Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص امام بنے اس کو چاہئے کہ ہلکی نماز پڑھائے کیوں کہ مقتدیوں میں مریض، بوڑھے، کمزور اورضرورت مند ہوتے ہیں فجر اور ظہر دونوں رکعتوں میں ملاکر چالیس آیات پڑھ لینا کافی ہے مگر یہ بھی اس وقت ہے کہ مقتدی حضرات برداشت کرلیں ورنہ امام کے لیے قرآت میں تخفیف کرنا ہی مسنون ہے تاکہ کسی پر بار نہ ہو ، اگر مقتدیوں کی رغبت نہ ہو تو فرض نمازوں میں قرآن پاک بالترتیب امام کے لیے پڑھ کر ختم کرنا یہ سنت کے خلاف ہے امام صاحب کو نماز میں یعنی اپنی تنہا نماز میں قرآن شریف بالترتیب پڑھ کر ختم کرنا چاہئے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ تھا، ایک حدیث میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ عشاء کی نماز میں قرأت طویل کرتے تھے اور ان کے مقتدی کسان لوگ تھے دن بھر کام کرکے تھکے ماندے ہوتے تھے ان پر حضرت معاذ ؓکی طویل قرأت گراں گذرتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ رضی اللہ عنہ پر اس قدر ناراض ہوئے کہ اس قدر ناراض کبھی نہیں ہوئے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ڈانٹا اور فرمایا کہ اے معاذ تم لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرتے ہو اور فرمایا کہ {والشمس وضحاہا} وغیرہ پڑھا کرو بہر حال اگر ایک مقتدی بھی کمزور ہو تو اس کی رعایت کرکے امام کو مختصر قرأت کرنی ہوگی۔(۱)
امام صاحب کا اپنے قرآن ختم پر کچھ مالداروں سے کہہ کر اپنے مقتدیوں کی دعوت کرانا مٹھائی تقسیم کرانا یہ بلاوجہ ایک غیر اسلامی رسم کو رواج دینے کے مترادف ہے۔ اس سے بدعات کا دروازہ کھلتا ہے(۲) البتہ اگر کوئی اپنی خوشی سے ایسا کرے تو ناجائز بھی نہیں ہے۔ امام صاحب احکام سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں ان کو محبت کے ساتھ مسائل واحکام سمجھائے جائیں تاکہ وہ اس طرح کی باتوں سے احتیاط کریں۔
(۱) إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا صلی أحدکم للناس فلیخفف؛… فإن منہم الضعیف والسقیم والکبیر وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطول ما شاء۔ (أخرجہ البخاري، فيصحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب إذا صلی لنفسہ فلیطول ما شاء‘‘: ج ۱، ص: ۹۷،رقم ۷۰۳، قدیمی کتب خانہ کراچی)
(۲) أشرف علي التھانوي، ’’القول الأحکم في تحقیق التزام ما لا یلزم في إمداد الفتاویٰ‘‘: ج ۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص210
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا اور مصیبت کے وقت دعاء قنوت کا پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس ایک وباء اور مصیبت ہے؛ اس لئے اس گھڑی میں دعا ء قنوت کا اہتمام ہونا چاہیے، احناف کے یہاں صرف فجر کی نماز میں دعا ء قنوت ہے اس لیے فجر کی نماز میں دعاء قنوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
’’النازلۃ: الشدیدۃ من شدائد الدہر، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل … إلی أن قال … قال الحافظ أبو جعفر الطحاوي: إنما لا یقنت عندنا في صلاۃ الفجر من غیر بلیۃ فإن وقعت فتنۃ أو بلیۃ فلا بأس بہ، فعلہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(۱)
’’لیس مشروعاً عندنا في الفجر، إلا إذا نزلت نازلۃ کالطاعون وغیرہ۔ فإن الإمام حینئذ یقنت في الفجر کما ذکرہ الشمني‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸۔)
(۲)المرغیناني، حاشیۃ ہدایۃ، ’’باب صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۵، حاشیہ: ۷۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص318
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2173/44-2289
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسافر پر جمعہ واجب نہیں ہے، آپ اپنی سہولت کے اعتبار سے ٹکٹ بنواسکتے ہیں۔ آپ کا مقصد سفر کی ضرورت کو پورا کرنا ہے، آپ کا ارادہ ہرگز نمار جمعہ کی توہین نہیں ہے، اس لئے اگر نماز جمعہ کے وقت آپ مسافر ہیں تو ظہر کی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ البتہ اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ زوال کے بعد سفر شروع کرنے سے احتراز کیا جائے الا یہ کہ شدید مجبوری ہو کہ ٹرین کا ٹائم وہی ہو، تو زوال کے بعد بھی سفر شروع کیا جاسکتاہے۔
سنن ابی داؤد: (باب متی یتم المسافر، رقم الحدیث: 1229)
"عن عمران بن حصین -رضي اﷲ عنہ- قال: غزوت مع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، وشہدت معہ الفتح، فأقام بمکۃ ثماني عشرۃ لیلۃ لا یصلي إلا رکعتین یقول: یا أہل البلد! صلوا أربعا، فإنا قوم سفر". مسند أحمد بن حنبل: (رقم الحدیث: 20105- 20119)
بدائع الصنائع: (فصل في بیان شرائط الجمعۃ، 262/1، ط: سعید)
"ولنا ما روي عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ صلی الجمعۃ بالناس عام فتح مکۃ وکان مسافرا".
رد المحتار: (کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، 155/2)
"الظهر لهم رخصة فدل علی ان الجمعة عزيمة وهي افضل ..."
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:درست بات یہ ہے کہ آندھی، طوفان، زلزلہ یا دیگر آفات سماویہ پر اذان دینا سنت سے ثابت نہیں ہے؛ لہٰذا اگر یہ عمل سنت یا حکم شرعی سمجھ کر کرتے ہیں، تو غلط ہے؛ لیکن اگر لوگ محض غموں کو دور کرنے کے لیے اذان دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو جمع خاطر نصیب ہو، تو یہ ایک مستحب عمل ہے علامہ شامی نے مواقع اذان میں کتب شافعیہ کے حوالے سے اسے سنت کہا ہے:
’’قالوا یسن للمہموم أن یأمر غیرہ أن یؤذن في أذنہ فإنہ یزیل الہم‘‘(۱) اسی طرح اذان کے علاوہ بعض دعاء حدیث سے ثابت ہے ’’اللہم إني أسئلک خیرہا وخیرما فیہا وخیر ما أرسلت بہ وأعوذ بک من شرہا وشرما فیہا وشرما أرسلت بہ، اللہم اجعلہا ریاحاً ولا تجعلہا ریحا اللہم اجعلہا رحمۃ ولا تجعلہا عذاباً ارحمني یا ارحم الراحیم‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب: في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۔
(۱)علامہ محمد بن محمد جزري شافعيؒ، حصن حصین: ص: ۱۵۹۔…
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص364
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دونوں صورتوں میں نماز ادا ہو جاتی ہے بشرطیکہ غیر مقلد امام مسائل طہارت ونماز میں مسلک احناف کی بھی رعایت رکھے۔(۱)
(۱) وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز ما لم یعلم منہ ما یفسد الصلاۃ علی اعتقاد المقتدي علیہ الإجماع، إنما اختلف في الکراہۃ اھـ فقید بالمفسد دون غیرہ کما تری: وفي رسالۃ الاہتداء في الاقتداء: (لملا علي القاري) ذہب عامۃ مشایخنا إلی الجواز إذا کان یحتاط في موضع الخلاف وإلا فلا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب في الاقتداء بشافعي ونحوہ ہل یکرہ أم لا‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۲)
وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بر وفاجر ما لم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا وما لم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاويعلی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص247
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت کی اہمیت کی وجہ سے جمہور کے نزدیک ایک مسجد میں ایک ہی جماعت افضل ہے، جماعت ثانیہ مکروہ ہے، جب کہ امام احمدؒ کے نزدیک متعدد جماعتیں ہوسکتی ہیں۔(۱)
(۱) وروي عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، أن أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا إذا فاتتہم الجماعۃ في المسجد صلوا في المسجد فرادیٰ ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان والإقامۃ، فصل بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۰)
یکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸)
ہکذا في الہندیۃ، جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الخامس في الإمامۃ، الفصل الأول في الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 486
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کلمات اذان کی ادئیگی صحیح کرنی چاہیے، اس طرح پڑھنا اچھا نہیں؛ تاہم اذان درست ہوگئی اور نماز پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔(۲)
(۲) وبفتح راء أکبر والعوام یضمونہا، روضۃ، لکن في الطلبۃ معنی قولہ علیہ الصلاۃ والسلام ’’الأذان جزم‘‘ أي مقطوع المد۔ فلا تقول: آللّٰہ أکبر، لأنہ استفہام وإنہ لحن شرعي، أو مقطوع حرکۃ الآخر للوقف فلا یقف بالرفع لأنہ لحن لغوي۔ (الحصکفي، الدر المختا مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۱-۵۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
والمد في أول التکبیر کفر، وفي آخرہ خطأ فاحش، کذا في الزاہدي ویرتب بین کلمات الأذان والإقامۃ کما شرع، کذا في محیط السرخسي … فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ وإن مضیٰ علی ذلک جازت صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص132
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر قبرستان میں جگہ صاف ستھری ہو اور اس میں نجاست یا آگے کی طرف ابھری ہوئی قبر نہ ہو تو نماز بلا کراہت جائز ہے۔ اور اگر قبر سامنے ہے یا نمازی کے کھڑے ہونے کی جگہ قبر ہو تو نماز مکروہ تحریمی ہے، بہتر یہ ہے کہ قبرستان سے ہٹ کر نماز پڑھی جائے۔(۱)
(۱) لاتکرہ الصلاۃ في جہۃ قبر إلا إذا کان بین یدیہ بحیث لو صلی صلاۃ الخاشعین وقع بصرہ علیہ کما في جنائز المضمرات۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا‘‘: مطلب في بیان السنۃ والمستحب والمندوب والمکروہ وخلاف الأولٰی، ج۲، ص: ۴۲۵)
وفي الحاری وإن کانت القبور ماوراء المصلي لایکرہ فإنہ إن کان بینہ وبین القبر مقدار مالوکان في الصلاۃ ویمر إنسان لایکرہ، فہہنا أیضاً لایکرہ کذا في التاتارخانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ ومالایکرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص262
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ دعاء ’’اللہم اغفرلي ولوالدي ولأستاذي‘‘ پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوگی؛(۲) البتہ دعاء ماثورہ پڑھنی بہتر ہے یعنی ’’اللہم إني ظلمت نفسي ظلما کثیراً إلخ‘‘ اور ’’ربنا آتنا في الدنیا الخ‘‘(۳)
(۲) من سنن القعدۃ الأخیرۃ الدعاء بما شاء من صلاح الدین والدنیا لنفسہ ولوالدیہ وأستاذہ وجمیع المؤمنین۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار،’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘ ج۲، ص: ۲۳۵)
(۳) ینبغي أن یدعو في صلاتہ بدعاء محفوظ، وأما في غیرہا فینبغی أن یدعو بما یحضرہ ولایستظہر الدعاء لأن حفظہ یذہب برقۃ القلب۔ ہندیۃ عن المحیط۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۳۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص90
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس میں مضائقہ نہیں ہے۔(۱)
(۱) ولو قرأ في کل رکعۃ سورۃ وترک بین سورتین سورۃ یکرہ لما قلنا، ولو ترک بینہما ثلاث سور لایکرہ ولو ترک سورتین فالصحیح أنہ لایکرہ أیضا لما روي جابر بن سمرۃ کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في المغرب لیلۃ الجمعۃ قل یاأیہا الکافرون وقل ہو اللّٰہ أحد، رواہ أبوداؤد وابن ماجہ۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی، ’’مطلب في الفصل بین السجدتین بسورۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۲، جدید)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص211