نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:محلہ کی مسجد کی اذان ہو یا کسی دوسرے محلہ کی جس اذان کی آواز پہلے کان میں پڑے اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ باقی اذانوں کا جواب ضروری نہیں ہے البتہ افضل ہے کہ ان کا بھی جواب دیا جائے۔(۲)
’’وإذا تعدد الأذان یجیب الأول، مطلقاً سوائٌ کان مؤذن مسجدہ أم لا لأنہ حیث سمع الأذان ندبت لہ الإجابۃ ثم لا یتکرر علیہ في الأصح ذکرہ الشہاب في شرح الشفاء‘‘(۱)

(۲) وإذا تعدد الأذان یجیب الأول ولا یجیب فی الصلاۃ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح: ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘ ج ۱، ص: ۸۰)
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، باب الأذان: ج ۱، ص: ۲۲۰
(قولہ: ولو تکرر) أی بأن أذن واحد بعد واحد، أما لو سمعہم في آن واحد من جہات فسیأتي۔
(قولہ: أجاب الأول) سواء کان مؤذن مسجدہ أو غیرہ بحر عن الفتح بحثا۔… ویفیدہ ما في البحر أیضا عن التفاریق: إذا کان في المسجد أکثر من مؤذن أذنوا واحدا بعد واحد، فالحرمۃ للأول اہـ۔ لکنہ یحتمل أن یکون مبنیا علی أن الإجابۃ بالقدم، أو علی أن تکرارہ في مسجد واحد یوجب أن یکون الثاني غیر مسنون، بخلاف ما إذا کان من محلات مختلفۃ۔ تأمل۔ ویظہر لي إجابۃ الکل بالقول لتعدد السبب وہو السماع کما اعتمدہ بعض الشافعیۃ۔ (ابن عابدین:رد المحتار: ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج ۲، ص: ۶۶، ۶۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص138

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں اگر کوئی حرکت ایسی کی گئی ہو جس کو عمل قلیل کہا جاسکے تو شرعاً اس کی گنجائش ہے اور اگر کوئی ایسا عمل ہو جس کو عمل کثیر کہا جائے تو شرعاً ایسے عمل سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ عمل قلیل و کثیر امام اعظمؒ کے نزدیک مبتلی بہ کی رائے پر موقوف ہے۔ بعض فقہاء نے اس کی تفصیل یہ تحریر کی ہے اگر کوئی ایسا عمل کیا جائے جس میں ایک ہاتھ لگایا جائے تو عمل قلیل ہوگا اور اگر دو ہاتھ لگانے کی ضرورت پڑے تو عمل کثیر کہلائے گا اس تفصیل کے تحت مذکورہ فی السوال جزئیہ کتب فقہ میں موجود ہے؛ لیکن دونوں ہاتھوں سے کرتے کو نیچے کئے جانے پر عمل کثیر کی تعریف صادق نہیں آئی؛ اس لیے اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی؛ لیکن اس کے کراہت شدیدہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں؛ اس لیے صرف ایک ہاتھ سے اگر ضرورت ہو، تو دامن کو صحیح کیا جاسکتا ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اصلاح کی نیت سے ایک ہاتھ سے دامن کو نیچے کیا جائے، توکراہت نہیں اور اگر عادت کی وجہ سے کیا تو ایک ہاتھ سے مکروہ تنزیہی اور دو ہاتھ سے مکروہ تحریمی۔(۱)
(۱) (و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ، أصحہا (ما لا یشک) بسببہ (الناظر) من بعید (فی فاعلہ أنہ لیس فیہا) وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل۔ (قولہ لیس من أعمالہا) احتراز عما لو زاد رکوعا أو سجودا مثلا فإنہ عمل کثیر غیر مفسد لکونہ منہا غیر أنہ یرفض، لأن ہذا سبیل ما دون الرکعۃ ط۔ قلت: والظاہر الاستغناء عن ہذا القید علی تعریف العمل الکثیر بما ذکرہ المصنف۔ تأمل۔ (قولہ ولا لإصلاحہا) خرج بہ الوضوء والمشی لسبق الحدث فإنہما لا یفسدانہا ط۔ قلت: وینبغي أن یزاد: ولا فعل لعذر احترازا عن قتل الحیۃ أو العقرب بعمل کثیر علی أحد القولین کما یأتی،  إلا أن یقال: إنہ لإصلاحہا، لأن ترکہ قد یؤدي إلی إفسادہا۔ تأمل۔ (قولہ وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا ما لا یشک إلخ) صححہ في البدائع، وتابعہ الزیلعي والولوالجي۔ وفي المحیط أنہ الأحسن۔ وقال الصدر الشہید: إنہ الصواب۔ وفي الخانیۃ والخلاصۃ: إنہ اختیار العامۃ۔ وقال في المحیط وغیرہ: رواہ الثلجي عن أصحابنا۔ حلیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۴، ۳۸۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص94


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جہری نمازوں میں اتنی ہی زور سے پڑھنا چاہئے کہ دوسروں تک اس کی آواز پہونچ جائے(۱) تاہم اگر مسجد بڑی ہو ،نمازی زیادہ ہوں، تو ضرورت کے بقدر لاؤڈ اسپیکر پر نماز کا نظم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۱) وأدنی الجہر إسماع غیرہ ممن لیس بقربہ کأہل الصف الأول وأعلاہ لاحد لہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب في الکلام الخ‘‘: ج ۲، ص:۲۵۳)
اختلفوا في حد الجہر والمخافتۃ قال الفقیہ أبوجعفر والشیخ الإمام أبوبکر محمد بن الفضل: أدنی الجہر أن یسمع غیرہ وأدنی المخافتۃ: أن یسمع نفسہ وعلی ہذا یعتمد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص214

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: سورۂ اخلاص کا دعاء قنوت کے قائم مقام ہونا منقول نہیں ہے، تاہم اگر کسی کو اس کے علاوہ کچھ یاد ہی نہ ہو تو وہ سورۂ اخلاص ہی پڑھ لے۔
’’ومن لا یحسن القنوت یقول: ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار وقال ابواللیث: یقول: اللہم اعفرلي، یکررہا ثلاثا وقیل یقول یا رب ثلثا۔ً ذکرہ في الذخیرۃ‘‘ (۲)

(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في منکر الوتر والسنن أو الإجماع‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۳، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص322

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض پڑھنے والے کی اقتداء میں نفل نماز درست ہے اس لیے صورت مسئولہ میں زید نے اپنی عشاء کی نماز ادا کرلینے کے بعد اگر فرض نماز پڑھانے والے کی اقتداء میں نماز نفل پڑھی تو نفل درست ہوگئی۔(۱)

(۱) ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرضًا آخر؛ لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا۔ وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللّٰہ  علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ‘‘: ج۲ ص۳۲۵، ۳۲۴،زکریا دیوبند)
ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإقامۃ حتی لو شرع علی نیۃ الانفراد فاقتدیٰ بہ یجوز۔ (إبراھیم، حلبي، غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلي المشتہر بشرح الکبیر: ص: ۲۵۱)
وہاہنا مسائل: إحداہا اقتداء المتنفل بالمفترض فہو جائز بالاتفاق لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سیکون أمراء بعدي یؤخرون الصلاۃ عن مواقیتہا فإذا فعلوا فصلوا أنتم في بیوتکم ثم صلوا معہم واجعلوا صلاتکم معہم سبحۃ أي نافلۃ، ولأن المقتدي بنی صلاتہ علی صلاۃ إمامہ کما أن المنفرد یبني آخر صلاتہ علی أول صلاتہ، وبناء النفل علی تحریمۃ انعقدت للفرض یجوز وکذلک اقتداء المتنفل بالمفترض فأما المفترض إذا اقتدی بالمتنفل عندنا فلا یصح الاقتداء۔ (السرخسي،المبسوط : ج۱، ص: ۱۳۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص433

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  صورت مسئولہ میں اہل سنت والجماعت مشورہ کریں اورکوئی ایسی صورت اختیار کریں کہ مسجد میں کوئی ہم مشرب امام آجائے یا کم از کم ایسا امام ہو جو قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو اورنماز کے مسائل میں اس طرح پابند ہو کہ امام اعظمؒ کے اصح مسلک کے مطابق نماز درست ہو اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو باہمی مشورے کے دوسری جگہ نماز کا اہتمام کریں؛ کیوںکہ جو امام ایسی غلطیاں کرتا ہو اس کی اقتداء ہی درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) الحاصل: أنہ إن علم الاحتیاط منہ في مذہبنا فلا کراہۃ في الاقتداء بہ، وإن علم عدمہ فلا صحۃ، وإن لم یعلم شیئاکرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب الاقتداء بالشافعي‘‘: ج۲، ص:۴۴۴)
لایجوز إمامۃ الألثغ الذي لا یقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف، فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا، فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الإمامۃ، الفصل الثالث فی بیان من یصلح إماماً لغیرہ ج۱، ص: ۱۴۲، زکریا قدیم ج۱، ص: ۱۴۴، جدید)۔
والأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي الأکثر اتقاء للشبہات، والتقوی: اتقاء المحرمات۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)۔
(قولہ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا) أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ: أي أجود، لا أکثرہم حفظا وإن جعلہ في البحر متبادرا) ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا قہستاني۔ (أیضًا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص252

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عید، بقر عید میں اگر بارش ہونے لگے تو مسجد کبیر میں باضابطہ تبدیل امام پر مکرر نماز پڑھی جاسکتی ہے اور اگر بغیر عذر شرعی کے ایسا کیا جا رہا ہے تو یہ فعل غلط ہے اور نماز مکروہ ہوگی اس لیے کہ تکرار جماعت مکروہ ہے۔
’’ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن … ولنا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أہل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أہلہ وصلی، ولو جاز ذلک لما اختار الصلاۃ في بیتہ علی الجماعۃ في المسجد‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸، زکریا دیوبند۔
وقال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللّٰہ قال قاضي خان في شرح الجامع الصغیر: رجل دخل مسجداً قد صلی فیہ أہلہ فإنہ یصلي بغیر أذان وإقامۃ، لأن في تکرار الجماعۃ تقلیلہا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸
)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 497

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اذان کا جواب دینا مستحب ہے، جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے رد المحتار میں لکھا ہے کہ اذان کا جواب دینا مستحب ہے:
’’قال في الفتح:۔۔۔۔ أي مؤذن یجیب باللسان استحبابا أو وجوباً والذي ینبغي إجابۃ الأول سواء کان مؤذن مسجدہ أو غیرہ‘‘(۲)

(۲) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۷۰۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص139

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اتنے مال کا نقصان لازم آرہا ہوکہ مالک اس کو بآسانی برداشت نہیں کرسکتا؛ بلکہ اس کو تکلیف ہوگی، تو شرعاً نماز توڑنے کی رخصت واجازت ہے اور جس کو برداشت کرنے میں کوئی تکلیف نہ ہو جیسے آج کے دور میں ایک دو روپیہ، تو اجازت نہ ہوگی۔(۱)
(۱) یقطعہا لعذر إحرازاً لجماعۃ کما لوندت دابتہ أو فار قدرھا أو خاف ضیاع درہم من مالہ، … لم یفصل في الکتاب بین المال القلیل والکثیر، وعامۃ المشایخ قدروہ بدرہم۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج۲، ص: ۵۰۳، ۵۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص95

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ قرأت کی واجبی مقدار چھوٹی تین آیات یا ایک بڑی آیت ہے۔
مذکورہ صورت میں ترک واجب کی وجہ سے سجدہ سہو کے ساتھ نماز درست ہوگی۔(۲)
(۲) وتجب قراء ۃ الفاتحۃ وضم السورۃ أو مایقوم مقامہا من ثلاث آیات قصار، أو آیۃ طویلۃ في الأولیین بعد الفاتحۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸، زکریا دیوبند)
والثاني ضم سورۃ قصیرۃ أو ثلاث آیات قصار، قولہ أو ثلاث آیات قصار قدر أقصر سورۃ أو آیۃ طویلۃ تعدل ثلاث آیات قصار۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۸، شیخ الہند دیوبند)
ویجب سجدتان بتشہد وتسلیم لترک الواجب بتقدیم أو تأخیر أو زیادۃ أو نقص۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۰، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص214