نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں جماعت ہوگئی یا شرعی عذر کی بنا پر مسجد میں نہ جاسکے، تو گھر میں بیوی، ماں، بہن وغیرہ کے ساتھ نماز با جماعت ادا کرسکتا ہے، یہ ہی بہتر ہے؛ تاکہ جماعت کا ثواب مل جائے، مگر عورت ایک ہو یا زیادہ ہوں، ہر صورت میں عورت کو امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے، امام کے برابر میں ایک مرد کی طرح عورت کا کھڑا ہونا درست نہیں، اس طرح کرنے سے نماز ادا نہیں ہوگی، مگر یہ بھی یاد رکھئے کہ بلا عذر شرعی ترک جماعت کی عادت بنا لینا گناہ ہے اور بروئے حدیث ایسا شخص عملی منافق کہلاتاہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ولقد رأیتنا وما یتخلف عن الصلاۃ إلامنافق قد علم نفاقہ أو مریض إن کان المریض لیمشي بین رجلین حتی یأتي الصلاۃ‘‘ ایک دوسری حدیث میںہے ’’ولو أنکم صلیتم في بیوتکم کما یصلي ہذا المتخلف في بیتہ لترکتم سنۃ نبیکم ولو ترکتم سنۃ نبیکم لضللتم الخ۔ (۱)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،…… باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الہدیٰ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۵۴۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص504

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اس کو مٹایا نہیںجاسکتا تو مجبوری ہے نماز اس کی ہوجاتی ہے؛ البتہ اس کی نماز کراہت سے خالی نہ ہوگی۔ لیکن اس کی نماز جنازہ پڑھنی فرض کفایہ ہے نہ پڑھنے والے لوگ سخت گناہگار ہوں گے اور ان کا یہ فعل باعثِ عذاب ہوگا۔(۱)
(۱) یستفاد مما مرّ حکم الوشم في نحو الید، وہو أنہ کالاختضاب أو الصبغ بالمتنجس؛ لأنہ إذا غرزت الید أو الشفۃ مثلاً بإبرۃ، ثمّ حشي محلہا بکحل أو نیلۃ لیخضر، تنجس الکحل بالدم، فإذا جمد الدم، والتأم الجرح بقي محلہ أخضر، فإذا غسل طہر؛ لأنہ أثر یشق زوالہ؛ لأنہ لایزول إلا بسلخ الجلد أو جرحہ، فإذا کان لایکلف بإزالۃ الأثر الذي یزول بماء حار أو صابون فعدم التکلیف ہنا أولی۔ وقد صرح بہ في القنیۃ فقال: ولو اتخذ في یدہ وشماً لایلزمہ السلخ … الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۸)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم، حیث قال: لعن اللّٰہ الواصلۃ والمستوصلۃ، والواشمۃ والمستوشمۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب الوصل في الشعر‘‘: ج۲، ص:۸۷۹، رقم: ۵۹۳۷)
الوشم وہي أن تغرز إبرۃ أو مسلۃ أو نحوہما في ظہر الکف أو المعصم أو الشفۃ أو غیر ذلک من بدن المرأۃ حتی یسیل الدم، ثم تحشو ذلک الموضع بالکحل أو النورۃ فیخضر … فإن طلبت فعل ذلک بہا فہي مستوشمۃ، وہو حرام علی الفاعلۃ والمفعول بہا باختیارہا والطالبۃ لہ … وسواء في ہذا کلہ الرجل والمرأۃ۔ (ابن الحجاج، المنہاج شرح صحیح مسلم، ’’کتاب اللباس والزینۃ: باب تحریم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ‘‘: ج ۷، ص: ۲۳۱، رقم: ۲۱۲۵)(شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص283


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تنہائی میں اور محرم کے سامنے بھی ستر چھپانا لازم ہے اس لیے صورت مسئولہ میں جب کہ ستر کا حصہ کھلا ہوا ہے تو نماز نہیں ہوئی جلد از جلد ان نمازوں کی قضا کرلیں جتنی نمازیں اس حالت میں پڑھی ہیں کہنی چھپانی بھی لازم ہے خواہ دوپٹے ہی سے چھپائیں۔(۱)

(۱) وبدن الحرۃ عورۃ إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا۔ (ابن نجیم ، البحرالرائق شرح کنز الدقائق، ج۱، ص: ۴۶۸، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص106

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 802

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  احناف کے نزدیک مغرب سے قبل نفل پڑھنا متروک اس وجہ سے ہے کہ مغرب میں تعجیل کا حکم ہے۔ لیکن جبکہ آپ کے یہاں تاخیر ہوتی ہی ہے تو آپ بھی دو رکعت ادا کرسکتے ہیں۔  واللہ اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1020/41-180

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قصدا اقامت ترک کرنا مکروہ ہے، تاہم نماز ہوجائے گی۔ ایک ہی شخص کا اقامت اور امامت کرنا بھی درست ہے۔

والأفضل أن يصلي بالأذان والإقامة كذا في التمرتاشي وإذا لم يؤذن في تلك المحلة يكره له تركهما ولو ترك الأذان وحده لا يكره كذا في المحيط ولو ترك الإقامة يكره. كذا في التمرتاشي". (عالمگیری 1/54)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین نماز کے لیے مسجد میں آیا کرتی تھیں؛ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اتفاق سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع کردیا گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ بھی خیر القرون کا زمانہ تھا؛ لیکن اس زمانہ میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتنہ کے خوف سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع کردیا؛ اسی لیے حضرات فقہاء نے عورتوں کے لیے مسجد میں جماعت سے نماز کو مکروہ قرار دیا ہے۔ عبادات میں سب سے افضل اور اہم عبادت نماز ہے، جب عورتوں کو نماز کے لیے مسجد آناپسندیدہ نہیں ہے، تو دیگر اصلاحی پرو گراموں کے لیے آنا بھی پسندیدہ نہیں ہوگا۔ بہتر ہے کہ خواتین کا مسجد کے علاوہ کسی گھر یا مقام پر پروگرام کیا جائے، جہاں مردوں سے اختلاط نہ ہو۔ اور اگر عورتوں کے لیے مسجد میں علاحدہ نظم ہو جس میں کسی قسم کا اختلاط نہ ہو تو دینی پروگرام کرنے کی گنجائش ہے۔(۱)

(۱) إن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: لقد کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم …یصلي الفجر فیشہد معہ نسائٌ من المؤمنات متلفعات في مروطہن ثم یرجعن إلی بیوتہن ما یعرفہن أحد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب کم تصلي المرأۃ في الثیاب‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۳۷۲)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تمنعوا نسائکم المساجد وبیوتہن خیرلہن۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ماجاء في خروج النساء إلی المسجد‘‘: ج ۱، ص:۸۳، رقم: ۵۶۷)
عن عبد اللّٰہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ المرأۃ في بیتہا أفضل من صلاتہا في حجرتہا وصلاتہا في حجرتہا أفضل من صلاتہا فيبیتہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب التشدید في ذلک‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم:۰ ۵۷)
وکرہ لہن حضور الجماعۃ إلا للعجوز في الفجر والمغرب والعشاء، والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل الصلوات لظہور الفساد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم: ج ۱، ص: ۱۴۶)
وأما بیان من تجب علیہ الجماعۃ فالجماعۃ إنما تجب علی الرجال العاقلین الأحرار القادرین علیہا من غیر حرج فلا تجب علی النساء۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ، فصل بیان من تجب علیہ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۴)
والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل صلوات لظہور الفساد۔ (عالم بن العلاء، التاتار خانیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ: ج ۱، ص: ۱۵۷)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص505

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی صورت میں جب کہ کوئی شخص نمازی کو تبدیلی سمت قبلہ پر متنبہ کرے تو نمازی کو کچھ توقف کرکے اپنی رائے سے سمت قبلہ کی طرف گھوم جانا چاہئے تاکہ اس کی نماز درست ہوجائے اور اگر غیر نمازی کے کہنے پر فوراً (بغیر توقف کئے) گھوم گیا تو ’’استمداد عن الغیر‘‘ کی بناء پر اس کی نماز نہیںہوگی۔ دوبارہ پڑھنی ضروری ہوگی۔(۱)
(۱) لو جذبہ آخر فتأخر الأصح لا تفسد صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۳)
وإن اشتبہت علیہ القبلۃ ولیس بحضرتہ من یسأل عنہا اجتہد وصلّی کذا في الہدایۃ، فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلی لا یعیدہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، مکتبہ اتحاد)
وقید بالتحري لأن من صلّی ممن اشتبہت علیہ بلا تحرّ فعلیہ الإعادۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب شروط الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۱، مکتبہ زکریا دیوبند)
وإن شرع بلا تحرّ لم یجز وإن أصاب لترکہ فرض التحري، إلا إذا علم إصابتہ بعد فراغہ فلا یعید اتفاقًا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب إذا ذکر في مسألۃ ثلاثۃ أقوال‘‘: ج۲، ص: ۱۱۹، دار الکتاب دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص284



 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جہری نمازیں انفرادی طور پر پڑھنے میں نمازی کو اختیار ہے کہ پہلی دو رکعتوں میں قرأت جہرا کرے یا سراً، آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کی قرأت سرا ہے نہ کہ جہراً اگر مذکورہ شخص نے آخری دو رکعتوں میں جہراً سورہ فاتحہ پڑھی اور سجدہ سہو نہ کیا تو نماز فاسد ہوگئی، اگر جہر سے مراد صرف بلند آواز سے تکبیر کہنا ہے تو نماز درست ہوگئی۔(۲)

(۲) ویخیر المنفرد في الجہر وہو أفضل ویکتفی بأدناہ إن أدی، وفي السریۃ یخافت حتما علی المذہب، الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ج۲، ص: ۲۵۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص106

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1019/41-198

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ۱،۲:- سنن و نوافل دونوں کا اس سلسلہ میں ضابطہ  ایک  ہے کہ یہ دو دو رکعت واجب ہوتی ہیں۔ لہذا اگرکوئی  چار رکعت کی نیت سے سنت موکدہ  شروع کرکے  نماز فاسد کردے  تو اس میں بھی  صرف دو رکعتوں کی قضا لازم ہوگی ۔ لیکن صورت مسئولہ میں جب اس نے دو رکعت پر سلام پھیردیا تو اس کی دو رکعت نماز پوری ہوگئی؛ اب چار رکعت  سنت بطور قضا اس کے ذمہ واجب نہیں۔ چار رکعت  سنت موکدہ ہی اس کے ذمہ ہے جو نماز کے وقت  کے اندرادا کرلینی چاہئے۔ اگر ادا نہیں کرسکا تو وقت گزرنے کے بعد ظہر کی چار رکعت سنت  صرف اس وجہ سے اس پر واجب نہیں ہوجائے گی کہ اس نے چار رکعت کی نیت سے شروع کرکے دو رکعت پر سلام پھیردی تھی۔

واما بیان مقدار مایلزم منہ بالشروع فنقول لایلزمہ بالافتاح اکثر من رکعتین وان نوی اکثر من ذلک فی ظاھر الروایۃ عن اصحابنا الا یعارض الاقتداء۔ ۔(بدائع مکتبہ نعیمیہ دیوبند ۲/۷)

۳:۔  اگر کوئی فرض یاواجب نماز جو ادا کرچکا ہے مگر اس خیال سے شروع کردیا کہ وہ اس کے ذمہ باقی ہے اور پھر یاد آنے پر توڑدیا  تو اس کے  ذمہ اس شروع کرنے کی بنا پر کچھ بھی لازم نہیں۔ 

وکذا الشروع فی الصلوۃ المظنونۃ غیر موجب، حتی لو شرع فی الصلوۃ علی ظن انھا علیہ ثم تبین انھا لیست علیہ لایلزمہ المضی ولو افسد لایلزمہ القضاﺀ عند اصحابنا الثلاثۃ خلافا لزفر (بدائع مکتبہ نعیمیہ دیوبند ۲/۷)

۴:۔  بلا وضو اگر کسی نے نماز شروع کردی اور پھر توڑدی تو وجوب متحقق نہیں ہوا لہذا اس کی قضا بھی واجب نہیں ہوگی۔ 

فاما اذا لم یصح فلا، حتی لوشرع فی التطوع علی غیروضوﺀ او فی ثوب نجس لایلزمہ القضاﺀ۔ (بدائع مکتبہ نعیمیہ دیوبند ۲/۷)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مساجد یا دیگر مقامات میں لوگوں کو جمع کرکے ذکر بالجہر کا اہتمام کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے اس سے آئندہ ایک نئی چیز کے ایجاد کا خطرہ ہے(۱) ہاںاگر کوئی صاحبت نسبت عالم دین ہے جن کو اپنے اکابر سے اجازت ملی ہوئی ہے، تو اپنی نگرانی میں اپنے متعلقین کو اکٹھا کر کے ذکر کی مشق کرائے، تو اکابر سے اس کا ثبوت ہے، ہر کس و ناکس کو اس کی اجازت نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃالمصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۱) و أجمع العلماء خلفا وسلفا علی استحباب ذکر اللّٰہ جماعۃ في المساجد وغیرہا من غیر نکیر إلا أن یشوش جہر ہم بالذکر علی نائم أو مصل أو قاري قرآن کما ہو مقرر في کتب الفقہ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في صفۃ الأذکار‘‘: ص: ۳۱۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص374