نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  کھجور، انگور اور منقی سے بنی الکحل نجس اورحرام ہے۔ پھل یا دیگر مائعات سے کشید کردہ الکحل نجس اور حرام نہیں ہے؛ اس لیے دواؤں میں اس کا استعمال جائز ہے، ماہرین کی تحقیق یہی ہے کہ دواؤں میں جو الکحل استعال ہوتا ہے وہ پھل وغیرہ کا ہوتا ہے اس لیے سینیٹائزر کا استعمال کرنا جائز ہے، اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے اور اس کو استعمال کرنے کے فوراً بعد نماز پڑھنا درست ہے۔ ہاں! اگر کسی سینیٹائزر کے بارے میں یقین سے معلوم ہوجائے کہ اس میں مذکورہ تین چیزوں میں سے کسی کی آمیزش ہے، تو اس کا استعمال کرنا ناجائز ہوگا۔ ’’فقہ البیوع‘‘ میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’وقد ثبت من مذہب الحنفیۃ المختار أن غیر الأشربۃ (المصنوعۃ من التمر أو من العنب) لیست نجسۃ‘‘(۱)
’’تکملۃ فتح الملہم‘‘ میں ہے: ’’إن معظم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویۃ و العطور و غیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ کما ذکر نا في باب بیوع الخمر‘‘(۲)

(۱) مفتي محمد تقي العثماني، فقہ البیوع: ج ۱، ص: ۲۹۳۔
(۲) مفتي محمد تقي العثماني، تکملہ فتح الملہم: ج ۳، ص: ۴۸۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص258

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ تکرارِ آیت کے سلسلے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر قاری نوافل میں تکرارِ آیت کرتا ہے تو نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی ہے؛ لیکن اگر قاری فرائض میں آیت کا تکرار کرتا ہے تو یہ مکروہ ہے۔
’’ولا یکرہ تکرار السورۃ في رکعۃ أو في رکعتین من النفل؛ لأن باب التطوع أوسع وقد ورد أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ إلی الصباح بآیۃ واحد یکررہا في تہجدہ‘‘(۲)
’’فدل علی جواز التکرار في التطوع کذا في شرح المنیۃ وقد ثبت عن جماعۃ من السلف أنہم کانوا یحیون لیلتہم بآیۃ العذاب، أو آیۃ الرحمۃ أو آیۃ الرجاء، أو آیۃ الخوف، وإن کان ذلک في الفرائض فہو مکروہ إذ لم ینقل عن أحد من السلف أنہ فعل مثل ذلک کذا في التجنیس والمزید‘‘(۱)

(۲) أخرجہ ابن ماجۃ،  في سننہ، ’’في کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب ما جاء في القراء ۃ في صلاۃ اللیل من حدیث سیدنا أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ قرأ: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأیۃ   … حتی أصبح یرددہا، والآیۃ: {إن تعذبہم فإنہم عبادک وإن تغفرلہم فإنک أنت العزیز الحکیم}ص :۹۶، رقم:۱۳۵۰ ۔
(۱) امداد الفتاح مع الحاشیۃ، ’’فصل فیما یکرہ في الصلاۃ‘‘: ص: ۳۸۱؛ وکذا في مراقي الفلاح، ’’فصل في المکروہات مکۃ المکرمہ‘‘: ص: ۱۲۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص203

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1328/42-707

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صفوں کی درستگی سنت مؤکدہ ہے،  اور صفوں کی درستگی کا اہتمام نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہیں۔ اس لئے  یہ مقتدیوں کی ذمہ داری ہے کہ صف سیدھی کریں اور  صفوں کے بیچ میں خالی جگہیں پُر کریں۔ اور امام کو بیچ میں رکھیں، اگر کسی صف میں دائیں جانب کم لوگ ہوں تو آنے والا دائیں جانب صف میں کھڑا ہو تاکہ امام درمیان میں ہو اور دونوں جانب صف برابر ہوجائے۔ امام کو چاہئے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے مقتدیوں کی صف کا معائنہ کرکے ان کو درست کرائے لیکن یہ امام کے ذمہ لازم نہیں ہے، اگر اس کا اہتمام کرے تو بہتر ہے۔  نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام مقتدیوں کی صفوں کو درست کرانے کا اہتمام  کرتے تھے۔

قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - «لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ». وكان في زمن عمر رضي الله تعالى عنه رجلٌ مُوَكَّلٌ على التسوية، كان يمشي بين الصفوف ويسوِّيهم، وهو واجبٌ عندنا تُكْرَه الصلاة بتركه تحريمًا، وسنةٌ عند الشافعية لانتفاء مرتبة الواجب عندهم، وذهب ابن حَزْم إلى أنه فرضٌ. (فیض الباری علی صحیح البخاری ، باب تسویۃ الصفوف 2/299) عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ «سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلاَةِ». (فیض الباری 2/301)

قَالَ عليه السلام: (لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ) . / 95 - وفيه: أَنَسِ، قَالَ الرسول: (أَقِيمُوا الصُّفُوفَ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ من وراء ظَهْرِي) . تسوية الصفوف من سنة الصلاة عند العلماء، وإنه ينبغى للإمام تعاهد ذلك من الناس، وينبغى للناس تعاهد ذلك من أنفسهم، وقد كان لعمر وعثمان رجال يوكلونهم بتسوية الصفوف، فإذا استوت كبرا إلا أنه إن لم يقيموا صفوفهم لم تبطل بذلك صلاتهم. وفيه: الوعيد على ترك التسوية، (شرح البخاری لابن بطال، باب تسویۃ الصفوف 2/344)

قلت: قوله - صلى الله عليه وسلم -: تراصوا، وقوله: رصوا صفوفكم، وقوله: سدوا الخلل، ولا تذروا فرجات للشيطان، وقول النعمان بن بشير: فرأيت الرجل يلزق كعبه بكعب صاحبه الخ، وقول أنس: وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه الخ، كل ذلك يدل دلالة واضحة على أن المراد باقامة الصف وتسويته أنما هو اعتدال القائمين على سمت واحد وسد الخلل والفرج في الصف بإلزاق المنكب بالمنكب والقدم بالقدم، وعلى أن الصحابة في زمنه - صلى الله عليه وسلم - كانوا يفعلون ذلك، وأن العمل برص الصف والزاق القدم بالقدم وسد الخلل كان في الصدر الأول من الصحابة وتبعهم، ثم تهاون الناس به.(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، الفصل الاول 4/5)

أي يصفهم الإمام بأن يأمرهم بذلك. قال الشمني: وينبغي أن يأمرهم بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا مناكبهم ويقف وسطا (شامی، باب الامامۃ 1/568)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: داڑھی منڈانے والا اور سنیما دیکھنے والا منکرات شرعیہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہے، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، اس کے علاوہ دوسرے شخص کو امام بنایا جائے۔(۲)

(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وأکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔… (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وأکل الربا ونمام، ومراء ومتصنع … قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہا أولی من الإنفراد، لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي، قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، (أیضًا: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص155

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر وہ زمین سرکاری ذمہ داروں نے بخوشی مسجد کے لیے دی تھی جیسا کہ تحریری سوال سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو مسجد ہی کہہ کر پکارا جاتا ہے اور ایک عرصہ سے پانچوں وقت نماز با جماعت بھی ہو رہی ہے تو اس صورت میں وہ شرعی مسجد بن گئی ہے اور چوں کہ اوقات نماز اور امام وغیرہ مقرر ہیں تو اس جگہ پر دوسری جماعت مکروہ ہوگی اور اگر زبردستی اس زمین پر قبضہ کر کے نماز کی جگہ بنائی ہے کہ سرکاری ذمہ دار اب بھی اس جگہ کے مسجد بنانے پر راضی نہیں ہیں تو وہ شرعی مسجد نہیں بنی اور نہ ہی اس میں نماز فی المسجد کا ثواب ملے گا البتہ جماعت کا ثواب ملتا رہے گا اور وہ مسجد چوں کہ شرعی مسجد قرار نہیں دی جا سکتی بناء بریں وہاں جماعت ثانیہ درست ہوگی۔(۱)
(۱) یکرہ تکرار الجماعۃ في مسجد محلۃ بأذان وإقامۃ  لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن
(قولہ ویکرہ) أي تحریما لقول الکافي: لا یجوز، والمجمع لا یباح، وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي (قولہ بأذان وإقامۃ إلخ) والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعا۔ (ابن عابدین،  رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 480

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں بنیان پہن کر اذان دینا جائز ہے، اس صورت میں اذان ہو جائے گی، قابل اعادہ نہیں ہوگی۔البتہ بلا عذر ایسا نہیں کرنا چاہئے متقیوں والا مہذب لباس پہن کر اذان دینی چاہیے(۲)

(۲) (ویستحب أن یکون المؤذن صالحاً) أي متقیاً لأنہ أمین في الدین (عالماً بالسنۃ)( في الأذان وعالماً بدخول (أوقات الصلاۃ) لتصحیح العبادۃ (و) أن یکون (علی وضوء) لقولہ علیہ السلام لا یؤذن إلا متوضئ (مستقبل القبلۃ) کما فعلہ الملک النازل (إلا أن یکون راکباً) لضرورۃ سفرو وحل ویکرہ في الحضر راکباً في ظاہر الروایۃ۔ (أحمد بن محمد ، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
من سنن المؤذن کونہ رجلاً عاقلاً صالحاً عالماً بالسنن والأوقات مواظباً علیہ محتسباً ثقۃ متطہراً الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص128

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: موجودہ تحقیق کے اعتبار سے پرفیوم کے اندر استعمال ہونے والا الکحل سبزیوں سے کشید کیا جا تا ہے، اس لیے اس کو لگاکر نماز پڑھنا جائز ہے؛ تاہم احتیاط پر عمل کرتے ہوئے بچنا چاہئے۔(۱)

(۱)وإن معطم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویۃ والعطور وغیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ … وحینئذ ہناک فسحۃ في الأخذ بقول أبي حنیفۃ عند عموم البلوی۔ (مفتي محمد تقي عثماني، تکملہ فتح الملہم، ’’کتاب الأشربۃ: حکم الکحول السکرۃ‘‘: ج ۹، ص: ۳۴۳، مکتبہ: اشرفی دیوبند)
المزر والجعۃ والبقع وما یتخذ من السکر والتین ونحو ذلک فیحل شربہ عند أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ قلیلاً کان أو کثیراً مطبوخاً کان أو نیاّ ولا یحد شاربہ وإن سکر۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الأشربۃ: باب حکم النبیذ‘‘: ج ۴، ص: ۲۸۶، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وظاہر أن الأحوط قول محمدؒ فلذا أفتی المتأخرون بہ لسد باب الفتنۃ لکن في زماننا فقد عارضہ عموم البلویٰ في شراب یقال لہ اسپریٹ فالأحوط في زماننا أن یؤدي إلی الجرأۃ في الإثم إذا لم یر الناس منہ خلاصاً کما لا یخفیٰ فالأولیٰ أن لا یتعرض للمبتلی بہ بشيء نعم من قدر علی الاحتراز منہ فلیتحرز ماشاء، کما قال العلامۃ التھانوي رحمہ اللّٰہ۔ (اشرف علی تھانوی، بہشتی زیور عکسی، ’’نواں حصہ: جمادات کا بیان‘‘: ص: ۱۰۱، کتب خانہ اختری، سہارنپور)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص259

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں آپ نے امام کی اقتداء اور ان کے پیچھے تلاوت کی ہے فقہاء احناف نے امام کے پیچھے قرأت کرنے کو مکروہ لکھا ہے تا ہم آپ کی نماز ادا ہو گئی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ جماعت سے نماز پڑھنے کی صورت میں امام کے پیچھے مقتدی کے لیے کسی بھی قسم کی قرأت کرنا مکروہ ہے، نیز اس حکم میں سری اور جہری، فرض اور تراویح کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے، کیوں کہ امام مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہے، مثلاً: اگر تمام مقتدی باوضو ہوں اور امام کا وضو نہ ہو تو تمام مقتدیوں کی نماز ادا نہیں ہوگی، اسی طرح اگر مقتدی سے سجدہ سہو واجب ہو جائے تو امام پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا، لیکن امام سے سہو ہو جائے تو تمام مقتدیوں پر سجدہ سہو لازم ہوتاہے، اگرچہ کسی مقتدی سے کوئی سہو نہ ہو۔
لہٰذا نماز خواہ سری ہو یا جہری، فرض نماز ہو یا تراویح امام کی قرأت تمام مقتدیوں کی طرف سے کافی ہوگی، اور سامع کو یا دیگر مقتدیوں کو امام کے پیچھے قرأت کرنا مکروہ ہوگا۔
’’عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کان لہ إمام فقرائۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۱)
’’وقال أبو حنیفۃ وأحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ، … وقال علي ابن أبي طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۲)
’’والمؤتم لا یقرء مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ تقدیرہ لا غیر الفاتحۃ ولا الفاتحۃ‘‘
’’قولہ: (في السریۃ) یعلم منہ نفی القراء ۃ في الجھریۃ بالأولی والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرأ کرہ تحریما) وتصح في الأصح۔ وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ إنھا تفسد ویکون فاسقا، وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذا جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرأ خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجۃ،  في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘:ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔
(۲) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأعراف: ۲۰۴‘‘: ج ۲، ص:۳۷۲، ۳۷۳، دارالاشاعت دیوبند۔
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، ۲۶۷، زکریا

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص204

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1331/42-738

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرمحلہ والے بلاعذر ایسا کریں گے تو گنہگار ہوں گے، لیکن اگر محلہ والے کسی دوسری جگہ کام کرتے ہیں اور وہیں نماز پڑھ لیتے ہیں تو حرج نہیں، لیکن محلہ میں موجود لوگ جماعت نہیں کریں گے اور گھر پر نماز پڑھیں گے  جبکہ ان کو کوئی  شرعی عذر بھی نہیں ہے  تو گنہگار ہوں گے۔

فاذا ترکھا الکل  مرۃ بلاعذر اثموا (ردالمحتار،باب الامامۃ، زکریا دیوبند، 2/288)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1642/43-1219

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس غلطی سے معنی میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی، اس لئے اس معمولی  اشتباہ سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔لہذا صورت مسئولہ میں نماز درست ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔  

(ومنها) زيادة حرف إن زاد حرفا فإن كان لا يغير المعنى لا تفسد صلاته عند عامة المشايخ هكذا في المحيط وإن غير المعنى نحو أن يقرأ وزرابيب مبثوثة مكان وزرابي تفسد. هكذا في الخلاصة. (الھندیۃ الفصل الخامس فی زلۃ القاری 1/80)

و إن ذكر حرفًا مكان حرف و غير المعني، فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ: الطالحات مكان الصالحات، تفسد صلاته عند الكل، و إن كان لايمكن الفصل بين الحرفين الا بمشقة كالظاء مع الضاد و الصاد مع السين، و الطاء مع التاء، اختلف المشائخ فيه، قال أكثرهم لاتفسد صلاته ... و لو قرأ الدالين بالدال تفسد صلاته ( فتاوی قاضیخان،  كتاب الصلاة، فصل في القراءة في القرآن 1/129)

(ومنها) ذكر حرف مكان حرف إن ذكر حرفا مكان حرف ولم يغير المعنى بأن قرأ إن المسلمون إن الظالمون وما أشبه ذلك لم تفسد صلاته وإن غير المعنى فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مكان الصالحات تفسد صلاته عند الكل وإن كان لا يمكن الفصل بين الحرفين إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين والطاء مع التاء اختلف المشايخ قال أكثرهم لا تفسد صلاته. هكذا في فتاوى قاضي خان. وكثير من المشايخ أفتوا به قال القاضي الإمام أبو الحسن والقاضي الإمام أبو عاصم: إن تعمد فسدت وإن جرى على لسانه أو كان لا يعرف التميز لا تفسد وهو أعدل الأقاويل والمختار هكذا في الوجيز للكردري (الھندیۃ، الفصل الخامس فی زلۃ القاری 1/79)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند