نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: جو شخص امام سے پہلے رکوع یا سجدہ میں چلا گیا اگر امام نے اس کو رکوع اور سجدہ میں پا لیا تو اس شخص کی نماز درست ہوگئی ورنہ تو نماز درست نہیں ہوگی۔ حدیث میں ایسے شخص کے لیے جو رکوع، سجدہ امام سے پہلے ہی شروع کردے سخت وعید نازل ہوئی ہے ۔
’’إنما جعل الإمام لیؤتم بہ فإذا رکع فارکعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال سمع اللّٰہ لمن حمدہ فقولوا ربنا لک الحمد‘‘(۲)
’’عن أنس قال صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم فلما قضی الصلوٰۃ أقبل علینا بوجہہ، فقال أیہا الناس إني إمامکم فلا تسبقونی بالرکوع ولا بالسجود ولا بالقیام ولا بالإنصراف‘‘(۱)
’’أما یخشی أحدکم أو لا یخشی أحدکم إذا رفع رأسہ قبل الإمام أن یجعل اللّٰہ رأسہ رأس حمار أو یجعل اللّٰہ صورتہ صورۃ حمار‘‘(۲)
’’ویفسدہا مسابقۃ المقتدی برکن لم یشارکہ فیہ إمامہ کما لو رکع ورفع رأسہ قبل الإمام ولم یعدہ معہ أو بعدہ وسلم‘‘(۳)
’’اعلم أنہ اتفق کلہم علی أن المبادرۃ من الإمام مکروہ تحریماً‘‘(۴)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب تحریم سبق الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰، رقم: ۴۲۶۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب إثم من رفع رأسہ قبل الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۹۶، رقم: ۶۹۱؛ أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب تحریم سبق الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰، رقم: ۴۲۷۔
(۳) حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في الإمامۃ‘‘: ص: ۱۸۵۔
(۴) الکشمیري، فیض الباري في شرح البخاري، ’’کتاب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۶، ڈابھیل۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص473

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک صحابیؓ کی روایت ہے: کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھااور بارش شدید تھی، جب نماز کا وقت ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر ہی اذان دی اور اقامت کہی اور نماز پڑھائی۔(۱)
اذان کو اقامت کے ساتھ ملا دینا مکروہ ہے، مطلب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان میں اگر فاصلہ نہ ہو تو مکروہ ہے، مغرب کی اذان واقامت اس سے مستثنی ہے، اس میں صرف ایک سکتہ کا وقفہ ہے۔(۱)

(۱) عن عمرو بن عثمان بن یعلی بن مرۃ عن أبیہ عن جدہ أنہم کانوا مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في سفر فانتہوا إلی مضیق فحضرت الصلوٰۃ فمطروا، السماء من فوقہم والبلۃ من أسفل منہم فأذن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہو علی راحلتہ وأقام فتقدم علی راحلتہ فصلی بہم یؤمي إیمائً یجعل  السجود أخفض من الرکوع۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ،  باب ما جاء في الصلاۃ علی الدابۃ في الطین والمطر‘‘: ج ۱، ص: ۹۴، رقم: ۴۱۱، کتب خانہ: نعیمیہ، دیوبند)
عن عبید اللّٰہ بن أبي رافع عن ابیہ قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أذن في أذن الحسن بن علي حین ولدتہ فاطمۃ بالصلوٰۃ، ہذا حدیث صحیح والعمل علیہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الأضاحي، باب الأذان في أذن المولود‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸، رقم: ۱۵۱۴،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
(۱) (ویفصل بین الأذان والإقامۃ) لکراہۃ وصلہما۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۸، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص121

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز درست ہوگئی، کیوں کہ دودھ پلانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، دودھ کا نکلنا نواقض وضو میں سے نہیں ہے۔(۱)

(۱) وینقضہ خروج کل خارج نجس منہ أي من المتوضي الحي معتاداً أو لا أي ما یطہر أي یلحقہ حکم التطہیر المعاني الناقضۃ للوضوء کل ما خرج من السبیلین۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، سنن الوضوء، ج۱، ص: ۱۳۴۔(إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي، ’’فصل: في نواقض الوضوء‘‘: ص: ۱۰۸، مکتبہ: دار الکتاب، دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص253

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: سنت یہ ہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھے جائیں۔(۲)
’’عن أبي جحیفۃ أن علیا رضي اللّٰہ عنہ قال السنۃ وضع الکف علی الکف في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۱)
’’عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن أبیہ قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضع یمینہ علیٰ شمالہ في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۲)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال ثلاث من أخلاق النبوۃ تعجیل الإفطار وتاخیر السحور ووضع الید الیمنیٰ علی الیسری في الصلوۃ تحت السرۃ‘‘(۳)
’’قال ویعتمد الیمنیٰ علی الیسری تحت السرۃ لقولہ علیہ السلام إن من السنۃ وضع الیمین علی الشمال تحت السرۃ … وقال لأن الوضع تحت السرۃ أقرب إلی التعظیم‘‘(۴)

(۲) ووضع یمینہ علی یسارہ وکونہ تحت السرۃ للرجال لقولہ علی رضي اللّٰہ عنہ من السنۃ وضعہما تحت السرۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ خلف الإمام‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۲، ۱۷۳)
(۱) أخرجہ أبي داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب تفریع الستفتاح الصلاۃ، باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲، رقم: ۷۵۶۔
(۲) أخرجہ ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ: ج ۱، ص: ۱۳۹
(۳) فخر الدین العثمان الماردینی، الجوہرۃ النقی: ج ۲، ص: ۱۳۲۔
(۴) العیني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۲، دار الکتاب۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص400

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں عورتیں جہری نمازوں میں قرأت بالجہر کر سکتی ہیں بشرطیکہ ان کی آواز غیر محرموں تک نہ پہونچے اگر پہونچے تو جائز نہیں؛ اس لیے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے۔(۱)

(۱) أن المرأۃ منہیۃ عن رفع صوتہا بالکلام بحیث یسمع ذلک الأجانب إذ کان صوتہا أقرب إلی الفتنۃ من صوت خلخالہا، ولذلک کرہ أصحابنا أذان النساء لأنہ یحتاج فیہ إلی رفع الصوت، والمرأۃ منہیۃ عن ذلک وہو یدل أیضا علی حظر النظر إلی وجہہا للشہوۃ إذا کان ذلک أقرب إلی الریبۃ وأولیٰ بالفتنۃ۔ (أحمد بن علی أبو بکر الرازي الجصاص الحنفي، أحکام القرآن، ’’سورۃ النور: ۳۲‘‘: ج ۵، ص: ۱۷۷)
منہا أن یکون رجلاً فیکرہ أذان المرأۃ باتفاق الروایات؛ لأنہا إن رفعت صوتہا فقد ارتکبت معصیۃ، وإن خفضت فقد ترکت سنۃ الجہر؛ ولأن أذان النساء لم یکن في السلف فکان من المحدثات، وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل محدثۃ بدعۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل بیان سنن الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۲)
وفي الکافي ولا تلبي جہرا لأن صوتہا عورۃ، ومشی علیہ في المحیط في باب الأذان۔بحر۔ قال في الفتح: وعلی ہذا لو قیل إذا جہرت بالقرائۃ في الصلاۃ فسدت کان متجہا، ولہذا منعہا علیہ الصلاۃ والسلام من التسبیح بالصوت لإعلام الإمام بسہوہ إلی التصفیق اھـ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب: في ستر العورۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص198

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1564/43-1081

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔شرائط پائی جائیں اور جمعہ واجب ہو تو جمعہ کی نماز بلا کسی عذر شرعی کے ترک کرنا گناہ ہے۔ البتہ اگر کسی نے ظہر کی نماز پڑھی تو ظہر کی نماز ادا ہوجائے گی، اور جمعہ ترک کرنے کا گناہ ہوگا۔  

ومن صلى الظهر يوم الجمعة في منزله ولا عذر له كره وجازت صلاته وإنما أراد حرم عليه وصحت الظهر لما سيأتي (قوله آكد من الظهر) أي لأنه ورد فيها من التهديد ما لم يرد في الظهر، من ذلك قوله - صلى الله عليه وسلم - " «من ترك الجمعة ثلاث مرات من غير ضرورة طبع الله على قلبه» رواه أحمد والحاكم وصححه، فيعاقب على تركها أشد من الظهر (شامی، باب الجمعۃ 2/136) (فتح القدیر، باب صلاۃ الجمعۃ 2/50)

"( وكره ) تحريمًا ( لمعذور ومسجون ) ومسافر ( أداء ظهر بجماعة في مصر ) قبل الجمعة وبعدها لتقليل الجماعة وصورة المعارضة، وأفاد أن المساجد تغلق يوم الجمعة إلا الجامع، (وكذا أهل مصر فاتتهم الجمعة ) فإنهم يصلون الظهر بغير أذان ولا إقامة ولا جماعة (شامی 2/157)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی کی روح کے حاضر مجلس ہونے کا عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے، اور مذکورہ وظیفہ پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) یجوز في الأذکار المطلقۃ الإتیان بما ہو صحیح في نفسہ مما یتضمن الثناء علی اللّٰہ تعالی ولا یستلزم نقصاً بوجہ من الوجوہ وإن لم تکن تلک الصیغۃ ما ثورۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (وزارۃ الأوقاف الکویتیۃ، الموسوعۃ الفقہیۃ، ’’الذکر بعد المأثور، أ-في الأذکار المطلقۃ‘‘: ج ۲۱، ص: ۲۳۸)…وقد یکون الذکر حراماً، وذلک کان یتضمن شرکاً کتابیۃ أہل الجاہلیۃ، أو یتضمن نقصاً، مما کانوا یقولون في أول الإسلام: السلام علی اللّٰہ من عبادہ، فقال: النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تقولوا السلام علی اللّٰہ فإن اللّٰہ ہو السلام ولکن قولوا: التحیات للّٰہ والصلوٰت والطیبات۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۲۱، ص: ۲۳۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص363

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر سوال صحیح ہے تو حکم یہ ہے کہ صورت مذکورہ میں زید کی امامت درست نہیں ہے اور اگر کوئی امام نہ ہو یا زبردستی زید کو امام بنا دیا گیا ہے، تو پھر ایسی صورت میں کراہت کے ساتھ زید کی امامت درست ہوگی اور نماز بھی ہو جائے گی، مگر زبردستی امام بنانے والالائق تہدید اور گنہگار ہوگا۔ اور لواطت کی سزا میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے۔ صاحبین اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم کا قول یہ ہے کہ فاعل اگرمحصن (شادی شدہ) ہے، تو اس کو رجم کیا جائے گا ورنہ سو کوڑے مارے جائیں گے اور مفعول بہ کو بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سو کوڑے لگائے جائیں گے اور شہر بدر کیا جائے گا اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ فاعل ومفعول بہ دونوں کو قتل کیا جائے گا، ’’ کما في حدیث عکرمۃ: فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ‘‘(۱) اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول یہ ہے کہ لوطی کو رجم کیا جائے گا، محصن ہو یا غیر محصن ’’کما في روایتہ فارجموا الأعلیٰ والأسفل‘‘(۲) اور سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لوطی پر شرعاً کوئی حد اور سزا متعین نہیں ہے؛ بلکہ امام المسلمین کی صوابدید پر ہے۔ وہ جس قدرمصلحت سمجھے تعزیر جاری کر سکتا ہے؛ پس اسے اختیار ہے کہ وہ لواطت کے عادی ہونے کی صورت میں قتل بھی کرے۔(۳) اور امام صاحب کے قول کی حکمت یہ ہے کہ معاملہ لواطت انسانی؛بلکہ حیوانی طبیعت کے بھی خلاف ہے؛ لہٰذا اس پر قانون حد جاری نہ ہوگا؛ پس زجر وتوبیخ اور مصلحت پر سزا مبنی ہوگی اور یہی مطلب ہے ان تمام اقوال اور احادیث کا جن میں قتل وغیرہ کرنے کا ظاہراً حکم ہے کہ ضرب شدید بھی کبھی موجب قتل ہوتا ہے؛ پس چوںکہ ہمارا مسلک حنفی ہے؛ اس لیے اگر کوئی امام المسلمین ہے تووہ اپنے طور پر مطابق ما حول سزا متعین کرے اور اگر کوئی امام نہیں ہے اور اسلامی ملک نہیں ہے؛ بلکہ دار الحرب ہے، تو صرف زجر وتوبیخ کی جائے گی ملامت کی جائے، اور اس سزا میں فاعل و مفعول دونوں کو شامل کیا جائے گا اور ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی عادت چھوڑ دیں۔(۴)

(۱) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الحدود: باب الوطي الذي یوجب الحد والذي لا یوجبہ‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۶۔
(۲) أیضًا۔
(۳) ومن عکرمہ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ، رواہ الترمذي وابن ماجہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الحدود، الفصل الأول‘‘: ج ۷، ص: ۱۴۷، رقم: ۳۵۷۵، اشرفیہ دیوبند)
(۴) ویکرہ إمامۃ عبد … وفاسق … (قولہ وفاسق) من الفسق۔ وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص150

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد کی چھت پر تنہا یا جماعت سے نماز ادا کی جائے تو شرعاً نماز درست ہوجاتی ہے اور جماعت بھی درست یعنی جائز ہے اس لیے نماز باجماعت کی صحت کے لیے مسجد کے اندر ہونا شرط نہیں ہے۔ مسجد کی چھت پر نماز پڑھنے میں کراہت و عدم کراہت کا مدار اس پر ہے کہ مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ ہے پس ان عبارات کے پیش نظر مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
 شامی میں ہے ’’ثم رأیت القہستانی نقل عن المفید کراہۃ الصعود علی سطح المسجد ویلزمہ کراہۃ الصلاۃ أیضاً فوقہ‘‘(۱)
اور بعض عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ نہیں ہے پس ان عبارات کے پیش نظر مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا بھی مکروہ نہیں ہے در مختار میں ہے ’’وکرہ تحریما الوطئ فوقہ‘‘(۲) اس کی شرح میں علامہ شامی نے لکھا ہے۔ ’’أما الوطؤ فوقہ بالقدم فغیر مکروہ‘‘(۳) علامہ شامیؒ کراہت وعدم کراہت دونوں قول نقل فرماتے ہیں؛ لیکن کراہت کے اس قول پر جو قہستانی سے نقل کیا ہے۔ علامہ شامیؒ  کو اطمینان نہیں ہے؛ اس لیے اس کے بعد فرمایا فلیتأمل کہ یہ قابل غور ہے۔ پس علامہ شامی کا رجحان عدم کراہت ہی کی طرف معلوم ہوتا ہے۔
بہر حال فقہا کی عبارتیں کراہت وعدم کراہت دونوں طرح کی ملتی ہیں جن میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جہاں پر کراہت کی نفی ہے وہاں مراد کراہت تحریمی ہے کہ مسجد کی کہ چھت پرنماز پڑھنا خلاف اولیٰ یعنی مکروہ تنزیہی ہے۔
 البتہ اگر کوئی پریشانی ہو مسجد کے اندر کوئی تعمیری کام ہو رہا ہو جس کی وجہ سے نماز پڑھنے میں سخت دشواری ہو رہی ہو یا شدید گرمی ہو اور دریچوں سے ہوا نہ آتی ہو نیز کوئی مانع شرعی بھی نہ ہو مثلاً مسجد کے اوپر نماز پڑھنے سے قرب وجوار کے مکانوں کی بے پردگی نہ ہوتی ہو تو اس مجبوری کے پیش نظر مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا ‘‘: ج۲، ص:۴۲۸۔
(۲) أیضًا۔

(۳) أیضًا۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص358

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس طرح اقتداء کرنا کہ کوئی شہر میں نماز پڑھائے اور گھر میں اسکائپ کے ذریعہ اقتدا کی جائے یا گھر میں نماز ہو اور مائک لگادیا جائے اور چار پانچ گھروں میں لوگ نماز پڑھ لیں، ایک بلڈنگ میںمائک سے نماز ہو اوربازو کی بلڈنگ میں لوگ اس کی اقتداء میں نماز پڑھیں یا امام حرم کی ٹیلی ویزن پر نشر ہونے والی نماز کی اقتدا کریں یا مسجد میں تراویح ہو اور نیٹ کے ذریعہ لائیو اس کو چلایا جائے اور لوگ گھر میں تراویح پڑھ لیں اقتدا کی یہ سب صورتیں درست نہیں ہیں ان صورتوں میں نماز نہیں ہوگی۔
اس سلسلے میں ضروری ہے کہ اقتداء کے شرائط کو معلوم کرلیا جائے کہ کوئی شخص کسی امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو اقتداء کے صحیح ہونے کے لیے کیا شرائط ہیں ؟ علامہ شامیؒ نے اقتداء کی دس
شرطیں ذکر کی ہیں (۱) مقتدی اقتداء کی نیت کرے کہ میں اس امام کے پیچھے یہ نماز پڑھ رہا ہوں (۲) دونوں کی نماز ایک ہو اگردونوں کی نماز الگ الگ ہوگی مثلا امام ظہر کی نماز پڑھا رہا ہو اور مقتدی عصر کی نیت کرے یا امام نے نفل کی نیت کی اور مقتدی فرض کی نیت کرے تو نماز نہیں ہوگی (۳)مکان متحد ہو (۴) امام کی نماز صحیح ہو ، (۵) عورت ،مرد کے محاذات میں نہ ہو ، (۶) مقتدی امام سے آگے نہ ہو اگر مقتدی امام سے آگے ہوگیا تو مقتدی کی نماز نہیں ہوگی (۷) مقتدی کو امام کے حرکات و انتقالات کا علم ہو(۸) مقتدی کو امام کے مسافر یا مقیم ہونے کا علم ہو (۹) مقتدی امام کے ارکان میں شریک ہواگر امام کسی رکن میں ہو اور مقتدی دوسرے رکن میں ہو تو مقتدی کی نماز درست نہیں ہوگی ، (۱۰)مقتدی امام کے برابر ہو یا اس سے کمتر ہو مثلا اگر تندرست آدمی نے معذور کی اقتداء کی تو نمازدرست نہیں ہوگی یا رکوع سجدہ کرنے والا شخص اگر اشارہ سے نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرے تو اقتداء درست نہ ہوگی۔
’’والصغری ربط صلاۃ المؤتم بالإمام بشروط عشرۃ نیۃ المؤتم الاقتداء واتحاد مکانہما وصلاتہا وصلۃ بإمامۃ وعدم محاذاۃ لإمرأۃ وعدم تقدمہ علیہ بعقبہ وعلمہ بانتقالاتہ وبحالہ من إقامۃ وسفر مشارکۃ في الأرکان وکونہ مثلہ أو دونہ فیہا‘‘(۱)
یہ اقتدا کی شرطیں ہیں ان میں ایک شرط بہت اہم ہے جس کا تفصیلی تذکرہ مسئلے کو حل کرنے میں معاون ہوگا ۔وہ یہ کہ امام اور مقتدی کی جگہ کا ایک ہونا ضروری ہے یہ اتحاد مکان حقیقی ہو یا حکمی ہو ۔مثلا مسجد میں امام ہے اور اسی مسجد میں مقتدی ہے تو یہ اتحاد مکان حقیقی ہے اور نیچے کی منزل میں امام ہے اور اوپر کی منزل میں مقتدی ہے تو یہ اتحادِ مکان حکمی ہے، اقتداء کی یہ صورت درست ہے۔
اتحاد مکان کی شرط، سوائے امام مالک کے تمام ائمہ کے یہاں ضروری ہے ،یہی وجہ ہے کہ مکہ کے ہوٹلوں میں رہ کر کوئی حرم شریف کے امام کی اقتداء کرے تو سوائے امام مالک کے تمام ائمہ کے یہاں نماز درست نہیں ہوگی؛ اس لیے کہ اقتداء، تابع ہونے کا تقاضا کرتا ہے اوراتحاد مکان تابع
ہونے کے لیے لازم ہے جب مکان مختلف ہوگا تو تبعیت ختم ہوجائے گی ، اور تبعیت کے ختم ہونے سے اقتداء ختم ہوجائے گی ۔
احناف کے یہاں اتحاد ِمکان کی تفصیل یہ ہے کہ امام او رمقتدی کے مکان کا مختلف ہونا یہ مفسد نماز ہے، خواہ مقتدی پر امام کی حالت مشتبہ ہو یا نہ ہو ، اسی وجہ سے اگر پیدل چلنے والا سوار شخص کی اقتداء کرے تو نماز درست نہیں ہوگی ، یا دو لوگ الگ الگ سواری میں ہو ں اور ایک دوسرے کی اقتداء کریں تو نماز درست نہیں ہوگی ، اسی طرح امام اور مقتدی کے درمیان میںراستہ ہو جس میں لوگ گزرتے ہوں یا نہر ہو جس میں کشتی چلتی ہو، تو ان تمام صورتوں میں اقتداء درست نہیں ہوگی، اس سلسلے میں ایک دلیل حضرت عمرؓ  کا قول ہے۔
’’من کان بینہ و بین الإمام نہر أو طریق أو صف من النساء فلا صلاۃ لہ‘‘(۱)
مسجد مکان واحد کے حکم میں ہے لہذ۱ اگر دیوار وغیرہ حائل ہو اور امام کے انتقالات کا علم ہورہا ہو تو ااقتداء درست ہے اگر امام کی حالت مشتبہ ہو تو پھر اقتداء درست نہیں ہے ۔اگر مقتدی مسجد کی چھت پر ہو یا مسجد سے متصل مکان کی چھت پرہو اور اس مکان اورمسجد کے درمیان کوئی راستہ وغیرہ حائل نہ ہو تو اقتداء درست ہوجائے گی؛ اس لیے کہ اتحاد مکان حکما موجود ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اقتداء کی شرطوں میں اہم شرط مکان کا متحد ہونا ہے خواہ امام کی حالت کا علم ہو یا علم نہ ہو ، علامہ شامی ؒلکھتے ہیں:
’’فقد تحرر بما تقرر أن اختلاف المکان مانع من صحۃ الاقتداء و لو بلا اشتباہ و لا یصح الاقتداء و إن اتحد المکان ثم رأیت الرحمتي قد قرر ذلک فاغتنم ذلک‘‘(۱)
اس تفصیل کی روشنی میں آن لائن کی تمام صورتیں ناجائز ہیں؛ اس لیے کہ اقتداء کی بنیادی شرط اتحاد مکان مفقود ہے۔
اگر امام مسجد میں نماز پڑھائے او رآواز گھر وں میں آرہی ہو تو اگر گھر مسجد سے متصل ہے اور درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے تو اقتداء درست ہے؛ لیکن اگر درمیان میں کوئی فاصلہ ہو تو پھر اقتداء درست نہیں ہے ، اسی طرح ،ایک گھر میں نماز ہو اور مائک کے ذریعہ دوسرے گھر وں میں اقتداء کی جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے ،اس لیے کہ مکان مختلف ہے۔
 اسکائپ کے ذریعہ اقتداء کرنے میں مذکورہ خرابی کے علاو ہ دوسری بہت سی خرابیاں ہیں، مثلانیٹ میں بعض مرتبہ کنکشن کٹ سکتا ہے اور امام کے انتقال کا علم نہیں ہو پائے گا، اسی طرح اسکائپ میں یا انٹر نیٹ کے ذریعہ جو آواز آئے گی وہ عکس ہوگی، تصویر کے سامنے نماز پڑھنا لازم آئے گا،عام طور پر لائیو میں بھی پہلے تصویر محفوظ ہوتی ہے؛ پھر ٹیلی کاسٹ ہوتی ہے ہم دیکھتے ہیںکہ کوئی پروگرام دو ٹی وی چینل پر لائیو چلتا ہے لیکن دونوںکے درمیان فرق ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لائیوپروگرام پہلے محفوظ ہوتا ہے پھر نشر ہوتاہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ امام رکوع سے واپس آجائے او رلوگ ابھی قیام میں ہی ہوں؛ اس لیے اسکائپ؛ بلکہ آن لائن کی تمام صورتیں ناجائز ہیں اس سے نماز صحیح نہیں ہوگی۔

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۶، مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۱) ابن بطال، شرح صحیح البخاري: ج ۲، ص: ۳۵۱۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص475