نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک صرف فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا مسنون ہے، جمعہ کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا سنت نہیں ہے۔
’’وہو صریح في أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر، دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ‘‘ (۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت النازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص323

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احادیث مبارکہ میں اشراق کی نماز کی بے حد فضیلت وارد ہوئی ہیں، اشراق میں افضل یہ ہے کہ فجر کی نماز پڑھ کر انسان اسی جگہ پر بیٹھ کر ذکر واذکار اور تلاوت کرتا رہے اور طلوعِ آفتاب کے تقریباً پندرہ یا بیس منٹ کے بعد کم از کم دو رکعت نماز پڑھے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ: جو شخص فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے، پھر اس کے بعد دو رکعت نماز ادا کرے تو اس کو کامل حج وعمرہ کا ثواب ملے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے، تو گھر آکر یا کوئی دوسرا کام کر کے بھی اشراق کی رکعتیں پڑھ سکتا ہے۔ ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی، ’’إن شاء اللّٰہ‘‘۔
’’عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: من صلی الغداۃ في جماعۃ، ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ،  قال:  قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تامۃ تامۃ تامۃ۔‘‘(۱)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب السفر، باب ذکر ما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘: ج ۱، ص:۱۳۰، رقم: ۵۸۶۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص434

نماز / جمعہ و عیدین

Ref No. 38 / 1210

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز جیسی چھوٹی ہے اسی ترتیب سے ادا کیجاتی ہے۔ عید کی نماز میں کوئی الگ  ترتیب نہیں ہے۔ امام کے سلام کے بعد مسبوق  دونوں رکعتیں مع زائد تکبیرات کے ادا کرے بالکل اسی طرح جس طرح امام نے ادا کئے تھے۔ یعنی پہلی رکعت میں ثنا پڑھنے کے بعد تین تکبیریں  کہے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعدتین تکبیریں  کہے۔کذا فی الفقہ    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 903/41-11B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علماء وصلحاء کا لباس اختیار کرنا چاہئے،  اور لباس کواس کی اصلی حالت پر ہونا چاہئے۔ ہاف آستین میں ہیئت معروفہ کی خلاف ورزی ہے اس لئے مکروہ ہے۔

(و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كم أو ذيل (الدرالمختار 1/640)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1469/42-908

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عصر کی فرض نماز کے بعد کسی فرض یا واجب کی قضا  پڑھنا درست ہے لیکن سنت کی قضاء یا نفل پڑھنا درست نہیں ہے۔ اس لئے ظہر کی فرض کی قضاء کے ساتھ اسکی سنتیں پڑھنا درست نہیں ہے۔

 2۔ انفرادی طور پر فرض نماز پڑھتے ہوئے سجدہ میں  اللہ کی عظمت اور اپنی کوتاہیوں  کا تصور کرکے  رونادرست  بلکہ احسن ہے،اور عربی میں ماثور دعائیں مانگنا بھی درست ہے لیکن بہتر نہیں ہے، کیونکہ دعا کا سنت طریقہ  قبلہ رو ہو کر بیٹھ کر ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ہے، اس لئے  سجدہ کی حالت میں دعا کرنامسنون طریقہ نہیں ہے۔   نفل نماز میں جو وسعت ہے وہ فرض نمازوں میں نہیں ہے۔ اس لئے نفل میں سجدہ میں دعاکرنا بہترہے لیکن فرض میں نہ کرنا بہتر ہے۔ نیز اس بات کا بھی خیال رہے کہ یہ دعا ایسے امور سے متعلق نہ ہو جو مخلوق سے مانگی جاتی ہیں۔ 

وفيه جواب عما أورد من أن قوله - صلى الله عليه وسلم - «لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا صلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس» رواه الشيخان يعم النفل وغيره: وجوابه أن النهي هنا لا لنقصان في الوقت بل ليصير الوقت كالمشغول بالفرض فلم يجز النفل، ولا ما ألحق به مما ثبت وجوبه بعارض بعد ما كان نفلا دون الفرائض. وما في معناها، بخلاف النهي عن الأوقات الثلاثة فإنه لمعنى في الوقت وهو كونه منسوبا للشيطان فيؤثر في الفرائض والنوافل، وتمامه في شروع الهداية. (قوله: حتى لو نوى إلخ) تفريع على ما ذكره من التعليل: أي وإذا كان المقصود كون الوقت مشغولا بالفرض تقديرا وسنته تابعة له، فإذا تطوع انصرف تطوعه إلى سنته لئلا يكون آتيا بالمنهي عنه فتأمل. (قوله: بلا تعيين) لأن الصحيح المعتمد عدم اشتراطه في السنن الرواتب، وأنها تصح بنية النفل وبمطلق النية، فلو تهجد بركعتين يظن بقاء الليل فتبين أنهما بعد الفجر كانتا عن السنة على الصحيح فلا يصليها بعده للكراهة أشباه. (شامی، کتاب الصلوۃ 1/376)

قال فی العلائیہ وکذا لایأتی فی رکوعہ وسجودہ بغیر التسبیح علی المذہب وماورد محمول علی النفل قال ابن عابدین رحمہ اللہ تعالٰی (قولہ محمول علی النفل) ای تھجدًا (اوغیرہ، خزائن، وکتب فی ھامشہ فیہ رد علی الزیلعی حیث خصہ بالتھجد ۱ھ\x0640 ثم الحمل المذکور صرح بہ المشائخ فی الوارد فی الرکوع والسجود وصرح بہ فی الحلیۃ فی الوارد فی القومۃ والجلسۃ وقال علی انہ ان ثبت فی المکتوبۃ فلیکن فی حالۃ الانفراد اوالجماعۃ والمأمون محصوروں لایتثعلون بذلک کما نص علیہ الشافیعۃ ولاضرر فی التزامہ وان لم یصرح بہ مشایخنا فان القواعد الشرعیۃ لاتنبوعنہ کیف والصلٰوۃ والتسبیح والتکبیر والقرأۃ کما ثبت فی السنۃ اھ\0640۔ (شامی، فروع قرا بالفارسیۃ او التوراۃ او الانجیل 1/505)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر مذکورہ امام ان تمام شرائط کا لحاظ رکھے جو احناف کے نزدیک نماز کی صحت کے لیے ضروری ہیں مثلاً طہارت وغیرہ کے مسائل تو اس امام کی اقتدا میں نماز ادا ہوجاتی ہے۔ (۱)تاہم حسب ضابطہ شرعی دوسری مسجد میں قیام جمعہ وعیدین کی گنجائش ہے؛ لیکن اس کے لیے کسی معتمد مفتی کو معائنہ کرادیں وہ جو فتویٰ صادر فرمائیں اس پر عمل کریں۔

(۱) أما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز مالم یعلم منہ مایفسد الصلاۃ علی اعتقاد المقتدي علیہ الإجماع، (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الاقتداء بشافعي‘‘:ج۲، ص: ۳۰۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص253

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس حصہ کو مسجد شرعی میں شامل کیا گیا ہے وہ مسجد شرعی ہے اور جو حصہ مسجد شرعی میں شامل نہیں کیا گیا وہ حصہ مسجد شرعی نہیں ہے، خواہ نماز جمعہ میں اس حصہ میں بھی نمازی جمعہ پڑھتے ہوں لیکن وہاں جماعت ثانیہ درست ہے مگر اس کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) وتکرار الجماعۃ إلا في مسجد علی طریق فلا بأس بذلک۔ (الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲، ص: ۶۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 498

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کوئی دوسرا شخص بھی اذان ثانی دے سکتا ہے؛ لیکن افضل ہے کہ مؤذن خود اذان دے؛ نیز مؤذن کے موجود ہوتے ہوئے اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے شخص نے اقامت کہہ دی جب کہ اس سے مؤذن کو تکلیف ہوتی ہو، تو مکروہ ہے، ہاں اگر مؤذن کی
صراحتاً یا دلالۃ اجازت سے کوئی دوسرا شخص اذان ثانی یا خطبہ دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)

(۱) ومنہا (أي ومن صفات المؤذن) أن یکون مواظباً علی الأذان لأن حصول الإعلام لأہل المسجد بصوت المواظب أبلغ من حصولہ بصوت من لا عہد لہم بصوتہ فکان أفضل۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع: ’’کتاب الصلاۃ، فصل الأذان، في بیان سنن صفات المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۳)
(أقام غیر من أذن بغیبتہ) أي المؤذن (لا یکرہ مطلقا) وإن بحضورہ کرہ إن لحقہ وحشۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتارمع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص140

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی، اگرچہ وہ عورت اس کی محرم ہو، وہ شرائط یہ ہیں۔
(۱) وہ عورت مشتہات ہو، یعنی ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔
(۲) دونوں نماز میں ہوں، یعنی ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔
(۳) مرد کی پنڈلی، ٹخنہ یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے مقابلہ میں آرہا ہو۔
(۴) یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔
(۵)یہ اشتراک مطلق نماز (رکوع سجدے والی نماز) میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔
(۶)دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔
(۷)تحریمہ دونوں کی ایک ہو، یعنی برابر میں نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔
(۸)عورت میںنماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں، یعنی عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں نہ ہو۔
(۹) مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔
(۱۰) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو، یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔
(۱۱) مردنے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو پھر بھی عورت مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تواب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔
(۱۲) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔
اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں (دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
’’محاذاۃ المرأۃ الرجل مفسدۃ لصلاتہ ولہا شرائط: (منہا) أن تکون المحاذیۃ مشتہاۃً تصلح للجماع ولا عبرۃ للسن وہو الأصح … (ومنہا) أن تکون الصلاۃ مطلقۃً وہي التي لہا رکوع وسجود … (ومنہا) أن تکون الصلاۃ مشترکۃً تحریمۃً وأدائً … (ومنہا) أن یکونا في مکان واحد … (ومنہا) أن یکونا بلا حائل … وأدنی الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظہ غلظ الأصبع والفرجۃ تقوم مقام الحائل وأدناہ قدر ما یقوم فیہ الرجل، کذا في التبیین۔ (ومنہا) أن تکون ممن تصح منہا الصلاۃ … (ومنہا) أن ینوی الإمام إمامتہا أو إمامۃ النساء وقت الشروع  لا بعدہ… (ومنہا) أن تکون المحاذاۃ في رکن کامل … (ومنہا) أن تکون جہتہما متحدۃ … ثم المرأۃ الواحدۃ تفسد صلاۃ ثلاثۃ : واحد عن یمینہا وآخر عن یسارہا، وآخر خلفہا، ولا تفسد أکثر من ذلک، ہکذا في التبیین، وعلیہ الفتوی، کذا فی التتارخانیۃ۔ والمرأتان صلاۃ أربعۃ: واحد عن یمینہما وآخر عن یسارہما وإثنان خلفہما بحذائہما،وإن کن ثلاثا، أفسدت صلاۃ واحد عن یمینہن، وآخر عن یسارہن، وثلاثۃ خلفہن إلی آخر الصفوف وہذا جواب الظاہر۔ ہکذا في التبیین‘‘(۱)
’’ومحاذاۃ المشتہاۃ‘‘ بساقہا وکعبہا في الأصح ولو محرما لہ أو زوجۃ اشتہیت، ولو ماضیا کعجوز شوہاء في أداء رکن عند محمد أو قدرہ عند أبي یوسف ’’في صلاۃ‘‘ ولو بالإیماء ’’مطلقۃ‘‘ فلا تبطل صلاۃ الجنازۃ إذ لا سجود لہا ’’مشترکۃ تحریمۃ‘‘ باقتدائہما بإمام أو اقتدائہا بہ ’’في مکان متحد‘‘ ولو حکما بقیامہا علی ما دون قامۃ ’’بلا حائل‘‘ قدر ذراع أو فرجۃ تسع رجلا ولم یشر إلیہا لتتأخر عنہ، فإن لم تتأخر بإشارتہ فسدت صلاتہا لا صلاتہ، ولا یکلف بالتقدم عنہا لکراہتہ ’’و‘‘ تاسع شروط المحاذاۃ المفسدۃ أن یکون الإمام قد ’’نوی إمامتہا‘‘ فإن لم ینوہا لا تکون فی الصلاۃ، فانتفت المحاذاۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامہ، الفصل  الخامس في بیان مقام الامام والمأموم‘‘: ج۱، ص: ۱۴۷،مکتبہ فیصل دیوبند۔)
(۱) حسن بن عمار الشنبلالي، حاشیہ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’باب مایفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۳۲۹-۳۳۱۔)  و ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الامامہ‘‘: ج۲، ص: ۳۱۶۔)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص96

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی شخص کی سری نماز قضاء ہوجائے، تو ان کو سراً پڑھنا ہے اور اگر جہری نماز مثلاً مغرب، عشاء اور فجر چھوٹ جائے، تو سراً ادا کرنا جائز ہے، جہراً پڑھنا اولی اور بہتر ہے؛ لیکن بہت زور سے نہ پڑھے۔
’’وإن کانت صلاۃ یجہر فیہا فہو بالخیار، والجہر أفضل ولکن لا یبالغ مثل الإمام؛ لأنہ لا یسمع غیرہ‘‘(۱)
وتر اور سنتوں میں بھی اگر بالجہر قرأت کرنا چاہیں، تو کر سکتا ہے شرط یہ ہے کہ دوسرے نمازیوں کو پریشانی نہ ہو؛ اس لیے بالسر قرأت اولیٰ ہے۔(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۹، زکریا)
(۲) والمنفرد بفرض مخیر فیما یجہر الإمام فیہ وقد بیناہ وفیما یقضیہ مما سبق بہ في الجمعۃ والعیدین کمتنفل باللیل فإنہ  مخیر ویکتفي بأدنی الجہر فلا یضر نائماً لأنہ علیہ السلام جہر في التہجد باللیل، وکان یؤنس الیقظان ولا یوقظ الوسنان۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۵۴، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص215