طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جانوروں میں اصلاً ماں کا اعتبار ہوتا ہے، اگر بچہ بھیڑیئے کے پیٹ سے پیدا ہو، تو اسے بھیڑیا اور بکری کے پیٹ سے پیدا ہو، تو اسے بکری ہی کہا جائے گا، مذکورہ صورت میں بھیڑیئے نے بکری سے جفتی کی اور بکری کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوا ہے، تو اسے بکری ہی کہا جائے گا اور اس کا جھوٹا پانی پاک کہلائے گا، اس پانی سے کیا گیا غسل اور وضو وغیرہ درست ہے۔
’’لتصریحہم بحل أکل ذئب ولدتہ شاۃ اعتباراً للأم وجواز الأکل یستلزم طہارۃ السؤر کما لا یخفٰی، قولہ لتصریحہم الخ صرح في الہدایۃ وغیرہا في الأضحیۃ بجواز الأضحیۃ بہ حیث قال: والمولود بین الأہلي والوحشي یتبع الأم لأنہا الأصل في التبعیۃ حتی إذا نزا الذئب علی الشاۃ یضحی الولد‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب ست تورث النسیان‘‘: ج۱، ص: ۳۸۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص74

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل جنابت کے لیے وضو کے طریقہ پر کلی کرلی، ناک میں پانی ڈالا، تو وہ اس کے لیے کافی ہوگیا اور غسل اس کا صحیح ہو گیا؛ اگرچہ مبالغہ بہتر تھا، اب اس کو شک نہیں کرنا چاہیے کہ اس قسم کی باتیں شیطان کا وسوسہ ہوتی ہیں، اس کا غسل بھی صحیح اور نمازیں بھی صحیح ہو گئیں؛ کیوںکہ کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل میںفرض ہے، غرغرہ فرض نہیں ہے۔(۱)

(۱) غسل الفم والأنف أي بدون مبالغۃ فیھما فإنھا سنۃ فیہ علی المعتمد (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، کتاب الطہارۃ، فصل لبیان فرائض الغسل، ص:۱۰۲)المضمضۃ تحریک الماء في الفم۔ والاستنشاق أو إدخال الماء في الأنف۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب  الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۲۰۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص292

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اگر ڈھیلوں یا پتھروں کا ناپاک ہونا معلوم نہ ہو، تو کنواں حسب سابق پاک رہے گا اور اگر ڈھیلوں یا پتھروں پر نجاست غلیظہ لگی ہوئی ہو، تو کنواں ناپاک ہوگا اور سارا پانی نکالا جائے گا۔
’’ولو وقع في البئر خرقۃ أو خشبۃ نجسۃ ینزح کل الماء‘‘(۱)
’’الیقین لا یزول بالشک، الأصل بقاء ماکان علی ماکان‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۷، ص: ۸؛ وہکذا في الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۸۔
(۲) ابن نجیم، الأشباہ والنظائر: ’’القاعدۃ الثالثۃ، الیقین لا یزول بالشک‘‘: ص: ۱۸۳؍ ۱۸۷۔(دارالکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص75

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح شہوت کی وجہ سے نکلنے والا پانی مذی کہلاتا ہے اس سے وضو واجب ہوتاہے، غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔(۲)

(۲) أجمع العلماء علی أنہ لا یجب الغسل بخروج المذي والودي (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، فصل فيعشرۃ أشیاء، لا یغتسل منھا‘‘ ج۱، ص:۱۰۱)؛ وللجمھور حدیث علي رضي اللّٰہ عنہ أن النبي ﷺ قال في المذي: یغسل ذکرہ و یتوضأ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایہ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۲۵۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص292

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب آدمی سوتا ہے، تو اسے یہ معلوم نہیں رہتا کہ اس کا ہاتھ کہاں کہاں لگا ہے، اسی طرح عام غفلت کے وقت بھی آدمی کا ہاتھ بدن میں کسی بھی جگہ لگ جاتا ہے؛ اس لئے جب آدمی سوکر اٹھے، تو اس کے لئے مسنون ہے کہ پہلے ہاتھ دھو لے، ہاتھ دھوئے بغیر پانی کے اندر ہاتھ نہ ڈالے۔
’’لحدیث الصحیحین: إذا استیقظ أحدکم من منامہ فلا یغمس یدہ في الإناء حتی یغسلہا ولفظ مسلم حتی یغسلہا ثلاثاً فإنہ لا یدري أین باتت یدہ‘‘(۱)
لیکن اگر پانی میں ہاتھ ڈال ہی دیا، تو پانی ناپاک نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ ہاتھ پر بالیقین ناپاکی نہیں ہے۔ ’’الیقین لایزول بالشک‘‘(۲)

(۱)  ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب سائر بمعنی باقی، یا بمعنی جمیع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸۔
(۲)  ابن نجیم، الأشباہ والنظائر‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص76

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوسری بار صحبت کرنے کے لیے غسل کسی پر ضروری نہیں ہے، البتہ وضو بنا لینا اولیٰ ہے، اسی طرح کئی بار ہم بستری کے بعد ایک غسل کافی ہے۔(۱)

(۱) ولا بأس للجنب أن ینام و یعاود أھلہ قبل أن یتوضأ و إن توضأ فحسن۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الثاني، أو مما یتصل بذلک مسائل‘‘ ج ۱، ص:۶۸)؛  و إذا أتی أحدکم أھلہ ثم أراد أن یعود فلیتوضأ بینھما وضوئً ا۔(طحطاوي،حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل في أوصاف الوضوء‘‘ ج ۱، ص:۸۵ )
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص293

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جب کہ واقعۃً گٹر کا پانی ٹینک میں داخل ہو گیا اوراس پانی میں بدبو وغیرہ پیدا ہوگئی یا پانی کا ذائقہ تبدیل ہوگیا، تو یہ پانی شرعاً ناپاک ہے۔ ٹینک کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سارا پانی نکال کر اسے دھو لیا جائے یا اگر سارے پانی کا نکالنا ممکن نہ ہو، تو ٹینک میں مزیداس قدر صاف پانی داخل کیا جائے کہ پانی نکل کر بہتا رہے یہاں تک کہ صاف ہوجائے اور رنگ اور بدبو ختم ہوجائے تو پانی پاک ہو جائے گا۔
المحیط البرہانی میں ہے:
’’ویجوز التوضؤ بالماء الجاري، ولا یحکم بتنجسہ لوقوع النجاسۃ فیہ ما لم یتغیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ، وبعدما تغیر أحد ہذہ الأوصاف وحکم بنجاستہ لا یحکم بطہارتہ ما لم یزل ذلک التغیر بأن یزاد علیہ ماء طاہر حتی یزیل ذلک التغیر، وہذا؛ لأن إزالۃ عین النجاسۃ عن الماء غیر ممکن فیقام زوال ذلک التغیر الذي حکم بالنجاسۃ لأجلہ مقام زوال عین النجاسۃ‘‘(۱)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’الماء الجاري بعدما تغیر أحد أوصافہ وحکم بنجاستہ لا یحکم بطہارتہ ما لم یزل ذلک التغیر بأن یرد علیہ ماء طاہر حتی یزیل ذلک التغیر‘‘ (۲)
(۱) محمد بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الرابع في المیاہ ……التي یجوز التوضؤ بہا والتي لا یجوز التوضؤ بہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۰۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطارۃ: الباب الثالث في المیاہ، النوع الأول: الماء الجاري‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص77

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کچھا (انڈر ویئر) پہن کر غسل کرنے سے غسل درست ہو جاتا ہے؛ لیکن لوگوں کے سامنے صرف کچھا پہن کر غسل کرنا درست نہیں ہے۔ مرد کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہے، گھٹنہ بھی ستر میں داخل ہے اور ستر ڈھانکنا ضروری ہے، ستر دکھانا جائز نہیں ہے۔(۲)

(۲) عن أبي سعید الخدري أن النبی ﷺ قال: عورۃ الرجل من سُرَّتہ إلی رکبتہ ……(أخرجہ الحارث بن أبي أسامہ، في مسند الحارث،  ’’باب ما جاء في العورۃ‘‘ج۱، ص:۲۶۴، رقم:۱۴۳) ؛ وعن عبد الرحمن بن أبي سعید، عن أبیہ أن رسول اللّٰہ ﷺ قال: لا ینظر الرجل إلی عورۃ الرجل، والمرأۃ إلی عورۃ المرأۃ، ولا یفضي الرجل إلی الرجل في الثوب الواحد، ولا تفضي المرأۃ إلی المرأۃ في الثوب الواحد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ،’’کتاب الحیض، باب تحریم النظر إلی العورات‘‘ ج۱، ص: ۱۵۴، رقم: ۳۳۸، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص293

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مجنون شریعت کا مکلف نہیں ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’إن القلم رفع عن المجنون حتی یفیق وعن الصبي حتی یدرک وعن النائم حتی یستیقظ‘‘(۱)
پانی کے مستعمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے نجاست کو زائل کیا گیا ہو یا ثواب کی نیت سے استعمال کیا گیا ہو، مجنون اگر کسی پانی سے وضو کرے ، تو چونکہ وہ شریعت کی نظر میں ثواب کی نیت کرنے کا اہل نہیں ہے، اس لیے اس کی نیت معتبر نہیں ہوگی اور اس کے وضو کرنے سے پانی مستعمل نہیں ہوگا۔
بچہ اگر سمجھ دار ہے، تو اس کے وضو کا پانی مستعمل شمار ہوگا اور اگر وہ سمجھ دار نہیں ہے اور اس کے بدن یا کپڑے وغیرہ پر کوئی نجاست وغیرہ بھی لگی ہوئی نہیں ہے، تو بچہ کے پانی میں ہاتھ ڈالنے یا پانی  میں گرنے کی وجہ سے وہ پانی ناپاک نہیں ہوگا ایسے پانی کو وضو، غسلِ جنابت اور کپڑے وغیرہ پاک   کرنے کے لئے استعمال کرنا جائز ہے اور اگر بچہ سمجھدار نہیں ہے، تو اس کا حکم بھی مجنون کی طرح ہے یعنی وہ ماء مستعمل شمار نہیں ہوگا۔
’’وإذا أدخل یدہ الصبي في إناء علی قصد إقامۃ (القربۃ)؛ ذکر في ہذہ المسألۃ في شيء من الکتب، وقد وصل إلینا أن ہذہ المسألۃ صارت واقعۃ فاختلف فیہا فتوی الصدر الشہید حسام الدین عمر، وفتوی القاضي الإمام جمال الدین …  قال رحمہما اللّٰہ: والأشبہ أن یصیر مستعملا إذا کان الصبي عاقلا؛ لأنہ من أہل القربۃ، ولہذا صح إسلامہ وصحت عباداتہ حتی أمر بالصلاۃ إذا بلغ سبعا ویضرب علیہا إذا بلغ عشرا‘‘(۱)
’’ولو توضأ الصبي یصیر الماء مستعملًا‘‘(۲)
’’وإذا أدخل الصبي یدہ في الإناء علی قصد القربۃ فالأشبہ أن یکون الماء مستعملًا إذا کان الصبي عاقلًا؛ لأنہ من أہل القربۃ‘‘
(۳)
خلاصہ:
مجنون یا وہ بچہ جو سمجھدار نہ ہو، پاکی اور ناپاکی کو نہ سمجھتا ہو ایسا بچہ یا مجنون اگر پانی میں ہاتھ ڈال دے، اور دوسرا پانی دستیاب ہو، تو بہتر ہے کہ اس نئے پانی کو وضو، غسل اور کپڑے وغیرہ دھونے میں استعمال کرے؛ اس لئے کہ عام طور پر بچہ اور مجنون پاکی اور ناپاکی میں احتیاط نہیں کر پاتے ہیں۔
علامہ حصکفيؒ نے لکھا ہے: پانی کو اگر حدث اصغر یا اکبر کو دور کرنے یا ثواب کے حصول کے لیے یا فرض کو ساقط کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تو وہ پانی بھی ماء مستعمل شمار ہوگا۔
’’(أو) بماء (استعمل لأجل (قربۃ) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من ممیز أو حائض لعادۃ أو عبادۃ أو غسل میت أو ید لأکل أو منہ بنیۃ السنۃ (أو) لأجل (رفع حدث) ولو مع قربۃ کوضوء محدث ولو للتبرد، فلو توضأ متوضئ لتبرد أو تعلیم أو لطین بیدہ لم یصر مستعملًا اتفاقًا کزیادۃ علی الثلاث بلا نیۃ قربۃ وکغسل نحو فخذ أو ثوب طاہر أو دابۃ تؤکل (أو) لأجل (إسقاط فرض) ہو الأصل في الاستعمال کما نبہ‘‘
’’(قولہ: أو من ممیز) أي إذا توضأ یرید بہ التطہیر کما في الخانیۃ وہو معلوم من سیاق الکلام، وظاہرہ أنہ لو لم یرد بہ ذلک لم یصر مستعملًا، تأمل‘‘ (۱)

(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الرابع في المیاہ التي یجوز، ومما یتصل بہذا الفصل، بیان حکم الأسار‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳۔(دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
(۲) عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشلبي، ’’کتاب الطہارۃ: الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۔(زکریا بک ڈپو دیوبند)
(۳) بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: المقصود بالماء المستعمل وأقسامہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۳۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مبحث الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸ - ۳۴۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص78

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر بدن پر کوئی ظاہری نجاست لگی ہو، تو اس طرح دھویا جائے کہ بالٹی میں وہ پانی نہ گرے، اس لیے کہ نجاست ملا ہوا پانی ناپاک ہے اور اگر بدن پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو، یا نجاست دور کردی گئی ہو، تو بدن پر جو پانی لگ کر گر رہا ہے وہ مستعمل تو ہے لیکن ناپاک نہیں، فقہاء کی اصطلاح میں اسے طاہر غیر مطہر کہتے ہیں، اگر اس کی چھینٹیں بالٹی میں گر جائیں، تو بالٹی کا پانی ناپاک نہیں ہوگا؛ نیز جنابت کی حالت میں جو نجاست ہوتی ہے وہ حکمی نجاست ہے، حقیقی نجاست وہ ہے جو بدن پر لگی ہو، خواہ جنابت والی نجاست ہو یا دیگر کوئی نجاست لگی ہو، تا ہم بہتر یہ ہے کہ بالٹی اس طرح رکھی جائے کہ اس میں چھینٹیں نہ جائیں اور بیٹھ کر حدیث کے مطابق غسل کرنا چاہیے۔(۱)

(۱) وھو (الماء المستعمل) طاھر ولیس بطھور (علاء الدین الحصکفي، تنویر الأبصار مع الدر، ’’کتاب الطہارۃ، باب المیاہ في تفسیر القربۃ والثواب‘‘ج۱، ص:۳۵۲) ؛ و قال الشامی : قولہ : (وھو طاھر) رواہ محمد عن الإمام، و ھذہ الروایۃ ھی المشھورۃ عنہ، واختارھا المحققون: قالوا: علیھا الفتوی، لا فرق في ذلک بین الجنب والمحدث (ایضاً)
اتفق أصحابنا رحمھم اللّٰہ : أن الماء المستعمل لیس بطھور حتی لا یجوز…التوضؤ بہ، واختلفوا في طھارتہ، قال محمدؒ: ھو طاھر، وھو روایۃ عن أبي حنیفۃؒ، وعلیہ الفتویٰ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني: فیما لا یجوز بہ التوضؤ‘‘ج۱،ص:۷۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص294