نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ثنا کے بعد پہلی رکعت میں قرأت نہ کرنے کی وجہ سے فرض ترک ہوا ہے؛ اس لیے پہلی رکعت باطل ہوگئی اور پہلی رکعت باطل ہونے کی بنا پر پور ی نماز میں فساد آ گیا اس لیے نماز کا لوٹانا واجب ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے {فاقرء وا ما تیسر من القرآن}(۱) اس آیت سے نفس قرأت کی فرضیت معلوم ہوتی ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا حکم دیا گیا ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ’’أمرنا نبینا أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۲)
اس حدیث پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ سورۃ الفاتحہ کے ساتھ جو قرآن کریم سے میسر آئے اسے پڑھا کریں، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے ’’لا صلاۃ إلا بقراء ۃ‘‘(۳)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’ومنہا القرائۃ وفرضہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ، کذا في المحیط‘‘(۱)
مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ترکِ فرض ( قرأت) کی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے سجدہ سہو کرنے سے بھی نماز درست نہیں ہوگی۔

(۱) سورۃ المزمل:۲۰۔
(۲) أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب تفریع استفتاح الصلاۃ، باب من ترک القراء ۃ في صلاتہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸، رقم: ۸۱۸۔
(۳) أخرجہ مسلم ، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ في کل رکعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۷، رقم: ۳۹۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ ومنہا: القرائۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص202

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا شخص فاسق اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے؛ اس لیے اس کی امامت درست نہیں ہے،(۲) کیوں کہ قادیانی متفقہ طور پر کافر ہیں؛ اس لیے مسلمان لڑکی کا نکاح اس سے جائز نہیں ہے،(۳) اس شخص پر واجب ہے کہ یا تو اپنے داماد کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرے اور اس کے مسلمان ہونے کے بعد تجدید نکاح کرے یا اپنی بیٹی کو اس سے علیحدہ کرلے اور اپنے اس عمل سے توبہ واستغفار کرے۔(۱)

(۲) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ ((ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
(۳) {وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْاط وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ أَعْجَبَکُمْط} (سورۃ البقرۃ: ۲۲۱)
(۱) أن ما یکون کفرا اتفاقا یبطل العمل والنکاح وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد‘‘: ج۹، ص:۴۴۲)
ینص الفقہاء علی أن من أدی أنہ شریک لمحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الرسالۃ، أو قال: بجواز اکتسابہا بتصفیۃ القلب وتہذیب النص فہو کافر۔ قال قاضي العیاض: لا خلاف في تکفیر مدعی الرسالۃ۔ (وزارۃ الأوقاف، الموسوعۃ الفقھیۃ: ج ۴، ص: ۳۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص154

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان شعائر دین میں سے ہے۔ اذان کا احترام اور محبت ہر مومن کا ایمانی تقاضا ہے۔ اذان دینے والے کی فضیلت بھی احادیثِ مبارکہ میں متعدد جگہ آئی ہے مسلم شریف کی حدیث ہے: جب قیامت کے دن مؤذن اٹھیں گے تو ان کی گردنیں سب سے بلند ہوں گی۔ ’’المؤذنون أطول الناس أعناقا یوم القیامۃ‘‘(۱)
مذکورہ حدیث کی تشریح میں علامہ نوویؒ نے لکھا ہے: لمبی گردن کا مطلب ہے کہ مؤذن میدان حشر میں سب سے ممتاز اور منفرد نظر آئیں گے، ایک روایت ہے: مؤذن کی آواز جہاں تک پہونچتی ہے سب چیزیں اس آواز کو سنتی ہیں اور مؤذن کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں۔
’’عن أبي ہریرۃ سمعہ من فم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، یقول: المؤذن یغفرلہ مد صوتہ ویشہد لہ کل رطب ویابس‘‘(۱)
نیز آپ نے جو باتیں عالم دین سے سن رکھی ہیں وہ حدیث کا مضمون ہے، امام ترمذیؒ کی ایک روایت ہے:
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أذن محتسبا سبع سنین کتب لہ براء ۃ من النار‘‘(۲)
ایسے ہی امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مسند احمد میں ایک روایت نقل کی ہے کہ تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر ہونگے جسے دیکھ کر تمام اولین وآخرین رشک کریں گے۔
اول: ایسا غلام جو اللہ اور اپنے آقاء کے حقوق ادا کرتا ہو، دوم: وہ امام جس سے ان کے مقتدی راضی ہوں، سوم: وہ مؤذن جو پانچوں وقت کی اذان دیتا ہو۔
 ایک روایت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کے لیے خاص طور پر مغفرت کی دعاء فرمائی ہے۔
ان احادیثِ مبارکہ کے علاوہ اور بھی کئی روایتیں کتبِ احادیث میں موجود ہیں جو مؤذن کی فضیلت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما  قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ثلاثۃ علی کثبان المسک یوم القیامۃ: رجل أم قوما وہم بہ راضون، ورجل یؤذن في کل یوم ولیلۃ خمس صلوات الخ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان ،  وہرب الشیطان عند سماعہ، ج ۱، ص: ۱۶۷، رقم: ۳۸۷۔
(۱) أخرجہ النسائی، في سننہ، ’’کتاب الأذان، باب رفع الصوت بالأذان‘‘ ج۱، ص: ۷۵، رقم: ۶۴۵۔
(۲) أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، أبواب الأذان والسنۃ فیہا‘‘: ص: ۵۳، رقم: ۷۲۷۔
(۱)  أخرجہ أحمد في مسند عبداللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، ج ۸،ص: ۴۱۷، رقم: ۴۷۹۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص126

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  کھجور، انگور اور منقی سے بنی الکحل نجس اورحرام ہے۔ پھل یا دیگر مائعات سے کشید کردہ الکحل نجس اور حرام نہیں ہے؛ اس لیے دواؤں میں اس کا استعمال جائز ہے، ماہرین کی تحقیق یہی ہے کہ دواؤں میں جو الکحل استعال ہوتا ہے وہ پھل وغیرہ کا ہوتا ہے اس لیے سینیٹائزر کا استعمال کرنا جائز ہے، اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے اور اس کو استعمال کرنے کے فوراً بعد نماز پڑھنا درست ہے۔ ہاں! اگر کسی سینیٹائزر کے بارے میں یقین سے معلوم ہوجائے کہ اس میں مذکورہ تین چیزوں میں سے کسی کی آمیزش ہے، تو اس کا استعمال کرنا ناجائز ہوگا۔ ’’فقہ البیوع‘‘ میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’وقد ثبت من مذہب الحنفیۃ المختار أن غیر الأشربۃ (المصنوعۃ من التمر أو من العنب) لیست نجسۃ‘‘(۱)
’’تکملۃ فتح الملہم‘‘ میں ہے: ’’إن معظم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویۃ و العطور و غیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ کما ذکر نا في باب بیوع الخمر‘‘(۲)

(۱) مفتي محمد تقي العثماني، فقہ البیوع: ج ۱، ص: ۲۹۳۔
(۲) مفتي محمد تقي العثماني، تکملہ فتح الملہم: ج ۳، ص: ۴۸۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص258

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ تکرارِ آیت کے سلسلے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر قاری نوافل میں تکرارِ آیت کرتا ہے تو نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی ہے؛ لیکن اگر قاری فرائض میں آیت کا تکرار کرتا ہے تو یہ مکروہ ہے۔
’’ولا یکرہ تکرار السورۃ في رکعۃ أو في رکعتین من النفل؛ لأن باب التطوع أوسع وقد ورد أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ إلی الصباح بآیۃ واحد یکررہا في تہجدہ‘‘(۲)
’’فدل علی جواز التکرار في التطوع کذا في شرح المنیۃ وقد ثبت عن جماعۃ من السلف أنہم کانوا یحیون لیلتہم بآیۃ العذاب، أو آیۃ الرحمۃ أو آیۃ الرجاء، أو آیۃ الخوف، وإن کان ذلک في الفرائض فہو مکروہ إذ لم ینقل عن أحد من السلف أنہ فعل مثل ذلک کذا في التجنیس والمزید‘‘(۱)

(۲) أخرجہ ابن ماجۃ،  في سننہ، ’’في کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب ما جاء في القراء ۃ في صلاۃ اللیل من حدیث سیدنا أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ قرأ: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأیۃ   … حتی أصبح یرددہا، والآیۃ: {إن تعذبہم فإنہم عبادک وإن تغفرلہم فإنک أنت العزیز الحکیم}ص :۹۶، رقم:۱۳۵۰ ۔
(۱) امداد الفتاح مع الحاشیۃ، ’’فصل فیما یکرہ في الصلاۃ‘‘: ص: ۳۸۱؛ وکذا في مراقي الفلاح، ’’فصل في المکروہات مکۃ المکرمہ‘‘: ص: ۱۲۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص203

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1328/42-707

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صفوں کی درستگی سنت مؤکدہ ہے،  اور صفوں کی درستگی کا اہتمام نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہیں۔ اس لئے  یہ مقتدیوں کی ذمہ داری ہے کہ صف سیدھی کریں اور  صفوں کے بیچ میں خالی جگہیں پُر کریں۔ اور امام کو بیچ میں رکھیں، اگر کسی صف میں دائیں جانب کم لوگ ہوں تو آنے والا دائیں جانب صف میں کھڑا ہو تاکہ امام درمیان میں ہو اور دونوں جانب صف برابر ہوجائے۔ امام کو چاہئے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے مقتدیوں کی صف کا معائنہ کرکے ان کو درست کرائے لیکن یہ امام کے ذمہ لازم نہیں ہے، اگر اس کا اہتمام کرے تو بہتر ہے۔  نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام مقتدیوں کی صفوں کو درست کرانے کا اہتمام  کرتے تھے۔

قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - «لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ». وكان في زمن عمر رضي الله تعالى عنه رجلٌ مُوَكَّلٌ على التسوية، كان يمشي بين الصفوف ويسوِّيهم، وهو واجبٌ عندنا تُكْرَه الصلاة بتركه تحريمًا، وسنةٌ عند الشافعية لانتفاء مرتبة الواجب عندهم، وذهب ابن حَزْم إلى أنه فرضٌ. (فیض الباری علی صحیح البخاری ، باب تسویۃ الصفوف 2/299) عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ «سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلاَةِ». (فیض الباری 2/301)

قَالَ عليه السلام: (لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ) . / 95 - وفيه: أَنَسِ، قَالَ الرسول: (أَقِيمُوا الصُّفُوفَ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ من وراء ظَهْرِي) . تسوية الصفوف من سنة الصلاة عند العلماء، وإنه ينبغى للإمام تعاهد ذلك من الناس، وينبغى للناس تعاهد ذلك من أنفسهم، وقد كان لعمر وعثمان رجال يوكلونهم بتسوية الصفوف، فإذا استوت كبرا إلا أنه إن لم يقيموا صفوفهم لم تبطل بذلك صلاتهم. وفيه: الوعيد على ترك التسوية، (شرح البخاری لابن بطال، باب تسویۃ الصفوف 2/344)

قلت: قوله - صلى الله عليه وسلم -: تراصوا، وقوله: رصوا صفوفكم، وقوله: سدوا الخلل، ولا تذروا فرجات للشيطان، وقول النعمان بن بشير: فرأيت الرجل يلزق كعبه بكعب صاحبه الخ، وقول أنس: وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه الخ، كل ذلك يدل دلالة واضحة على أن المراد باقامة الصف وتسويته أنما هو اعتدال القائمين على سمت واحد وسد الخلل والفرج في الصف بإلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم، وعلى أن الصحابة في زمنه - صلى الله عليه وسلم - كانوا يفعلون ذلك، وأن العمل برص الصف والزاق القدم بالقدم وسد الخلل كان في الصدر الأول من الصحابة وتبعهم، ثم تهاون الناس به.(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، الفصل الاول 4/5)

أي يصفهم الإمام بأن يأمرهم بذلك. قال الشمني: وينبغي أن يأمرهم بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا مناكبهم ويقف وسطا (شامی، باب الامامۃ 1/568)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: داڑھی منڈانے والا اور سنیما دیکھنے والا منکرات شرعیہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہے، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، اس کے علاوہ دوسرے شخص کو امام بنایا جائے۔(۲)

(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وأکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔… (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وأکل الربا ونمام، ومراء ومتصنع … قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہا أولی من الإنفراد، لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي، قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، (أیضًا: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص155

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر وہ زمین سرکاری ذمہ داروں نے بخوشی مسجد کے لیے دی تھی جیسا کہ تحریری سوال سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو مسجد ہی کہہ کر پکارا جاتا ہے اور ایک عرصہ سے پانچوں وقت نماز با جماعت بھی ہو رہی ہے تو اس صورت میں وہ شرعی مسجد بن گئی ہے اور چوں کہ اوقات نماز اور امام وغیرہ مقرر ہیں تو اس جگہ پر دوسری جماعت مکروہ ہوگی اور اگر زبردستی اس زمین پر قبضہ کر کے نماز کی جگہ بنائی ہے کہ سرکاری ذمہ دار اب بھی اس جگہ کے مسجد بنانے پر راضی نہیں ہیں تو وہ شرعی مسجد نہیں بنی اور نہ ہی اس میں نماز فی المسجد کا ثواب ملے گا البتہ جماعت کا ثواب ملتا رہے گا اور وہ مسجد چوں کہ شرعی مسجد قرار نہیں دی جا سکتی بناء بریں وہاں جماعت ثانیہ درست ہوگی۔(۱)
(۱) یکرہ تکرار الجماعۃ في مسجد محلۃ بأذان وإقامۃ  لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن
(قولہ ویکرہ) أي تحریما لقول الکافي: لا یجوز، والمجمع لا یباح، وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي (قولہ بأذان وإقامۃ إلخ) والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعا۔ (ابن عابدین،  رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 480

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں بنیان پہن کر اذان دینا جائز ہے، اس صورت میں اذان ہو جائے گی، قابل اعادہ نہیں ہوگی۔البتہ بلا عذر ایسا نہیں کرنا چاہئے متقیوں والا مہذب لباس پہن کر اذان دینی چاہیے(۲)

(۲) (ویستحب أن یکون المؤذن صالحاً) أي متقیاً لأنہ أمین في الدین (عالماً بالسنۃ)( في الأذان وعالماً بدخول (أوقات الصلاۃ) لتصحیح العبادۃ (و) أن یکون (علی وضوء) لقولہ علیہ السلام لا یؤذن إلا متوضئ (مستقبل القبلۃ) کما فعلہ الملک النازل (إلا أن یکون راکباً) لضرورۃ سفرو وحل ویکرہ في الحضر راکباً في ظاہر الروایۃ۔ (أحمد بن محمد ، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
من سنن المؤذن کونہ رجلاً عاقلاً صالحاً عالماً بالسنن والأوقات مواظباً علیہ محتسباً ثقۃ متطہراً الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص128

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: موجودہ تحقیق کے اعتبار سے پرفیوم کے اندر استعمال ہونے والا الکحل سبزیوں سے کشید کیا جا تا ہے، اس لیے اس کو لگاکر نماز پڑھنا جائز ہے؛ تاہم احتیاط پر عمل کرتے ہوئے بچنا چاہئے۔(۱)

(۱)وإن معطم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویۃ والعطور وغیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ … وحینئذ ہناک فسحۃ في الأخذ بقول أبي حنیفۃ عند عموم البلوی۔ (مفتي محمد تقي عثماني، تکملہ فتح الملہم، ’’کتاب الأشربۃ: حکم الکحول السکرۃ‘‘: ج ۹، ص: ۳۴۳، مکتبہ: اشرفی دیوبند)
المزر والجعۃ والبقع وما یتخذ من السکر والتین ونحو ذلک فیحل شربہ عند أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ قلیلاً کان أو کثیراً مطبوخاً کان أو نیاّ ولا یحد شاربہ وإن سکر۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الأشربۃ: باب حکم النبیذ‘‘: ج ۴، ص: ۲۸۶، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وظاہر أن الأحوط قول محمدؒ فلذا أفتی المتأخرون بہ لسد باب الفتنۃ لکن في زماننا فقد عارضہ عموم البلویٰ في شراب یقال لہ اسپریٹ فالأحوط في زماننا أن یؤدي إلی الجرأۃ في الإثم إذا لم یر الناس منہ خلاصاً کما لا یخفیٰ فالأولیٰ أن لا یتعرض للمبتلی بہ بشيء نعم من قدر علی الاحتراز منہ فلیتحرز ماشاء، کما قال العلامۃ التھانوي رحمہ اللّٰہ۔ (اشرف علی تھانوی، بہشتی زیور عکسی، ’’نواں حصہ: جمادات کا بیان‘‘: ص: ۱۰۱، کتب خانہ اختری، سہارنپور)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص259