نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 991/41-145

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جماعت سے نماز پڑھنے  کی صورت میں مل مل کر کھڑا ہونا مسنون ہے۔ احادیث میں مل کر کھڑے ہونے کی بڑی تاکید آئی ہے۔ حدیث میں ہے: رصوا صفوفکم وقاربوا بینھا (ابوداود)البتہ مجبوری کی وجہ سے بقدر ضرورت فاصلہ رکھنے کی گنجائش ہے۔  حضرت ابوبکرہ ؓ نماز کے لئے مسجد تشریف لائے تو آپﷺ رکوع کی حالت میں تھے، انہوں نے جلدی میں صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی اقتداء  کرکے رکوع کرلیا پھر اسی حالت میں صف میں شامل ہوگئے، آپ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپﷺ نے فرمایا : اللہ آپ کے شوق کو مزید بڑھائے، آئندہ ایسا نہ کرنا۔

عن ابی بکرۃ ؓ انہ انتھی الی النبی ﷺ وھو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذلک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصا ولاتعد(البخاری کتاب صفۃ الصلوۃ باب اذا رکع دون الصف ۱/۲۷۰)۔

عمومی احوال میں نماز میں فاصلہ رکھ کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، البتہ موجودہ حالات میں حفظان صحت  کی  ہدایات کے تحت ، حکومتی احکامات اور ڈاکٹروں کے مشورہ  کے مطابق کچھ فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ لی جائے، تو نماز ادا ہوجائے گی، کیونکہ سماجی دوری میں فی الحال اپنی اور دوسروں کی حفاظت ہے چنانچہ آپ ﷺ نے خود کو بھی اور دوسروں کو بھی ضرر سے بچانے کی تاکید فرمائی ہے۔ لاضرر ولا ضرار (موطا امام مالک، ابن ماجہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امید ہے مزاج گرامی بخیر وعافیت ہوگا۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین اور شرح متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہمارے شہر آشٹہ سے بھوپال کی دوری آج سے دس سال قبل 82 کلومیٹر تھی جو ایک شہر کے فناء سے دوسرے شہر کے فناء تک تھی، اس صورت میں متفق علیہ قصر کی اجازت تھی، لیکن اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ دونوں شہروں کی آبادی کافی بڑھ گئی ہے، اور ایک شہر کی فناء سے دوسرے شہر کی فناء تک صرف 68 کلومیٹر کی دوری رہ گئی ہے، مذکورہ صورت میں قصر کرنا جائز ہوگا یا نہیں جب کہ پہلے سے لوگ قصر کرتے آئے ہیں ، اور اب دوری کم ہوگئی ہے؟ دوسرا پہلو یہ کہ اگر ایک شہر میں اپنے گھر سے نکل کر دوسرے شہر کی فناء تک مسافت شرعی پائی جائے تو قصر ہوگا یا نہیں ؟ براہ کرم قرآن و حدیث اور کتب فقہ کے حوالہ سے جواب مرحمت فرمائیں مسئلہ نزاعی بنا ہوا ہے، والسلام

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نسبندی ضابطہ شرعی اور اصول شرعی مذہبی کے خلاف ہے جو بغیر کسی شدید مجبوری اور معذوری کے کرائے وہ سخت گنہگار ہوتا ہے اس کو امام بنانا بھی مکروہ ہے  لیکن زید نے جو فعل کیا وہ زوجہ کی زندگی بچانے اور شدید خطرہ سے بچنے کے لیے مسلم ڈاکٹر کے کہنے پر کیا؛ اس لیے اس کا حکم معذور کا ہے ایسی مجبوری کی صورت میں اس کو مجرم کہنا صحیح نہیں اور اس کی امامت بلا کراہت صحیح ودرست ہے،(۱) لہٰذا بلاوجہ شر اور فتنہ پھیلانے والے غلطی پر ہیں، ان پر ضروری ہے کہ اس حرکت سے باز آئیں ورنہ گنہگار ہوں گے۔

(۱) {فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَاعَادٍ فَلََآ إِثْمَ عَلَیْہِ ط إِنَّ  اللّٰہَ  غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ہ۱۷۳} (سورۃ البقرۃ: ۱۷۳)
الضرورات تبیح المحظورات، ’’باب ما بیح للضرورۃ یتقدر بقدر الضرورۃ‘‘۔ (محمد عمیم الإحسان، قواعد الفقہ: ج ۱، ص: ۷۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص153

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت کے انتظار میں کھڑے رہنا خلاف ادب اور ناپسندیدہ عمل ہے، بیٹھ کر جماعت کا انتظار کرنا چاہئے، جب تک امام کو آتا نہ دیکھیں کھڑے نہ ہوں ہاں اگر کوئی عذر ہو مثلاً جماعت کھڑی ہونے میں معمولی وقت ہے اور بیٹھ کر فوراً کھڑا ہونے میں تکلیف ہو تو ایسے شخص کے لیے کھڑے ہوکر انتظار کرنے کی گنجائش ہے۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال أقیمت الصلاۃ فقمنا فعدلنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ مسلم،  في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، متی یقوم الناس للصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۲۱۰، رقم:۶۰۵)
إن کان المؤذن غیر الإمام وکان القوم مع الإمام في المسجد فإنہ یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن: ’’حي علی الصلاۃ‘‘ عند علمائنا الثلاثۃ وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘:ج۱، ص:۱۱۴)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص361

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اگر مؤذن سے اذان دینے کے وقت کوئی کلمہ چھوٹ جائے اور یاد نہ رہے تو ایسی صورت میں دوبارہ اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے، اذان ہوگئی اس اذان سے پڑھی جانے والی نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی تاہم اگر اذان کے درمیان ہی چھوٹا ہوا کلمہ یاد آجائے تو وہ کلمہ دہرالے اور مؤذن وہیں سے آخر تک اذان کے کلمات کا اعادہ کرے۔ نیز فجر کی اذان میں ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کہنا مستحب ہے اگر یہ کلمہ بھی فجر کی اذان میں چھوٹ جائے تو اذان کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اذان ہو جائے گی اور اس سے پڑھی جانے والی نماز بھی درست ہو گی۔

’’ویقول: ندباً بعد فلاح أذان الفجر: ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ مرتین‘‘(۱)
’’(قال: وإذا قدم المؤذن في أذانہ أو إقامتہ بعض الکلمات علی بعض فالأصل فیہ أن ما سبق أداؤہ یعتد بہ حتی لایعیدہ في أذانہ) وما یقع مکررًا لایعتد بہ  فکأنہ لم یکرر‘‘(۲)
’’وإذا قدّم المؤذن في أذانہ وإقامتہ بعض الکلمات علی البعض، نحو أن یقول: أشہد أن محمدًا رسول اللّٰہ قبل قولہ: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، فالأفضل في ہذا أن ما سبق أوانہ لایعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ؛ لأن الأذان شرعت منظومۃً مرتباً،  فتؤدی علی نظمہ وترتیبہ۔ وإن مضی علی ذلک جازت صلاتہم‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘:  مطلب في أول من بنی المنائر(بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر:)
للأذان، ج ۲، ص:۵۴۔
(۲) السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵۔
(۳) أبوالمعالي برہان الدین المرغینانی، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الصلاۃ، نوع آخر في تدارک الخلل الواقع بہ‘‘: ج۱، ص: ۳۴۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص124

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں اس کو تیمم کی اجازت شرعاً نہیں ہے۔ وضو بنا کر نماز پڑھے خواہ جماعت پوری ہوجائے یا وقت ختم ہوجائے۔(۱)

(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِط} (سورۃ المائدہ: ۶)
 {فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا} (سورۃ النساء: ۴۳)
 لایتیمم لفوت جمعۃ ووقت ولو وتراً لفواتھا إلی بدل۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج۱، ص: ۴۱۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص256

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عام طور پر ’’سبحانک اللہم‘‘ پڑھا جاتا ہے جو جائز اور درست ہے اور دونوں الگ الگ کرکے پڑھا جائے ’’سبحانک اللہم‘‘ پڑھا جائے یہ بھی صحیح اور درست ہے مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہوگا (یعنی اے اللہ ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں) جو شخص دونوں صورتوں میں فرق مطلب بیان کرتا ہے وہ اس کی لا علمی کی بات ہے۔(۱)

(۱) ثم یقول: سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا إلہ غیرک کذا في الہدایۃ، إماما کان أو مقتدیا أو منفردا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الربع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابھا‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي علیہ الصلاۃ والسلام کان إذا افتتح الصلاۃ کبر وقرأ: سبحانک اللہم وبحمدک إلی آخرہ ولم یزد علی ہذا۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ:باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۸۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص403

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں فرائض میں دو سورتوں کے درمیان ایک چھوٹی سورت کو اگر قصداً اور جان بوجھ کر چھوڑ دیا گیا ہو تو یہ مکروہ ہے اور اگر بھول سے دو سورتوں کے درمیان ایک چھوٹی سورت چھوٹ گئی تو نماز میں کوئی کراہت لازم نہیں آتی ہے، ایسے ہی پہلی رکعت میں تلاوت کے بعد اتنی مقدار والی آیت جو ایک چھوٹی سورت کے بقدر ہو اس کو چھوڑنا بھی مکروہ ہے البتہ بڑی سورت یا ایک بڑی آیت جو چھوٹی سورت سے بڑی ہو کو چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نماز میں کوئی کراہت بھی لازم نہیں آتی ہے، نیز درمیان میں دو سورتیں اگرچہ چھوٹی ہوں اس کو چھوڑنے کی صورت میں کراہت لازم نہیں آتی ہے۔
’’یکرہ فصلہ بسورۃ بین سورتین قرأہما في رکعتین لما فیہ من شبہۃ التفضیل والہجر وقال بعضہم لایکرہ الخ‘‘(۱)
’’(قولہ: ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ) أما بسورۃ طویلۃ بحیث یلزم منہ إطالۃ الرکعۃ الثانیۃ إطالۃ کثیرۃ فلایکرہ۔ شرح المنیۃ: کما إذا کانت سورتان قصیرتان، وہذا لو في رکعتین‘‘(۲)
’’(ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ) أما بسورۃ طویلۃ بحیث یلزم منہ إطالۃ الرکعۃ الثانیۃ إطالۃ کثیرۃ فلا یکرہ۔ شرح المنیۃ کما إذا کانت سورتان قصیرتان‘‘(۳)
’’وأما في رکعتین إن کان بینہما سور لا یکرہ، وإن کان بینہما سورۃ واحدۃ قال بعضہم: یکرہ، وقال بعضہم: إن کانت السورۃ طویلۃ لا یکرہ۔ ہکذا في المحیط … وإذا قرأ في رکعۃ سورۃ وفي الرکعۃ الأخری أو في تلک الرکعۃ سورۃ فوق تلک السورۃ، یکرہ … ہذا کلہ في الفرائض وأما في السنن فلا یکرہ‘‘(۴)

(۱) حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في مکروہات الصلاۃ‘‘: ص: ۳۵۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فروع في القراء ۃ خارج الصلاۃ، مطلب الاستمتاع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج۲، ص:۲۶۹، زکریا۔
(۳) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹۔
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱،ص: ۱۳۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص200

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1635/43-1212

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   میت کو غسل دینے   کے بعد اگر کوئی نجاست نکلے تو اس کو صاف کردینا چاہئے، دوبارہ غسل کی ضرورت نہیں ہے۔ اور کفن دینے کے بعد نکلنے والی نجاست کا اعتبار نہیں ہے۔ دوبارہ غسل دینے اور کفن بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تجہیز و تکفین میں  آسانی رکھی گئی ہے، اگر دوبارہ غسل و تکفین کا مکلف بنایاگیا تو حرج  لازم آئے گا۔ اس لئے میت کو اسی کفن میں دفن کردیا جائے۔ 

اذا تنجس الکفن بنجاسۃ المیت لایضر دفعا للحرج بخلاف الکفن المتنجس ابتداء ۱ھ وکذا لو تنجس بدنہ بما خرج منہ ان کان قبل ان یکفن غسل و بعد ہ لا ۔ (شامی، کتاب الصلوۃ، باب صلوٰۃ الجنازۃ 2/208) ويشترط طهارة الكفن إلا إذا شق ذلك لما في الخزانة أنه أن تنجس الكفن بنجاسة الميت لا يضر دفعا للحرج بخلاف الكفن المتنجس ابتداء اهـ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، فصل الصلوۃ علیہ 11/582)

وفي المضمرات عن الخزانة إذا كفن في كفن نجس لا تجوز الصلاة عليه بخلاف ما لو نجس بنجاسة الميت لأن فيه ضرورة وبلوى ولا كذلك الكفن النجس ابتداء اه (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، باب احکام الجنائز 1/569)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 803/41-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز میں قیام، رکوع، سجدہ فرض ہے۔ بلاکسی شدید عذر کے ان کا ترک ناجائز ہے اور نماز ادا نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اگر قیام متعذر ہو اور بیٹھ کر رکوع ، سجدہ سے نماز پڑھ سکتا ہو تو زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے، کرسی پر نماز ادا نہیں ہوگی۔ لیکن اگر رکوع ، سجدہ پر بھی قدرت نہ ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ۔ پوری نماز میں کرسی کے پچھلے پائے دیگر نمازیوں کی ایڑی کے برابر رکھے جائیں گے۔

  المشقۃ تجلب  التیسیر (الاشباہ والنظائر 1/75) ۔

علامہ شامی لکھتے ہیں : اراد بالتعذر التعذر الحقیقی بحیث لوقام سقط او الحکمی بان خاف زیادتہ او بطء برئہ بقیامہ او دوران راسہ او وجد لقیامہ الما شدیدا صلی قاعدا۔ (درمختار وردالمحتار 2/9)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند