Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس حصہ کو مسجد شرعی میں شامل کیا گیا ہے وہ مسجد شرعی ہے اور جو حصہ مسجد شرعی میں شامل نہیں کیا گیا وہ حصہ مسجد شرعی نہیں ہے، خواہ نماز جمعہ میں اس حصہ میں بھی نمازی جمعہ پڑھتے ہوں لیکن وہاں جماعت ثانیہ درست ہے مگر اس کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) وتکرار الجماعۃ إلا في مسجد علی طریق فلا بأس بذلک۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲، ص: ۶۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 498
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کوئی دوسرا شخص بھی اذان ثانی دے سکتا ہے؛ لیکن افضل ہے کہ مؤذن خود اذان دے؛ نیز مؤذن کے موجود ہوتے ہوئے اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے شخص نے اقامت کہہ دی جب کہ اس سے مؤذن کو تکلیف ہوتی ہو، تو مکروہ ہے، ہاں اگر مؤذن کی
صراحتاً یا دلالۃ اجازت سے کوئی دوسرا شخص اذان ثانی یا خطبہ دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)
(۱) ومنہا (أي ومن صفات المؤذن) أن یکون مواظباً علی الأذان لأن حصول الإعلام لأہل المسجد بصوت المواظب أبلغ من حصولہ بصوت من لا عہد لہم بصوتہ فکان أفضل۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع: ’’کتاب الصلاۃ، فصل الأذان، في بیان سنن صفات المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۳)
(أقام غیر من أذن بغیبتہ) أي المؤذن (لا یکرہ مطلقا) وإن بحضورہ کرہ إن لحقہ وحشۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتارمع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص140
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی، اگرچہ وہ عورت اس کی محرم ہو، وہ شرائط یہ ہیں۔
(۱) وہ عورت مشتہات ہو، یعنی ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔
(۲) دونوں نماز میں ہوں، یعنی ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔
(۳) مرد کی پنڈلی، ٹخنہ یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے مقابلہ میں آرہا ہو۔
(۴) یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔
(۵)یہ اشتراک مطلق نماز (رکوع سجدے والی نماز) میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔
(۶)دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔
(۷)تحریمہ دونوں کی ایک ہو، یعنی برابر میں نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔
(۸)عورت میںنماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں، یعنی عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں نہ ہو۔
(۹) مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔
(۱۰) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو، یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔
(۱۱) مردنے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو پھر بھی عورت مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تواب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔
(۱۲) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔
اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں (دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
’’محاذاۃ المرأۃ الرجل مفسدۃ لصلاتہ ولہا شرائط: (منہا) أن تکون المحاذیۃ مشتہاۃً تصلح للجماع ولا عبرۃ للسن وہو الأصح … (ومنہا) أن تکون الصلاۃ مطلقۃً وہي التي لہا رکوع وسجود … (ومنہا) أن تکون الصلاۃ مشترکۃً تحریمۃً وأدائً … (ومنہا) أن یکونا في مکان واحد … (ومنہا) أن یکونا بلا حائل … وأدنی الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظہ غلظ الأصبع والفرجۃ تقوم مقام الحائل وأدناہ قدر ما یقوم فیہ الرجل، کذا في التبیین۔ (ومنہا) أن تکون ممن تصح منہا الصلاۃ … (ومنہا) أن ینوی الإمام إمامتہا أو إمامۃ النساء وقت الشروع لا بعدہ… (ومنہا) أن تکون المحاذاۃ في رکن کامل … (ومنہا) أن تکون جہتہما متحدۃ … ثم المرأۃ الواحدۃ تفسد صلاۃ ثلاثۃ : واحد عن یمینہا وآخر عن یسارہا، وآخر خلفہا، ولا تفسد أکثر من ذلک، ہکذا في التبیین، وعلیہ الفتوی، کذا فی التتارخانیۃ۔ والمرأتان صلاۃ أربعۃ: واحد عن یمینہما وآخر عن یسارہما وإثنان خلفہما بحذائہما،وإن کن ثلاثا، أفسدت صلاۃ واحد عن یمینہن، وآخر عن یسارہن، وثلاثۃ خلفہن إلی آخر الصفوف وہذا جواب الظاہر۔ ہکذا في التبیین‘‘(۱)
’’ومحاذاۃ المشتہاۃ‘‘ بساقہا وکعبہا في الأصح ولو محرما لہ أو زوجۃ اشتہیت، ولو ماضیا کعجوز شوہاء في أداء رکن عند محمد أو قدرہ عند أبي یوسف ’’في صلاۃ‘‘ ولو بالإیماء ’’مطلقۃ‘‘ فلا تبطل صلاۃ الجنازۃ إذ لا سجود لہا ’’مشترکۃ تحریمۃ‘‘ باقتدائہما بإمام أو اقتدائہا بہ ’’في مکان متحد‘‘ ولو حکما بقیامہا علی ما دون قامۃ ’’بلا حائل‘‘ قدر ذراع أو فرجۃ تسع رجلا ولم یشر إلیہا لتتأخر عنہ، فإن لم تتأخر بإشارتہ فسدت صلاتہا لا صلاتہ، ولا یکلف بالتقدم عنہا لکراہتہ ’’و‘‘ تاسع شروط المحاذاۃ المفسدۃ أن یکون الإمام قد ’’نوی إمامتہا‘‘ فإن لم ینوہا لا تکون فی الصلاۃ، فانتفت المحاذاۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامہ، الفصل الخامس في بیان مقام الامام والمأموم‘‘: ج۱، ص: ۱۴۷،مکتبہ فیصل دیوبند۔)
(۱) حسن بن عمار الشنبلالي، حاشیہ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’باب مایفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۳۲۹-۳۳۱۔) و ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الامامہ‘‘: ج۲، ص: ۳۱۶۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص96
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی شخص کی سری نماز قضاء ہوجائے، تو ان کو سراً پڑھنا ہے اور اگر جہری نماز مثلاً مغرب، عشاء اور فجر چھوٹ جائے، تو سراً ادا کرنا جائز ہے، جہراً پڑھنا اولی اور بہتر ہے؛ لیکن بہت زور سے نہ پڑھے۔
’’وإن کانت صلاۃ یجہر فیہا فہو بالخیار، والجہر أفضل ولکن لا یبالغ مثل الإمام؛ لأنہ لا یسمع غیرہ‘‘(۱)
وتر اور سنتوں میں بھی اگر بالجہر قرأت کرنا چاہیں، تو کر سکتا ہے شرط یہ ہے کہ دوسرے نمازیوں کو پریشانی نہ ہو؛ اس لیے بالسر قرأت اولیٰ ہے۔(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۹، زکریا)
(۲) والمنفرد بفرض مخیر فیما یجہر الإمام فیہ وقد بیناہ وفیما یقضیہ مما سبق بہ في الجمعۃ والعیدین کمتنفل باللیل فإنہ مخیر ویکتفي بأدنی الجہر فلا یضر نائماً لأنہ علیہ السلام جہر في التہجد باللیل، وکان یؤنس الیقظان ولا یوقظ الوسنان۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۵۴، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص215
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دعاء قنوت کے لیے اور عیدین کی دوسری رکعت میں رکوع کی تکبیر سنت ہے، البتہ دعاء قنوت واجب ہے۔(۱)
(۱) إن المراد بہ تکبیرۃ الافتتاح ولأن الأمر للایجاب وما ورأہا لیس بفرض۔ (زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۱، ص: ۲۹۰، سعید کمپنی کراچی)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص324
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وقت ہے تو اس صورت میں نفل نماز پڑھنا جائز ہے البتہ سنت فجر پڑھنے کے بعد جماعت میں یا فرض نماز پڑھنے میں کتنی ہی دیر ہو تب بھی دونوں کے درمیان نفل نماز پڑھنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنت فجر اور فرض فجر کے درمیان کسی نفل کا ثبوت نہیں۔(۱)
(۱) وکرہ نفل قصدا … بعد صلاۃ فجر… سوی سنتہ لشغل الوقت بہ تقدیراً۔ (الحصکفي، الدر المختار، ج ۲، ص: ۳۷،۳۶ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص434
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1470/42-952
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وباللہ التوفیق:۔(1)فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں قرأت واجب ہے اور آخر کی دو رکعتوں میں سنت ہے،پہلی رکعت میں اگر ثنا کی جگہ پر التحیات پڑھ لی تو تشہد ثنا کے قائم مقام ہو جائے گااس لئے اس سے سجدہ سہووا جب نہیں ہوگا۔البتہ دوسری رکعت میں بلا تاخیر قرأت واجب ہے اس لئے اگر دوسری رکعت میں فاتحہ سے قبل تشہد پڑھ لیا تو واجب میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوگا،علاوہ ازیں تیسری اور چوتھی رکعت میں چونکہ قرأت سنت ہے اس لئے اگر تیسری اور چوتھی رکعت کے شروع میں تشہد پڑھ لیا تو کسی واجب میں تاخیر کا سبب نہیں بنا اس لئے اس صوت میں سجده سہو واجب نہیں ہوگا۔
(2)دوسرے مسئلہ کی جو تفصیل آپ نے لکھی ہے وہ درست نہیں ہے، بلکہ مذکورہ صورت میں تفصیل یہ ہے کہ مسبوق امام کے ساتھ سجدہ سہو اور تشہد میں شریک ہوگا ، سلام میں امام کی متابعت نہیں کرے گا۔ اگر مسبوق نے امام کے ساتھ جان بوجھ کر سلام پھیرا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ اور بناء نہیں کرسکے گا، لیکن اگر بھول کر امام کے ساتھ سہو کا سلام پھیردیا تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی اوراس پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا، کیونکہ امام ابھی نماز میں ہے اور مسبوق نے امام کی اقتداء میں سہوا سلام پھیرا ہے۔ اور مقتدی جب تک امام کی اقتداء میں ہو اس کا سہو غیر معتبر ہے۔
ان قرأ التشہد فی قیام الاولی قبل الفاتحۃ أو فی الثانیۃ بعد السورۃ أو فی الأخر يین مطلقاً لا سہو علیہ وان قرأفی الاولیین بعد الفاتحۃ والسورۃ او فی الثانیۃ قبل الفاتحۃ وجب علیہ السہو لانہ اخر واجباً(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ص:۱۶۴،باب سجود السہو،الھندیہ ص:۷۲۱،ج:)وان قرأ الفاتحۃ مکان التشہد فعلیہ السہو دکذلک اذا قرأالفاتحۃ ثم التشہد کان علیہ السہو (الھندیۃ ص:۲۷۱،ج1) (کبیری ص397)
المسبوق إنما يتابع الإمام في السهو دون السلام، بل ينتظر الإمام حتى يسلم فيسجد فيتابعه في سجود السهو لا في سلامه. وإن سلم فإن كان عامدا تفسد صلاته، وإن كان ساهيا لا تفسد، ولا سهو عليه؛ لأنه مقتد، وسهو المقتدي باطل، فإذا سجد الإمام للسهو يتابعه في السجود ويتابعه في التشهد، ولا يسلم إذا سلم الإمام؛ لأن هذا السلام للخروج عن الصلاة وقد بقي عليه أركان الصلاة فإذا سلم مع الإمام فإن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته؛ لأنه سلام عمد، وإن لم يكن ذاكرا له لا تفسد؛ لأنه سلام سهو فلم يخرجه عن الصلاة (علاء الدین الکاسانی، بدائع الصنائع، فصل بیان من یجب علیہ سجود السھو و من لا، 1/176)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزیک وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام سے پڑھنا واجب ہے، اگر درمیان میں دورکعت پر سلام پھیر دیا تو منافی نماز یعنی سلام کے پائے جانے کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے حنفی شخص کا حنبلی مسلک کے مطابق وتر کی نماز پڑھانا درست نہیں ہے۔
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے اس کا جواب یہی ہے کہ اگر حنفی شخص کا شوافع کی اقتدا میں وتر کی نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ تاہم بعض ائمہ احناف نے اس کی گنجائش دی ہے؛ اس لیے اگر ضرورتاً اس طرح نماز پڑھنے کی ضرورت پڑے تو اس کی گنجائش ہے؛ جیسا کہ بسااوقات حرمین شریفین میں اس کی نوبت آجاتی ہے تو ایسے مواقع میں اس طور پر امام کی اقتداء کرلینے کی گنجائش ہے۔
’’(وصح الاقتداء فیہ) ففي غیرہ أولٰی إن لم یتحقق منہ ما یفسدہا في اعتقادہ في الأصح کما بسطہ في البحر (بشافعي) مثلا (لم یفصلہ بسلام) لا إن فصلہ (علی الأصح) فیہما للاتحاد وإن اختلف الاعتقاد‘‘(۱)
’’(قولہ لما روت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا) روی الحاکم وقال علی شرطہما عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم إلا في آخرہن، قیل للحسن إن ابن عمر کان یسلم في الرکعتین من الوتر فقال کان عمر أفقہ منہ وکان ینہض في الثانیۃ بالتکبیر ‘‘(۲)
’’ولا عبرۃ بحال المقتدي، وإلیہ ذہب الجصاص، وہو الذي اختارہ لتوارث السلف، واقتداء أحدہم بالآخر بلا نکیر مع کونہم مختلفین في الفروع، وإنما کانوا یمشون علی تحقیقاتہم إذا صلوا في بیوتہم، أما إذا بلغوا في المسجد فکانوا یقتدون بلا تقدم وتأخر، ولن ینقل عن إمامنا أنہ سأل عن حال الإمام في المسجد الحرام مع أنہ حج مرارا‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب الاقتداء بالشافعي‘‘: ج۲، ص: ۴۴۴۔
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۶۔
(۳) الکشمیري، فیض الباري، شرح البخاري،’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص254
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد اس جگہ کو کہتے ہیں جو جگہ مسجد کے لیے وقف کردی گئی ہو اور نماز باجماعت کے لیے خاص کردی گئی ہو اور وہاں پر نماز کی عام اجازت ہو، مسجد میں عام طور پر دو حصے ہوتے ہیں: ایک حصہ زمین وہ کہ جس کو نماز کے لیے متعین کرلیا جائے اس حصہ کو مسجد شرعی کہا جاتا ہے اور دوسرا حصہ وہ جو مسجد کی دیگر ضروریات کے لیے متعین کیا جاتا ہے مثلاً وضو خانہ جوتے نکالنے کی جگہ، امام مؤذن کے رہنے کی جگہ اور پانی کی ٹنکی اور ساز و سامان کی حفاظت کی جگہ اس وضاحت کے مطابق جو جگہ مسجد شرعی ہو اس کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو مساجد جو راستہ کی مساجد کہلاتی ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ ان مساجد کے نمازی متعین نہ ہوں کوئی محلہ وغیرہ ان سے مربوط نہ ہو، امام و مؤذن متعین نہ ہو وغیرہ۔ اور دوسری وہ مساجد جو محلہ کی مساجد کہلاتی ہیں جہاں نمازی بھی متعین ہوتے ہیں کہ عموماً اہل محلہ وہاں نماز پڑھتے ہیں، امام و مؤذن بھی متعین ہوتے ہیں۔ مذکورہ تفصیل کے مطابق محلہ کی جو مسجد ہو اس کے اس حصہ میں جو نماز کے لیے مخصوص ہو جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے جس کی اصل علت یہ معلوم ہوتی ہے کہ منشاء شریعت تکثیر جماعت ہے اور اگر بار بار جماعت ہو تو وہ تقلیل جماعت کا سبب ہوگا لوگوں کو چاہئے کہ وقت جماعت کی پابندی کریں جماعت کو اپنا پابند نہ کریں اور اگر کسی کی جماعت چھوٹ جائے اوراتنے لوگ ہوں کہ جماعت کی جاسکے تو مسجد شرعی کے حصہ کو چھوڑ کر کسی علاحدہ جگہ جماعت کرلینی درست ہے۔ پس مذکورہ وضاحت کے مطابق دارالعلوم وقف کی دارالحدیث نہ مسجد ہے نہ مسجد کے حکم میں ہے وہ جگہ مسجد کے لیے وقف ہی نہیں ہے لیکن جماعت میں ہر جگہ تکثیر مقصود ہے اس لیے بلا وجہ و بلا عذر پہلی جماعت ترک کرنا غلط ہے۔ اول جماعت کا اہتمام کرنا چاہئے لیکن اگر کسی کی جماعت چھوٹ جائے تو اسی دارالحدیث میں دوبارہ جماعت درست ہے۔ کوئی کراہت نہیں ہے۔(۱)
(۱) والمسجد إذا کان لہ إمام معلوم وجماعۃ معلومۃ في محلۃ فصلی أہلہ فیہ بالجماعۃ لایباح تکرارہا فیہ بأذان ثان۔ أما إذا صلوا بغیر أذان یباح إجماعاً وکذا في مسجد قارعۃ الطریق، کذا في شرح المجمع للمصنف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل في الجماعۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
من بنی مسجداً لم یزل ملکہ عنہ حتی یفرزہ عن ملکہ بطریقۃ ویأذن بالصلاۃ فیہ … أو أمرہم بالصلاۃ مطلقا ونوی الأبد ففي ہذین الوجہین صارت الساحۃ مسجداً لومات لایورث عنہ۔ وإما أن وقت الأمر بالیوم أو الشہر أو السنۃ ففي ہذا الوجہ لاتصیر الساحۃ مسجداً لومات یورث عنہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف: الباب الحادی عشر في المسجد ومایتعلق بہ، الفصل الأول فیما یصیر بہ مسجدا و في أحکامہ و أحکام ما فیہ‘‘: ج۱، ص: ۴۰۹، زکریا دیوبند)
ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ، وإذا علموا أنہا لاتفوتہم یتأخرون فتقل الجماعۃ وتقلیل الجماعۃ مکروہ بخلاف المساجد التي علی قوارع الطرق۔ الخ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۱، ص: ۳۸۰، زکریا دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 499