؛ وعن عبد الرحمن بن أبي سعید، عن أبیہ أن رسول اللّٰہ ﷺ قال: لا ینظر الرجل إلی عورۃ الرجل، والمرأۃ إلی عورۃ المرأۃ، ولا یفضي الرجل إلی الرجل في الثوب الواحد، ولا تفضي المرأۃ إلی المرأۃ في الثوب الواحد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ،’’کتاب الحیض، باب تحریم النظر إلی العورات‘‘ ج۱، ص: ۱۵۴، رقم: ۳۳۸، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص293