نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام صاحب دونوں مسلکوں سے واقفیت رکھتے ہیں اور وہ دونوں مسلکوں کے اعتبار سے اس طرح رعایت کریں کہ نماز میں کسی بھی مسلک کے لحاظ سے کراہت نہ آتی ہو، تو اس طرح امامت درست ہے۔(۱)

(۱) وقال البدر العیني یجوز الاقتداء بالمخالف … ما لم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)
والاقتداء بشافعي المذہب إنما یصح إذا کان الإمام یتحامي مواضع الخلاف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲)
وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز ما لم یعلم منہ ما یفسد الصلاۃ علی اعتقاد المقتدي علیہ الإجماع … ذہب عامۃ مشایخنا إلی الجواز إذا کان یحتاط في موضع الخلاف وإلا فلا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب في الاقتداء یشافعي ونحو ہل یکرہ أم لا‘‘: ج۲، ص: ۳۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص247

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسجد میں دو جماعتیں کرنا مکروہ تحریمی ہے؛ کیوں کہ دوسری جماعت سے لوگوں کے دلوں سے پہلی جماعت کی اہمیت وعظمت ختم ہو جائے گی اور پہلی جماعت کے افراد بھی کم ہو جائیں گے جیسا کہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب در مختار میں ہے:
’’ ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن‘‘ (قولہ: ویکرہ) أي تحریماً؛ لقول الکافي: لایجوز، والمجمع: لایباح، وشرح الجامع الصغیر: إنہ بدعۃ، کما في رسالۃ السندي، (قولہ: بأذان وإقامۃ إلخ) … والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون، کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعاً‘‘(۱)
البتہ مسجد طریق یا ایسی مسجد جس میں امام مؤذن مقرر نہ ہوں اس میں دوسری جماعت جائز ہے  نیز اگر کسی مجبوری اورعذر کی وجہ سے دوسری جماعت کرلی گئی تو نماز ادا ہو جاتی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
’’واختلف في کون الأمطار والثلوج والأوحال والبرد الشدید عذرا وعن أبي حنیفۃ: إن اشتد التأذي بعذر قال الحسن: أفادت ہذہ الروایۃ أن الجمعۃ والجماعۃ في ذلک سواء،  لیس علی ما ظنہ البعض أن ذلک عذر في الجماعۃ لأنہا سنۃ لا في الجمعۃ لأنہا من آکد الفرائض‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب  في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸۔
(۲) أیضًا:ص: ۲۹۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 487


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سورہ جمعہ کی آیت {اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ} سے مراد اکثر مفسرین اور فقہا نے اذان اول کولیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے
میں جمعہ میں صرف ایک اذان ہوتی تھی، اس وقت {نُوْدِیَ} کا خطاب اسی اذان سے تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگوں کو مسجد میں آنے میں تاخیر ہوتی ہے اور لوگوں سے ’’سعی إلی الجمعہ‘‘ کا وجوب ترک ہورہا ہے، اس لیے انہوں نے منبر پر اذان سے پہلے زوال کے بعد مقام زوراء میں اذان کو جاری کیا اس طرح دو اذان ہونے لگیں، پہلی اذان زوراء کے پاس تاکہ لوگ اس اذان کو سن کر جلدی مسجد میں آجائیں پھر دوسری اذان لوگوں کے آنے بعد مسجد میں منبر کے سامنے دی جاتی تھی چوں کہ پہلی اذان کا مقصد ہی ہے کہ لوگ اذان سن کر ’’سعی إلی الجمعہ‘‘ میں مشغول ہوجائیں اور خرید وفروخت ترک کردیں تاکہ سعی الی الجمعہ میں مخل نہ ہو، اس لیے عموما حضرات فقہاء نے بھی {نُوْدِیَ} سے مراد اذان اول ہی کو لیا ہے۔
’’وکرہ البیع عند أذان الجمعۃ والمعتبر الأذان بعد الزوال، کذا في الکافي‘‘(۱)
’’وإذا أذن المؤذنون الأذان الأول ترک الناس البیع والشراء وتوجہوا إلی الجمعۃ ’’لقولہ تعالی: {فَاسْعَوْا إِلَی ذِکْرِ اللَّہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ} (سورۃ الجمعۃ: ۹) وإذا صعد الإمام المنبر جلس وأذن المؤذنون بین یدي المنبر بذلک جری التوارث ولم یکن علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلا ہذا الأذان ولہذا قیل ہو المعتبر في وجوب السعي وحرمۃ البیع والأصح أن المعتبر ہو الأول إذا کان بعد الزوال لحصول الإعلام بہ‘‘(۲)
تاہم موجودہ ماحول میں جب کہ اذان اول اور اذان ثانی کے درمیان کا وقفہ بعض جگہوں پر بہت زیادہ رہتا ہے، بعض جگہوں پر ایک گھنٹہ پہلے اذان ہوجاتی ہے اور ایک ایک گھنٹے اور بعض جگہ آدھا گھنٹے تک اردو تقریر ہوتی ہے ایسی صورت میں ’’سعی إلی الجمعہ‘‘  کے مقصد کی طرف نظر ہونی چاہیے اذان اول کی طرف نہیں، اس لیے اتنا پہلے کام بند کرنا اور خرید وفروخت ترک کرنا ضروری ہوگا کہ اگر کام بند نہ کیا گیا اور خرید وفروخت کوجاری رکھا تو ’’سعی إلی الجمعہ‘‘  میں
خلل ہوگا اور خطبہ سے پہلے پہونچنا دشوار ہوگا۔
اگر کسی جگہ اذان ایک گھنٹہ پہلے ہوتی ہو اوروہ شخص پندہ منٹ میں تیار ہوسکتا ہے تو خطبہ سے پندرہ منٹ پہلے خرید وفروخت بند کرنا لازم ہوگا اور اگر کسی جگہ اذا ن اول اور خطبہ کے درمیان صرف پندرہ بیس منٹ کا فاصلہ رہتا ہو تو ان کے حق میں کراہت کا تعلق اذان اول سے ہی ہوگا۔ اس لیے کہ خرید وفروخت سے ممانعت کی علت سعی الی الجمعہ میں خلل ہے۔
وسیذکر الشارح في آخر البیع الفاسد أنہ لا بأس بہ لتعلیل النہي بالإخلال بالسعي، فإذا انتفی انتفی، (قولہ: وفي المسجد) أو علی بابہ، بحر (قولہ: وفي الأصح) قال في شرح المنیۃ: واختلفوا في المراد بالأذان الأول، فقیل: الأول باعتبار المشروعیۃ، وہو الذي بین یدي المنبر؛ لأنہ الذي کان أولاً في زمنہ علیہ الصلاۃ والسلام  وزمن أبي بکر وعمر حتی أحدث عثمان الأذان الثاني علی الزوراء حیث کثر الناس۔ والأصح أنہ الأول باعتبار الوقت، وہو الذي یکون علی المنارۃ بعد الزوال،۱ ہـ۔ والزوراء بالمد: إسم موضع في المدینۃ، (قولہ: صحۃ إطلاق الحرمۃ) قلت: سیذکر المصنف في أول کتاب الحظر والإباحۃ کل مکروہ حرام عند محمد، وعندہما إلی الحرام أقرب، ۱ ہـ۔ نعم قول محمد روایۃ عنہما، کما سنذکرہ ہناک إن شاء اللّٰہ تعالی، وأشار إلی الاعتذار عن صاحب الہدایۃ حیث أطلق الحرمۃ علی البیع وقت الأذان مع أنہ مکروہ تحریماً، وبہ اندفع ما في غایۃ البیان حیث اعترض علی الہدایۃ بأن البیع جائز، لکنہ یکرہ کما صرح بہ في شرح الطحاوی؛ لأن النہي لمعني في غیرہ لا یعدم المشروعیۃ ‘ ‘(۱)
’’الأذان المعتبر الذي یجب السعي عندہ ویحرم البیع الأذان عند الخطبۃ لا الأذان قبلہ، لأن ذلک لم یکن في زمن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وذکر شمس الأئمۃ الحلواني، وشمس الأئمۃ السرخسي أن الصحیح المعتبر ہو الأذان الأول
بعد دخول الوقت، وفي المنافع: سواء کان بین یدي المنبر أو علی الزوراء، وبہ کان یفتی الفقیہ أبو القاسم البلخي رحمہ اللّٰہ، وقال الحسن بن زیاد رحمہ اللّٰہ: الأذان علی المنارۃ ہو الأصل‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ:  ’’کتاب البیوع، الباب العشرون في البیاعات المکروہۃ والأرباح الفاسدۃ‘‘:ج ۳، ص: ۱۹۸۔
(۲) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱، ۱۷۲۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب: في حکم المرقی بین یدی الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۸۔…(۲)وقال مفتی الحنیفۃ السلطنۃ السنیۃ الفاضل سعد اللّٰہ حلبي المعتبر في تعلق الأمر یعتبر قولہ تعالیٰ الآتي (فاسعوا) ہو الأذان الأول في الأصح عندنا لأن حصول الإعلام بہ لا الأذان بین یدي المنبر … أما کون الثاني لا إعلام فیہ فلا یضر لأن وقتہ معلوم تخمیناً ولو أرید ما ذکر وجب بالأول السعي وحرم البیع ولیس کذلک۔(علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الجمعۃ: ۹-۱۱‘‘: ج ۱۵، ص: ۱۴۶)
والصحیح أن السعي وترک البیع ونحوہ یجب بالأذان الأول لعموم، قولہ تعالی: {إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ} وصدقہ علی الأذان الأول أیضاً:۔ (قاضي ثناء اللّٰہ پاني پتی، تفسیر مظہري، ’’سورۃ الجمعۃ: ۹‘‘: ج ۹، ص: ۲۷۵، زکریا، دیوبند)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص133

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ زمین کے خشک ہوجانے کے بعد اس پر مصلی بچھا کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔(۲)

(۲) ومکانہ فلا تمنع النجاسۃ في طرف البساط ولو صغیرا في الأصح ولو کان رقیقا وبسطہ علی موضع نجس إن صلح ساترا للعورۃ تجوز الصلاۃ کما في البحر عن الخلاصۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۷۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص263

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ عنہا میں جب زید خارج صلوٰۃ ہے اور عمر داخل صلوٰۃ ہے تو وہ غلطی کرتا ہے اور زید خارج صلوٰۃ ہونے کے باوجود اس کو لقمہ دیتا ہے اور عمر لقمہ لیتا ہے تو اس صورت میں عمر کی نفل نماز ادا نہیں ہوگی بلکہ فاسد ہوجائے گی۔(۱) اور قضاء اس کی لازم ہوگی۔ دونوں صورتوں میں زید وعمر پر قضاء لازم ہے۔(۲)
(۱) وفتحہ علی غیر إمامہ إلا اذا أراد التلاوۃ وکذا الأخذ إلا إذا تذکر، قال في ردالمحتار: أو أخذ الإمام بفتح من لیس في صلاتہ۔ (الحصکفي ، رد المحتار مع الدر المختار، ج۲، ص: ۳۸۱)
(۲) ولزم نفل الخ أي لزم المضی فیہ حتی إذا أفسدہ لزم قضاء ہ : أي قضاء رکعتین، وإن نوی أکثر علی مایأتی۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار،’’باب الوتر والنوافل‘‘ج ۲، ص: ۴۷۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص91

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں (کسی آنے والے کی) رعایت سے قرأت کو طویل کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ اگر اس کو امام جانتا ہے، ورنہ تو نامناسب امر ہے۔(۱)

(۱) کرہ تحریماً إطالۃ رکوع أو قرائۃ لإدراک الجائي: أي إن عرفہ وإلا فلا بأس بہ، قال ابن عابدین: لکن یطول مقدار مالایثقل علی القوم بأن یزید تسبیحۃ أو تسبیحتین علی المعتاد۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸، زکریا)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص211

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دعاء قنوت اور قنوتِ نازلہ وغیرہ یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جب تک صحیح یاد نہ ہو ’’ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ وفي الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ اس کی جگہ پڑھ لی جائے اور اگر یہ بھی یاد نہ ہو تو سورۂ اخلاص وغیرہ {قل ہواللہ أحد اللّٰہ  الصمد} پوری سورت پڑھ سکتے ہیں۔(۲)

(۲) من لم یحسن القنوت یقول: ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ وفي الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ کذا في المحیط أو یقول: اللّٰہم اغفرلنا ویکرر ذلک ثلاثاً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثامن في صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص:۱۷۰، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص320

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس روز سورج گہن ہوجائے تو دو رکعت نماز شریعت نے مقرر کی ہے اس کو نماز کسوف کہتے ہیں نماز کسوف جماعت سے ادا ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورج گہن کے وقت یہ ہی عمل فرماتے تھے۔ سورج گہن اللہ کی ایک نشانی ہے تاکہ انسان اس پر غور کرے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اس سورج کو بے نور کر سکتا ہے ۔ اسی طرح جب چاہے تو اس پورے نظام شمس کو؛ بلکہ کل کائنات کے تمام نظام کو فناء کردے اور قیامت آجائے بس اس طرح مومن کے دل میں خوف طاری ہوتا ہے اور وہ فوراً توبہ کرتا ہے۔ اور اپنی زندگی کی اصلاح کی فکر کرتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہؓ  کو ہر ایسے موقع پر خوف طاری ہوتا تھا اور فوراً مسجد کی طرف چل دیتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج گرہن ہوا آپؐ اس خوف سے گھبرا کے باہر تشریف لائے کہ کہیں قیامت نہ آجائے۔ اور فوراً مسجد تشریف لے گئے اور حضرات صحابہؓ کو بلاکر دو رکعت نماز لمبے رکوع لمبی قرأت اور لمبے سجدے کے ساتھ ادا فرمائی۔ اس لیے تمام مسلمانوں کو شرعاً حکم ہے کہ وہ مسجد میں جمع ہوکر دو رکعت نماز باجماعت پڑھیں اس میں طویل سے طویل رکوع وسجدے کریں۔
پھر طویل دعا کریں اور سورج گہن ہونے تک دعاء میں مشغول رہیں؛ البتہ اس نماز میں سری قرأت لازم ہے اس میں نہ اذان اور نہ اقامت کہنا صحیح ہے اگر اعلان کرکے جمع کرلیا جائے تو اس کی گنجائش ہے اگر اس دوران نماز کا وقت آجائے تو نماز فرض ادا کرنا بھی ضروری ہے اور عورتوں کو حکم کیا جائے اپنے اپنے گھروں میں تلاوت، دعا، ذکر میں مشغول رہیں۔
’’یصلي بالناس من یملک إقامۃ الجمعۃ للکسوف……عند الکسوف رکعتین بیان لأقلہا، وإن شاء أربعاً أو أکثر … کالنفل بلا أذان ولا إقامۃ ولا جہر ولا خطبۃ… ویطیل فیہا الرکوع والسجود والقراء ۃ والأدعیۃ والأذکار الذي ہو من خصائص النافلۃ … حتی تنجلی الشمس کلہا‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الکسوف‘‘: ۶۷، ۶۸، زکریا دیوبند۔)
حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا أبو أسامۃ، عن برید بن عبد اللہ، عن أبي بردۃ، عن أبي موسی، قال: خسفت الشمس، فقام النبي صلی اللہ علیہ وسلم فزعا، یخشی أن تکون الساعۃ، فأتی المسجد، فصلی بأطول قیام ورکوع وسجود مارأیتہ قط یفعلہ، وقال: ہذہ الآیات التي یرسل اللّٰہ، لا تکون لموت أحد ولا لحیاتہ، ولکن یخوف اللّٰہ بہ عبادہ، فإذا رأیتم شیئا من ذلک، فافزعوا إلی ذکرہ ودعائہ واستغفارہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الکسوف، باب الذکر في الکسوف‘‘: ج ۱، ص:۱۴۵)
یصلي بالناس من یملک إقامۃ الجمعۃ)، بیان للمستحب، وما في السراج لا بد من شرائط الجمعۃ إلا الخطبۃ، ردہ فی البحر عند الکسوف (رکعتین)، بیان لأقلہا وإن شاء أربعا أو أکثر، کل رکعتین بتسلیمۃ أو کل أربع، محتبی، وصفتہا: (کالنفل) أي برکوع واحد فی غیر وقت مکروہ، (بلا أذان و) لا (إقامۃ و) لا (جھر و) لا (خطبۃ)، وینادي: الصلاۃ جامعۃ لیجتمعوا، (ویطیل فیہا الرکوع) والسجود (والقراء ۃ) والأدعیۃ والأذکار الذي ہو من خصائص النافلۃ ثم یدعو بعدہا جالسا مستقبل القبلۃ أو قائما مستقبل الناس والقوم یؤمنون، (حتی تنجلي الشمس کلہا وإن لم یحضر الإمام) للجمعۃ (صلی الناس فرادی) في منازلہم تحرزا عن الفتنۃ، (کالخسوف) للقمر۔
(قولہ: ردہ في البحر) أي بتصریح الإسبیجابي بأنہ یستحب فیہا ثلاثۃ أشیاء: الإمام، والوقت: أي الذي یباح فیہ التطوع، والموضع: أي مصلی العید أو المسجد الجامع۔ اہـ۔ وقولہ: الإمام أي الاقتداء بہ۔ وحاصلہ: أنہا تصح بالجماعۃ وبدونہا، والمستحب الأول، لکن إذا صلیت بجماعۃ لا یقیمہا إلا السلطان۔ و ما دونہ کما مر أنہ ظاہر الروایۃ، وکون الجماعۃ مستحبۃ، فیہ رد علی ما في السراج من جعلہا شرطا کصلاۃ الجمعۃ۔ (قولہ: عند الکسوف)، فلو انجلت لم تصل بعدہ، وإذا انجلی بعضہا جاز ابتداء الصلاۃ، وإن سترہا سحاب أو حائل صلی؛ لأن الأصل بقاؤہ، وإن غربت کاسفۃ،…أمسک عن الدعاء وصلی المغرب، جوہرۃ (قولہ: وإن شاء أربعا أو أکثر إلخ) ہذا غیر ظاہر الروایۃ، وظاہر الروایۃ ہو الرکعتان ثم الدعاء إلی أن تنجلی۔ شرح المنیۃ۔ قلت: نعم فی المعراج وغیرہ: لولم یقمہا الإمام صلی الناس فرادی رکعتین أو أربعاً، وذلک أفضل۔ (قولہ: أي برکوع واحد) وقال الأئمۃ الثلاثۃ: في کل رکعۃ رکوعان، والأدلۃ في الفتح وغیرہ، (قولہ: في غیر وقت مکروہ)؛ لأن النوافل لا تصلی في الأوقات المنہی عن الصلاۃ فیہا، وہذہ نافلۃ، جوہرۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الکسوف‘‘: ج۳، ص:۶۷- ۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص428

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 997/41-162

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر وہ اس قدر معذور ہیں کہ وضو اور نماز کے بقدر بھی  عذر سے خالی وقت نہیں ملتا ہے تو پھر ہر نماز کے لئے وضو کرلیں اور پیمپر بدل لیں، اور اگر پیمپر بدلنے میں کافی دشواری ہو تو بدلنا ضروری نہیں ہے، اسی نجس پیمپر میں نماز صحیح ہوجائے گی۔

لیکن اگر اتنا وقت بغیرعذر کے مل جاتا ہے جس میں وضو کرکے فرض نماز ادا کرسکیں تو پھر وہ معذور کے حکم میں نہیں ہوں گے اور ہر نماز کے لئے وضو کرنے کے ساتھ پیمپر بدلنا لازم ہوگا ورنہ نماز نہیں ہوگی۔

مريض تحته ثياب نجسة، وكلما بسط شيئا تنجس من ساعته صلى على حاله وكذا لو لم يتنجس إلا أنه يلحقه مشقة بتحريكه. (الدرالمختار باب سجود التلاوۃ 2/103)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1468/43-1311

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ثنا ،تعوذ وتسمیہ کے بعد  التحیات پڑھے یا پہلے دونوں کاحکم ایک ہے، یہ بھی قبل الفاتحہ میں شامل ہوگا اور اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔  سورہ فاتحہ  سے پہلے ثنا کا محل ہے صرف تعوذ و تسمیہ سے ثنا کا محل فوت نہیں ہوگا۔

ولو تشهد في قيامه قبل قراءة الفاتحة فلا سهو عليه وبعدها يلزمه سجود السهو وهو الأصح؛ لأن بعد الفاتحة محل قراءة السورة فإذا تشهد فيه فقد أخر الواجب وقبلها محل الثناء، كذا في التبيين ولو تشهد في الأخريين لا يلزمه السهو، كذا في محيط السرخسي. (الھندیۃ الباب الثانی عشر فی سجود السھو 1/127)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند