نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ مانگنے سے عطا فرماتے ہیں؛ لیکن بندہ کیا مانگے گا اس کا علم اس کو پہلے سے ہے، اس کو لکھ دیا جاتا ہے اور کبھی کبھی دعا مانگنے پر بظاہر کوئی چیز نہیں ملتی فی الفور نہ دینے میں بندے کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے کیا مصلحت اور فائدے ہیں، اس کو خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ بندہ کی عقل اس کو سمجھ نہیں سکتی۔(۱)
(۱) {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيْٓ  أَسْتَجِبْ لَکُمْط} (سورۃ الغافر: ۶۰)
عن النعمان بن بشیر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إن الدعاء ہو العبادۃ‘‘ ثم قرأ: {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيْٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْط} ]سورۃ الغافر: ۶۰[۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الدعاء: باب فضل الدعاء‘‘: ج ۲، ص: ۵۸، رقم: ۳۸۲۸)
عن سعدٍ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: دعوۃ ذي النون إذ دعاہ وہو في بطن الحوت: { لَّآ إِلٰہَ إِلَّآ أَنْتَ سُبْحٰنَکَ  صلے ق إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ  ہجصلے ۸۷ } فإنہ لم یدع بہا رجل مسلم في شيء قط إلا استجاب اللّٰہ لہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات: باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۸، رقم: ۳۵۰۵)
{فَاسْتَجَبْنَا لَہٗلا وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّط وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَہ۸۸} (سورۃ الأنبیاء: ۸۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص366

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احادیث سے رفع یدین بھی ثابت ہے اور عدم رفع بھی اور آمین بالجہر بھی اور بالسر بھی، لیکن شراح حدیث اور فقہاء نے وضاحت کی ہے کہ ان مسائل میں اختلاف جواز اور عدم جواز کانہیں ہے؛ بلکہ افضلیت اور اولیت کا ہے؛ اس لیے اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا، بہر صورت نماز ہو جاتی ہے صورت مسئول عنہا میں ایک کا دوسرے کو برا کہنا جائز نہیں ہے۔ جو مجتہد اپنے اجتہاد سے صحیح مسئلہ پر پہونچا وہ مصیب ہے اور دوسرا مخطی ہے اور ائمہ اربعہ متفق ہیں کہ مخطی بھی مستحق اجر ہے، تو مقلدین کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ دوسرے کو برا کہیں ایک کی نماز دوسرے کے پیچھے بلاشبہ ہو جاتی ہے، البتہ طہارت کے جو مسائل مختلف فیہ ہیں ان میں مقتدی کے مسلک کی رعایت امام کو کرنی ضروری ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے، تو اس صورت میں مقتدی کی نماز فاسد ہو جاتی ہے اور اگر مقتدی کو امام کی کیفیت کا علم نہ ہو تو بھی اس کے لیے اعادہ کا حکم نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بر وفاجر ما لم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا وما لم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ أہـ۔ وإذا لم یجد غیر المخالف فلا کراہۃ في الاقتداء بہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
والذي یمیل إلیہ القلب عدم کراہۃ الاقتداء بالمخالف ما لم یکن غیر مراع في الفرائض لأن کثیراً من الصحابۃ والتابعین کانوا أئمۃ مجتہدین وہم یصلون خلف إمام واحد مع تباین مذاہبم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص248

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: شریعت کا مقصدجمعہ کی نماز سے اجتماعیت کا اظہار ہے  اس لیے بڑی اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم ہے، ایک مسجد میں کسی بھی نماز میں دوسری جماعت مکروہ تحریمی ہے۔ خاص طور پر جمعہ کی جماعت ثانیہ بھی مکروہ تحریمی ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متأثر ہوتی ہے جب شہر میں کئی مساجد ہوں تو بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں جمعہ کی نماز کے اوقات مختلف رکھیں تاکہ اگر کسی ایک جگہ جماعت فوت ہوجائے تو دوسری مسجد میں جماعت مل جائے، اس کے لیے قریب کے علاقے کی مساجد کی ایک میٹنگ منعقد کرکے اوقات نماز کواس طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے جو ہر طرح کے لوگوں کے لیے ممکن العمل ہو۔ آپ نے جو عذربیان کیا ہے اس کے لیے مسجد میں یا مسجد کے سامنے مدرسہ میں جماعت ثانیہ کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متاثر ہوتی ہے۔ علامہ شامیؒ نے یہاں تک لکھا ہے کہ جمعہ کے بعد جامع مسجد کو مقفل کر دیا جائے تاکہ دوسرے لوگ جماعت نہ کرسکیں تاہم اگر اس پر عمل نہ ہوسکے، تو مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ میں جماعت ثانیہ کا نظم کیا جائے۔ مسجد میں جماعت ثانیہ کرنا مذکورہ عذر کی بنا پر درست نہیں ہے۔
’’ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن‘‘ (۱)، ’’(وکذا أہل مصر فاتتہم الجمعۃ) فإنہم یصلون الظہر بغیر أذان ولا إقامۃ ولا جماعۃ۔ ویستحب للمریض تأخیرہا إلی فراغ الإمام وکرہ إن لم یؤخر ہو الصحیح (قولہ إلا الجامع) أي: الذي تقام فیہ الجمعۃ فإن فتحہ في وقت الظہر ضروري والظاہر أنہ یغلق أیضا: بعد إقامۃ الجمعۃ لئلا یجتمع فیہ أحد بعدہا، إلا أن یقال إن العادۃ الجاریۃ ہي اجتماع الناس في أول الوقت فیغلق ما سواہ مما لا تقام فیہ الجمعۃ لیضطروا إلی المجيء إلیہ وعلی ہذا فیغلق غیرہ إلی الفراغ منہا لکن لا داعی إلی فتحہ بعدہا فیبقی مغلوقا إلی وقت العصر ثم کل ہذا مبالغۃ في المنع عن صلاۃ غیر الجمعۃ وإظہارا لتأکدہا‘‘(۱) ’’وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ و ہو قول أبي حنیفۃ و محمد رحمہما اللّٰہ و ہو الأصح‘‘(۲) ’’وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ مطلقا کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۸۔
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص:۳۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص:۲۰۹۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في صحۃ الجمعۃ بمسجد المرجۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص488 تا 491

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) جن مساجد میں باجماعت نماز ہوتی ہے وہاںہر ایک مسجد میں علاحدہ علاحدہ اذان دینا سنت ہے، کئی مسجدوں کے لیے ایک اذان پر اکتفا کرنا خلاف مسنون ہے۔
(۲) کمپیوٹرکے ذریعہ جو اذان کی آواز سنائی دیتی ہے وہ صدائے باز گشت کے حکم میں ہے جس کا اعتبار نہیں ہے؛ اس لیے کمپیوٹرائز اذان سے اذان کی سنیت ادا نہ ہوگی یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کمپیوٹر اور ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ آیت سجدہ سنے تو اس پر سجدہ واجب نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ صدائے باز گشت ہے۔
’’لا تجب بسماعہ من الصدی ھو ما یجیبک مثل صوتک في الجبال والصحـاری و نحوھما کما في الصحاح‘‘(۱)
’’وروي ابن أبي مالک عن أبي یوسف عن أبي حنیفۃ في قوم صلوا في المصر في منزل أو في مسجد منزل، فأخبروا بأذان الناس وإقامتہم أجزأہم۔ وقد أساء وا بترکہما، فقد فرق بین الجماعۃ والواحد؛ لأن أذان الحي یکون أذانا للأفراد ولا یکون أذانا للجماعۃ‘‘(۱)
’’قال ابن المنذر: فرض في حق الجماعۃ في الحضر والسفر، وقال مالک: یجب في مسجدالجماعۃ، وفي ’’العارضۃ‘‘: وہو علی البلد ولیس بواجب في کل سجدۃ، ولکنہ یستحب في مساجد الجماعات أکثر من العدد‘‘(۲)
’’وإذا قسّم أہل المحلّۃ المسجد وضربوا فیہ حائطا ولکل منہم إمام علی حدۃ ومؤذنہم واحد لا بأس بہ والأولی أن یکون لکل طائفۃ مؤذن‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج۲، ص: ۵۸۳، مکتبہ: زکریا، دیوبند۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۸۔
(۲) العیني، البنایہ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘ حکم الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، مکتبہ: نعیمیہ، دیوبند۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق ’’کتاب الصلاۃ، فصل استقبال القبلۃ بالفرج في الخلاء ‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص136

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: اس پر نمازپڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(۱)

(۱) وأما طہارۃ مکان الصلاۃ فلقولہ تعالٰی: {أَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِہ۱۲۵} وقال في موضع والقائمین والرکع السجود ولما ذکرنا أن الصلاۃ خدمۃ الرب تعالٰی وتعظیمہ وخدمۃ المعبود المستحق للعبادۃ وتعظیمہ بکل الممکن فرض، وأداء الصلاۃ علی مکان طاہر أقرب إلی التعظیم فکان طہارۃ مکان الصلاۃ شرطا، وقد روي عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ أنہ نہي عن الصلاۃ في المزبلۃ والمجزرۃ ومعاطن الإبل وقوارع الطرق والحمام والمقبرۃ وفوق ظہر بیت اللّٰہ تعالٰی۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص264

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مقتدی کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔(۱)
(۱) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ قالوا: ہذا اذا ارتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری، وأما إذا قرأ أو تحول ففتح علیہ تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح أنہا لاتفسد صلاۃ الفاتح بکل حال وصلاۃ الامام لو آخذ منہ علی الصحیح، ہکذا في الکافي، ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ لجوازہ أن یتذکر من ساعتہ فیبصیر قارئا خلف الإمام من غیر حاجۃ، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۹۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص92

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن افضل یہ ہے کہ فجر اور ظہر میں طوال مفصل، عصر وعشاء میں اوساط مفصل؛ مغرب میں قصار مفصل میں سے پڑھے۔(۲)
(۲) ففي جامع الفتاویٰ: روي الحسن عن أبي حنیفۃ أنہ قال: لا أحب أن یقرأ سورتین بعد الفاتحۃ في المکتوبات، ولو فعل لایکرہ، وفي النوافل لابأس بہ۔ (قولہ إلا بالمسنون) وہو القراء ۃ من طوال المفصل في الفجر والظہر وأوساطہ في العصر والعشاء وقصارہ في المغرب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۴)
واستحسنوا في الحضر طوال المفصل في الفجر والظہر، وأوساطہ في العصر والعشاء، وقصارہ في المغرب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص212

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں جب کہ وتر کی تیسری رکعت کے رکوع میں مسبوق شریک ہوا اور تیسری رکعت اس نے پالی تو تیسری رکعت میں اس کے آنے سے پہلے جو کچھ امام نے کیا ہے یہ مسبوق اس کا پانے والا کہلائے گا اس لیے مسبوق مذکور امام کے بعد اپنی دو رکعت ادا کرے مگر قنوت نہیں پڑھے گا۔(۱)

(۱) قولہ : فیقنت مع إمامہ فقط: لأنہ آخر صلاتہ، ومایقضیہ أولہا حکما في حق القراء ۃ وما أشبہھا وہو القنوت۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص321

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ الاوابین کی علاوہ سنت مؤکدہ مغرب کے کم از کم چھ رکعات ہیں زیادہ سے زیادہ بیس رکعات ہیں اور تہجد کی نماز آٹھ رکعت ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہی تھا اور زیادہ بارہ تک ہیں اور کم سے کم دو رکعات ہیں۔
’’عن أبی سلمۃ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیہا بینہن بسوء، عدلن لہ بعبادۃ ثنتي عشر سنۃ‘‘(۱)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من صلی بعد المغرب عشرین رکعۃ بنی اللّٰہ لہ بیتا في الجنۃ‘‘(۲)
’’عن أبي سعید وأبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا استیقظ الرجل مـن اللیــل وأیقظ امرأتہ، فصلیا رکعتین کتبــا من الذاکــرین اللّٰہ کثیرا والذاکرات‘‘(۱)
’’وصلاۃ اللیل وأقلہا علی ما في الجوہرۃ ثمان … قال یصلي ما سہل علیہ ولو رکعتین، والسنۃ فیہا ثمان رکعات بأربع تسلیمات … فینبغي القول بأن أقل التہجد رکعتان وأوسطہ أربع وأکثرہ ثمان‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم۴۳۵ نعیمیہ۔)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم۴۳۵ نعیمیہ۔)
(۱)أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فیمن أیقظ أھلہ من اللیل۔‘‘ ص۹۴،رقم ۱۳۳۵)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷،۴۶۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص430

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو رواج بنا کر نہ کیا جائے، البتہ بغیر تاریخ کی تعیین کے اور بغیر کسی زبردستی کے کبھی بھی لوگوں کو بلا کر جتنا بھی وہ خوشی سے پڑھنا چاہیں پڑھوا کر دعاء یا ایصالِ ثواب کرادیا جائے، اور آیت کریمہ یا سورۂ یٰسین یا ختم قرآن کے ان موقعوں پر شیرینی وغیرہ کا التزام بھی نہ کیا جائے کہ اس میں ناموری کا اور کھانے کا لالچ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ثواب یا تو بالکل ہی نہیں ہوتا یا کم ہو جاتا ہے۔(۱)
(۱) من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص367