Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ التسبیح احادیث سے ثابت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس کی ترغیب دی ہے اس کی بڑی فضیلت ہے اس کا انکار کرنا جہالت ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال للعباس یا عماہ… ألا أخبرک عشر خصال إذا أنت فعلت ذلک غفر اللّٰہ لک ذنبک؛ أولہ وآخرہ، قدیمہ وحدیثہ، خطأہ وعمدہ، صغیرہ وکبیرہ، سرہ وعلانیتہ أن تصلي أربع رکعات تقرأ في کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ فإذا فرغت من القرا ء ۃ في أول رکعۃ وأنت قائم قل سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر … فذلک خمس وسبعون في کل رکعۃ تفعل ذلک في أربع رکعات أن استطعت أن تصلیہا في کل یوم مرۃ فافعل فإن لم تفعل ففي کل جمعۃ مرۃ فإن لم تفعل ففي کل سنۃ مرۃ فإن لم تفعل ففي عمرک مرۃ، رواہ أبوداود وابن ماجہ والبیہقي في الدعوات الکبیر وروي الترمذي عن أبي رافع نحوہ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب تفریع أبواب التطوع و رکعات السنۃ، باب صلاۃ التسبیح‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۴۔
حدثناہ أبو علي الحسین بن علي الحافظ إملاء من أصل کتابہ، ثنا أحمد بن داؤد بن عبدالغفار بمصر، ثنا إسحاق بن کامل، ثنا إدریس بن یحیی، عن حیوۃ بن شریح، عن یزید بن أبي حبیب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: وجہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جعفر بن أبي طالب إلی بلاد الحبشۃ، فلما قدم اعتنقہ وقبل بین عینیہ، ثم قال: ألا أہب لک، ألا أبشرک، ألا أمنحک، ألا أتحفک؟ قال: نعم، یا رسول اللّٰہ۔ قال: تصلي أربع رکعات تقرأ في کل رکعۃ بالحمد وسورۃ، ثم تقول بعد القراء ۃ وأنت قائم قبل الرکوع: سبحان اللّٰہ، والحمد للّٰہ، ولا إلہ إلا اللّٰہ، واللّٰہ أکبر، ولا حول ولاقوۃ إلا باللّٰہ خمس عشرۃ مرۃ، ثم ترکع فتقولہن عشراً تمام ہذہ الرکعۃ قبل أن تبتدئ بالرکعۃ الثانیۃ، تفعل في الثلاث رکعات کما وصفت لک حتی تتم أربع رکعات ہذا إسناد صحیح لاغبار علیہ، ومما یستدل بہ علی صحۃ ہذا الحدیث استعمال الأئمۃ من أتباع من أتباع التابعین إلی عصرنا ہذا إیاہ ومواظبتہم علیہ وتعلیمہن الناس، منہم عبداللّٰہ بن المبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ۔ (أخرجہ الحاکم ، في مستدرکہ: ج ۱، ص: ۱۶۴)
قال الذہبي: أخرجہ أبوداؤد والنسائي، وابن خزیمۃ في الصحیح ثلاثتہم عن عبدالرحمن بن بشر۔ (أخرجہ الحاکم ، في مستدرکہ، ج۱، ص: ۳۱۹)
وینبغي للمتعبد أن یعمل بحدیث ابن عباس تارۃً، ویعمل بحدیث ابن المبارک أخری۔ (ملا عي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ التسبیح‘‘: ج ۳، ص: ۳۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص431
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود شریف کا پڑھنا بہت بڑی فضیلت اور برکت کی چیز ہے کہ درود شریف کی وجہ سے دعائوں کے قبول ہونے اور مقبول بننے کے امکانات قوی تر ہوجاتے ہیں اور اس کا اجر و ثواب بھی بہت ہے۔ غرض درود شریف پڑھنے پر کوئی نکیر نہیں کرے گا؛ لیکن نمازوں کے بعد مسجدوں میں اجتماعی طور سے زور زور سے ’’صلی اللّٰہ علیک یا رسول اللّٰہ وسلم علیک یا حبیب اللّٰہ‘‘ پڑھنا احادیث، ائمہ اربعہ اور کسی بھی مسلک کے مجتہد و امام مستند سے ثابت نہیں ہے، اس سے مسجد میں بعد میں نماز پڑھنے والوں کی نمازوںمیں خلل پیدا ہوتا ہے اور ایسی چیزیں جڑیں پکڑتی ہیں جو سنت و شریعت کے خلاف ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین و شریعت کی اور اپنی محبت و عظمت کی جو حدیث مبارک بیان فرمادی ہیں بس ان کے اندر رہنا ہی منشاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا کر نا ہے۔ اپنی طرف سے نئے نئے طریقے ایجاد کرنا، پھر ان میں تاویل وتوجیہ کے راستے اختیار کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء مبارک کے خلاف ہے۔ جو لوگ اس عمل کو گیت اور گانے سے تشبیہ دیتے ہیں ان کی یہ تشبیہ تو غلط ہی ہے۔ جو لوگ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حدود سے تجاوز کرتے ہیں ان کو بجائے لعن طعن و تشنیع کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ موعظت وحکمت سے محبت کے ساتھ سمجھانا چاہئے کیوںکہ ان کی محبت میں شرعی شعور نہیں۔ اگر اس طرح درود پڑھنے والوں کا طریقۂ کار غلط ہے، تو اختلاف کرنے والوں کا طریقۂ کار بھی غلط ہے۔ غلطی سے غلطی کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا۔ سنت کے مطابق محبت وحکمت سے اصلاح کی جانی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور صحیح محبت عطا فرمائے۔(۱)
(۱) عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: لقینی کعب بن عجرۃ رضي اللّٰہ عنہ، فقال: ألا أہدی لک ہدیۃ سمعتہا من النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلت: بلی فأہدہا لي، فقال: سألنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فقلنا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کیف الصلاۃ علیکم أہل البیت فإن اللّٰہ قد علمنا کیف نسلم علیکم، قال: قولوا: اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی إبراہیم، وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید۔ اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراہیم وعلی آل إبراہیم، إنک حمید مجید۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب یزفون النسلان في المشي‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۷، رقم: ۳۳۷۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص368
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حرمیں شریفین میں حنفی حضرات کے لیے حنبلی طریقہ کے مطابق جماعت کے ساتھ وتر کی نماز درست ہے، یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور بعض ائمہ احناف نے اس کی اجازت دی ہے؛ اس لیے حرمین میں اس پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔
حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کی یہی رائے نقل کی ہے کہ ان کے پیچھے اقتداء کرنا جائز ہے۔
’’و لا عبرۃ بحال المقتدي و إلیہ ذہب الجصاص و ھو الذي اختارہ لتوارث السلف اقتداء أحدہم بالآخر بلا نکیر مع کونہ مختلفین في الفــروع وکان مولانا شیخ الہند محمود الحسن أیضاً: یذہب إلی مذہب الجصاص‘‘(۱)
(۲) نفل یا تہجد کی نماز رمضان میں یا غیر رمضان میں جماعت کے ساتھ مکروہ ہے؛ اس لیے کہ احناف کے یہاں نفل کی جماعت نہیں ہے ہاں اگر بغیر تداعی کے جماعت ہو اس طور پر کہ دو تین لوگ شریک ہو جائیں تو درست ہے اور تداعی کے ساتھ نفل کی جماعت مکروہ ہے اور چار یا چار سے زائد افرا د کا ہونا یہ تداعی ہے۔
’’ولا یصلي الوتر و لا التطوع بجماعۃ خارج رمضان، أي یکر ہ ذلک علی سبیل التداعي، بأن یقتدی أربعۃ بواحد و في الشامیۃ: و أما اقتداء واحد بواحد أو إثنین بواحد فلا یکرہ و ثلاثۃ بواحد فیہ خلاف‘‘(۲)
’’وأما وتر غیرہ وتطوعہ فمکروہۃ فیہما علی سبیل التداعي قال شمس الأئمۃ الحلواني إن اقتدی بہ ثلاثۃ لا یکون تداعیا فلا یکرہ إتفاقا وإن اقتدی بہ أربعۃ فالأصح الکراہۃ‘‘(۳)
البتہ رمضان میں حرمین میں قیام اللیل کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے چوں کہ حرمین کا مسئلہ عام جگہ سے مختلف ہے، وہاں پر نماز کی زیادہ فضیلت ہے؛ اس لیے علماء نے حرمین میں قیام اللیل کی جماعت میں شریک ہونے کی اجازت دی ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں وتر کو بھی فقہاء نے جائز قرار دیا ہے۔(۱)
(۱) الکشمیري، فیض الباري، شرح البخاري، ’’باب مسح الید بالتراب لیکون انقی‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، دارالکتب العلمیۃ بیروت۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في کراہیۃ الاقتداء في النفل علی سبیل التداعي‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰)
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۸۶، شیخ الہند دیوبند۔
(۱) والجماعۃ في النفل في غیر التراویح مکروہۃ فالاحتیاط ترکہا في الوتر خارج رمضان، وعن شمس الأئمۃ أن ہذا فیما کان علی سبیل التداعي، أما لو اقتدی واحد بواحد أو إثنان بواحد لا یکرہ وإذا اقتدی ثلاثہ بواحد اختلف فیہ وأن اقتداء أربعۃ بواحد کرہ اتفاقاً۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر وأحکامہ‘‘: ص: ۳۸۶، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص250
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرت امام احمدؒ اور امام اسحق ؒبلاکراہت مسجد میں جماعت ثانیہ کی اجازت دیتے ہیں، حضرت امام ابوحنیفہ ؒ امام مالکؒ اور حضرت امام شافعی ؒ جماعت ثانیہ کو ناجائز کہتے ہیں۔ گویا جمہور کے نزدیک جماعت ثانیہ درست نہیں ہے۔ احناف کے مسلک کی تفصیل یہ ہے کہ جن کی جماعت چھوٹ گئی ہو وہ گھر میں لوگوں کو جمع کرکے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لیں، یا دوسری مسجد میں جماعت تلاش کریں مل جائے تو ٹھیک ہے،باقی اپنی مسجد میں اگر پڑھنا چاہیں تو تنہا نماز پڑھیں،جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں،چاہے اذان و اقامت کے ساتھ جماعت کریں یا بلااذان واقامت کے جماعت کریں۔امام ابویوسف ؒکی ایک روایت ہے کہ جماعت ثانیہ، اگر پہلی جماعت کی ہیئت کے خلاف ہواور ہیئت اولی کے خلاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بلا اذ۱ن وا قامت کے ہو، محراب کے علاوہ ہو تو جماعت ثانیہ جائز ہے۔صاحب بدائع الصنائع نے امام محمد ؒ کا مسلک ذکر کیا ہے کہ ان کے نزدیک تداعی کے ساتھ جماعت ثانیہ ناجائز ہے بلاتداعی جماعت ثانیہ جائز ہے؛ لیکن امام صاحب کے یہاں بالکل گنجائش نہیں ہے۔
’’وروي عن أبي یوسف أنہ إنما یکرہ إذا کانت الجماعۃ الثانیۃ کثیرۃ، فأما إذا کانوا ثلاثۃ أو أربعۃ فقاموا في زاویۃ من زوایا المسجد وصلوا بجماعۃ لا یکرہ، وروي عن محمد أنہ إنما یکرہ إذا کانت الثانیۃ علی سبیل التداعي والاجتماع فأما إذا لم یکن فلا یکرہ‘‘(۱)
امام شافعیؒ کتاب الام میں لکھتے ہیں:کہ ایک بار جماعت ہونے کے بعد دوبارہ جماعت کی ہم ہر گز اجازت نہیں دے سکتے ہیں؛ہاں اگر کوئی شخص دوبارہ جماعت کرلے توہم اس کی نماز کو صحیح کہیں گے۔
’’وإذا کان للمسجد إمام راتب ففاتت رجلا أو رجالا فیہ الصلاۃ صلوا فرادی ولا أحب أن یصلوا جماعۃ فإن فعلوا أجزأتہم الجماعۃ فیہ وإنما کرہت ذلک لہم لأنہ لیس مما فعل السلف قبلنا بل قد عابہ بعضہم ۔‘‘(۱)
وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جماعت ثانیہ سلف سے ثابت نہیں ہے؛بلکہ بہت سے سلف نے جماعت ثانیہ پر انکار کیا ہے؛ اس لیے جماعت ثانیہ کی مذہب میں گنجائش نہیں ہے۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں:کہ جس محلے کی مسجد میں اذان ہوگئی اور وہاں کے امام نے ایک بار جماعت کے ساتھ نماز پڑھا دی ہو تو جن لوگوں نے جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے وہ تنہا تنہا نماز پڑھ لیں، ہم جماعت ثانیہ کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
’’قال مالک: إذا جمع قوم في مسجد لہ إمام راتب ولم یحضر فلہ إذا جاء أن یجمع فیہ وإذا صلی فیہ إمامہ وحدہ ثم أتی أہلہ لم یجمعوا فیہ وصلوا أفذاذا‘‘(۲)
معلوم ہوا کہ جمہور کے نزدیک جماعت ثانیہ درست نہیں ہے؛بلکہ مکروہ تحریمی ہے۔یہ اس مسجد کے بارے میں ہے جس کا امام، مؤذن او رمصلی متعین ہوں یعنی آبادی کی مسجد کے بارے میں ہے، مسجد سوق جہاں امام مؤذن متعین نہ ہو تو ایسی مسجد میں جماعت ثانیہ کی گنجائش ہے، ایک دوسری قید یہ بھی ہے کہ وہ جماعت ثانیہ ممنوع ہے جس میں امام کی نماز بھی فرض ہو اور مقتدی کی نماز بھی فرض ہو اگر مقتدی کی نماز نفل ہے تو وہ جماعت ثانیہ ممنوع نہیں ہے۔
امام احمد ؒکے دلائل میں ایک دلیل ترمذی کی روایت ہے جس کو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ جماعت ہونے کے بعد ایک شخص مسجد نبوی میں آیا اور وہ تنہا نماز پڑھنے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین کو خطاب کرکے فرمایا کہ تم میں سے کوئی آدمی ہے جو اس کی اقتداکرکے اس کو فائدہ پہنچادے،اس کے ثواب میں اضافہ کردے، تو حاضرین میں ایک شخص کھڑے ہوئے بیہقی میں ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ان کے ساتھ نماز پڑھ لی۔ امام احمدؒ کہتے ہیں کہ دیکھو جماعت ثانیہ ہورہی ہے۔
امام احمد ؒکی دوسری دلیل یہ ہے کہ بخاری نے فضیلت جماعت کے سلسلے میں ترجمۃ الباب میں تعلیقا حضرت انس رضی اللہ عنہ کا عمل نقل کیا ہے۔ مسند ابویعلی اور بیہقی میں یہ روایت موصولا بھی مذکور ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضرت انس ایک مسجد میں آئے جس میں جماعت ہوچکی تھی تو انہوں نے تین غلاموں کو جمع کیا اور اذان و اقامت کے ساتھ جماعت ثانیہ کی۔ اگر جماعت ثانیہ ناجائز ہوتی تو کیسے حضرت انس یہ عمل کرتے؟
مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا عمل ذکر کیا گیا ہے کہ وہ جماعت ہونے کے بعد مسجد میں آئے اورانہوں نے اسود،علقمہ اور مسروق تینوں شاگردوں کو جمع کر کے جماعت کی اگر جماعت ثانیہ ناجائز ہوتی تو عبد اللہ بن مسعودؓ کیسے جماعت ثانیہ کرتے۔ جمہور کے دلائل اس باب میں زیادہ قوی معلوم ہوتے ہیں۔ ذیل میں ان کے دلائل کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
(۱) طبرانی میںروایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضرورت سے عوالی مدینہ تشریف لے گئے تھے جب آپ وہاں سے واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ مسجد نبوی میں نماز ہوچکی تھی تو آ پ گھر تشریف لے گئے اور گھر والوں کو جمع کرکے جماعت سے نمازادا کی، اگر جماعت ثانیہ کی اجازت ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی کی فضیلت کو چھوڑ کر گھر میں نماز نہ پڑھتے، اپنے اہل کو مسجد نبوی لاکر جماعت ثانیہ کرتے؛ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل امت کے لیے نمونہ ہوتا ہے اگر جماعت ثانیہ کی اجازت ہوتی تو آپ مسجد میں جماعت کرتے تاکہ امت کے لیے نمونہ بن جائے۔
(۲) مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت حسن بصریؒ کا مقولہ ہے، فرماتے ہیں: صحابہؓ کا معمول یہ تھا کہ اگر جماعت چھوٹ جاتی تو صحابہؓ تنہا نماز پڑھتے تھے،جماعت نہیں کرتے تھے، ظاہرہے کہ جماعت کی نماز کی بڑی فضیلت ہے اگر دوبارہ جماعت کی گنجائش ہوتی تو کیا صحابہؓ جماعت کی فضیلت کو چھوڑ دیتے۔
(۳)سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جی چاہتا ہے کہ میں نماز قائم کرادوں اور جو لوگ بلاعذر کے جماعت میں نہیں آتے ہیں ان کے گھر وں کو آ گ لگادوں اگر جماعت ثانیہ کی گنجائش ہوتی تو جو لوگ کہ جماعت میں شریک نہیں ہوتے تھے ان کے لیے عذر تھا کہ وہ کہہ دیتے کہ حضور میں دوسری جماعت میں شریک ہوجاؤں گا۔
(۴) جماعت کے ساتھ نماز مشروع کرنے کی حکمت ومصلحت یہ ہے کہ مسلمانوں میں اجتماعیت اور اتفاق و اتحاد قائم ہو، الفت و محبت قائم ہو، اتحاد کی مصلحت کے پیش نظر جماعت مشروع ہوئی ہے اگر جماعت ثانیہ کی اجازت دے دی جاتی تو ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو امام راتب سے اختلاف ہوگا وہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا نہیں چاہیں گے اور جماعت کے ختم ہونے کا وہ انتظار کریں گے اور جماعت کے ختم ہونے کے بعد وہ مخالفین کو لے کر جماعت ثانیہ کریں گے اس سے اختلاف اور انتشار کی بنیاد پڑ جائے گی اور شریعت کا مزاج پارہ پارہ ہو جائے گا۔ گویا کہ جماعت ثانیہ جماعت کی روح اوراس کے منشاء کے خلاف ہے؛ اس لیے شریعت نے جماعت ثانیہ کا دروازہ بند کردیا اور ایک جماعت کی ترغیب دی تاکہ جماعت کی روح باقی رہ جائے۔
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی في المسجد بجماعۃ، فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعۃ ولو لم یکرہ تکرار الجماعۃ في المسجد لصلی فیہ۔ وروي عن أنس أن أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا إذا فاتتہم الجماعۃ في المسجد صلوا في المسجد فرادیٰ ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ؛ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ یتعجلون فتکثر وإلا تأخروا۔ اہـ۔ بدائع۔ وحینئذ فلو دخل جماعۃ المسجد بعد ما صلی أ ہلہ فیہ فإنہم یصلون وحدانا، وہو ظاہر الروایۃ ظہیریۃ۔ وفي آخر شرح المنیۃ: وعن أبي حنیفۃؒ لو کانت الجماعۃ أکثر من ثلاثۃ یکرہ التکرار وإلا فلا۔ وعن أبي یوسفؒ إذا لم تکن علی الہیئۃ الأولی لا تکرہ وإلا تکرہ وہو الصحیح، وبالعدول عن المحراب تختلف الہیئۃ کذا في البزازیۃ … قولہ الا في مسجد علی طریق ہو لیس لہ إمام ومؤذن راتب فلا تکرہ التکرار فیہ بأذان وإقامۃ بل ہو الأفضل‘‘(۱)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص:۱۵۳۔
(۱) محمد بن إدریس الشافعي، الأم، ’’صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰۔
(۲) التاج والإکلیل لمختصر خلیل، ’’فصل في حکم صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۳۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲، ص:۶۰۔
وإذا لم یکن للمسجد إمام ومؤذن راتب فلا یکرہ تکرار الجماعۃ، فیہ بأذان وإقامۃ بل ہو الأفضل ذکرہ قاضي خان، أما لوکان لہ إمام ومؤذن معلوم یکرہ تکرار الجماعۃ فیہ باذان وإمامۃ۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیری، ’’کتاب الصلاۃ: فصل أحکام المساجد‘‘: ص: ۵۳۰، دارالکتاب دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 492 تا 497
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:محلہ کی مسجد کی اذان ہو یا کسی دوسرے محلہ کی جس اذان کی آواز پہلے کان میں پڑے اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ باقی اذانوں کا جواب ضروری نہیں ہے البتہ افضل ہے کہ ان کا بھی جواب دیا جائے۔(۲)
’’وإذا تعدد الأذان یجیب الأول، مطلقاً سوائٌ کان مؤذن مسجدہ أم لا لأنہ حیث سمع الأذان ندبت لہ الإجابۃ ثم لا یتکرر علیہ في الأصح ذکرہ الشہاب في شرح الشفاء‘‘(۱)
(۲) وإذا تعدد الأذان یجیب الأول ولا یجیب فی الصلاۃ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح: ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘ ج ۱، ص: ۸۰)
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، باب الأذان: ج ۱، ص: ۲۲۰
(قولہ: ولو تکرر) أی بأن أذن واحد بعد واحد، أما لو سمعہم في آن واحد من جہات فسیأتي۔
(قولہ: أجاب الأول) سواء کان مؤذن مسجدہ أو غیرہ بحر عن الفتح بحثا۔… ویفیدہ ما في البحر أیضا عن التفاریق: إذا کان في المسجد أکثر من مؤذن أذنوا واحدا بعد واحد، فالحرمۃ للأول اہـ۔ لکنہ یحتمل أن یکون مبنیا علی أن الإجابۃ بالقدم، أو علی أن تکرارہ في مسجد واحد یوجب أن یکون الثاني غیر مسنون، بخلاف ما إذا کان من محلات مختلفۃ۔ تأمل۔ ویظہر لي إجابۃ الکل بالقول لتعدد السبب وہو السماع کما اعتمدہ بعض الشافعیۃ۔ (ابن عابدین:رد المحتار: ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج ۲، ص: ۶۶، ۶۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص138
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں اگر کوئی حرکت ایسی کی گئی ہو جس کو عمل قلیل کہا جاسکے تو شرعاً اس کی گنجائش ہے اور اگر کوئی ایسا عمل ہو جس کو عمل کثیر کہا جائے تو شرعاً ایسے عمل سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ عمل قلیل و کثیر امام اعظمؒ کے نزدیک مبتلی بہ کی رائے پر موقوف ہے۔ بعض فقہاء نے اس کی تفصیل یہ تحریر کی ہے اگر کوئی ایسا عمل کیا جائے جس میں ایک ہاتھ لگایا جائے تو عمل قلیل ہوگا اور اگر دو ہاتھ لگانے کی ضرورت پڑے تو عمل کثیر کہلائے گا اس تفصیل کے تحت مذکورہ فی السوال جزئیہ کتب فقہ میں موجود ہے؛ لیکن دونوں ہاتھوں سے کرتے کو نیچے کئے جانے پر عمل کثیر کی تعریف صادق نہیں آئی؛ اس لیے اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی؛ لیکن اس کے کراہت شدیدہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں؛ اس لیے صرف ایک ہاتھ سے اگر ضرورت ہو، تو دامن کو صحیح کیا جاسکتا ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اصلاح کی نیت سے ایک ہاتھ سے دامن کو نیچے کیا جائے، توکراہت نہیں اور اگر عادت کی وجہ سے کیا تو ایک ہاتھ سے مکروہ تنزیہی اور دو ہاتھ سے مکروہ تحریمی۔(۱)
(۱) (و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ، أصحہا (ما لا یشک) بسببہ (الناظر) من بعید (فی فاعلہ أنہ لیس فیہا) وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل۔ (قولہ لیس من أعمالہا) احتراز عما لو زاد رکوعا أو سجودا مثلا فإنہ عمل کثیر غیر مفسد لکونہ منہا غیر أنہ یرفض، لأن ہذا سبیل ما دون الرکعۃ ط۔ قلت: والظاہر الاستغناء عن ہذا القید علی تعریف العمل الکثیر بما ذکرہ المصنف۔ تأمل۔ (قولہ ولا لإصلاحہا) خرج بہ الوضوء والمشی لسبق الحدث فإنہما لا یفسدانہا ط۔ قلت: وینبغي أن یزاد: ولا فعل لعذر احترازا عن قتل الحیۃ أو العقرب بعمل کثیر علی أحد القولین کما یأتی، إلا أن یقال: إنہ لإصلاحہا، لأن ترکہ قد یؤدي إلی إفسادہا۔ تأمل۔ (قولہ وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا ما لا یشک إلخ) صححہ في البدائع، وتابعہ الزیلعي والولوالجي۔ وفي المحیط أنہ الأحسن۔ وقال الصدر الشہید: إنہ الصواب۔ وفي الخانیۃ والخلاصۃ: إنہ اختیار العامۃ۔ وقال في المحیط وغیرہ: رواہ الثلجي عن أصحابنا۔ حلیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۴، ۳۸۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص94
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جہری نمازوں میں اتنی ہی زور سے پڑھنا چاہئے کہ دوسروں تک اس کی آواز پہونچ جائے(۱) تاہم اگر مسجد بڑی ہو ،نمازی زیادہ ہوں، تو ضرورت کے بقدر لاؤڈ اسپیکر پر نماز کا نظم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۱) وأدنی الجہر إسماع غیرہ ممن لیس بقربہ کأہل الصف الأول وأعلاہ لاحد لہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب في الکلام الخ‘‘: ج ۲، ص:۲۵۳)
اختلفوا في حد الجہر والمخافتۃ قال الفقیہ أبوجعفر والشیخ الإمام أبوبکر محمد بن الفضل: أدنی الجہر أن یسمع غیرہ وأدنی المخافتۃ: أن یسمع نفسہ وعلی ہذا یعتمد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص214
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: سورۂ اخلاص کا دعاء قنوت کے قائم مقام ہونا منقول نہیں ہے، تاہم اگر کسی کو اس کے علاوہ کچھ یاد ہی نہ ہو تو وہ سورۂ اخلاص ہی پڑھ لے۔
’’ومن لا یحسن القنوت یقول: ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار وقال ابواللیث: یقول: اللہم اعفرلي، یکررہا ثلاثا وقیل یقول یا رب ثلثا۔ً ذکرہ في الذخیرۃ‘‘ (۲)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في منکر الوتر والسنن أو الإجماع‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۳، زکریا دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص322
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض پڑھنے والے کی اقتداء میں نفل نماز درست ہے اس لیے صورت مسئولہ میں زید نے اپنی عشاء کی نماز ادا کرلینے کے بعد اگر فرض نماز پڑھانے والے کی اقتداء میں نماز نفل پڑھی تو نفل درست ہوگئی۔(۱)
(۱) ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرضًا آخر؛ لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا۔ وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ‘‘: ج۲ ص۳۲۵، ۳۲۴،زکریا دیوبند)
ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإقامۃ حتی لو شرع علی نیۃ الانفراد فاقتدیٰ بہ یجوز۔ (إبراھیم، حلبي، غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلي المشتہر بشرح الکبیر: ص: ۲۵۱)
وہاہنا مسائل: إحداہا اقتداء المتنفل بالمفترض فہو جائز بالاتفاق لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سیکون أمراء بعدي یؤخرون الصلاۃ عن مواقیتہا فإذا فعلوا فصلوا أنتم في بیوتکم ثم صلوا معہم واجعلوا صلاتکم معہم سبحۃ أي نافلۃ، ولأن المقتدي بنی صلاتہ علی صلاۃ إمامہ کما أن المنفرد یبني آخر صلاتہ علی أول صلاتہ، وبناء النفل علی تحریمۃ انعقدت للفرض یجوز وکذلک اقتداء المتنفل بالمفترض فأما المفترض إذا اقتدی بالمتنفل عندنا فلا یصح الاقتداء۔ (السرخسي،المبسوط : ج۱، ص: ۱۳۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص433
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اہل سنت والجماعت مشورہ کریں اورکوئی ایسی صورت اختیار کریں کہ مسجد میں کوئی ہم مشرب امام آجائے یا کم از کم ایسا امام ہو جو قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو اورنماز کے مسائل میں اس طرح پابند ہو کہ امام اعظمؒ کے اصح مسلک کے مطابق نماز درست ہو اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو باہمی مشورے کے دوسری جگہ نماز کا اہتمام کریں؛ کیوںکہ جو امام ایسی غلطیاں کرتا ہو اس کی اقتداء ہی درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) الحاصل: أنہ إن علم الاحتیاط منہ في مذہبنا فلا کراہۃ في الاقتداء بہ، وإن علم عدمہ فلا صحۃ، وإن لم یعلم شیئاکرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب الاقتداء بالشافعي‘‘: ج۲، ص:۴۴۴)
لایجوز إمامۃ الألثغ الذي لا یقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف، فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا، فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الإمامۃ، الفصل الثالث فی بیان من یصلح إماماً لغیرہ ج۱، ص: ۱۴۲، زکریا قدیم ج۱، ص: ۱۴۴، جدید)۔
والأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي الأکثر اتقاء للشبہات، والتقوی: اتقاء المحرمات۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)۔
(قولہ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا) أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ: أي أجود، لا أکثرہم حفظا وإن جعلہ في البحر متبادرا) ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا قہستاني۔ (أیضًا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص252