Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں فرائض میں دو سورتوں کے درمیان ایک چھوٹی سورت کو اگر قصداً اور جان بوجھ کر چھوڑ دیا گیا ہو تو یہ مکروہ ہے اور اگر بھول سے دو سورتوں کے درمیان ایک چھوٹی سورت چھوٹ گئی تو نماز میں کوئی کراہت لازم نہیں آتی ہے، ایسے ہی پہلی رکعت میں تلاوت کے بعد اتنی مقدار والی آیت جو ایک چھوٹی سورت کے بقدر ہو اس کو چھوڑنا بھی مکروہ ہے البتہ بڑی سورت یا ایک بڑی آیت جو چھوٹی سورت سے بڑی ہو کو چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نماز میں کوئی کراہت بھی لازم نہیں آتی ہے، نیز درمیان میں دو سورتیں اگرچہ چھوٹی ہوں اس کو چھوڑنے کی صورت میں کراہت لازم نہیں آتی ہے۔
’’یکرہ فصلہ بسورۃ بین سورتین قرأہما في رکعتین لما فیہ من شبہۃ التفضیل والہجر وقال بعضہم لایکرہ الخ‘‘(۱)
’’(قولہ: ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ) أما بسورۃ طویلۃ بحیث یلزم منہ إطالۃ الرکعۃ الثانیۃ إطالۃ کثیرۃ فلایکرہ۔ شرح المنیۃ: کما إذا کانت سورتان قصیرتان، وہذا لو في رکعتین‘‘(۲)
’’(ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ) أما بسورۃ طویلۃ بحیث یلزم منہ إطالۃ الرکعۃ الثانیۃ إطالۃ کثیرۃ فلا یکرہ۔ شرح المنیۃ کما إذا کانت سورتان قصیرتان‘‘(۳)
’’وأما في رکعتین إن کان بینہما سور لا یکرہ، وإن کان بینہما سورۃ واحدۃ قال بعضہم: یکرہ، وقال بعضہم: إن کانت السورۃ طویلۃ لا یکرہ۔ ہکذا في المحیط … وإذا قرأ في رکعۃ سورۃ وفي الرکعۃ الأخری أو في تلک الرکعۃ سورۃ فوق تلک السورۃ، یکرہ … ہذا کلہ في الفرائض وأما في السنن فلا یکرہ‘‘(۴)
(۱) حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في مکروہات الصلاۃ‘‘: ص: ۳۵۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فروع في القراء ۃ خارج الصلاۃ، مطلب الاستمتاع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج۲، ص:۲۶۹، زکریا۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹۔
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱،ص: ۱۳۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص200
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1635/43-1212
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت کو غسل دینے کے بعد اگر کوئی نجاست نکلے تو اس کو صاف کردینا چاہئے، دوبارہ غسل کی ضرورت نہیں ہے۔ اور کفن دینے کے بعد نکلنے والی نجاست کا اعتبار نہیں ہے۔ دوبارہ غسل دینے اور کفن بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تجہیز و تکفین میں آسانی رکھی گئی ہے، اگر دوبارہ غسل و تکفین کا مکلف بنایاگیا تو حرج لازم آئے گا۔ اس لئے میت کو اسی کفن میں دفن کردیا جائے۔
اذا تنجس الکفن بنجاسۃ المیت لایضر دفعا للحرج بخلاف الکفن المتنجس ابتداء ۱ھ وکذا لو تنجس بدنہ بما خرج منہ ان کان قبل ان یکفن غسل و بعد ہ لا ۔ (شامی، کتاب الصلوۃ، باب صلوٰۃ الجنازۃ 2/208) ويشترط طهارة الكفن إلا إذا شق ذلك لما في الخزانة أنه أن تنجس الكفن بنجاسة الميت لا يضر دفعا للحرج بخلاف الكفن المتنجس ابتداء اهـ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، فصل الصلوۃ علیہ 11/582)
وفي المضمرات عن الخزانة إذا كفن في كفن نجس لا تجوز الصلاة عليه بخلاف ما لو نجس بنجاسة الميت لأن فيه ضرورة وبلوى ولا كذلك الكفن النجس ابتداء اه (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، باب احکام الجنائز 1/569)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 803/41-000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز میں قیام، رکوع، سجدہ فرض ہے۔ بلاکسی شدید عذر کے ان کا ترک ناجائز ہے اور نماز ادا نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اگر قیام متعذر ہو اور بیٹھ کر رکوع ، سجدہ سے نماز پڑھ سکتا ہو تو زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے، کرسی پر نماز ادا نہیں ہوگی۔ لیکن اگر رکوع ، سجدہ پر بھی قدرت نہ ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ۔ پوری نماز میں کرسی کے پچھلے پائے دیگر نمازیوں کی ایڑی کے برابر رکھے جائیں گے۔
المشقۃ تجلب التیسیر (الاشباہ والنظائر 1/75) ۔
علامہ شامی لکھتے ہیں : اراد بالتعذر التعذر الحقیقی بحیث لوقام سقط او الحکمی بان خاف زیادتہ او بطء برئہ بقیامہ او دوران راسہ او وجد لقیامہ الما شدیدا صلی قاعدا۔ (درمختار وردالمحتار 2/9)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا ظلم ہے، مذکورہ شخص فاسق ہے اس کی امامت واقتداء مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق، من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في السمجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، زکریا دیوبند)
بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص154
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت میں شریک ہونے کے لیے مسجد کی طرف دوڑنے کی ممانعت حدیث مبارک میں موجود ہے۔ جماعت میں شرکت کے لیے سکون وقار سے چلنا چاہئے خواہ رکعت نکلنے کا اندیشہ ہو۔(۲)
(۲) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال: إذا کان أحدکم مقبلا إلی الصلاۃ فلیمش علی رسلہ فإنہ في صلاۃ فما أدرک فلیصل وما فاتہ فلیقض۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاری، ’’کتاب الأذان، باب قول الرجل فاتتنا الصلاۃ‘‘: ج۵، ص: ۱۵۰، رقم:۶۳۵)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص361
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مؤذن نیک اور دیندار، متبع سنت اور اذان کے طریقے سے واقف اور بلند آواز ہونا چاہئے؛ کیوں کہ مؤذن اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی اور کامیابی کے لیے پکارنے والا ہے پس مؤذن جتنا دیندار ہوگا اس کا اچھا اثر لوگوں پر ہوگا۔(۴)
(۴) ویستحب أن یکون المؤذن صالحاً، أي متقیا لأنہ أمین في الدین عالماً بالسنۃ في الأذان وعالماً بدخول أوقات الصلاۃ لتصحیح العبادۃ۔ (أحمد بن اسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷، شیخ الہند، دیوبند)
ثم اعلم أنہ ذکر في الحاوي القدسي من سنن المؤذن: کونہ رجلاً عاقلاً صالحاً عالماً بالسنن والأوقات مواظباً علیہ محتسباً ثقۃ متطہراً مستقبلاً۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ، ج ۲، ص: ۶۲، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص125
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس مریض کو پیشاب کی تھیلی لگی ہوئی ہے، وہ شرعاً معذور ہے، اس کے لیے اس حال میں نماز پڑھنا جائز ہے، نماز معاف نہیں ہے، لیکن وہ تھیلی کے ساتھ مسجد میں داخل نہ ہو، بلکہ گھر میں تنہا نماز ادا کرے۔
’’قولہ: وإدخال نجاسۃ فیہ یخاف منہا التلویث ومفادہ الجواز لو جافۃ، لکن في الفتاویٰ الہندیۃ لا یدخل المسجد من علی بدنہ نجاسۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۷۔
وکذا مریض لا یبسط ثوباً إلا تنجس قولاً لہ ترکہ والمعذور إنما تبقي طہارتہ في الوقت۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض: مطلب في أحکام المعذور‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷)
مریض تحتہ ثیاب نجسۃ إن کان بحال لا یبسط شيء إلا وینجس من ساعتہ یصلي علی حالہ وکذا إذا لم ینتجس الثاني، لکن یلحقہ زیادۃ مشقۃ بالتحویل۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص257
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ثنا کے بعد پہلی رکعت میں قرأت نہ کرنے کی وجہ سے فرض ترک ہوا ہے؛ اس لیے پہلی رکعت باطل ہوگئی اور پہلی رکعت باطل ہونے کی بنا پر پور ی نماز میں فساد آ گیا اس لیے نماز کا لوٹانا واجب ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے {فاقرء وا ما تیسر من القرآن}(۱) اس آیت سے نفس قرأت کی فرضیت معلوم ہوتی ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا حکم دیا گیا ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ’’أمرنا نبینا أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۲)
اس حدیث پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ سورۃ الفاتحہ کے ساتھ جو قرآن کریم سے میسر آئے اسے پڑھا کریں، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے ’’لا صلاۃ إلا بقراء ۃ‘‘(۳)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’ومنہا القرائۃ وفرضہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ، کذا في المحیط‘‘(۱)
مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ترکِ فرض ( قرأت) کی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے سجدہ سہو کرنے سے بھی نماز درست نہیں ہوگی۔
(۱) سورۃ المزمل:۲۰۔
(۲) أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب تفریع استفتاح الصلاۃ، باب من ترک القراء ۃ في صلاتہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸، رقم: ۸۱۸۔
(۳) أخرجہ مسلم ، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ في کل رکعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۷، رقم: ۳۹۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ ومنہا: القرائۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص202
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا شخص فاسق اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے؛ اس لیے اس کی امامت درست نہیں ہے،(۲) کیوں کہ قادیانی متفقہ طور پر کافر ہیں؛ اس لیے مسلمان لڑکی کا نکاح اس سے جائز نہیں ہے،(۳) اس شخص پر واجب ہے کہ یا تو اپنے داماد کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرے اور اس کے مسلمان ہونے کے بعد تجدید نکاح کرے یا اپنی بیٹی کو اس سے علیحدہ کرلے اور اپنے اس عمل سے توبہ واستغفار کرے۔(۱)
(۲) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ ((ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
(۳) {وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْاط وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ أَعْجَبَکُمْط} (سورۃ البقرۃ: ۲۲۱)
(۱) أن ما یکون کفرا اتفاقا یبطل العمل والنکاح وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد‘‘: ج۹، ص:۴۴۲)
ینص الفقہاء علی أن من أدی أنہ شریک لمحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الرسالۃ، أو قال: بجواز اکتسابہا بتصفیۃ القلب وتہذیب النص فہو کافر۔ قال قاضي العیاض: لا خلاف في تکفیر مدعی الرسالۃ۔ (وزارۃ الأوقاف، الموسوعۃ الفقھیۃ: ج ۴، ص: ۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص154
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان شعائر دین میں سے ہے۔ اذان کا احترام اور محبت ہر مومن کا ایمانی تقاضا ہے۔ اذان دینے والے کی فضیلت بھی احادیثِ مبارکہ میں متعدد جگہ آئی ہے مسلم شریف کی حدیث ہے: جب قیامت کے دن مؤذن اٹھیں گے تو ان کی گردنیں سب سے بلند ہوں گی۔ ’’المؤذنون أطول الناس أعناقا یوم القیامۃ‘‘(۱)
مذکورہ حدیث کی تشریح میں علامہ نوویؒ نے لکھا ہے: لمبی گردن کا مطلب ہے کہ مؤذن میدان حشر میں سب سے ممتاز اور منفرد نظر آئیں گے، ایک روایت ہے: مؤذن کی آواز جہاں تک پہونچتی ہے سب چیزیں اس آواز کو سنتی ہیں اور مؤذن کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں۔
’’عن أبي ہریرۃ سمعہ من فم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، یقول: المؤذن یغفرلہ مد صوتہ ویشہد لہ کل رطب ویابس‘‘(۱)
نیز آپ نے جو باتیں عالم دین سے سن رکھی ہیں وہ حدیث کا مضمون ہے، امام ترمذیؒ کی ایک روایت ہے:
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أذن محتسبا سبع سنین کتب لہ براء ۃ من النار‘‘(۲)
ایسے ہی امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مسند احمد میں ایک روایت نقل کی ہے کہ تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر ہونگے جسے دیکھ کر تمام اولین وآخرین رشک کریں گے۔
اول: ایسا غلام جو اللہ اور اپنے آقاء کے حقوق ادا کرتا ہو، دوم: وہ امام جس سے ان کے مقتدی راضی ہوں، سوم: وہ مؤذن جو پانچوں وقت کی اذان دیتا ہو۔
ایک روایت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کے لیے خاص طور پر مغفرت کی دعاء فرمائی ہے۔
ان احادیثِ مبارکہ کے علاوہ اور بھی کئی روایتیں کتبِ احادیث میں موجود ہیں جو مؤذن کی فضیلت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ثلاثۃ علی کثبان المسک یوم القیامۃ: رجل أم قوما وہم بہ راضون، ورجل یؤذن في کل یوم ولیلۃ خمس صلوات الخ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان ، وہرب الشیطان عند سماعہ، ج ۱، ص: ۱۶۷، رقم: ۳۸۷۔
(۱) أخرجہ النسائی، في سننہ، ’’کتاب الأذان، باب رفع الصوت بالأذان‘‘ ج۱، ص: ۷۵، رقم: ۶۴۵۔
(۲) أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، أبواب الأذان والسنۃ فیہا‘‘: ص: ۵۳، رقم: ۷۲۷۔
(۱) أخرجہ أحمد في مسند عبداللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، ج ۸،ص: ۴۱۷، رقم: ۴۷۹۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص126