نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس مسجد میں نماز باجماعت ہوتی ہے امام ،مؤذن وغیرہ مقرر ہیں اور جماعت وقت پر ہوتی ہے اس مسجد میں جماعت ہو جانے کے بعد مسجد یا چھت پر دوسری جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) کرہ تحریما (الوطء فوقہ، والبول والتغوط) لأنہ مسجد إلی عنان السماء۔ (قولہ الوطء فوقہ) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقہ بالقدم فغیر مکروہ إلا في الکعبۃ لغیر عذر، لقولہم بکراہۃ الصلاۃ فوقہا۔ ثم رأیت القہستاني نقل عن المفید، کراہۃ الصعود علی سطح المسجد اہـ۔ ویلزمہ کراہۃ الصلاۃ أیضا فوقہ فلیتأمل (قولہ لأنہ مسجد) علۃ لکراہۃ ما ذکر فوقہ. قال الزیلعی: ولہذا یصح اقتداء من علی سطح المسجد بمن فیہ إذا لم یتقدم علی الإمام۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج۲، ص: ۴۲۸)
الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ، ولہذا إذا اشتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ، کذا فی الغرائب۔ (أیضاً)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 482

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان کا جواب دینا مستحب ہے اور اذان کے وقت قرآن کی تلاوت موقوف کر کے اذان کا جواب دینا کتب فقہ میں افضل لکھا ہے؛ کیوںکہ اذان کے بعدتلاوت قرآن پاک دوبارہ ہوسکتی ہے؛ لیکن اذان ہوجانے کی صورت میں جواب دینے کا موقع پھر دوبارہ نہیں ملے گا۔ صاحب مراقی الفلاح نے لکھا ہے کہ تلاوت موقوف کرکے اذان کا جواب دینا ہی بہتر او ر  افضل طریقہ ہے۔
’’أمسک حتی عن التلاوۃ لیجیب المؤذن ولو في المسجد وہو أفضل‘‘(۱)
فتاوی عالمگیری میں لکھا ہے:
’’ولو کان في القراء ۃ ینبغي أن یقطع ویشتغل بالاستماع والإجابۃ کذا فی البدائع‘‘(۲)
در مختار میں ہے:
’’من سمع الأذان بأن یقول بلسانہ کمقالتہ … فیقطع قراء ۃ القرآن لو کان یقرأ بمنزلہ ویجیب لو أذان مسجدہ … قال في الفتح أي مؤذن یجیب باللسان استحبابا أووجوبا والذي ینبغي إجابۃ الأول سواء کان مؤذن مسجدہ أو غیرہ‘‘(۳)
خلاصہ: مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اذان کے وقت تلاوت قرآن کریم کو موقوف کر کے اذان کا جواب دینا افضل ہے، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری اور درمختار وغیرہ میں تفصیل سے مذکور ہے۔

(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۷۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘، الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ و کیفیتھما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴۔
(۳) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب: في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۶۵-۶۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص130

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر غالب گمان مذی یا ودی ہونے کا تھا تو اس کو مذی یا ودی کا حکم دیا جائے اور نماز واجب الاعادہ نہ ہوگی لیکن یہ یاد رہے کہ مذی و احتلام کے لیے خواب آنا ضروری نہیں ہے۔(۲)

(۲) ولا عند مذي أو ودي بل الوضوء منہ ومن البول جمیعاً علی الظاہر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في رطوبۃ الفرج‘‘: ج۱، ص: ۳۰۴، مکتبہ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص260

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں جب کہ متنفل مفترض کہ پیچھے نماز میں شامل ہوگیا، تو وہ بھی مثل دوسرے مقتدیوں کے ہوگیا اور اس کی شمولیت متحقق ہونے کی وجہ سے مثل دوسرے مقتدیوں کے اس کو لقمہ دینا جائز ہوگیا اس طرح لقمہ دینے سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی۔(۳)
(۳) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ قالوا: ہذا إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح أنہا لاتفسد صلاۃ الفاتح بکل حال۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ، و ما یکرہ فیھا‘‘ ج۱، ص:۱۵۷)
بخلاف فتحہ علی إمامہ فإنہ لایفسد مطلقاً لفاتح وآخذ بکل حال۔ قولہ: بکل حال أي سواء قرأ الإمام قدر ماتجوز بہ الصلاۃ أم لا، انتقل إلی آیۃ أخری أم لا، تکرر الفتح أم لا، ہو الأصح۔ (الحصکفي ، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۲
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص88

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) اس میں کوئی حرج و مضائقہ نہیں ہے۔
(۲) اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں بلا کراہت درست ہے۔(۱)

(۱) وإطالۃ القرائۃ في الرکعۃ الأولیٰ علی الثانیۃ من الفجر مسنونۃ بالإجماع، وقال محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: أحبُّ إليَّ أن یطول الرکعۃ الأولی علی الثانیۃ في الصلوات کلہا وعلیہ الفتویٰ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵)
وتطال أولی الفجر علی ثانیتہا بقدر الثلث، وقیل النصف ندباً؛ فلو فحش لابأس بہ (فقط) وقال محمد: ولی الکل حتی التراویح، قیل وعلیہ الفتویٰ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۲، ۲۶۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص208

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد کی مقررہ جماعت چھوٹ جانے کے بعد مسجد کے برابر والی خارج از مسجد سہ دری میں اتفاقاً دوسری جماعت کرنابلاشبہ جائز ہے؛ البتہ دوسری جماعت کا ثواب پہلی جماعت سے کم ہوگا؛ لیکن جماعت کا ثواب ضرور ملے گا۔(۱)

(۱) لو دخل جماعۃ المسجد بعد ما صلی فیہ أہلہ یصلون وحداناً وہو ظاہر الروایۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار،’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۸۹)
قال قاضی خان في شرح الجامع الصغیر: رجل دخل مسجدا قد صلی فیہ أہلہ فإنہ یصلي بغیر أذان وإقامۃ  وہکذا روي عن أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إنہم إذا فاتتہم الجماعۃ صلوا وحداناً وعن أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالیٰ إنما یکرہ تکرار الجماعۃ إذا أکثر القوم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج ۵،ص: ۳۱۹)
ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ، وإذا علموا أنہا لا تفوتہم یتأخرون فتقل الجماعۃ وتقلیل الجماعۃ مکروہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ‘‘ : ج ۱، ص: ۳۸۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 483

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: افضل اور بہتر تو یہی ہے کہ بلا ضرورت آلۂ مکبر الصوت استعمال نہ کریں؛ لیکن اگر واقعی ضرورت ہو، مسجد بھی بڑی ہو اور محلہ بھی بڑا ہو نمازی بھی زیادہ ہوں اور مکبروں کے تکبیر کہنے میں تکلیف ہوتی ہو یا اس کا انتظام نہ ہو سکتا ہو تو اس صورت میں اس کے استعمال سے نماز میں کوئی نقص نہیں آئے گا۔(۱)

(۱) وینبغي أن یؤذن علی المئذنۃ أو خارج المسجد، ولا یؤذن في المسجد … والسنۃ أن یؤذن في موضع عالٍ یکون أسمع بجیرانہ ویرفع صوتہ ولا یجہد نفسہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الثاني: في کلمات الأذان … والإقامۃ وکیفیتہما،ج ۱، ص: ۱۱۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ولأن الأوقات إعلام في حق الخواص والأذان إعلام في حق العوام۔ (أحمد بن محمد،  حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:الباب الثاني: في الأذان‘‘: ص: ۱۹۱، ۱۹۲، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
أنہ یجب یعني یلزم الجہر بالأذان لإعلام الناس۔ فلو أذن لنفسہ خافت لأنہ الأصل في الشرع کما في کشف المنار۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الجوق‘‘: ج۱، ص: ۳۹۰)۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص131

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: انڈرویر اگر پاک ہے، تو وہ بھی ایک کپڑا ہے جس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نماز درست ہے، ’’تطہیر النجاسۃ من بدن المصلي وثوبہ والمکان الذي یصلي علیہ واجب‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث: في شروط الصلوٰۃ، الفصل الأول في الطہارۃ وستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴۔
یجب أي یفرض علی المصلي أن یزیل النجاسۃ المائعۃ عن بدنہ وثوبہ والمکان الذي یصلي فیہ۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي: ص: ۱۵۵، دار الکتاب)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص261

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ہونے نہ ہونے کے بارے میں شبہ نہ کریں؛ بلکہ اگر شرعی اصول کے ساتھ آپ نے نماز پڑھ لی تو اب یقین کریں کہ نماز صحیح ہوگئی اس کے قبول ہونے کا بھی آپ یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ نے میری نماز قبول فرمائی ہے۔(۱)
(۱) القاعدۃ الثالثۃ: الیقین لایزول بالشک ودلیلہا مارواہ مسلم عن أبی ہریرۃ مرفوعاً: إذا وجد أحدکم في بطنہ شیئاً فأشکل علیہ أخرج منہ شيء أم لا فلا یخرجن من المسجد حتی یسمع صوتاً أو یجدریحا۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر،ص: ۱۸۴، دارالکتاب دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص89

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں زبان سے قرأت فرض ہے اور ہونٹ ہلائے بغیر قرأت نہیں ہوتی اس لئے مذکورہ شخص کی نماز نہیں ہوئی، صرف دل میں قرأت کرنا کافی نہیں۔
’’وأدنی الجہر إسماع غیرہ وأدنی المخافتۃ إسماع نفسہ، قال الشامي: فشرط الہند واني والفضلي لوجودہا:خروج صوت یصل إلی أذنہ … ولم یشترط الکرخي وأبوبکر البلخي السماع، واکتفیا بتصحیح الحروف … وذکر أن کلا من قولي الہند واني والکرخي مصححان، وأن ما قالہ الہندواني أصح‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في الکلام علی الجہر والمخافتۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۲، ۲۵۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص209