Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/1093
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں نماز درست ہے، لیکن اگر فاصلہ دو صفوں کے بقدر یا زائد ہے تو اقتداء درست نہیں ہوگی۔
والمانع فی الصلوۃ فاصل یسع فیہ صفین علی المفتی بہ۔ (مراقی الفلاح ۲۹۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1527/43-1032
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز شروع کرنے سے قبل نیت کرنا شرائط نماز میں سے ہے۔ اس لئے تشہد پڑھنے کے بعد صرف ایک رکعت وتر کی نیت سے ملانے سے وتر کی تین رکعتیں شمار نہیں ہونگی۔ اگر تشہد پڑھ کر وتر کی نیت کرکے کھڑا ہوا، اور تکبیر تحریمہ کے ساتھ تین رکعت وترکی پڑھی تو یہ وتر کی نماز درست ہوگئی۔ اور جو نماز تہجد پڑھ رہاتھا جس کا واجب سلام نہیں پھیرا، اس کی قضاء کرے۔ آپ کی پیش کردہ صورت میں وتر کی ایک ہی رکعت ہورہی ہے جبکہ وتر کی تین رکعتیں واجب ہیں، اور جو رکعتیں سنت کی نیت سے پڑھی گئیں وہ وتر میں تبدیل نہیں ہوسکتی ہیں۔ اس لئے وتر دوبارہ ادا کریں۔ یہی حکم دو رکعت ، چار رکعت اور چھ رکعت کا بھی ہے۔
قوله: ولاتبطل بنية القطع) وكذا بنية الانتقال إلى غيرها ط (قوله: ما لم يكبر بنية مغايرة) بأن يكبر ناوياً النفل بعد شروع الفرض وعكسه، أو الفائتة بعد الوقتية وعكسه، أو الاقتداء بعد الانفراد وعكسه. وأما إذا كبر بنية موافقة كأن نوى الظهر بعد ركعة الظهر من غير تلفظ بالنية فإن النية الأولى لاتبطل ويبني عليها. ولو بنى على الثانية فسدت الصلاة ط (قوله: الصوم) ونحوه الاعتكاف، ولكن الأولى عدم الاشتغال بغير ما هو فيه ( شامی 1/441)
(قوله فيجوز بناء النفل على النفل) تفريع على كون التحريمة شرطا، لكن كونها شرطا يقتضي صحة بناء أي صلاة على تحريمة أي صلاة، كما يجوز بناء أي صلاة على طهارة أي صلاة، وكذا بقية الشروط، لكن منعنا بناء الفرض على غيره، لا لأن التحريمة ركن، بل لأن المطلوب في الفرض تعيينه وتمييزه عن غيره بأخص أوصافه وجميع أفعاله وأن يكون عبادة على حدة، ولو بني على غيره لكان مع ذلك الغير عبادة واحدة كما في بناء النفل على النفل. (شامی، مطلب قد یطلق الفرض علی ما یقابل الرکن 1/442)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ تو ایمان کی کمزوری کی بات ہے؛ بلکہ امام کو جماعت میں اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ اسی کے ذریعہ سے میری نماز باجماعت ادا ہوجاتی ہے۔ اور مقتدیوں کو امام کا مشکور ہونا چاہئے کہ اس کی وجہ سے جماعت کا ثواب مل جاتا ہے۔ امام کا منصب یہ ہے کہ بھلائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے، امام کے اس کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی کسی کو اس پر ناگواری ہونی چاہئے کہ امام روزی سمجھ کر حق لینے سے روک دیا جائے۔(۱)
(۱) قال ابن عباس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحق ما أخذتم علیہ أجراً کتاب اللّٰہ وقال الشعبي لا یشترط المعلم إلا أن یعطي شیئاً فیقلبہ، وقال الحکم: لم أسمع أحداً کرہ أجر المعلم وأعطی الحسن عشرۃ دراہم ولم یر ابن سیرین بأجر القسام بأسا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإجارۃ، باب ما یعطی في الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتاب الخ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۴، نعیمیہ دیوبند)
قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم علماء کم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، وفي روایۃ فلیؤمکم خیارکم۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۱، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص314
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت اسلامیہ نے نماز کے آداب میں سر کا ڈھانپنا بتلایا ہے جو پاک چیز کے ذریعہ ہونا چاہئے خواہ کپڑا ہو یا کپڑے جیسی کوئی اور چیز ہو، جس سے سر کے ڈھانپنے کا مقصد پورا ہوتا ہو پس مذکورہ ٹوپی جو پلاسٹک کی ہوتی ہے اور ایسے ہی باریک لکڑی کے چھلکے (بیت کی بنی ہوئی ٹوپی) اس سے چوں کہ سر ڈھانپنے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے، اس لیے اس کو اوڑھ کر نماز پڑھنا صحیح اور درست ہے، بشرطیکہ پاک بھی ہو؛ البتہ عام طور پر پلاسٹک کی ٹوپیاں اچھی نہیں سمجھی جاتیں، لوگ ایسی ٹوپیاں پہن کر شریف اور معزز لوگوں کی مجلس میں جانا پسند نہیں کرتے اور عام حالات میں بھی یہ ٹوپیاں نہیں پہنتے، اس لیے ایسی ٹوپیاں پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے۔
’’وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا وإلا لا‘‘(۱)
’’قال في البحر وفسرہا في شرح الوقایۃ بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر والظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ‘‘(۲)
’’ورأي عمر رجلاً فعل ذلک، فقال: أرأیت لو کنت أرسلتک إلی بعض الناس أکنت تمر في ثیابک ہذہ، فقال: لا، فقال عمر: أللّٰہ أحق أن تتزین لہ‘‘(۳)
اور یہ ہی حکم پلاسٹک کی چٹائی کا ہے کہ اس سے بھی مقصد پورا ہوتا ہے؛ لہٰذا اس کا استعمال بھی بلا شبہ جائز اور درست ہے۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۷، زکریا۔
(۲) أیضًا:۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۵۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص429
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سجدہ میں اس طرح پیر اٹھانا برا ہے، لیکن اگر سجدے میں پیروں کی انگلیاں تھوڑی دیر کے لیے بھی زمین پر رکھی گئیں، تو سجدہ ادا ہو جائے گا۔(۱)
(۱) ولو سجد ولم یضع قدمیہ علی الأرض لا یجوز ولو وضع إحداہما جاز مع الکراہۃ إن کان بغیر عذر: کذا في شرح منیۃ المصلي لابن أمیر الحاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸، مکتبہ زکریا دیوبند)
وأما وضع القدم علی الأرض في الصلوٰۃ حال السجدۃ ففرض فلو وضع إحداہما دون الأخریٰ تجوز صلاتہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۳۰، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
لأن أصبع واحدۃ منہما یکفی کما ذکرہ بعد، وأفاد أنہ لو لم یضع شیئاً من القدمین لم یصح السجود۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ: بحث الرکوع والسجود ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۵، مکتبہ زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص342
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو لوگ اصل صف میں ہیں اور مسجد میں جو لوگ پہلے سے صف لگاکر بیٹھے ہوتے ہیں وہی پہلی صف کے ثواب کے مستحق ہیں اور جنہوں نے اس صف سے بھی آگے صف بنالی بعید نہیں کہ اللہ انہیں بھی صف اول کا ثواب دیدیں۔
صف میں جگہ نہ ہونے کے باوجود صف میں گھس کر نماز پڑھنا اور لوگوں کو پریشان کرنا درست نہیں ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔(۱)
(۱) قولہ: وخیر صفوف الرجال أولہا: لأنہ روي في الأخبار أن اللّٰہ تعالٰی إذا أنزل الرحمۃ علی الجماعۃ ینزلہا أولاً علی الإمام، ثم تتجاوز عنہ إلی من بحذائہ في الصف الأول، ثم إلی المیامن، ثم إلی المیاسر، ثم إلی الصف الثاني، وتمامہ في البحر: (تنبیہ) قال في المعراج: الأفضل أن یقف في الصف الآخر إذا خاف إیذاء أحد، قال علیہ الصلاۃ والسلام: من ترک الصف الأول مخافۃ أن یؤذي مسلما أضعف لہ…أجر الصف الأول، وبہ أخذ أبوحنیفۃ ومحمد، وفي کراہۃ ترک الصف الأول مع إمکانہ خلاف۔ أي لو ترکہ مع عدم خوف الإیذاء، وہذا لو قبل الشروع؛ فلو شرعوا وفي الصف الأول فرجۃ لہ خرق الصفوف کما یأتي قریبا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أوأفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص430
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بھول کر سجدہ چھوٹ گیا تھا پھردوسری رکعت میں وہ سجدہ کرلیا اور سجدۂ سہو بھی کیا تو نماز درست ہوگئی۔(۱)
(۱) حتی لونسي سجدۃ من الأولیٰ قضاہا ولو بعد السلام قبل الکلام لکنہ یتشہد ثم یسجد للسہو ثم یتشہد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب: کل شفع من النفل صلاۃ، ج۲، ص: ۱۵۶، زکریا دیوبند)
ومنہا رعایۃ الترتیب في فعل مکروہ فلو ترک سجدۃ من رکعۃ فتذکرہا في أخر الصلوٰۃ سجدہا وسجد للسہو لترک الترتیب فیہ ولیس علیہ إعادۃ ما قبلہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر في سجود السہو، واجبات الصلاۃ أنواع، ومنہا: تعیین القرأۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص336
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2497/3804
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) سفر وحضر ہر حالت میں فرض نمازوں کوان کے مقررہ اوقات میں پڑھنا ضروری ہے، ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔البتہ ایامِ حج میں نو ذی الحج کو عرفہ میں (ظہر کے وقت میں) ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھنا اور غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ میں پہنچ کر مغرب اورعشاء کی نماز (عشاء کے وقت میں) جمع کرکے پڑھنا حضور ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے، اس کے علاوہ کسی بھی موقع پرجمع بین الصلوتین ثابت نہیں ہے، اور اگر کسی نے ایک وقت میں دو نمازیں پڑھیں تو نماز بھی درست نہ ہوگی۔ حدیث میں ہے: من جمع بین الصلوتین من غیرعذر فقد اتی بابا من ابواب الکبائر (سنن الترمذی ، باب ما جاء فی الجمع بین الصلوتین فی الحضر 188) ۔ اور جن حدیثوں میں جمع بین الصلاتین کا ذکر ہے ان سے جمع صوری مراد ہے یعنی اگر سفر میں دونمازوں کو صورتا جمع کیاجائے کہ ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں ، اوراگلی نماز کو اس کے ابتدائی وقت میں ادا کیا جائے تو اس کی اجازت ہے۔ البتہ ایسا کرسکتے ہیں کہ ٹرین یا ہوائی جہاز کے سفر میں بیٹھے بیٹھے نماز اداکریں، اور پھر منزل پر پہونچنے کے بعدان کی قضا کرلیں ، اور جو نمازیں آپ نے وقت سے پہلے اداکرلی ہیں ان کی بھی قضا کرلیں۔
(2) حالت احرام میں کسی بھی ایسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے، جس پر خوشبو لگی ہوئی ہو؛ اس لیے ملتزم پر اگر خوشبو لگائی گئی ہو تو احتیاط کرنا چاہئے؛ ورنہ حسب شرائط جزا واجب ہوجائے گی۔ زیادہ خوشبو لگنے کی صورت میں دم لازم آئے گا اور معمولی خوشبو لگنے کی صورت میں دم تو لازم نہیں آئے گا، البتہ صدقہ فطر (یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت) کے برابر صدقہ کرنا واجب ہوگا۔
قال اللہ تعالٰی :إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (النساء:103)
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةً قَطُّ إِلَّا لِوَقْتِهَا، إِلَّا أَنَّهُ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِعَرَفَةَ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ».(مصنف عبد الرزاق،باب من نسي صلاة الحضر والجمع بين ۔۔۔ج2ص551)
قال: "ولا يجمع بين صلاتين في وقت إحداهما في حضر ولا في سفر" ما خلا عرفة ومزدلفة۔(المسوط للسرخسي ،كتاب الصلاة،ج1ص272)
والتطیب وان لم یقصدہ (الدر المحتار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳: ۴۹۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
' فإذا استعمل الطيب فإن كان كثيراً فاحشاً ففيه الدم، وإن كان قليلاً ففيه الصدقة ۔ كذا في المحيط. واختلف المشايخ في الحد الفاصل بين القليل والكثير، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكبير، والشيخ الإمام أبو جعفر اعتبر القلة والكثرة في نفس الطيب إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره الناس ككفين من ماء الورد، وكف من الغالية والمسك، بقدر ما استكثره الناس فهو كثير، وما لا فلا۔ (الفتاوى الهندية (1/ 240)
' وقال في المحرم: إذا مس الطيب أو استلم الحجر فأصاب يده خلوق، إن كان ما أصابه كثير فعليه الدم، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، فقالوا: إذا طيب الساق أو الفخذ بكماله يلزمه الدم، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكثير (المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 453)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عموماً جس شخص کو امام مقرر کیا جائے امامت مسجد کے متعلق امور اس کے ذمہ ہوتے ہیں، اس لیے تراویح میں قرآن سنانے کا مستحق بھی وہی ہے الا یہ کہ امام خود ہی اجازت دیدے یا جس وقت امام کو مقرر کیا جائے تبھی وضاحت ہو جائے کہ آپ صرف فرض نمازوں کی امامت کریں گے تراویح کے لیے متولی یا ذمہ دار حضرات جس کو مناسب سمجھیں گے مقرر کریں گے، تو پھر اختیار ہوگا کہ متولی جس کو چاہئے تراویح کے لیے مقرر کردے یا اہل محلہ مقرر کریں پس مسئولہ صورت میں زید کا یہ کہنا کہ میرا قدیمی حق ہے کوئی دلیل جواز نہیں ہے۔(۱)
(۱) دخل المسجد من ہو أولی بالإمامۃ في أہل محلۃ فإمام المحلۃ أولی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص:۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص98
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر صورت تو یہ ہے کہ بالغ حضرات جماعت کے وقت سے پہلے مسجد میں پہونچ جائیں اور اگر بالغ حضرات کو تاخیر ہوجائے اور جماعت کھڑی ہوجائے اور نابالغ بچے آگے صف میں کھڑے ہوگئے ہوں تو بعد میں آنے والے بچوں کو پیچھے کی صف میں کردیں اور خود آگے والی صف میں کھڑے ہوجائیں۔(۲)
(۲) قولہ ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لیلیني منکم أولو الأحلام والنہي … ویقتضی أیضا أن الصبي الواحد لا یکون منفردا عن صف الرجال بل یدخل في صفہم وأن محل ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال وجمع من الصبیان فحینئذ تؤخر الصبیان۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۷۴)
قال الرحمتي ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض وربما تعدی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال۔ (تقریرات الرافعي: ج۱، ص: ۷۳)
ثم الترتیب بین الرجال والصبیان سنۃ، لا فرض۔ ہو الصحیح، (غنیۃ المستملي: ص: ۴۸۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص431