نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دونوں صورتوں میں نماز ادا ہو جاتی ہے بشرطیکہ غیر مقلد امام مسائل طہارت ونماز میں مسلک احناف کی بھی رعایت رکھے۔(۱)

(۱) وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز ما لم یعلم منہ ما یفسد الصلاۃ علی اعتقاد المقتدي علیہ الإجماع، إنما اختلف في الکراہۃ اھـ فقید بالمفسد دون غیرہ کما تری: وفي رسالۃ الاہتداء في الاقتداء: (لملا علي القاري) ذہب عامۃ مشایخنا إلی الجواز إذا کان یحتاط في موضع الخلاف وإلا فلا۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب في الاقتداء بشافعي ونحوہ ہل یکرہ أم لا‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۲)
وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بر وفاجر ما لم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا وما لم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاويعلی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص247

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت کی اہمیت کی وجہ سے جمہور کے نزدیک ایک مسجد میں ایک ہی جماعت افضل ہے، جماعت ثانیہ مکروہ ہے، جب کہ امام احمدؒ کے نزدیک متعدد جماعتیں ہوسکتی ہیں۔(۱)
(۱) وروي عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، أن أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا إذا فاتتہم الجماعۃ في المسجد صلوا في المسجد فرادیٰ ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان والإقامۃ، فصل بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۰)
یکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸)
ہکذا في الہندیۃ، جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الخامس في الإمامۃ، الفصل الأول في الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 486

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کلمات اذان کی ادئیگی صحیح کرنی چاہیے، اس طرح پڑھنا اچھا نہیں؛ تاہم اذان درست ہوگئی اور نماز پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔(۲)

(۲) وبفتح راء أکبر والعوام یضمونہا، روضۃ، لکن في الطلبۃ معنی قولہ علیہ الصلاۃ والسلام ’’الأذان جزم‘‘ أي مقطوع المد۔ فلا تقول:  آللّٰہ أکبر، لأنہ استفہام وإنہ لحن شرعي، أو مقطوع حرکۃ الآخر للوقف فلا یقف بالرفع لأنہ لحن لغوي۔ (الحصکفي، الدر المختا مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۱-۵۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
والمد في أول التکبیر کفر، وفي آخرہ خطأ فاحش، کذا في الزاہدي ویرتب بین کلمات الأذان والإقامۃ کما شرع، کذا في محیط السرخسي … فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ وإن مضیٰ علی ذلک جازت صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند،  الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص132

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر قبرستان میں جگہ صاف ستھری ہو اور اس میں نجاست یا آگے کی طرف ابھری ہوئی قبر نہ ہو تو نماز بلا کراہت جائز ہے۔ اور اگر قبر سامنے ہے یا نمازی کے کھڑے ہونے کی جگہ قبر ہو تو نماز مکروہ تحریمی ہے، بہتر یہ ہے کہ قبرستان سے ہٹ کر نماز پڑھی جائے۔(۱)

(۱) لاتکرہ الصلاۃ في جہۃ قبر إلا إذا کان بین یدیہ بحیث لو صلی صلاۃ الخاشعین وقع بصرہ علیہ کما في جنائز المضمرات۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا‘‘: مطلب في بیان السنۃ والمستحب والمندوب والمکروہ وخلاف الأولٰی، ج۲، ص: ۴۲۵)
وفي الحاری وإن کانت القبور ماوراء المصلي لایکرہ فإنہ إن کان بینہ وبین القبر مقدار مالوکان في الصلاۃ ویمر إنسان لایکرہ، فہہنا أیضاً لایکرہ کذا في التاتارخانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ ومالایکرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص262

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ دعاء ’’اللہم اغفرلي ولوالدي ولأستاذي‘‘ پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوگی؛(۲) البتہ دعاء ماثورہ پڑھنی بہتر ہے یعنی ’’اللہم إني ظلمت نفسي ظلما کثیراً إلخ‘‘ اور ’’ربنا آتنا في الدنیا الخ‘‘(۳)
(۲) من سنن القعدۃ الأخیرۃ الدعاء بما شاء من صلاح الدین والدنیا لنفسہ ولوالدیہ وأستاذہ وجمیع المؤمنین۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار،’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘ ج۲، ص: ۲۳۵)
(۳) ینبغي أن یدعو في صلاتہ بدعاء محفوظ، وأما في غیرہا فینبغی أن یدعو بما یحضرہ ولایستظہر الدعاء لأن حفظہ یذہب برقۃ القلب۔ ہندیۃ عن المحیط۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۳۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص90

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس میں مضائقہ نہیں ہے۔(۱)

(۱) ولو قرأ في کل رکعۃ سورۃ وترک بین سورتین سورۃ یکرہ لما قلنا، ولو ترک بینہما ثلاث سور لایکرہ ولو ترک سورتین فالصحیح أنہ لایکرہ أیضا لما روي جابر بن سمرۃ کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في المغرب لیلۃ الجمعۃ قل یاأیہا الکافرون وقل ہو اللّٰہ أحد، رواہ أبوداؤد وابن ماجہ۔ (إبراھیم حلبي، غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی، ’’مطلب في الفصل بین السجدتین بسورۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۲، جدید)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص211

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فتنہ وفساد، وبا وطاعون یا دیگر آفات اگر عام ہو جائیں، یا کسی ملک میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہو یا دشمن نے حملہ کر دیا ہو تو اس سے نجات کے لیے فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد قیام کی حالت میں دعائے قنوت کا اہتمام ہونا چاہئے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جب ستّر قراء کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک دعا ئے قنوت کا اہتمام کیا تھا جس میں آپ نے ان قبیلوں پر بدعا کی تھی، معلوم ہوا کہ اجتماعی مصائب و آلام کے حالات میں دعائے قنوت کا اہتمام نہ صرف شرعاً جائز ہے؛ بلکہ احادیث سے ثابت ہونے کی وجہ سے مستحب اور مسنون ہے۔ دعائے قنوت کے الفاظ مختلف ہیں اور قرآن کے کلمات نہیں ہیں اس لیے افضل تو یہی ہے کہ لقمہ نہ دیا جائے، لیکن اگر کوئی لقمہ دے دے تو بھی نماز صحیح ہو جائے گی۔
’’ولا یقنت إلا لنازلۃ فیقنت الإمام في الجہریۃ، قال في الصحاح :النازلۃ الشدیدۃ من شدائد الدہر، لکن في الأشباہ عن الغایۃ: قنت في صلاۃ الفجر الخ‘‘(۱)
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ، قال: قنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شہرا بعد الرکوع في صلاۃ الصبح، یدعوا علی رعل وذکوان، ویقول: عصیۃ عصت اللّٰہ ورسولہ‘‘(۲)
’’وقد روي عن الصدیق: أنہ قنت عند محاربۃ الصحابۃ مسیلمۃ وعند محاربۃ أہل الکتاب، وکذلک قنت عمر، وکذا علی في محاربۃ معاویۃ ومعاویۃ في محاربتہ، إلا ان ہذا ینشئ لنا أن القنوت للنازلۃ  مستمر لم ینسخ وبہ قال جماعۃ من أہل الحدیث‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸، ۴۴۹۔)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب استحباب القنوت في جمیع الصلاۃ إذا نزلت بالمسلمین نازلۃ‘‘: ج ۱ ص: ۲۳۷، رقم: ۶۷۷۔)
(۱)ابن الھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۱، مکتبہ الاتحاد، دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص319

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1249

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  نماز درست ہے، سورت ملانے سے نماز میں  کوئی خرابی نہیں آئی۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صرف دعاء کے لئے اجتماع اور اس کے لئے دن مقرر کرکے لوگوں کو دعوت دینا، اس کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ملتی؛ اس لئے اس کا رواج بنانا اور اس کے لئے دعوت دینا صحیح نہیں ہے، اس عمل کو ترک کردینا لازم ہے (۲)، ہاں اگر تبلیغ اسلام اور لوگوں کو قرآن و حدیث کی باتیں بتانے کے لئے کوئی دن مقرر کرلیں کہ لوگوں کے جمع ہونے میں سہولت ہو اور اس پروگرام کے اختتام پر دعاء بھی ہوجائے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (۳)
(۲) من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۳) {وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ إِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ إِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَہ۳۳} (سورۃ فصلت: ۳۳)
بلغوا عني ولو آیۃ۔ (محمد عبد الرحمن المبارکفوري، تحفۃ الأحوذي، ’’کتاب العلم‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص365

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2679/45-4140

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمعہ سے قبل چار رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں، اور جمعہ کے بعد چار رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں، اور دو رکعتوں کے بارے میں اختلاف ہے، امام ابو یوسف کے نزدیک یہ دو رکعتیں بھی سنت مؤکدہ ہیں جبکہ طرفین ان کو غیرمؤکدہ قرار دیتے ہیں اور غیرمؤکدہ ہونا ہی راجح ہے۔اور یہ چار رکعتیں ایک ساتھ ہی ادا کی جائیں گی، ان کو دو دو  رکعت کرکے ادا کرنا درست نہیں ہے۔  

"عن علي، رضي الله عنه أنه قال: «من كان مصليًا بعد الجمعة فليصل ستًا». 

1979 - حدثنا يونس، قال: ثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، عن أبي عبد الرحمن، قال: «علّم ابن مسعود رضي الله عنه الناس أن يصلوا بعد الجمعة أربعًا، فلما جاء علي بن أبي طالب رضي الله عنه علّمهم أن يصلوا ستًّا» ... عن أبي عبد الرحمن السلمي، قال: «قدم علينا عبد الله فكان يصلي بعد الجمعة أربعًا فقدم بعده علي رضي الله عنه فكان إذا صلى الجمعة صلى بعدها ركعتين وأربعًا، فأعجبنا فعل علي رضي الله عنه فاخترناه». فثبت بما ذكرنا أن التطوع الذي لاينبغي تركه بعد الجمعة ست، وهو قول أبي يوسف رحمه الله إلا أنه قال: أحب إلي أن يبدأ بالأربع ثم يثنى بالركعتين؛ لأنه هو أبعد من أن يكون قد صلى بعد الجمعة مثلها على ما قد نهي عنه ...  عن خرشة بن الحر: «أن عمر رضي الله عنه كان يكره أن يصلي بعد صلاة الجمعة مثلها». قال أبو جعفر: فلذلك استحب أبو يوسف رحمه الله أن يقدم الأربع قبل الركعتين؛ لأنهن لسن مثل الركعتين فكره أن يقدم الركعتان؛ لأنهما مثل الجمعة. وأما أبو حنيفة رحمه الله، فكان يذهب في ذلك إلى القول الذي بدأنا بذكره في أول هذا الباب". (شرح معاني الآثار (1 / 337)

"وأما السنة قبل الجمعة وبعدها فقد ذكر في الأصل: وأربع قبل الجمعة، وأربع بعدها، وكذا ذكر الكرخي، وذكر الطحاوي عن أبي يوسف أنه قال: يصلي بعدها ستاً، وقيل: هو مذهب علي - رضي الله عنه -. وما ذكرنا أنه كان يصلي أربعاً مذهب ابن مسعود، وذكر محمد في كتاب الصوم أن المعتكف يمكث في المسجد الجامع مقدار ما يصلي أربع ركعات، أو ست ركعات أما الأربع قبل الجمعة؛ فلما روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتطوع قبل الجمعة بأربع ركعات»؛ ولأن الجمعة نظير الظهر، ثم التطوع قبل الظهر أربع ركعات كذا قبلها.

وأما بعد الجمعة فوجه قول أبي يوسف إن فيما قلنا جمعًا بين قول النبي صلى الله عليه وسلم وبين فعله؛ فإنه روي «أنه أمر بالأربع بعد الجمعة»، وروي أنه «صلى ركعتين بعد الجمعة»، فجمعنا بين قوله وفعله، قال أبو يوسف: ينبغي أن يصلي أربعاً، ثم ركعتين كذا روي عن علي - رضي الله عنه - كي لايصير متطوعاً بعد صلاة الفرض بمثلها، وجه ظاهر الرواية ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من كان مصلياً بعد الجمعة فليصل أربعاً». وما روي من فعله صلى الله عليه وسلم فليس فيه ما يدل على المواظبة، ونحن لانمنع من يصلي بعدها كم شاء، غير أنا نقول: السنة بعدها أربع ركعات لا غير؛ لما روينا".  (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 285)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند