نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: سورۂ اخلاص کا دعاء قنوت کے قائم مقام ہونا منقول نہیں ہے، تاہم اگر کسی کو اس کے علاوہ کچھ یاد ہی نہ ہو تو وہ سورۂ اخلاص ہی پڑھ لے۔
’’ومن لا یحسن القنوت یقول: ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار وقال ابواللیث: یقول: اللہم اعفرلي، یکررہا ثلاثا وقیل یقول یا رب ثلثا۔ً ذکرہ في الذخیرۃ‘‘ (۲)

(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في منکر الوتر والسنن أو الإجماع‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۳، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص322

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض پڑھنے والے کی اقتداء میں نفل نماز درست ہے اس لیے صورت مسئولہ میں زید نے اپنی عشاء کی نماز ادا کرلینے کے بعد اگر فرض نماز پڑھانے والے کی اقتداء میں نماز نفل پڑھی تو نفل درست ہوگئی۔(۱)

(۱) ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرضًا آخر؛ لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا۔ وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللّٰہ  علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ‘‘: ج۲ ص۳۲۵، ۳۲۴،زکریا دیوبند)
ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإقامۃ حتی لو شرع علی نیۃ الانفراد فاقتدیٰ بہ یجوز۔ (إبراھیم، حلبي، غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلي المشتہر بشرح الکبیر: ص: ۲۵۱)
وہاہنا مسائل: إحداہا اقتداء المتنفل بالمفترض فہو جائز بالاتفاق لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سیکون أمراء بعدي یؤخرون الصلاۃ عن مواقیتہا فإذا فعلوا فصلوا أنتم في بیوتکم ثم صلوا معہم واجعلوا صلاتکم معہم سبحۃ أي نافلۃ، ولأن المقتدي بنی صلاتہ علی صلاۃ إمامہ کما أن المنفرد یبني آخر صلاتہ علی أول صلاتہ، وبناء النفل علی تحریمۃ انعقدت للفرض یجوز وکذلک اقتداء المتنفل بالمفترض فأما المفترض إذا اقتدی بالمتنفل عندنا فلا یصح الاقتداء۔ (السرخسي،المبسوط : ج۱، ص: ۱۳۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص433

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  صورت مسئولہ میں اہل سنت والجماعت مشورہ کریں اورکوئی ایسی صورت اختیار کریں کہ مسجد میں کوئی ہم مشرب امام آجائے یا کم از کم ایسا امام ہو جو قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو اورنماز کے مسائل میں اس طرح پابند ہو کہ امام اعظمؒ کے اصح مسلک کے مطابق نماز درست ہو اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو باہمی مشورے کے دوسری جگہ نماز کا اہتمام کریں؛ کیوںکہ جو امام ایسی غلطیاں کرتا ہو اس کی اقتداء ہی درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) الحاصل: أنہ إن علم الاحتیاط منہ في مذہبنا فلا کراہۃ في الاقتداء بہ، وإن علم عدمہ فلا صحۃ، وإن لم یعلم شیئاکرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب الاقتداء بالشافعي‘‘: ج۲، ص:۴۴۴)
لایجوز إمامۃ الألثغ الذي لا یقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف، فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا، فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الإمامۃ، الفصل الثالث فی بیان من یصلح إماماً لغیرہ ج۱، ص: ۱۴۲، زکریا قدیم ج۱، ص: ۱۴۴، جدید)۔
والأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي الأکثر اتقاء للشبہات، والتقوی: اتقاء المحرمات۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)۔
(قولہ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا) أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ: أي أجود، لا أکثرہم حفظا وإن جعلہ في البحر متبادرا) ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا قہستاني۔ (أیضًا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص252

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عید، بقر عید میں اگر بارش ہونے لگے تو مسجد کبیر میں باضابطہ تبدیل امام پر مکرر نماز پڑھی جاسکتی ہے اور اگر بغیر عذر شرعی کے ایسا کیا جا رہا ہے تو یہ فعل غلط ہے اور نماز مکروہ ہوگی اس لیے کہ تکرار جماعت مکروہ ہے۔
’’ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن … ولنا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أہل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أہلہ وصلی، ولو جاز ذلک لما اختار الصلاۃ في بیتہ علی الجماعۃ في المسجد‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸، زکریا دیوبند۔
وقال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللّٰہ قال قاضي خان في شرح الجامع الصغیر: رجل دخل مسجداً قد صلی فیہ أہلہ فإنہ یصلي بغیر أذان وإقامۃ، لأن في تکرار الجماعۃ تقلیلہا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸
)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 497

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اذان کا جواب دینا مستحب ہے، جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے رد المحتار میں لکھا ہے کہ اذان کا جواب دینا مستحب ہے:
’’قال في الفتح:۔۔۔۔ أي مؤذن یجیب باللسان استحبابا أو وجوباً والذي ینبغي إجابۃ الأول سواء کان مؤذن مسجدہ أو غیرہ‘‘(۲)

(۲) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۷۰۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص139

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اتنے مال کا نقصان لازم آرہا ہوکہ مالک اس کو بآسانی برداشت نہیں کرسکتا؛ بلکہ اس کو تکلیف ہوگی، تو شرعاً نماز توڑنے کی رخصت واجازت ہے اور جس کو برداشت کرنے میں کوئی تکلیف نہ ہو جیسے آج کے دور میں ایک دو روپیہ، تو اجازت نہ ہوگی۔(۱)
(۱) یقطعہا لعذر إحرازاً لجماعۃ کما لوندت دابتہ أو فار قدرھا أو خاف ضیاع درہم من مالہ، … لم یفصل في الکتاب بین المال القلیل والکثیر، وعامۃ المشایخ قدروہ بدرہم۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج۲، ص: ۵۰۳، ۵۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص95

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ قرأت کی واجبی مقدار چھوٹی تین آیات یا ایک بڑی آیت ہے۔
مذکورہ صورت میں ترک واجب کی وجہ سے سجدہ سہو کے ساتھ نماز درست ہوگی۔(۲)
(۲) وتجب قراء ۃ الفاتحۃ وضم السورۃ أو مایقوم مقامہا من ثلاث آیات قصار، أو آیۃ طویلۃ في الأولیین بعد الفاتحۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸، زکریا دیوبند)
والثاني ضم سورۃ قصیرۃ أو ثلاث آیات قصار، قولہ أو ثلاث آیات قصار قدر أقصر سورۃ أو آیۃ طویلۃ تعدل ثلاث آیات قصار۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۸، شیخ الہند دیوبند)
ویجب سجدتان بتشہد وتسلیم لترک الواجب بتقدیم أو تأخیر أو زیادۃ أو نقص۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۰، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص214

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک صرف فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا مسنون ہے، جمعہ کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا سنت نہیں ہے۔
’’وہو صریح في أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر، دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ‘‘ (۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت النازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص323

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احادیث مبارکہ میں اشراق کی نماز کی بے حد فضیلت وارد ہوئی ہیں، اشراق میں افضل یہ ہے کہ فجر کی نماز پڑھ کر انسان اسی جگہ پر بیٹھ کر ذکر واذکار اور تلاوت کرتا رہے اور طلوعِ آفتاب کے تقریباً پندرہ یا بیس منٹ کے بعد کم از کم دو رکعت نماز پڑھے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ: جو شخص فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے، پھر اس کے بعد دو رکعت نماز ادا کرے تو اس کو کامل حج وعمرہ کا ثواب ملے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے، تو گھر آکر یا کوئی دوسرا کام کر کے بھی اشراق کی رکعتیں پڑھ سکتا ہے۔ ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی، ’’إن شاء اللّٰہ‘‘۔
’’عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: من صلی الغداۃ في جماعۃ، ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ،  قال:  قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تامۃ تامۃ تامۃ۔‘‘(۱)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب السفر، باب ذکر ما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘: ج ۱، ص:۱۳۰، رقم: ۵۸۶۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص434

نماز / جمعہ و عیدین

Ref No. 38 / 1210

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز جیسی چھوٹی ہے اسی ترتیب سے ادا کیجاتی ہے۔ عید کی نماز میں کوئی الگ  ترتیب نہیں ہے۔ امام کے سلام کے بعد مسبوق  دونوں رکعتیں مع زائد تکبیرات کے ادا کرے بالکل اسی طرح جس طرح امام نے ادا کئے تھے۔ یعنی پہلی رکعت میں ثنا پڑھنے کے بعد تین تکبیریں  کہے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعدتین تکبیریں  کہے۔کذا فی الفقہ    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند