نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دعاء قنوت اور قنوتِ نازلہ وغیرہ یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جب تک صحیح یاد نہ ہو ’’ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ وفي الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ اس کی جگہ پڑھ لی جائے اور اگر یہ بھی یاد نہ ہو تو سورۂ اخلاص وغیرہ {قل ہواللہ أحد اللّٰہ  الصمد} پوری سورت پڑھ سکتے ہیں۔(۲)

(۲) من لم یحسن القنوت یقول: ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ وفي الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ کذا في المحیط أو یقول: اللّٰہم اغفرلنا ویکرر ذلک ثلاثاً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثامن في صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص:۱۷۰، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص320

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس روز سورج گہن ہوجائے تو دو رکعت نماز شریعت نے مقرر کی ہے اس کو نماز کسوف کہتے ہیں نماز کسوف جماعت سے ادا ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورج گہن کے وقت یہ ہی عمل فرماتے تھے۔ سورج گہن اللہ کی ایک نشانی ہے تاکہ انسان اس پر غور کرے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اس سورج کو بے نور کر سکتا ہے ۔ اسی طرح جب چاہے تو اس پورے نظام شمس کو؛ بلکہ کل کائنات کے تمام نظام کو فناء کردے اور قیامت آجائے بس اس طرح مومن کے دل میں خوف طاری ہوتا ہے اور وہ فوراً توبہ کرتا ہے۔ اور اپنی زندگی کی اصلاح کی فکر کرتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہؓ  کو ہر ایسے موقع پر خوف طاری ہوتا تھا اور فوراً مسجد کی طرف چل دیتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج گرہن ہوا آپؐ اس خوف سے گھبرا کے باہر تشریف لائے کہ کہیں قیامت نہ آجائے۔ اور فوراً مسجد تشریف لے گئے اور حضرات صحابہؓ کو بلاکر دو رکعت نماز لمبے رکوع لمبی قرأت اور لمبے سجدے کے ساتھ ادا فرمائی۔ اس لیے تمام مسلمانوں کو شرعاً حکم ہے کہ وہ مسجد میں جمع ہوکر دو رکعت نماز باجماعت پڑھیں اس میں طویل سے طویل رکوع وسجدے کریں۔
پھر طویل دعا کریں اور سورج گہن ہونے تک دعاء میں مشغول رہیں؛ البتہ اس نماز میں سری قرأت لازم ہے اس میں نہ اذان اور نہ اقامت کہنا صحیح ہے اگر اعلان کرکے جمع کرلیا جائے تو اس کی گنجائش ہے اگر اس دوران نماز کا وقت آجائے تو نماز فرض ادا کرنا بھی ضروری ہے اور عورتوں کو حکم کیا جائے اپنے اپنے گھروں میں تلاوت، دعا، ذکر میں مشغول رہیں۔
’’یصلي بالناس من یملک إقامۃ الجمعۃ للکسوف……عند الکسوف رکعتین بیان لأقلہا، وإن شاء أربعاً أو أکثر … کالنفل بلا أذان ولا إقامۃ ولا جہر ولا خطبۃ… ویطیل فیہا الرکوع والسجود والقراء ۃ والأدعیۃ والأذکار الذي ہو من خصائص النافلۃ … حتی تنجلی الشمس کلہا‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الکسوف‘‘: ۶۷، ۶۸، زکریا دیوبند۔)
حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا أبو أسامۃ، عن برید بن عبد اللہ، عن أبي بردۃ، عن أبي موسی، قال: خسفت الشمس، فقام النبي صلی اللہ علیہ وسلم فزعا، یخشی أن تکون الساعۃ، فأتی المسجد، فصلی بأطول قیام ورکوع وسجود مارأیتہ قط یفعلہ، وقال: ہذہ الآیات التي یرسل اللّٰہ، لا تکون لموت أحد ولا لحیاتہ، ولکن یخوف اللّٰہ بہ عبادہ، فإذا رأیتم شیئا من ذلک، فافزعوا إلی ذکرہ ودعائہ واستغفارہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الکسوف، باب الذکر في الکسوف‘‘: ج ۱، ص:۱۴۵)
یصلي بالناس من یملک إقامۃ الجمعۃ)، بیان للمستحب، وما في السراج لا بد من شرائط الجمعۃ إلا الخطبۃ، ردہ فی البحر عند الکسوف (رکعتین)، بیان لأقلہا وإن شاء أربعا أو أکثر، کل رکعتین بتسلیمۃ أو کل أربع، محتبی، وصفتہا: (کالنفل) أي برکوع واحد فی غیر وقت مکروہ، (بلا أذان و) لا (إقامۃ و) لا (جھر و) لا (خطبۃ)، وینادي: الصلاۃ جامعۃ لیجتمعوا، (ویطیل فیہا الرکوع) والسجود (والقراء ۃ) والأدعیۃ والأذکار الذي ہو من خصائص النافلۃ ثم یدعو بعدہا جالسا مستقبل القبلۃ أو قائما مستقبل الناس والقوم یؤمنون، (حتی تنجلي الشمس کلہا وإن لم یحضر الإمام) للجمعۃ (صلی الناس فرادی) في منازلہم تحرزا عن الفتنۃ، (کالخسوف) للقمر۔
(قولہ: ردہ في البحر) أي بتصریح الإسبیجابي بأنہ یستحب فیہا ثلاثۃ أشیاء: الإمام، والوقت: أي الذي یباح فیہ التطوع، والموضع: أي مصلی العید أو المسجد الجامع۔ اہـ۔ وقولہ: الإمام أي الاقتداء بہ۔ وحاصلہ: أنہا تصح بالجماعۃ وبدونہا، والمستحب الأول، لکن إذا صلیت بجماعۃ لا یقیمہا إلا السلطان۔ و ما دونہ کما مر أنہ ظاہر الروایۃ، وکون الجماعۃ مستحبۃ، فیہ رد علی ما في السراج من جعلہا شرطا کصلاۃ الجمعۃ۔ (قولہ: عند الکسوف)، فلو انجلت لم تصل بعدہ، وإذا انجلی بعضہا جاز ابتداء الصلاۃ، وإن سترہا سحاب أو حائل صلی؛ لأن الأصل بقاؤہ، وإن غربت کاسفۃ،…أمسک عن الدعاء وصلی المغرب، جوہرۃ (قولہ: وإن شاء أربعا أو أکثر إلخ) ہذا غیر ظاہر الروایۃ، وظاہر الروایۃ ہو الرکعتان ثم الدعاء إلی أن تنجلی۔ شرح المنیۃ۔ قلت: نعم فی المعراج وغیرہ: لولم یقمہا الإمام صلی الناس فرادی رکعتین أو أربعاً، وذلک أفضل۔ (قولہ: أي برکوع واحد) وقال الأئمۃ الثلاثۃ: في کل رکعۃ رکوعان، والأدلۃ في الفتح وغیرہ، (قولہ: في غیر وقت مکروہ)؛ لأن النوافل لا تصلی في الأوقات المنہی عن الصلاۃ فیہا، وہذہ نافلۃ، جوہرۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الکسوف‘‘: ج۳، ص:۶۷- ۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص428

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 997/41-162

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر وہ اس قدر معذور ہیں کہ وضو اور نماز کے بقدر بھی  عذر سے خالی وقت نہیں ملتا ہے تو پھر ہر نماز کے لئے وضو کرلیں اور پیمپر بدل لیں، اور اگر پیمپر بدلنے میں کافی دشواری ہو تو بدلنا ضروری نہیں ہے، اسی نجس پیمپر میں نماز صحیح ہوجائے گی۔

لیکن اگر اتنا وقت بغیرعذر کے مل جاتا ہے جس میں وضو کرکے فرض نماز ادا کرسکیں تو پھر وہ معذور کے حکم میں نہیں ہوں گے اور ہر نماز کے لئے وضو کرنے کے ساتھ پیمپر بدلنا لازم ہوگا ورنہ نماز نہیں ہوگی۔

مريض تحته ثياب نجسة، وكلما بسط شيئا تنجس من ساعته صلى على حاله وكذا لو لم يتنجس إلا أنه يلحقه مشقة بتحريكه. (الدرالمختار باب سجود التلاوۃ 2/103)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1468/43-1311

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ثنا ،تعوذ وتسمیہ کے بعد  التحیات پڑھے یا پہلے دونوں کاحکم ایک ہے، یہ بھی قبل الفاتحہ میں شامل ہوگا اور اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔  سورہ فاتحہ  سے پہلے ثنا کا محل ہے صرف تعوذ و تسمیہ سے ثنا کا محل فوت نہیں ہوگا۔

ولو تشهد في قيامه قبل قراءة الفاتحة فلا سهو عليه وبعدها يلزمه سجود السهو وهو الأصح؛ لأن بعد الفاتحة محل قراءة السورة فإذا تشهد فيه فقد أخر الواجب وقبلها محل الثناء، كذا في التبيين ولو تشهد في الأخريين لا يلزمه السهو، كذا في محيط السرخسي. (الھندیۃ الباب الثانی عشر فی سجود السھو 1/127)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ مانگنے سے عطا فرماتے ہیں؛ لیکن بندہ کیا مانگے گا اس کا علم اس کو پہلے سے ہے، اس کو لکھ دیا جاتا ہے اور کبھی کبھی دعا مانگنے پر بظاہر کوئی چیز نہیں ملتی فی الفور نہ دینے میں بندے کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے کیا مصلحت اور فائدے ہیں، اس کو خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ بندہ کی عقل اس کو سمجھ نہیں سکتی۔(۱)
(۱) {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيْٓ  أَسْتَجِبْ لَکُمْط} (سورۃ الغافر: ۶۰)
عن النعمان بن بشیر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إن الدعاء ہو العبادۃ‘‘ ثم قرأ: {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيْٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْط} ]سورۃ الغافر: ۶۰[۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الدعاء: باب فضل الدعاء‘‘: ج ۲، ص: ۵۸، رقم: ۳۸۲۸)
عن سعدٍ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: دعوۃ ذي النون إذ دعاہ وہو في بطن الحوت: { لَّآ إِلٰہَ إِلَّآ أَنْتَ سُبْحٰنَکَ  صلے ق إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ  ہجصلے ۸۷ } فإنہ لم یدع بہا رجل مسلم في شيء قط إلا استجاب اللّٰہ لہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات: باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۸، رقم: ۳۵۰۵)
{فَاسْتَجَبْنَا لَہٗلا وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّط وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَہ۸۸} (سورۃ الأنبیاء: ۸۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص366

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احادیث سے رفع یدین بھی ثابت ہے اور عدم رفع بھی اور آمین بالجہر بھی اور بالسر بھی، لیکن شراح حدیث اور فقہاء نے وضاحت کی ہے کہ ان مسائل میں اختلاف جواز اور عدم جواز کانہیں ہے؛ بلکہ افضلیت اور اولیت کا ہے؛ اس لیے اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا، بہر صورت نماز ہو جاتی ہے صورت مسئول عنہا میں ایک کا دوسرے کو برا کہنا جائز نہیں ہے۔ جو مجتہد اپنے اجتہاد سے صحیح مسئلہ پر پہونچا وہ مصیب ہے اور دوسرا مخطی ہے اور ائمہ اربعہ متفق ہیں کہ مخطی بھی مستحق اجر ہے، تو مقلدین کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ دوسرے کو برا کہیں ایک کی نماز دوسرے کے پیچھے بلاشبہ ہو جاتی ہے، البتہ طہارت کے جو مسائل مختلف فیہ ہیں ان میں مقتدی کے مسلک کی رعایت امام کو کرنی ضروری ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے، تو اس صورت میں مقتدی کی نماز فاسد ہو جاتی ہے اور اگر مقتدی کو امام کی کیفیت کا علم نہ ہو تو بھی اس کے لیے اعادہ کا حکم نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بر وفاجر ما لم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا وما لم یتحقق من إمامہ مفسداً لصلاتہ في اعتقادہ أہـ۔ وإذا لم یجد غیر المخالف فلا کراہۃ في الاقتداء بہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
والذي یمیل إلیہ القلب عدم کراہۃ الاقتداء بالمخالف ما لم یکن غیر مراع في الفرائض لأن کثیراً من الصحابۃ والتابعین کانوا أئمۃ مجتہدین وہم یصلون خلف إمام واحد مع تباین مذاہبم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص248

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: شریعت کا مقصدجمعہ کی نماز سے اجتماعیت کا اظہار ہے  اس لیے بڑی اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم ہے، ایک مسجد میں کسی بھی نماز میں دوسری جماعت مکروہ تحریمی ہے۔ خاص طور پر جمعہ کی جماعت ثانیہ بھی مکروہ تحریمی ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متأثر ہوتی ہے جب شہر میں کئی مساجد ہوں تو بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں جمعہ کی نماز کے اوقات مختلف رکھیں تاکہ اگر کسی ایک جگہ جماعت فوت ہوجائے تو دوسری مسجد میں جماعت مل جائے، اس کے لیے قریب کے علاقے کی مساجد کی ایک میٹنگ منعقد کرکے اوقات نماز کواس طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے جو ہر طرح کے لوگوں کے لیے ممکن العمل ہو۔ آپ نے جو عذربیان کیا ہے اس کے لیے مسجد میں یا مسجد کے سامنے مدرسہ میں جماعت ثانیہ کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس سے جمعہ کی اجتماعیت متاثر ہوتی ہے۔ علامہ شامیؒ نے یہاں تک لکھا ہے کہ جمعہ کے بعد جامع مسجد کو مقفل کر دیا جائے تاکہ دوسرے لوگ جماعت نہ کرسکیں تاہم اگر اس پر عمل نہ ہوسکے، تو مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ میں جماعت ثانیہ کا نظم کیا جائے۔ مسجد میں جماعت ثانیہ کرنا مذکورہ عذر کی بنا پر درست نہیں ہے۔
’’ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن‘‘ (۱)، ’’(وکذا أہل مصر فاتتہم الجمعۃ) فإنہم یصلون الظہر بغیر أذان ولا إقامۃ ولا جماعۃ۔ ویستحب للمریض تأخیرہا إلی فراغ الإمام وکرہ إن لم یؤخر ہو الصحیح (قولہ إلا الجامع) أي: الذي تقام فیہ الجمعۃ فإن فتحہ في وقت الظہر ضروري والظاہر أنہ یغلق أیضا: بعد إقامۃ الجمعۃ لئلا یجتمع فیہ أحد بعدہا، إلا أن یقال إن العادۃ الجاریۃ ہي اجتماع الناس في أول الوقت فیغلق ما سواہ مما لا تقام فیہ الجمعۃ لیضطروا إلی المجيء إلیہ وعلی ہذا فیغلق غیرہ إلی الفراغ منہا لکن لا داعی إلی فتحہ بعدہا فیبقی مغلوقا إلی وقت العصر ثم کل ہذا مبالغۃ في المنع عن صلاۃ غیر الجمعۃ وإظہارا لتأکدہا‘‘(۱) ’’وتؤدي الجمعۃ في مصر واحد في مواضع کثیرۃ و ہو قول أبي حنیفۃ و محمد رحمہما اللّٰہ و ہو الأصح‘‘(۲) ’’وتؤدي في مصر واحد بمواضع کثیرۃ مطلقا کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۸۔
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’باب الجمعۃ، مطلب في شروط وجوب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص:۳۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص:۲۰۹۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في صحۃ الجمعۃ بمسجد المرجۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص488 تا 491

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) جن مساجد میں باجماعت نماز ہوتی ہے وہاںہر ایک مسجد میں علاحدہ علاحدہ اذان دینا سنت ہے، کئی مسجدوں کے لیے ایک اذان پر اکتفا کرنا خلاف مسنون ہے۔
(۲) کمپیوٹرکے ذریعہ جو اذان کی آواز سنائی دیتی ہے وہ صدائے باز گشت کے حکم میں ہے جس کا اعتبار نہیں ہے؛ اس لیے کمپیوٹرائز اذان سے اذان کی سنیت ادا نہ ہوگی یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کمپیوٹر اور ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ آیت سجدہ سنے تو اس پر سجدہ واجب نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ صدائے باز گشت ہے۔
’’لا تجب بسماعہ من الصدی ھو ما یجیبک مثل صوتک في الجبال والصحـاری و نحوھما کما في الصحاح‘‘(۱)
’’وروي ابن أبي مالک عن أبي یوسف عن أبي حنیفۃ في قوم صلوا في المصر في منزل أو في مسجد منزل، فأخبروا بأذان الناس وإقامتہم أجزأہم۔ وقد أساء وا بترکہما، فقد فرق بین الجماعۃ والواحد؛ لأن أذان الحي یکون أذانا للأفراد ولا یکون أذانا للجماعۃ‘‘(۱)
’’قال ابن المنذر: فرض في حق الجماعۃ في الحضر والسفر، وقال مالک: یجب في مسجدالجماعۃ، وفي ’’العارضۃ‘‘: وہو علی البلد ولیس بواجب في کل سجدۃ، ولکنہ یستحب في مساجد الجماعات أکثر من العدد‘‘(۲)
’’وإذا قسّم أہل المحلّۃ المسجد وضربوا فیہ حائطا ولکل منہم إمام علی حدۃ ومؤذنہم واحد لا بأس بہ والأولی أن یکون لکل طائفۃ مؤذن‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج۲، ص: ۵۸۳، مکتبہ: زکریا، دیوبند۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۸۔
(۲) العیني، البنایہ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘ حکم الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، مکتبہ: نعیمیہ، دیوبند۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق ’’کتاب الصلاۃ، فصل استقبال القبلۃ بالفرج في الخلاء ‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص136

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: اس پر نمازپڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(۱)

(۱) وأما طہارۃ مکان الصلاۃ فلقولہ تعالٰی: {أَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِہ۱۲۵} وقال في موضع والقائمین والرکع السجود ولما ذکرنا أن الصلاۃ خدمۃ الرب تعالٰی وتعظیمہ وخدمۃ المعبود المستحق للعبادۃ وتعظیمہ بکل الممکن فرض، وأداء الصلاۃ علی مکان طاہر أقرب إلی التعظیم فکان طہارۃ مکان الصلاۃ شرطا، وقد روي عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ أنہ نہي عن الصلاۃ في المزبلۃ والمجزرۃ ومعاطن الإبل وقوارع الطرق والحمام والمقبرۃ وفوق ظہر بیت اللّٰہ تعالٰی۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص264

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مقتدی کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔(۱)
(۱) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ قالوا: ہذا اذا ارتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری، وأما إذا قرأ أو تحول ففتح علیہ تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح أنہا لاتفسد صلاۃ الفاتح بکل حال وصلاۃ الامام لو آخذ منہ علی الصحیح، ہکذا في الکافي، ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ لجوازہ أن یتذکر من ساعتہ فیبصیر قارئا خلف الإمام من غیر حاجۃ، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۹۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص92