نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چار مؤذن تھے۔
(۱) حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ (۲) حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ یہ دونوں تو مدینہ منورہ میں اذان دیتے تھے۔
(۳) حضرت سعد القرظ رضی اللہ عنہ مسجد قبا میں اذان دیتے تھے۔
(۴) حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں اذان دیتے تھے۔(۲)

(۲)  أما مؤذنوہ فأربعۃ: اثنان بالمدینۃ: بلال بن رباح، وأمہ حمامۃ، مولی أبي بکر الصدیق، وہو أوّل من أذن لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ولم یؤذن بعدہ لأحد من الخلفاء، إلّا أنَّ عمر لما قدم الشام حین فتحہا أذَّن بلال، فتذکَّر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال أسلم مولی عمر بن الخطاب: فلم أر باکیًا أکثر من یومئذ، وتوفي سنۃ سبع عشرۃ، أو ثمان عشرۃ أو عشرین بداریا بباب کیسان، ولہ بضع وستون سنۃ، وقیل: دفن بحلب، وقیل: بدمشق، وعمرو بن أم مکتوم القرشي الأعمی، وہاجر إلی المدینۃ قبل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وأذَّن لہ علیہ الصلاۃ والسلام بقباء، سعد بن عائد أو ابن عبد الرحمن المعروف بسعد القرظ وبالقرظي، مولی عمَّار، بقی إلی ولایۃ الحجَّاج علی الحجاز، وذلک سنۃ أربع وسبعین، وبمکۃ أبو محذورۃ، واسمہ: أوس الجمحی المکي، أبوہ: معیر بکسر المیم وسکون وفتح التحتانیۃ، مات بمکۃ سنۃ تسع وخمسین، وقیل: تأخَّر بعد ذلک۔ (أبو عبد اللّٰہ بن عبد الباقي، الزرقاني المالکي، شرح الزرقانيؒ، ’’الفصل السابع: في مؤذنیہ وخطبائہ وحدائہ وشعرائہ‘‘: ج ۵، ص: ۷۳، ۷۴(شاملہ)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص122

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: اگر اس کے کفر پر سوائے اقرار کے اور کوئی دلیل نہیں ہے تو اس کو وقت اقرار سے مرتد قرار دیا جائے گا؛ لہٰذا گزشتہ زمانہ میں اس کی اقتداء میں پڑھی گئی نمازیں درست ہیں، ان کی قضاء لازم نہیں۔
’’ولو زعم أنہ کافر لم یقبل منہ لأن الصلاۃ دلیل الإسلام أي دلیل علی أنہ کان مسلما وأنہ کذب بقولہ إنہ صلی بہم وہو کافر، وکان ذلک الکلام منہ ردۃ فیجبر علی الإسلام‘‘(۱)
اوراگر وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے دس سال تک بے وضو نماز پڑھائی اور مقتدی حضرات کو اس کی بات کے صحیح ہونے کا ظن غالب ہے تو ان نمازوں کا اعادہ ضروری ہوگا اور اگر ظن غالب ہو کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے تو اعادہ کی ضرورت نہیں۔
’’(وإذا ظہر حدث إمامہ) أي بشہادۃ الشہود أنہ أحدث وصلی قبل أن یتوضأ أو بإخبارہ عن نفسہ وکان عدلا وإلا ندب کما في النہر عن السراج۔ (قولہ: وکذا کل مفسد في رأي مقتد) أشار إلی أن الحدث لیس بقید؛ فلو قال المصنف کما في النہر: ولو ظہر أن بإمامہ ما یمنع صحۃ الصلاۃ لکان أولی، لیشمل ما لو أخل بشرط أو رکن، وإلی أن العبرۃ برأي المقتدي حتی لو علم من إمامہ ما یعتقد أنہ مانع والإمام خلافہ أعاد، وفي عکسہ لا إذا کان الإمام لا یعلم ذلک: (بطلت فیلزم إعادتہا) لتضمنہا صلاۃ المؤتم صحۃ وفسادا (کما یلزم الإمام إخبار القوم إذا أمہم وہو محدث أو جنب)(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الموضع التي تفسد صلاۃ الإمام دون المؤتم‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الموضع التي تفسد صلاۃ الإمام دون المؤتم‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص254

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز اس صورت میں درست ہوگئی ہے سجدہ سہو یا اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ تسبیحات کو الگ الگ مواقع پر پڑھنا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔(۱)

(۱) سننہا رفع الیدین للتحریمۃ … وتکبیر الرکوع وتسبیحہ ثلاثا وأخذ رکبتیہ بیدیہ وتفریج أصابعہ وتکبیر السجود والرفع وکذا الرفع نفسہ وتسبیحہ ثلاثا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
کذا في الدر المختار للحصکفي مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ خلف الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۷۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص401

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اور مغرب کی تیسری رکعت اور چار رکعت والی نماز کی اخیر کی دو رکعتوں میں فاتحہ پڑھنا سنت ہے، ہر رکعت مستقل نماز ہے اس لیے تکرار لازم نہیں آتا ہے۔
’’وتسن قراء ۃ الفاتحۃ فیما بعد الأولیین یشمل الثلاثي والرباعي‘‘(۱)
’’واکتفی المفترض فیما بعد الأولیین بالفاتحۃ فإنہا سنۃ علی الظاہر‘‘(۲)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ، …فصل في بیان سننھا‘‘: ص: ۲۷۰۔
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب مہم في عقد الأصابع عند التشہد‘‘: ج۲، ص:۲۲۱، زکریا۔
أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقرأ في الظہر في الأولیین بأم الکتاب۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب : یقرأ في الأخریین بفاتحۃ الکتاب‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷، رقم:۷۷۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص199

نماز / جمعہ و عیدین
clikc the below link https://dud.edu.in/darulifta/?qa=3893/%D9%88%D8%A8%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DB%81-%D8%A7%D8%B9%D8%AA%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%8C%D9%88%D9%86%DA%A9%DB%81-%DA%A9%D8%B1%D8%B3%DA%A9%D8%AA%D8%A7-%D8%B1%DB%81%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%AA%D8%AF%DB%8C%D9%88%DA%BA-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%AC%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88&show=3893#q3893

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجد میں قرآن پاک کی تلاوت اور دیگر اوراد وظائف اس قدر بلند آواز سے پڑھنا کہ دوسروں کی نماز میں خلل واقع ہو جائے اور ان کو ناگوار معلوم ہو جس کی وجہ سے ان کی نماز یں صحیح ادا نہ ہوسکیں جائز نہیں ہے؛ بلکہ یہ سب مذکورہ اوراد ووظائف بالکل آہستہ پڑھیں البتہ اگر مسجد میں نمازی نہ ہوں، تو ذکر جہری کی بھی گنجائش ہے۔ (۲)

(۲) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ: أن رفع الصوت بالذکر حین ینصرف الناس من المکتوبۃ کان علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ کنت أعلم إذا انصرفوا بذلک إذا سمعتہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، رقم: ۸۴۱)
الباب الأول في حکم الجہر بالذکر إعلم أنہم اختلفوا في ذلک فجوزہ بعضہم وکرہہ بعضہم الخ۔ (سیاحۃ الفکر في الجہر بالذکر: ص: ۴۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص363

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا شخص گنہگار ہے، امامت کے لائق نہیں اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، دوسرے شخص کو امام بنانا چاہیے جو دین دار پرہیز گار اور باشرع ہو وہی امامت کے لائق ہے۔(۱)

(۱) ولذا کرہ إمامہ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ لإمامۃ، وإذا تعذر منعہ ینتقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا وإن لم یقم الجمعۃ إلا ہو تصلي معہ۔ (أحمد بن محمد،حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
ولوصلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لا ینال مثل ما ینال خلف تقي، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص152

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں زید کی دو حالتیں ہیں۔
(۱) وہ صاحب ترتیب ہو یعنی پوری زندگی میں ایک ساتھ اس کی پانچ نمازوں سے زیادہ فوت نہ ہوئی ہوں اس صورت کا حکم یہ ہے کہ وہ عصر کی جماعت میں شریک نہ ہو پہلے ظہر ادا کرے اس کے بعد عصر پڑھے اور اگر عصر پہلے پڑھ لی، تو پھر بھی ظہر پڑھے اس کے بعد عصر ادا کرے۔(۱)
(۲) وہ صاحب ترتیب نہ ہو یعنی پوری زندگی میں اس کی پانچ سے زائد نمازیں فوت ہوگئی ہوں اس صورت کا حکم یہ ہے کہ عصر کی جماعت میں شامل ہوجائے اور عصر کے بعد ظہر کی قضا کرے اور عصر کے بعد قضاء نماز پڑھنا قبل از اصفرار و غروب درست ہے ہاں نوافل پڑھنا صحیح نہیں ہے۔(۲)

(۱) فإذا کان الترتیب فرضا یلزم أن یکون الفائت شرطا لحصۃ الوقتیۃ فلا یجوز لأن شرط الشییٔ تبع لذلک الشيء۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، کیفیۃ قضاء الفوائت‘‘: ج۲، ص: ۵۸۳)
(۲) لأن الترتیب یسقط بضیق الوقت وکذا النسیان وکثرۃ الفوائت کي لا یؤدي إلی تفویت الوقتیۃ، بخلاف ما إذا کان في الوقت سعۃ حیث لایجوز لأنہ أداہا قبل وقتہا الثابت بالحدیث۔ (المرغیناني، الھدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت‘‘: ج۱، ص: ۱۵۴، دارالکتاب)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص360

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز باجماعت کے لیے صفیں متصل ومسلسل ہونی چاہئیں بڑی مسجد میں اگر درمیان میں دو یا دو سے زائد صفوں کے بقدر فاصلہ اس طرح ہو جائے کہ درمیان کی صفوں میں بالکل نمازی موجود نہ ہوں، تو جو لوگ اس فاصلہ کی جگہ کے بعد جماعت میں شامل ہوکر نماز پڑھیں گے، ان کی اقتدا ونماز درست نہ ہوگی۔
’’إنہ لم یجعل الفاصل فیہ أي في المسجد الصغیر بقدر صفیں مانعاً من الاقتداء تنزیلاً لہ منزلۃ مکان واحد بخلاف المسجد الکبیر فإنہ جعل فیہ مانعاً‘‘(۱)
اور عالمگیری میں ہے ’’إن کان بینہ وبین الإمام نہر کبیر یجری فیہ السفن والزوارق یمنع الاقتداء وإن کان صغیراً لا تجري فیہ لا یمنع الاقتداء ہو المختار ہکذا في الخلاصۃ وکذا لوکان في المسجد الجامع ہکذا في فتاویٰ قاضی خان‘‘(۲)
 نیز اگر مسجد شرعی سے متصل کوئی جگہ مسجد کی حدود سے خارج ہو اور وہاں تک صفیں برابر نہ لگی ہوں، بلکہ درمیان میں دو یا دو سے زائد صفوں کا فاصلہ ہو اور وہاں پر کوئی شخص اقتداء کرے، تو خواہ مسجد چھوٹی ہو یا بڑی، اس کی نماز درست نہ ہوگی۔
’’المانع من الاقتداء في الفلوات قدر مایسع فیہ صفین وفي مصلی العید الفاصل لا یمنع الاقتداء وإن کان یسع فیہ الصفین أو أکثر وفي المتخذ لصلاۃ الجنازۃ اختلاف المشائخ وفي النوازال جعلہ کالمسجد کذا في الخلاصۃ‘‘(۱)
مندرجہ وضاحت کے بعد مذکورہ فی السوال طریقہ اقتداء کرنے والے حضرات کی اقتدا درست نہیں اور نماز ادا نہیں ہوگی۔

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الرابع في بیان ما یمنع صحۃ الاقتداء وما لا یمنع‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۵، زکریا، دیوبند۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص478

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام ومؤذن میں امام کا درجہ بڑا ہوتاہے۔ روایت میں ہے کہ مالک بن حویرث اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تعلیم کے لیے آئے تھے اور جب وہ دونوں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم دونوں اذان واقامت کہنا اور امامت کے سلسلے میں فرمایا کہ: جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرے۔ معلوم ہوا کہ امام کا درجہ بڑا ہوتا ہے۔ نیز امامت کی ذمہ داری زیادہ بڑی ہوتی ہے؛ کیوں کہ امام تمام مقتدیوں کی نمازکا ضامن ہوتا ہے؛ اس لیے امام کے لیے مسائل امامت سے واقفیت بھی ضروری ہوتی ہے جب کہ مؤذن کے لیے اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے۔
’’عن مالک بن الحویرث، قال: قدمت علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنا وابن عم لي، فقال لنا: إذا سافرتما فأذنا وأقیما، ولیؤمکما أکبرکما ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ الترمـذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في الأذان في السفر‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۲۰۵۔
عن مالک بن حویرث قال أتیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في نفر من قومي فأقمنا عندہ عشرین لیلۃ، وکان رحیمًا رفیقًا فلمّا رأی شوقنا إلی أہلینا قال: ارجعوا، فکونوا فیہم وعلموہم وصلوا فإذا حضرت الصلاۃ فلیؤذن لکم أحدکم ولیؤمکم أکبرکم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ ’’کتاب الأذان، باب من قال لیؤذن في السفر مؤذن واحد‘‘: ج۱، ص: ۸۷، رقم: ۶۲۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص123