نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اگر مؤذن سے اذان دینے کے وقت کوئی کلمہ چھوٹ جائے اور یاد نہ رہے تو ایسی صورت میں دوبارہ اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے، اذان ہوگئی اس اذان سے پڑھی جانے والی نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی تاہم اگر اذان کے درمیان ہی چھوٹا ہوا کلمہ یاد آجائے تو وہ کلمہ دہرالے اور مؤذن وہیں سے آخر تک اذان کے کلمات کا اعادہ کرے۔ نیز فجر کی اذان میں ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کہنا مستحب ہے اگر یہ کلمہ بھی فجر کی اذان میں چھوٹ جائے تو اذان کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اذان ہو جائے گی اور اس سے پڑھی جانے والی نماز بھی درست ہو گی۔

’’ویقول: ندباً بعد فلاح أذان الفجر: ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ مرتین‘‘(۱)
’’(قال: وإذا قدم المؤذن في أذانہ أو إقامتہ بعض الکلمات علی بعض فالأصل فیہ أن ما سبق أداؤہ یعتد بہ حتی لایعیدہ في أذانہ) وما یقع مکررًا لایعتد بہ  فکأنہ لم یکرر‘‘(۲)
’’وإذا قدّم المؤذن في أذانہ وإقامتہ بعض الکلمات علی البعض، نحو أن یقول: أشہد أن محمدًا رسول اللّٰہ قبل قولہ: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، فالأفضل في ہذا أن ما سبق أوانہ لایعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ؛ لأن الأذان شرعت منظومۃً مرتباً،  فتؤدی علی نظمہ وترتیبہ۔ وإن مضی علی ذلک جازت صلاتہم‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘:  مطلب في أول من بنی المنائر(بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر:)
للأذان، ج ۲، ص:۵۴۔
(۲) السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵۔
(۳) أبوالمعالي برہان الدین المرغینانی، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الصلاۃ، نوع آخر في تدارک الخلل الواقع بہ‘‘: ج۱، ص: ۳۴۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص124

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں اس کو تیمم کی اجازت شرعاً نہیں ہے۔ وضو بنا کر نماز پڑھے خواہ جماعت پوری ہوجائے یا وقت ختم ہوجائے۔(۱)

(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِط} (سورۃ المائدہ: ۶)
 {فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا} (سورۃ النساء: ۴۳)
 لایتیمم لفوت جمعۃ ووقت ولو وتراً لفواتھا إلی بدل۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج۱، ص: ۴۱۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص256

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عام طور پر ’’سبحانک اللہم‘‘ پڑھا جاتا ہے جو جائز اور درست ہے اور دونوں الگ الگ کرکے پڑھا جائے ’’سبحانک اللہم‘‘ پڑھا جائے یہ بھی صحیح اور درست ہے مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہوگا (یعنی اے اللہ ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں) جو شخص دونوں صورتوں میں فرق مطلب بیان کرتا ہے وہ اس کی لا علمی کی بات ہے۔(۱)

(۱) ثم یقول: سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا إلہ غیرک کذا في الہدایۃ، إماما کان أو مقتدیا أو منفردا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الربع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابھا‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي علیہ الصلاۃ والسلام کان إذا افتتح الصلاۃ کبر وقرأ: سبحانک اللہم وبحمدک إلی آخرہ ولم یزد علی ہذا۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ:باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۸۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص403

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں فرائض میں دو سورتوں کے درمیان ایک چھوٹی سورت کو اگر قصداً اور جان بوجھ کر چھوڑ دیا گیا ہو تو یہ مکروہ ہے اور اگر بھول سے دو سورتوں کے درمیان ایک چھوٹی سورت چھوٹ گئی تو نماز میں کوئی کراہت لازم نہیں آتی ہے، ایسے ہی پہلی رکعت میں تلاوت کے بعد اتنی مقدار والی آیت جو ایک چھوٹی سورت کے بقدر ہو اس کو چھوڑنا بھی مکروہ ہے البتہ بڑی سورت یا ایک بڑی آیت جو چھوٹی سورت سے بڑی ہو کو چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نماز میں کوئی کراہت بھی لازم نہیں آتی ہے، نیز درمیان میں دو سورتیں اگرچہ چھوٹی ہوں اس کو چھوڑنے کی صورت میں کراہت لازم نہیں آتی ہے۔
’’یکرہ فصلہ بسورۃ بین سورتین قرأہما في رکعتین لما فیہ من شبہۃ التفضیل والہجر وقال بعضہم لایکرہ الخ‘‘(۱)
’’(قولہ: ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ) أما بسورۃ طویلۃ بحیث یلزم منہ إطالۃ الرکعۃ الثانیۃ إطالۃ کثیرۃ فلایکرہ۔ شرح المنیۃ: کما إذا کانت سورتان قصیرتان، وہذا لو في رکعتین‘‘(۲)
’’(ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ) أما بسورۃ طویلۃ بحیث یلزم منہ إطالۃ الرکعۃ الثانیۃ إطالۃ کثیرۃ فلا یکرہ۔ شرح المنیۃ کما إذا کانت سورتان قصیرتان‘‘(۳)
’’وأما في رکعتین إن کان بینہما سور لا یکرہ، وإن کان بینہما سورۃ واحدۃ قال بعضہم: یکرہ، وقال بعضہم: إن کانت السورۃ طویلۃ لا یکرہ۔ ہکذا في المحیط … وإذا قرأ في رکعۃ سورۃ وفي الرکعۃ الأخری أو في تلک الرکعۃ سورۃ فوق تلک السورۃ، یکرہ … ہذا کلہ في الفرائض وأما في السنن فلا یکرہ‘‘(۴)

(۱) حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في مکروہات الصلاۃ‘‘: ص: ۳۵۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فروع في القراء ۃ خارج الصلاۃ، مطلب الاستمتاع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج۲، ص:۲۶۹، زکریا۔
(۳) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹۔
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱،ص: ۱۳۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص200

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1635/43-1212

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   میت کو غسل دینے   کے بعد اگر کوئی نجاست نکلے تو اس کو صاف کردینا چاہئے، دوبارہ غسل کی ضرورت نہیں ہے۔ اور کفن دینے کے بعد نکلنے والی نجاست کا اعتبار نہیں ہے۔ دوبارہ غسل دینے اور کفن بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تجہیز و تکفین میں  آسانی رکھی گئی ہے، اگر دوبارہ غسل و تکفین کا مکلف بنایاگیا تو حرج  لازم آئے گا۔ اس لئے میت کو اسی کفن میں دفن کردیا جائے۔ 

اذا تنجس الکفن بنجاسۃ المیت لایضر دفعا للحرج بخلاف الکفن المتنجس ابتداء ۱ھ وکذا لو تنجس بدنہ بما خرج منہ ان کان قبل ان یکفن غسل و بعد ہ لا ۔ (شامی، کتاب الصلوۃ، باب صلوٰۃ الجنازۃ 2/208) ويشترط طهارة الكفن إلا إذا شق ذلك لما في الخزانة أنه أن تنجس الكفن بنجاسة الميت لا يضر دفعا للحرج بخلاف الكفن المتنجس ابتداء اهـ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، فصل الصلوۃ علیہ 11/582)

وفي المضمرات عن الخزانة إذا كفن في كفن نجس لا تجوز الصلاة عليه بخلاف ما لو نجس بنجاسة الميت لأن فيه ضرورة وبلوى ولا كذلك الكفن النجس ابتداء اه (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، باب احکام الجنائز 1/569)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 803/41-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز میں قیام، رکوع، سجدہ فرض ہے۔ بلاکسی شدید عذر کے ان کا ترک ناجائز ہے اور نماز ادا نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اگر قیام متعذر ہو اور بیٹھ کر رکوع ، سجدہ سے نماز پڑھ سکتا ہو تو زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے، کرسی پر نماز ادا نہیں ہوگی۔ لیکن اگر رکوع ، سجدہ پر بھی قدرت نہ ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ۔ پوری نماز میں کرسی کے پچھلے پائے دیگر نمازیوں کی ایڑی کے برابر رکھے جائیں گے۔

  المشقۃ تجلب  التیسیر (الاشباہ والنظائر 1/75) ۔

علامہ شامی لکھتے ہیں : اراد بالتعذر التعذر الحقیقی بحیث لوقام سقط او الحکمی بان خاف زیادتہ او بطء برئہ بقیامہ او دوران راسہ او وجد لقیامہ الما شدیدا صلی قاعدا۔ (درمختار وردالمحتار 2/9)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا ظلم ہے، مذکورہ شخص فاسق ہے اس کی امامت واقتداء مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق، من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في السمجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، زکریا دیوبند)
بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص154

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت میں شریک ہونے کے لیے مسجد کی طرف دوڑنے کی ممانعت حدیث مبارک میں موجود ہے۔ جماعت میں شرکت کے لیے سکون وقار سے چلنا چاہئے خواہ رکعت نکلنے کا اندیشہ ہو۔(۲)

(۲) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال: إذا کان أحدکم مقبلا إلی الصلاۃ فلیمش علی رسلہ فإنہ في صلاۃ فما أدرک فلیصل وما فاتہ فلیقض۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاری، ’’کتاب الأذان، باب قول الرجل فاتتنا الصلاۃ‘‘: ج۵، ص: ۱۵۰، رقم:۶۳۵)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص361

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مؤذن نیک اور دیندار، متبع سنت اور اذان کے طریقے سے واقف اور بلند آواز ہونا چاہئے؛ کیوں کہ مؤذن اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی اور کامیابی کے لیے پکارنے والا ہے پس مؤذن جتنا دیندار ہوگا اس کا اچھا اثر لوگوں پر ہوگا۔(۴)

(۴) ویستحب أن یکون المؤذن صالحاً، أي متقیا لأنہ أمین في الدین عالماً بالسنۃ في الأذان وعالماً بدخول أوقات الصلاۃ لتصحیح العبادۃ۔ (أحمد بن اسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷، شیخ الہند، دیوبند)
ثم اعلم أنہ ذکر في الحاوي القدسي من سنن المؤذن: کونہ رجلاً عاقلاً صالحاً عالماً بالسنن والأوقات مواظباً علیہ محتسباً ثقۃ متطہراً مستقبلاً۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ، ج ۲، ص: ۶۲، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص125

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس مریض کو پیشاب کی تھیلی لگی ہوئی ہے، وہ شرعاً معذور ہے، اس کے لیے اس حال میں نماز پڑھنا جائز ہے، نماز معاف نہیں ہے، لیکن وہ تھیلی کے ساتھ مسجد میں داخل نہ ہو، بلکہ گھر میں تنہا نماز ادا کرے۔
’’قولہ: وإدخال نجاسۃ فیہ یخاف منہا التلویث ومفادہ الجواز لو جافۃ، لکن في الفتاویٰ الہندیۃ لا یدخل المسجد من علی بدنہ نجاسۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۷۔
وکذا مریض لا یبسط ثوباً إلا تنجس قولاً لہ ترکہ والمعذور إنما تبقي طہارتہ في الوقت۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض: مطلب في أحکام المعذور‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷)
مریض تحتہ ثیاب نجسۃ إن کان بحال لا یبسط شيء إلا وینجس من ساعتہ یصلي علی حالہ وکذا إذا لم ینتجس الثاني، لکن یلحقہ زیادۃ مشقۃ بالتحویل۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص257