Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1069/41-229
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ جمعہ کے صحیح ہونے کے لئے شہر، قصبہ یا قریہ کبیرہ کا ہونا ضروری ہے۔ چھوٹے گاؤں میں جمعہ کی نماز درست نہیں ہے۔ بڑے گاؤں کی تشریح میں علماء نے قریب تین ہزار کی آبادی کی بات لکھی ہے۔ آپ نے گاؤ ں کے جو احوال لکھے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چھوٹا گاؤں ہے جس میں جمعہ درست نہیں ہے ۔
بہتر ہوگا کہ کسی قریبی مستند ادارے کے دو مفتیان کرام سے گاؤں کا معائنہ کرادیا جائے ؛ معائنہ کے بعد وہ حضرات جو فرمائیں اسی پر عمل کرلیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ امانت علی قاسمی
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1402/42-817
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مقتدی نے امام کو قیام کی حالت میں پایا اور امام قرات نہیں کررہاہے تو مقتدی ثنا پڑھ کرامام کے پیچھے خاموش کھڑا رہے۔ اور امام کے ساتھ نماز پڑھتارہے۔ پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی چھوٹی رکعت ادا کرنے کے لئے کھڑا ہو تو تعوذ وتسمیہ اور قرات سے شروع کرے، اور ثنا نہ پڑھے۔
(منها) أنه إذا أدرك الإمام في القراءة في الركعة التي يجهر فيها لا يأتي بالثناء. (الفتاوی الھندیۃ، الفصل السابع فی المسبوق واللاحق 1/90)
فقلنا: بأن المسبوق يأتي بالثناء متى دخل مع الإمام في الصلاة حتى يقع الثناء في محله وهو ما قبل أداء الأركان، واعتبرنا الحكم فيما أدرك، وفيما يقضي في حق القراءة، فجعلنا ما أدرك صلاته وما يقضي أول صلاته، فتجب القراءة عليه، فيما يقضي؛ لأن القراءة ركن لا تجوز الصلاة بدونها (المحیط البرھانی فی الفقہ النعمانی، الفصل الثالث والثلاثون فی حکم، 2/209)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس سلسلہ میں مسجد کی کمیٹی کو ضابطہ بنا لینا ضروری ہے ضابطہ بناتے وقت مسجد کی آمد اور اس کے اخراجات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے مثلاً حج فرض کے لیے رخصت ملے گی حج نفل کے لیے رخصت کی صورت میں تنخواہ وضع ہوگی یا کسی صورت کا بہر صورت مناسب متبادل نظم کرنا ضروری ہوگا پھر اسی ضابطہ کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے۔(۱)
(۱) نقل في القنیۃ عن بعض الکتب أنہ ینبغي أن یسترد من الإمام حصۃ مالم یؤم فیہ، قال ط: قلت: وہو الأقرب لغرض الواقف۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب اشتری بمال الوقف، داراللوقف یجوز‘‘: ج۶، ص: ۶۲۹، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص312
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو بچے بہت زیادہ چھوٹے ہوں اور ان کو بالکل شعور نہ ہو ماں باپ سے علیحدہ نہ رہ سکتے ہوں، پیشاب وغیرہ کا خیال نہ رکھنے ہوں اتنے چھوٹے بچوں کو مسجد لانا درست نہیں ہے۔ حدیث میں اس قدر چھوٹے بچوں کو لانے سے منع کیا گیا ہے۔
’’إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: جنبوا مساجدکم صبیانکم، ومجانینکم، وشرائکم، وبیعکم، وخصوماتکم، ورفع أصواتکم، وإقامۃ حدودکم، وسل سیوفکم، واتخذوا علی أبوابہا المطاہر، وجمروہا في الجمع‘‘(۱)
جو بچے شعور و ادراک رکھتے ہیں اور تنہا اسکول یا مدرسہ پڑھنے جاتے ہیں ایسے بچوں کو مسجد میں لانا درست ہے تاکہ وہ مسجد کے ماحول سے مانوس ہوں اور ابتداء سے ہی نماز کی عادت بن جائے یہی وجہ ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے سات سال کی عمر کے بچوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی تعلیم دینے کا حکم دیا ہے؛ اس لیے ایسے بچوں کو مسجد میں لانا بچوں کو مسجد کے ماحول سے مانوس کرنے کے لیے بہتر قدم ہے۔ اب دوسرا مسئلہ ہے کہ بچے نماز کی صفوں میں کہاں کھڑے ہوں گے اس سلسلے میں حکم یہ ہے کہ اگر صرف ایک بچہ ہے تو وہ مرد حضرات کے ساتھ صفوں میں کھڑا ہوگا اور اگر بچے متعدد ہوں تو بچوں کی صف مرد حضرات کی صف سے پیچھے لگائی جائے گی۔
’’(قولہ: و یصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء)؛ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لیلیني منکم أولو الأحلام والنہي … و لم أر صریحًا حکم ما إذا صلی ومعہ رجل و صبيّ، و إن کان داخلاً تحت قولہ: ’’و الإثنان خلفہ‘‘ و ظاہر حدیث أنس أنہ یسوی بین الرجل و الصبي و یکونان خلفہ؛ فإنہ قال: فصففت أنا و الیتیم ورائہ، و العجوز من ورائنا، و یقتضی أیضًا أن الصبيّ الواحد لایکون منفردًا عن صف الرجال بل یدخل في صفہم، وأن محلّ ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال و جمع من الصبیان فحینئذ تؤخر الصبیان‘‘(۱)
’’عن أنس بن مالک أن جدتہ ملیکۃ دعت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لطعام صنعتہ لہ فأکل منہ ثم قال قوموا فلأصل لکم قال أنس: فقمت إلی حصیر لنا قد اسود من طول ما لبس فنضحتہ بماء فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصففت والیتیم ورائہ والعجوز من ورائنا فصلی لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رکعتین ثم انصرف‘‘(۲)
لیکن اگر بچے شرارتی ہوں اور اندیشہ ہے کہ بچوں کو علا حدہ صف میں کھڑا کرنے کی صورت میں بچے شرارت اورشور کریں گے جس کی وجہ سے بڑوں کی نمازوں میں بھی خلل واقع ہوگا، تو ایسی صورت میں بچوں کے لیے علا حدہ صف لگانے کے بجائے مردوں کی صف میں ہی کھڑا کیا جائے تاکہ بچوں کی شرارت سے دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل واقع نہ ہو۔ مختلف حضرات فقہا نے اس کی صراحت کی ہے کہ شرارت کرنے کی صورت میں بچوں کے لیے علیحدہ صف نہ لگائی جائے؛ بلکہ ان کو اپنی صفوں میں کھڑا کیا جائے۔
’’(قولہ: ذکرہ في البحر بحثًا) قال الرحمتي: ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال، لأنّ المعہود منہم إذا اجتمع صبیّان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض و ربما تعدّی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال، انتہی‘‘(۱)
اگر نابالغ بچے ایک سے زائد ہوں تو ان کی صف مردوں کی صف کے پیچھے ہونی چاہیے یہ حکم بطور استحباب یا بطور سنت ہے بطور وجوب نہیں ہے۔(۲)
عید وغیرہ کے موقع پر جہاں ازدحام زیادہ ہو وہاں پر مردوں کی صف میں بچوں کو کھڑا کر سکتے ہیں بچوں کو پیچھے کرنا ضروری نہیں ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ بچے اگر بڑوں کی صف میں ہوں گے تو بڑوں کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی یہ غلط تصور ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہاں درمیان صف میں کھڑا کرنے میں ممکن ہے کہ بچے کے شرارت کریں اور ادھر ادھر حرکت کرنے کی وجہ سے ساتھ میں پڑھنے والے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہو؛ اس لیے بہتر ہے کہ ایسے بچوں کو مردوں کی صف میں ہی کنارے میں کھڑا کیا جائے۔
(۱) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب المساجد والجماعات، باب مایکرہ في المساجد‘‘: ج۱ ، ص: ۵۴، رقم: ۷۵۰۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۴۱۶۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلوۃ علی الحصیر‘‘: ج۱، ص:۵۵، رقم: ۳۸۰۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۷۱۔
(۲) ’’ثم الترتیب بین الرجال و الصبیان سنۃ لا فرض ہو الصحیح‘‘۔ (إبراہیم بن محمد الحلبي، غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلي: ص: ۴۸۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص424
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز پاک اور صاف جگہ پر پڑھی جائے اگر بیڈ پاک اور صاف ہو، تو اس پرنماز پڑھنا درست ہے، دوسرے یہ کہ جس گدے پر نماز پڑھی جائے وہ ایسا نرم نہ ہو کہ اس پر سر ٹک نہ سکے، اگر گدا ایسا سخت ہے کہ اس پر سجدہ کے وقت سر ٹک جاتا ہے، گد گدا پن نہیں رہتا، تو اس پر نماز درست ہے اور بہتر یہ ہے کہ زمین پر بغیر موٹے گدے کے نماز پڑھیں۔(۱)
(۱) ویفترض السجود علی مایجد الساجد حجمہ بحیث لوبالغ لاتسفل رأسہ أبلغ مما کان حال الوضع … وتستقر علیہ جبہتہ فیصح السجود۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۳۱، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
ولو سجد علی الحشیش أو التبن أو علی القطن أو الطنفسۃ أو الثلج إن استقرت جبہتہ وأنفہ ویجد حجمہ یجوز وأن لم یستقر لا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص337
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز استسقاء باجماعت پڑھنا مستحب ہے اور صاحبین ؒکے نزدیک سنت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نماز باجماعت پڑھنا ثابت ہے؛ اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ امام ایک دن متعین کرے وہاں دو رکعت بغیر اذان واقامت کے پڑھائے، جہراً قرأت کرے، نماز کے بعد دو خطبہ دے، اور خطبہ میں چادر پلٹے پھر قبلہ رو کھڑے ہو کر دعاء مانگے، استسقاء کے لیے تین روز نکلنا مستحب ہے۔
’’فالحاصل أن الأحادیث لما اختلفت في الصلاۃ بالجماعۃ وعدمہا علیٰ وجہ لا یصح بہ إثبات السنیۃ لم یقل أبو حنیفۃ بسنیتہا، ولا یلزم منہا قولہ بأنہا بدعۃ کما نقلہ عنہ بعض المتعصبین، بل ہو قائل بالجواز اھـ۔ قلت : والظاہر أن المراد بہ الندب والاستحباب لقولہ في الہدایۃ۔ قلنا: إنہ فعلہ علیہ السلام مرۃ وترکہ أخری فلم یکن سنۃ اھـ۔ أن السنۃ ما واظب علیہ، والفعل مرۃ مع الترک أخری یفید الندب۔ تأمل۔ قولہ: کالعید أي بأن یصلي بہم رکعتین یجہر فیہما بالقراء ۃ بلا أذان ولا إقامۃ، ثم یخطب بعدہا قائماً علی الأرض معتمداً علیٰ قوس أو سیف أو عصا خطبتین عند محمد وخطبۃ واحدۃ عند أبي یوسف…… خلافاً لمحمد فإنہ یقول: یقلب الإمام ردائہ إذا مضی صدر من خطبتہ‘‘(۱)
’’ویستحب الخروج لہ أي للاستسقاء ثلاثۃ أیام متتابعات‘‘(۲)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء: ج ۳، ص: ۷۰ -۷۱، زکریا، دیوبند۔)
(۲)حسن بن عمار الشرنبلالي، المراقي مع الحاشیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء‘‘: ص: ۵۴۹، دارالکتاب۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص393
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے فیصلہ پر عمل کرنا ضروری ہے اور انتظامیہ کو ہی فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے جس اخلاقی جرم کا سوال میں ذکر ہے اس میں اختلاف ہے صورت حال پورے طور پر واضح نہیں نیز اخلاقی جرم امام صاحب کے بیٹے کا ہے نہ کہ امام صاحب کا اس لیے جن لوگوں نے نماز ان کی اقتداء میں پڑھ لی ان کی نماز درست ہوگئی ہے؛ لیکن اس طرح کے امور سے مسجد کی بدنامی ہے اس لیے منتظمہ کمیٹی نے جو فیصلہ کیا ہے یا کرے گی اس پر عمل کرنا چاہئے امام و مؤذن کو بھی فیصلہ کے قبول کرنے میں تامل نہ ہونا چاہئے۔(۱)
(۱) (لو أم قوما وہم لہ کارہون فہو من ثلاثۃ أوجہ: إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو کانوا أحق بالإمامۃ منہ یکرہ، وإن کان ہو أحق بہا منہم ولا فساد فیہ، ومع ہذا یکرہونہ لایکرہ لہ التقدم لأن الجاہل والفاسق یکرہ العالم والصالح، قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم علماؤکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، وفي روایۃ فلیؤمکم خیارکم۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب بیان الأحق بالإمامۃ‘‘، ج۱، ص: ۱۴۳) …
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص312
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں مسجد کو قطب نما رکھ کر صحیح کرلیا جائے اور دیکھا جائے کہ اگر قطب نما سے زیادہ فرق معلوم ہوتا ہو تو پھر سمت قبلہ کو صحیح کرکے مسجد میں صفیں بچھائی جائیں خواہ وہ صفیں ٹیڑھی ہی ہوجائیں اگر کوئی زیادہ فرق نہ ہو؛ بلکہ یوں ہی معمولی سا فرق ہو تو مسجد کی صفوں کو ٹیڑھی نہ کی جائے بلکہ صفیں سیدھی کرکے بچھائی جائیں۔(۱)
(۱) اتفقوا علی أن القبلۃ في حق من کان عین الکعبۃ فیلزمہ التوجہ إلی عینہا … ومن کان خارجاً من مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ وہو قول عامۃ المشایخ ہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الثالث في شروط الصلوۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۰، زکریا دیوبند)
فمن کان بحضرۃ الکعبۃ یجب علیہ إصابۃ عینہا ومن کان غائباً منہا ففرضہ جہۃ الکعبۃ … وقبلۃ أہل المشرق ہي جہۃ المغرب۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبی کبیری، ’’کتاب الصلوۃ: وأما الشرط الرابع، وہو استقبال القبلۃ‘‘: ص: ۱۹۱، دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص427
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر جوتا پاک ہو تو ایسے جوتے کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ ؓسے جوتا پہن کر نماز پڑھنا ثابت ہے، تاہم مسجد میں جوتے کے ساتھ نماز پڑھنا موجودہ ماحول میں درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد میں فرش نہیں تھا؛ بلکہ مسجد میں سنگ ریزے تھے؛ ا س لیے وہاں پر آپ جوتے میں نماز پڑھتے تھے؛ لیکن آج کل مساجد میں فرش، ٹائلس اور عمدہ قالین بچھی ہوئی ہوتی ہے مسجد میں جوتا لے کر جانے میں مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہے۔ نیز یہ آپسی نزاع کا باعث بن سکتاہے؛ اس لیے کہ عام طورپر لوگ مسجد میں جوتا لے کر داخل نہیں ہوتے؛ بلکہ ہمارے عرف میں مسجد میں جوتا پہن کر جانا اگر چہ جوتا پاک ہو احترام مسجد کے خلاف تصور کیا جاتا ہے اب اگر کوئی ایک آدمی جوتا پہن کر مسجد میں داخل ہوگا تو دوسرے لوگوں کو اعتراض ہوگا اور یہ نزاع کا باعث بنے گا؛ اس لیے مسجد میں جوتا پہن کر نماز نہیں پڑھنی چاہیے؛ ہاں! مسجد کے علاوہ کسی جگہ جوتے پہن کر نماز پڑھنے کی ضرورت ہو تو نماز پڑھ سکتے ہیں۔
’’(قولہ: وصلاتہ فیہما) أي في النعل والخف الطاہرین أفضل؛ مخالفۃً للیہود، تتارخانیۃ۔ وفي الحدیث: صلوا في نعالکم، ولاتشبہوا بالیہود رواہ الطبراني کما في الجامع الصغیر رامزًا لصحتہ۔ وأخذ منہ جمع من الحنابلۃ أنہ سنۃ، ولو کان یمشي بہا في الشوارع؛ لأنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصحبہ کانوا یمشون بہا في طرق المدینۃ ثم یصلون بہا۔ قلت: لکن إذا خشی تلویث فرش المسجد بہا ینبغي عدمہ وإن کانت طاہرۃً۔ و أما المسجد النبوي فقد کان مفروشًا بالحصی في زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بخلافہ في زماننا، ولعل ذلک محمل ما في عمدۃ المفتي من أن دخول المسجد متنعلًا من سوء الأدب تأمل‘‘(۱)
’’فروع: یکرہ اشتمال الصلاۃ علی الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وکل عمل قلیل بلا عذر‘‘(۲)
’’أخبرنا أبو مسلمۃ سعید بن یزید الأزدي، قال: سألت أنس بن مالک: أکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي في نعلیہ؟ قال: ’’نعم‘‘(۱) وقد علمت أن النعال غیر المداس المعروف الآن في بلادنا، والصلاۃ في المداس ربما لا تصح؛ لأن
القدم تبقی فیہا معلّقۃ، ولا تقع علی الأرض، فلا تتم السجدۃ۔ ثم في الشامي: أن الصلاۃ في النعلین مستحبۃ، وفي موضع آخر: أنہا مکروہۃ تنزیہًا۔ قلتُ: بل ہي مباح، وحقیقۃ الأمر عندي: أن موسی علیہ الصلاۃ والسلام لما ذہب إلی الطور {نُوْدِيَ ٰیمُوْسٰیہط ۱۱ إِنِّيْٓ أَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَج} (سورۃ طہ: ۱۱، ۱۲) حملہ الیہود علی النہی مطلقًا، فلم یجوزوا الصلاۃ في النعلین بحال، وغلطوا فیہ فأصلَحہُ الشرع وکشف عن حقیقتہ من أنہا جائزۃ فیہما، وما زعموہ باطل، ولذا ورد في بعض الروایات: خالفوا الیہود فعلم أن الأمر بالصلاۃ فیہما علی ما في بعض الروایات، إنما ہي لأجل تقریر مُخالفتہم، لا لأنہا مطلوبۃ في نفسہا‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: مطلب في أحکام المساجد، فروع: یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار، ج ۲، ص: ۴۲۹
(۲) أیضًا۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في النعال‘‘: ج۱، ص: ۵۶، رقم: ۳۸۶۔
(۲) الکشمیری، فیض الباري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ في النعال‘‘: ج ۲، ص:۳۵، شیخ الہند دیوبند۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص338
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: نفل زائد اور مستحب نماز ہوتی ہے اس کا پڑھنا ضروری نہیں ہے، نفل نماز کا حکم یہ ہے کہ پڑھ لیا جائے تو باعث اجر و ثواب ہے، اور ہماری فرض نمازوں میں جو کمی رہ جاتی ہے یہ نفل ہمارے فرض کے ثواب کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہے؛ اس لیے روزانہ کچھ نہ کچھ نوافل پڑھتے رہنا چاہئے اور اُن کا شوق رکھنا چاہئے؛ جیساکہ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: قیامت کے دن بندے سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہوگی، اگر اس نے نماز مکمل طریقے سے ادا کی ہوگی تو نفل نماز علیحدہ لکھی جائے گی، اور اگر مکمل طریقے سے ادا نہ کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ: دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس نفل نمازیں ہیں، تو ان سے فرض کی کمی کو پورا کرو، پھر باقی اعمال کا بھی اسی طرح حساب ہوگا۔
’’عن تمیم الداري، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ صلاتہ، فإن أکملہا کتبت لہ نافلۃ، فإن لم یکن أکملہا، قال اللّٰہ سبحانہ للملائکتہ: انظروا، ہل تجدون لعبدي من تطوع؟ فأکملوا بہا ما ضیع من فریضتہ، ثم تؤخذ الأعمال علی حسب ذلک‘‘(۱)
مذکورہ حدیث میں نوافل کی واضح اہمیت وافضلیت بیان کی گئی ہے اور اس میں دعوت فکر ہے ایسے حضرات کے لیے جو سنن ونوافل کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ رب العزت کا شکر گزار بندہ بنے اور اپنے رب کے حضور فرض نماز کے علاوہ بھی شکرانے کے طور پر زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو جائے اور دنیا و آخرت کی تمام مشکلات اس کے لیے آسان ہو جائیں۔
نیز آپ نے پوچھا ہے کہ نفل نماز میں لمبی رکعتیں اور تلاوت میں دلچسپی کی بنا پر قرآن کریم دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اس سلسلے میں یاد رکھیں کہ آپ تمام فرض، واجب اور نفل نمازوں میں قرآن کریم کا وہی حصہ تلاوت کریں جو آپ کو زبانی یاد ہے۔ مزید سورتیں اور آیات یاد کرنے کی کوشش کریں۔ اگر نوافل میں طویل تلاوت کا دل چاہ رہا ہو تو ہر رکعت میں وہ تمام آیات اور چھوٹی سورتیں تلاوت کر لیں جو آپ کو یاد ہیں۔
اگر آپ قرآن کریم دیکھ کر تلاوت کریں گے تو آپ کی نماز فاسد ہو جائیگی اس لیے کہ فقہائے احناف کے نزدیک نماز میں مصحف (قرآن کریم) سے دیکھ کر تلاوت کرنا، صفحہ پلٹنا اور رکوع و سجود کے لیے مصحف (قرآن کریم) کو ایک طرف رکھنا عملِ کثیر ہے اور عملِ کثیر سے نماز فاسد جاتی ہے۔ جیسا کہ صاحب ہدایہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’إذا قرأ الإمام من المصحف فسدت صلاتہ، عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وقالا: ہي تامۃ، لأنہا عبادۃ انضافت إلی عبادۃ، إلا أنہ یکرہ، لأنہ یشبہ بصنع أہل الکتاب، ولأبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ أن حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الأوراق عمل کثیر، ولأنہ تلقن من المصحف فصار کما إذا تلقن من غیرہ، وعلی ہذا لا فرق بین المحمول والموضوع، وعلی الأول یفترقان‘‘(۱)
خلاصہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک فرائض ونوافل تمام نمازوں میں قرآن سے دیکھ کر قرات کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک کراہت کے ساتھ نماز ہو جاتی ہے، مگر احناف کا فتویٰ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر ہے۔
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’باب ما جاء في أول ما یحاسب بہ‘‘: ج ۱ ، ص: ۱۰۳ رقم: ۱۴۲۶۔)
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا: ج ۱، ص: ۱۳۷-۱۳۸۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص395