نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر سوال صحیح ہے تو حکم یہ ہے کہ صورت مذکورہ میں زید کی امامت درست نہیں ہے اور اگر کوئی امام نہ ہو یا زبردستی زید کو امام بنا دیا گیا ہے، تو پھر ایسی صورت میں کراہت کے ساتھ زید کی امامت درست ہوگی اور نماز بھی ہو جائے گی، مگر زبردستی امام بنانے والالائق تہدید اور گنہگار ہوگا۔ اور لواطت کی سزا میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے۔ صاحبین اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم کا قول یہ ہے کہ فاعل اگرمحصن (شادی شدہ) ہے، تو اس کو رجم کیا جائے گا ورنہ سو کوڑے مارے جائیں گے اور مفعول بہ کو بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سو کوڑے لگائے جائیں گے اور شہر بدر کیا جائے گا اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ فاعل ومفعول بہ دونوں کو قتل کیا جائے گا، ’’ کما في حدیث عکرمۃ: فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ‘‘(۱) اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول یہ ہے کہ لوطی کو رجم کیا جائے گا، محصن ہو یا غیر محصن ’’کما في روایتہ فارجموا الأعلیٰ والأسفل‘‘(۲) اور سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لوطی پر شرعاً کوئی حد اور سزا متعین نہیں ہے؛ بلکہ امام المسلمین کی صوابدید پر ہے۔ وہ جس قدرمصلحت سمجھے تعزیر جاری کر سکتا ہے؛ پس اسے اختیار ہے کہ وہ لواطت کے عادی ہونے کی صورت میں قتل بھی کرے۔(۳) اور امام صاحب کے قول کی حکمت یہ ہے کہ معاملہ لواطت انسانی؛بلکہ حیوانی طبیعت کے بھی خلاف ہے؛ لہٰذا اس پر قانون حد جاری نہ ہوگا؛ پس زجر وتوبیخ اور مصلحت پر سزا مبنی ہوگی اور یہی مطلب ہے ان تمام اقوال اور احادیث کا جن میں قتل وغیرہ کرنے کا ظاہراً حکم ہے کہ ضرب شدید بھی کبھی موجب قتل ہوتا ہے؛ پس چوںکہ ہمارا مسلک حنفی ہے؛ اس لیے اگر کوئی امام المسلمین ہے تووہ اپنے طور پر مطابق ما حول سزا متعین کرے اور اگر کوئی امام نہیں ہے اور اسلامی ملک نہیں ہے؛ بلکہ دار الحرب ہے، تو صرف زجر وتوبیخ کی جائے گی ملامت کی جائے، اور اس سزا میں فاعل و مفعول دونوں کو شامل کیا جائے گا اور ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی عادت چھوڑ دیں۔(۴)

(۱) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الحدود: باب الوطي الذي یوجب الحد والذي لا یوجبہ‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۶۔
(۲) أیضًا۔
(۳) ومن عکرمہ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ، رواہ الترمذي وابن ماجہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الحدود، الفصل الأول‘‘: ج ۷، ص: ۱۴۷، رقم: ۳۵۷۵، اشرفیہ دیوبند)
(۴) ویکرہ إمامۃ عبد … وفاسق … (قولہ وفاسق) من الفسق۔ وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص150

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد کی چھت پر تنہا یا جماعت سے نماز ادا کی جائے تو شرعاً نماز درست ہوجاتی ہے اور جماعت بھی درست یعنی جائز ہے اس لیے نماز باجماعت کی صحت کے لیے مسجد کے اندر ہونا شرط نہیں ہے۔ مسجد کی چھت پر نماز پڑھنے میں کراہت و عدم کراہت کا مدار اس پر ہے کہ مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ ہے پس ان عبارات کے پیش نظر مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
 شامی میں ہے ’’ثم رأیت القہستانی نقل عن المفید کراہۃ الصعود علی سطح المسجد ویلزمہ کراہۃ الصلاۃ أیضاً فوقہ‘‘(۱)
اور بعض عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ نہیں ہے پس ان عبارات کے پیش نظر مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا بھی مکروہ نہیں ہے در مختار میں ہے ’’وکرہ تحریما الوطئ فوقہ‘‘(۲) اس کی شرح میں علامہ شامی نے لکھا ہے۔ ’’أما الوطؤ فوقہ بالقدم فغیر مکروہ‘‘(۳) علامہ شامیؒ کراہت وعدم کراہت دونوں قول نقل فرماتے ہیں؛ لیکن کراہت کے اس قول پر جو قہستانی سے نقل کیا ہے۔ علامہ شامیؒ  کو اطمینان نہیں ہے؛ اس لیے اس کے بعد فرمایا فلیتأمل کہ یہ قابل غور ہے۔ پس علامہ شامی کا رجحان عدم کراہت ہی کی طرف معلوم ہوتا ہے۔
بہر حال فقہا کی عبارتیں کراہت وعدم کراہت دونوں طرح کی ملتی ہیں جن میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جہاں پر کراہت کی نفی ہے وہاں مراد کراہت تحریمی ہے کہ مسجد کی کہ چھت پرنماز پڑھنا خلاف اولیٰ یعنی مکروہ تنزیہی ہے۔
 البتہ اگر کوئی پریشانی ہو مسجد کے اندر کوئی تعمیری کام ہو رہا ہو جس کی وجہ سے نماز پڑھنے میں سخت دشواری ہو رہی ہو یا شدید گرمی ہو اور دریچوں سے ہوا نہ آتی ہو نیز کوئی مانع شرعی بھی نہ ہو مثلاً مسجد کے اوپر نماز پڑھنے سے قرب وجوار کے مکانوں کی بے پردگی نہ ہوتی ہو تو اس مجبوری کے پیش نظر مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا ‘‘: ج۲، ص:۴۲۸۔
(۲) أیضًا۔

(۳) أیضًا۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص358

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس طرح اقتداء کرنا کہ کوئی شہر میں نماز پڑھائے اور گھر میں اسکائپ کے ذریعہ اقتدا کی جائے یا گھر میں نماز ہو اور مائک لگادیا جائے اور چار پانچ گھروں میں لوگ نماز پڑھ لیں، ایک بلڈنگ میںمائک سے نماز ہو اوربازو کی بلڈنگ میں لوگ اس کی اقتداء میں نماز پڑھیں یا امام حرم کی ٹیلی ویزن پر نشر ہونے والی نماز کی اقتدا کریں یا مسجد میں تراویح ہو اور نیٹ کے ذریعہ لائیو اس کو چلایا جائے اور لوگ گھر میں تراویح پڑھ لیں اقتدا کی یہ سب صورتیں درست نہیں ہیں ان صورتوں میں نماز نہیں ہوگی۔
اس سلسلے میں ضروری ہے کہ اقتداء کے شرائط کو معلوم کرلیا جائے کہ کوئی شخص کسی امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو اقتداء کے صحیح ہونے کے لیے کیا شرائط ہیں ؟ علامہ شامیؒ نے اقتداء کی دس
شرطیں ذکر کی ہیں (۱) مقتدی اقتداء کی نیت کرے کہ میں اس امام کے پیچھے یہ نماز پڑھ رہا ہوں (۲) دونوں کی نماز ایک ہو اگردونوں کی نماز الگ الگ ہوگی مثلا امام ظہر کی نماز پڑھا رہا ہو اور مقتدی عصر کی نیت کرے یا امام نے نفل کی نیت کی اور مقتدی فرض کی نیت کرے تو نماز نہیں ہوگی (۳)مکان متحد ہو (۴) امام کی نماز صحیح ہو ، (۵) عورت ،مرد کے محاذات میں نہ ہو ، (۶) مقتدی امام سے آگے نہ ہو اگر مقتدی امام سے آگے ہوگیا تو مقتدی کی نماز نہیں ہوگی (۷) مقتدی کو امام کے حرکات و انتقالات کا علم ہو(۸) مقتدی کو امام کے مسافر یا مقیم ہونے کا علم ہو (۹) مقتدی امام کے ارکان میں شریک ہواگر امام کسی رکن میں ہو اور مقتدی دوسرے رکن میں ہو تو مقتدی کی نماز درست نہیں ہوگی ، (۱۰)مقتدی امام کے برابر ہو یا اس سے کمتر ہو مثلا اگر تندرست آدمی نے معذور کی اقتداء کی تو نمازدرست نہیں ہوگی یا رکوع سجدہ کرنے والا شخص اگر اشارہ سے نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرے تو اقتداء درست نہ ہوگی۔
’’والصغری ربط صلاۃ المؤتم بالإمام بشروط عشرۃ نیۃ المؤتم الاقتداء واتحاد مکانہما وصلاتہا وصلۃ بإمامۃ وعدم محاذاۃ لإمرأۃ وعدم تقدمہ علیہ بعقبہ وعلمہ بانتقالاتہ وبحالہ من إقامۃ وسفر مشارکۃ في الأرکان وکونہ مثلہ أو دونہ فیہا‘‘(۱)
یہ اقتدا کی شرطیں ہیں ان میں ایک شرط بہت اہم ہے جس کا تفصیلی تذکرہ مسئلے کو حل کرنے میں معاون ہوگا ۔وہ یہ کہ امام اور مقتدی کی جگہ کا ایک ہونا ضروری ہے یہ اتحاد مکان حقیقی ہو یا حکمی ہو ۔مثلا مسجد میں امام ہے اور اسی مسجد میں مقتدی ہے تو یہ اتحاد مکان حقیقی ہے اور نیچے کی منزل میں امام ہے اور اوپر کی منزل میں مقتدی ہے تو یہ اتحادِ مکان حکمی ہے، اقتداء کی یہ صورت درست ہے۔
اتحاد مکان کی شرط، سوائے امام مالک کے تمام ائمہ کے یہاں ضروری ہے ،یہی وجہ ہے کہ مکہ کے ہوٹلوں میں رہ کر کوئی حرم شریف کے امام کی اقتداء کرے تو سوائے امام مالک کے تمام ائمہ کے یہاں نماز درست نہیں ہوگی؛ اس لیے کہ اقتداء، تابع ہونے کا تقاضا کرتا ہے اوراتحاد مکان تابع
ہونے کے لیے لازم ہے جب مکان مختلف ہوگا تو تبعیت ختم ہوجائے گی ، اور تبعیت کے ختم ہونے سے اقتداء ختم ہوجائے گی ۔
احناف کے یہاں اتحاد ِمکان کی تفصیل یہ ہے کہ امام او رمقتدی کے مکان کا مختلف ہونا یہ مفسد نماز ہے، خواہ مقتدی پر امام کی حالت مشتبہ ہو یا نہ ہو ، اسی وجہ سے اگر پیدل چلنے والا سوار شخص کی اقتداء کرے تو نماز درست نہیں ہوگی ، یا دو لوگ الگ الگ سواری میں ہو ں اور ایک دوسرے کی اقتداء کریں تو نماز درست نہیں ہوگی ، اسی طرح امام اور مقتدی کے درمیان میںراستہ ہو جس میں لوگ گزرتے ہوں یا نہر ہو جس میں کشتی چلتی ہو، تو ان تمام صورتوں میں اقتداء درست نہیں ہوگی، اس سلسلے میں ایک دلیل حضرت عمرؓ  کا قول ہے۔
’’من کان بینہ و بین الإمام نہر أو طریق أو صف من النساء فلا صلاۃ لہ‘‘(۱)
مسجد مکان واحد کے حکم میں ہے لہذ۱ اگر دیوار وغیرہ حائل ہو اور امام کے انتقالات کا علم ہورہا ہو تو ااقتداء درست ہے اگر امام کی حالت مشتبہ ہو تو پھر اقتداء درست نہیں ہے ۔اگر مقتدی مسجد کی چھت پر ہو یا مسجد سے متصل مکان کی چھت پرہو اور اس مکان اورمسجد کے درمیان کوئی راستہ وغیرہ حائل نہ ہو تو اقتداء درست ہوجائے گی؛ اس لیے کہ اتحاد مکان حکما موجود ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اقتداء کی شرطوں میں اہم شرط مکان کا متحد ہونا ہے خواہ امام کی حالت کا علم ہو یا علم نہ ہو ، علامہ شامی ؒلکھتے ہیں:
’’فقد تحرر بما تقرر أن اختلاف المکان مانع من صحۃ الاقتداء و لو بلا اشتباہ و لا یصح الاقتداء و إن اتحد المکان ثم رأیت الرحمتي قد قرر ذلک فاغتنم ذلک‘‘(۱)
اس تفصیل کی روشنی میں آن لائن کی تمام صورتیں ناجائز ہیں؛ اس لیے کہ اقتداء کی بنیادی شرط اتحاد مکان مفقود ہے۔
اگر امام مسجد میں نماز پڑھائے او رآواز گھر وں میں آرہی ہو تو اگر گھر مسجد سے متصل ہے اور درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے تو اقتداء درست ہے؛ لیکن اگر درمیان میں کوئی فاصلہ ہو تو پھر اقتداء درست نہیں ہے ، اسی طرح ،ایک گھر میں نماز ہو اور مائک کے ذریعہ دوسرے گھر وں میں اقتداء کی جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے ،اس لیے کہ مکان مختلف ہے۔
 اسکائپ کے ذریعہ اقتداء کرنے میں مذکورہ خرابی کے علاو ہ دوسری بہت سی خرابیاں ہیں، مثلانیٹ میں بعض مرتبہ کنکشن کٹ سکتا ہے اور امام کے انتقال کا علم نہیں ہو پائے گا، اسی طرح اسکائپ میں یا انٹر نیٹ کے ذریعہ جو آواز آئے گی وہ عکس ہوگی، تصویر کے سامنے نماز پڑھنا لازم آئے گا،عام طور پر لائیو میں بھی پہلے تصویر محفوظ ہوتی ہے؛ پھر ٹیلی کاسٹ ہوتی ہے ہم دیکھتے ہیںکہ کوئی پروگرام دو ٹی وی چینل پر لائیو چلتا ہے لیکن دونوںکے درمیان فرق ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لائیوپروگرام پہلے محفوظ ہوتا ہے پھر نشر ہوتاہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ امام رکوع سے واپس آجائے او رلوگ ابھی قیام میں ہی ہوں؛ اس لیے اسکائپ؛ بلکہ آن لائن کی تمام صورتیں ناجائز ہیں اس سے نماز صحیح نہیں ہوگی۔

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۶، مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۱) ابن بطال، شرح صحیح البخاري: ج ۲، ص: ۳۵۱۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص475

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چار مؤذن تھے۔
(۱) حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ (۲) حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ یہ دونوں تو مدینہ منورہ میں اذان دیتے تھے۔
(۳) حضرت سعد القرظ رضی اللہ عنہ مسجد قبا میں اذان دیتے تھے۔
(۴) حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں اذان دیتے تھے۔(۲)

(۲)  أما مؤذنوہ فأربعۃ: اثنان بالمدینۃ: بلال بن رباح، وأمہ حمامۃ، مولی أبي بکر الصدیق، وہو أوّل من أذن لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ولم یؤذن بعدہ لأحد من الخلفاء، إلّا أنَّ عمر لما قدم الشام حین فتحہا أذَّن بلال، فتذکَّر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال أسلم مولی عمر بن الخطاب: فلم أر باکیًا أکثر من یومئذ، وتوفي سنۃ سبع عشرۃ، أو ثمان عشرۃ أو عشرین بداریا بباب کیسان، ولہ بضع وستون سنۃ، وقیل: دفن بحلب، وقیل: بدمشق، وعمرو بن أم مکتوم القرشي الأعمی، وہاجر إلی المدینۃ قبل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وأذَّن لہ علیہ الصلاۃ والسلام بقباء، سعد بن عائد أو ابن عبد الرحمن المعروف بسعد القرظ وبالقرظي، مولی عمَّار، بقی إلی ولایۃ الحجَّاج علی الحجاز، وذلک سنۃ أربع وسبعین، وبمکۃ أبو محذورۃ، واسمہ: أوس الجمحی المکي، أبوہ: معیر بکسر المیم وسکون وفتح التحتانیۃ، مات بمکۃ سنۃ تسع وخمسین، وقیل: تأخَّر بعد ذلک۔ (أبو عبد اللّٰہ بن عبد الباقي، الزرقاني المالکي، شرح الزرقانيؒ، ’’الفصل السابع: في مؤذنیہ وخطبائہ وحدائہ وشعرائہ‘‘: ج ۵، ص: ۷۳، ۷۴(شاملہ)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص122

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: اگر اس کے کفر پر سوائے اقرار کے اور کوئی دلیل نہیں ہے تو اس کو وقت اقرار سے مرتد قرار دیا جائے گا؛ لہٰذا گزشتہ زمانہ میں اس کی اقتداء میں پڑھی گئی نمازیں درست ہیں، ان کی قضاء لازم نہیں۔
’’ولو زعم أنہ کافر لم یقبل منہ لأن الصلاۃ دلیل الإسلام أي دلیل علی أنہ کان مسلما وأنہ کذب بقولہ إنہ صلی بہم وہو کافر، وکان ذلک الکلام منہ ردۃ فیجبر علی الإسلام‘‘(۱)
اوراگر وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے دس سال تک بے وضو نماز پڑھائی اور مقتدی حضرات کو اس کی بات کے صحیح ہونے کا ظن غالب ہے تو ان نمازوں کا اعادہ ضروری ہوگا اور اگر ظن غالب ہو کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے تو اعادہ کی ضرورت نہیں۔
’’(وإذا ظہر حدث إمامہ) أي بشہادۃ الشہود أنہ أحدث وصلی قبل أن یتوضأ أو بإخبارہ عن نفسہ وکان عدلا وإلا ندب کما في النہر عن السراج۔ (قولہ: وکذا کل مفسد في رأي مقتد) أشار إلی أن الحدث لیس بقید؛ فلو قال المصنف کما في النہر: ولو ظہر أن بإمامہ ما یمنع صحۃ الصلاۃ لکان أولی، لیشمل ما لو أخل بشرط أو رکن، وإلی أن العبرۃ برأي المقتدي حتی لو علم من إمامہ ما یعتقد أنہ مانع والإمام خلافہ أعاد، وفي عکسہ لا إذا کان الإمام لا یعلم ذلک: (بطلت فیلزم إعادتہا) لتضمنہا صلاۃ المؤتم صحۃ وفسادا (کما یلزم الإمام إخبار القوم إذا أمہم وہو محدث أو جنب)(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الموضع التي تفسد صلاۃ الإمام دون المؤتم‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الموضع التي تفسد صلاۃ الإمام دون المؤتم‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص254

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز اس صورت میں درست ہوگئی ہے سجدہ سہو یا اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ تسبیحات کو الگ الگ مواقع پر پڑھنا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔(۱)

(۱) سننہا رفع الیدین للتحریمۃ … وتکبیر الرکوع وتسبیحہ ثلاثا وأخذ رکبتیہ بیدیہ وتفریج أصابعہ وتکبیر السجود والرفع وکذا الرفع نفسہ وتسبیحہ ثلاثا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
کذا في الدر المختار للحصکفي مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ خلف الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۷۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص401

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اور مغرب کی تیسری رکعت اور چار رکعت والی نماز کی اخیر کی دو رکعتوں میں فاتحہ پڑھنا سنت ہے، ہر رکعت مستقل نماز ہے اس لیے تکرار لازم نہیں آتا ہے۔
’’وتسن قراء ۃ الفاتحۃ فیما بعد الأولیین یشمل الثلاثي والرباعي‘‘(۱)
’’واکتفی المفترض فیما بعد الأولیین بالفاتحۃ فإنہا سنۃ علی الظاہر‘‘(۲)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ، …فصل في بیان سننھا‘‘: ص: ۲۷۰۔
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب مہم في عقد الأصابع عند التشہد‘‘: ج۲، ص:۲۲۱، زکریا۔
أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقرأ في الظہر في الأولیین بأم الکتاب۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب : یقرأ في الأخریین بفاتحۃ الکتاب‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷، رقم:۷۷۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص199

نماز / جمعہ و عیدین
clikc the below link https://dud.edu.in/darulifta/?qa=3893/%D9%88%D8%A8%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DB%81-%D8%A7%D8%B9%D8%AA%D8%A8%D8%A7%D8%B1-%DA%A9%DB%8C%D9%88%D9%86%DA%A9%DB%81-%DA%A9%D8%B1%D8%B3%DA%A9%D8%AA%D8%A7-%D8%B1%DB%81%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%85%D9%82%D8%AA%D8%AF%DB%8C%D9%88%DA%BA-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%AC%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DA%A9%DA%BE%D9%86%DA%88&show=3893#q3893

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجد میں قرآن پاک کی تلاوت اور دیگر اوراد وظائف اس قدر بلند آواز سے پڑھنا کہ دوسروں کی نماز میں خلل واقع ہو جائے اور ان کو ناگوار معلوم ہو جس کی وجہ سے ان کی نماز یں صحیح ادا نہ ہوسکیں جائز نہیں ہے؛ بلکہ یہ سب مذکورہ اوراد ووظائف بالکل آہستہ پڑھیں البتہ اگر مسجد میں نمازی نہ ہوں، تو ذکر جہری کی بھی گنجائش ہے۔ (۲)

(۲) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ: أن رفع الصوت بالذکر حین ینصرف الناس من المکتوبۃ کان علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ کنت أعلم إذا انصرفوا بذلک إذا سمعتہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، رقم: ۸۴۱)
الباب الأول في حکم الجہر بالذکر إعلم أنہم اختلفوا في ذلک فجوزہ بعضہم وکرہہ بعضہم الخ۔ (سیاحۃ الفکر في الجہر بالذکر: ص: ۴۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص363

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا شخص گنہگار ہے، امامت کے لائق نہیں اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، دوسرے شخص کو امام بنانا چاہیے جو دین دار پرہیز گار اور باشرع ہو وہی امامت کے لائق ہے۔(۱)

(۱) ولذا کرہ إمامہ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ لإمامۃ، وإذا تعذر منعہ ینتقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا وإن لم یقم الجمعۃ إلا ہو تصلي معہ۔ (أحمد بن محمد،حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
ولوصلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لا ینال مثل ما ینال خلف تقي، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص152