Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) جن مساجد میں باجماعت نماز ہوتی ہے وہاںہر ایک مسجد میں علاحدہ علاحدہ اذان دینا سنت ہے، کئی مسجدوں کے لیے ایک اذان پر اکتفا کرنا خلاف مسنون ہے۔
(۲) کمپیوٹرکے ذریعہ جو اذان کی آواز سنائی دیتی ہے وہ صدائے باز گشت کے حکم میں ہے جس کا اعتبار نہیں ہے؛ اس لیے کمپیوٹرائز اذان سے اذان کی سنیت ادا نہ ہوگی یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کمپیوٹر اور ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ آیت سجدہ سنے تو اس پر سجدہ واجب نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ صدائے باز گشت ہے۔
’’لا تجب بسماعہ من الصدی ھو ما یجیبک مثل صوتک في الجبال والصحـاری و نحوھما کما في الصحاح‘‘(۱)
’’وروي ابن أبي مالک عن أبي یوسف عن أبي حنیفۃ في قوم صلوا في المصر في منزل أو في مسجد منزل، فأخبروا بأذان الناس وإقامتہم أجزأہم۔ وقد أساء وا بترکہما، فقد فرق بین الجماعۃ والواحد؛ لأن أذان الحي یکون أذانا للأفراد ولا یکون أذانا للجماعۃ‘‘(۱)
’’قال ابن المنذر: فرض في حق الجماعۃ في الحضر والسفر، وقال مالک: یجب في مسجدالجماعۃ، وفي ’’العارضۃ‘‘: وہو علی البلد ولیس بواجب في کل سجدۃ، ولکنہ یستحب في مساجد الجماعات أکثر من العدد‘‘(۲)
’’وإذا قسّم أہل المحلّۃ المسجد وضربوا فیہ حائطا ولکل منہم إمام علی حدۃ ومؤذنہم واحد لا بأس بہ والأولی أن یکون لکل طائفۃ مؤذن‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج۲، ص: ۵۸۳، مکتبہ: زکریا، دیوبند۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۸۔
(۲) العیني، البنایہ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘ حکم الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، مکتبہ: نعیمیہ، دیوبند۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق ’’کتاب الصلاۃ، فصل استقبال القبلۃ بالفرج في الخلاء ‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص136
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: اس پر نمازپڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(۱)
(۱) وأما طہارۃ مکان الصلاۃ فلقولہ تعالٰی: {أَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِہ۱۲۵} وقال في موضع والقائمین والرکع السجود ولما ذکرنا أن الصلاۃ خدمۃ الرب تعالٰی وتعظیمہ وخدمۃ المعبود المستحق للعبادۃ وتعظیمہ بکل الممکن فرض، وأداء الصلاۃ علی مکان طاہر أقرب إلی التعظیم فکان طہارۃ مکان الصلاۃ شرطا، وقد روي عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ أنہ نہي عن الصلاۃ في المزبلۃ والمجزرۃ ومعاطن الإبل وقوارع الطرق والحمام والمقبرۃ وفوق ظہر بیت اللّٰہ تعالٰی۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص264
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مقتدی کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔(۱)
(۱) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ قالوا: ہذا اذا ارتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری، وأما إذا قرأ أو تحول ففتح علیہ تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح أنہا لاتفسد صلاۃ الفاتح بکل حال وصلاۃ الامام لو آخذ منہ علی الصحیح، ہکذا في الکافي، ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ لجوازہ أن یتذکر من ساعتہ فیبصیر قارئا خلف الإمام من غیر حاجۃ، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص92
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن افضل یہ ہے کہ فجر اور ظہر میں طوال مفصل، عصر وعشاء میں اوساط مفصل؛ مغرب میں قصار مفصل میں سے پڑھے۔(۲)
(۲) ففي جامع الفتاویٰ: روي الحسن عن أبي حنیفۃ أنہ قال: لا أحب أن یقرأ سورتین بعد الفاتحۃ في المکتوبات، ولو فعل لایکرہ، وفي النوافل لابأس بہ۔ (قولہ إلا بالمسنون) وہو القراء ۃ من طوال المفصل في الفجر والظہر وأوساطہ في العصر والعشاء وقصارہ في المغرب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۴)
واستحسنوا في الحضر طوال المفصل في الفجر والظہر، وأوساطہ في العصر والعشاء، وقصارہ في المغرب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص212
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں جب کہ وتر کی تیسری رکعت کے رکوع میں مسبوق شریک ہوا اور تیسری رکعت اس نے پالی تو تیسری رکعت میں اس کے آنے سے پہلے جو کچھ امام نے کیا ہے یہ مسبوق اس کا پانے والا کہلائے گا اس لیے مسبوق مذکور امام کے بعد اپنی دو رکعت ادا کرے مگر قنوت نہیں پڑھے گا۔(۱)
(۱) قولہ : فیقنت مع إمامہ فقط: لأنہ آخر صلاتہ، ومایقضیہ أولہا حکما في حق القراء ۃ وما أشبہھا وہو القنوت۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص321
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ الاوابین کی علاوہ سنت مؤکدہ مغرب کے کم از کم چھ رکعات ہیں زیادہ سے زیادہ بیس رکعات ہیں اور تہجد کی نماز آٹھ رکعت ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہی تھا اور زیادہ بارہ تک ہیں اور کم سے کم دو رکعات ہیں۔
’’عن أبی سلمۃ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیہا بینہن بسوء، عدلن لہ بعبادۃ ثنتي عشر سنۃ‘‘(۱)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من صلی بعد المغرب عشرین رکعۃ بنی اللّٰہ لہ بیتا في الجنۃ‘‘(۲)
’’عن أبي سعید وأبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا استیقظ الرجل مـن اللیــل وأیقظ امرأتہ، فصلیا رکعتین کتبــا من الذاکــرین اللّٰہ کثیرا والذاکرات‘‘(۱)
’’وصلاۃ اللیل وأقلہا علی ما في الجوہرۃ ثمان … قال یصلي ما سہل علیہ ولو رکعتین، والسنۃ فیہا ثمان رکعات بأربع تسلیمات … فینبغي القول بأن أقل التہجد رکعتان وأوسطہ أربع وأکثرہ ثمان‘‘(۲)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم۴۳۵ نعیمیہ۔)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم۴۳۵ نعیمیہ۔)
(۱)أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فیمن أیقظ أھلہ من اللیل۔‘‘ ص۹۴،رقم ۱۳۳۵)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷،۴۶۸۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص430
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو رواج بنا کر نہ کیا جائے، البتہ بغیر تاریخ کی تعیین کے اور بغیر کسی زبردستی کے کبھی بھی لوگوں کو بلا کر جتنا بھی وہ خوشی سے پڑھنا چاہیں پڑھوا کر دعاء یا ایصالِ ثواب کرادیا جائے، اور آیت کریمہ یا سورۂ یٰسین یا ختم قرآن کے ان موقعوں پر شیرینی وغیرہ کا التزام بھی نہ کیا جائے کہ اس میں ناموری کا اور کھانے کا لالچ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ثواب یا تو بالکل ہی نہیں ہوتا یا کم ہو جاتا ہے۔(۱)
(۱) من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص367
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مولانا مودودی کے بعض عقائد معتزلہ اور خوارج کے عقائد سے میل کھاتے ہیں جو کہ فرقہ باطلہ میں شمار کئے گئے ہیں؛ اس لیے جو مولانا مودودی کا ان کے اعتقاد میں بھی مقلد ہے، اس کی امامت مکروہ ہوگی، جماعت اسلامی کے صدر مولانا ابو اللیث نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جماعت اسلامی ان کے عقائد میں ان کا اتباع نہیں کرتی پس جن کے عقائد ان عقائد باطلہ سے میل نہیں کھاتے ان کے پیچھے نماز مکروہ نہیں ہوتی۔(۱)
(۱) وأما الاقتداء بالمخالف في الفروع کالشافعي فیجوز ما لم یعلم منہ ما یفسد الصلاۃ علی اعتقاد المقتدي علیہ الإجماع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الاقتداء بشافعي ونحوہ الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۲)
وقال البدر العیني: یجوز الاقتداء بالمخالف وکل بر وفاجر ما لم یکن مبتدعاً بدعۃ یکفر بہا۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص250
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر مذکورہ مسجد میں امام اور مؤذن مقرر ہیں اور نماز وجماعت کے اوقات بھی مقرر ہیں، تو اس مسجد میں جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ شرعی مسجد سے الگ ہٹ کر دوسری جگہ پر جماعت ثانیہ کر سکتے ہیں؛ لیکن اس کی عادت نہ ڈالیں کہ اس میں جماعت اولیٰ کی تقلیل اور اس کی طرف سے بے توجہی ہے جو ایک مسلمان کے لیے مناسب نہیں ہے۔
’’یکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أوفي مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن ویکرہ أي تحریماً لقول الکافي، لا یجوز، والمجمع لا یباح، وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي ’’قولہ بأذان وإقامۃ‘‘۔۔۔ والمراد بمسجد المحلۃ مالہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا، قال في المنبع: والتقیید بمسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعاً‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸، زکریا دیوبند۔
المسجد إذا کان لہ إمام معلوم وجماعۃ معلومۃ في محلۃ، فصلی أہلہ فیہ بالجماعۃ لایباح تکرارہا فیہ بأذان ثان، أما إذا صلوا بغیر أذان یباح إجماعاً وکذا في مسجد قارعۃ الطریق، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، فصل في الجماعۃ‘‘:ج۱، ص: ۴۱، ۱۴۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 491
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) اگر عورت اذان کہہ دے تو وہ اذان طریقہ مسنونہ کے مطابق ادا نہیں ہوگی۔ بنا بریں دو بارہ کسی مرد کا اذان کہنا مستحب ہوگا۔
(۲) ۱۲؍ سال سے کم عمر کا بچہ، جنبی، مدہوش، مجنون، عورت، اگر اذان کہہ دیں تو اعادہ کرنا ہوگا یعنی کوئی مرد دوبارہ اذان کہے۔(۱)
(۱) وکرہ أذان المرأۃ فیعاد ندباً، کذا في الکافي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني، في الأذان‘‘: الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰، مکتبہ: زکریا دیوبند)
وأنہ یکرہ أذان المرأۃ والصبي العاقل ویجزی حتی لا یعاد لحصول المقصود وہو الإعلام وروي عن الإمام أنہ تستحب إعادۃ أذان المرأۃ … وذکر في البدائع أیضا أن أذان الصبي الذي لا یعقل لا یجزی ویعاد لأن ما یصدر لا من عقل لا یعتد بہ کصوت الطیور۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲، مکتبہ: زکریا دیوبند)
ویکرہ بل لا یصح أذان صبي لا یعقل… وأذان المرأۃ لأنہا إن خفضت صوتہا أخلت بالإعلام وإن رفعتہ ارتکبت معصیۃ لأنہ عورۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹-۲۰۰، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
ویعاد أذان جنب ندباً لا إقامتہ وکذا یعاد أذان إمرأۃ ومجنون و معتوہ وسکران وصبي لا یعقل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰-۶۱، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص137