نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ظاہر روایت میں جمعہ کے بعد چار کعت ایک سلام کے ساتھ سنت مؤکدہ ہیں امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چھ رکعت سنت مؤکدہ ہیں؛ اس لیے نماز جمعہ کے بعد چار رکعت ایک سلام سے سنت مؤکدہ کی نیت سے اور دو رکعت سنت مؤکدہ کی نیت سے الگ سے پڑھے اور صرف چار رکعت سنت مؤکدہ پڑھنے والے کو ملامت نہ کی جائے۔
’’وأربع قبل الجمعۃ وأربع بعد ہا وکذا ذکر الکرخي، وذکر الطحاوي عن أبي یوسف أنہ قال: یصلي بعدہا ستاً وقیل ہو مذہب علي رضي اللّٰہ عنہ وما ذکرنا أنہ کان یصلي أربعاً مذہب ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ‘‘(۱)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: الصلاۃ المسنونۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵۔)
(و السنۃ قبل الجمعۃ أربع وبعدہا أربع) … (وعند أبي یوسفؒ) السنۃ بعد الجمعۃ (ست) رکعات وہو مروي عن علي رضي اللّٰہ عنہ و الأفضل أن یصلی أربعاً ثم رکعتین للخروج عن الخلاف۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملی، ’’فصل في النوافل‘‘: ج ، ص: ۳۳۷، دارالکتاب دیوبند)
وسنّ مؤکداً (أربع قبل الظہر و) أربع قبل (الجمعۃ) وأربع (بعدہا بتسلیمۃ)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج۲، ص:۴۵۱، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص350

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1486/42-1250

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں جبکہ امام صاحب بیٹھنے کے قریب تھے، ان پر سجدہ سہو لازم نہیں تھا، ان کو سجدہ سہو نہیں کرنا چاہئے تھا۔ تاہم اگر سجدہ سہو کرلیا تو   بھی صحیح قول کے مطابق نماز درست ہوگئی۔ تاہم سجدہ سہو  کا مذکورہ طریقہ درست نہیں ہے، سجدہ سہو کے لئے التحیات ضروری ہے، احناف کے یہاں سجدہ سہو ، التحیات دو سجدے اور سلام کے مجموعہ کا نام ہے۔

وإن قعد الأخير ثم قام عاد وسلم من غير إعادة التشهد. فإن سجد لم يبطل فرضه وضم إليها أخرى لتصير الزائدتان له نافلة وسجد للسهو. (نورالایضاح، باب سجود السھو 1/96) ثم في القيام إلى الخامسة إن كان قعد على الرابعة وينتظره المقتدي قاعدا، فإن سلم من غير إعادة التشهد سلم المقتدي معه (شامی باب الوتر والنوافل 2/12)

ولو ظن الإمام السهو فسجد له فتابعه فبان أن لا سهو فالأشبه الفساد لاقتدائه في موضع الانفراد. (شامی، باب الاستخلاف 1/599) ولو ظن الإمام أن عليه سهوا فسجد للسهو فتابعه المسبوق فيه ثم علم أنه لم يكن عليه سهو فأشهر الروايتين أن صلاة المسبوق تفسد؛ لأنه اقتدى في موضع الانفراد قال الفقيه أبو الليث: في زماننا لا تفسد. هكذا في الظهيرية. (الھندیۃ الفصل السابع فی المسبوق اللاحق 1/92)

وَمَنْ سَهَا عَنْ الْقَعْدَةِ الْأُولَى ثُمَّ تَذَكَّرَ وَهُوَ إلَى حَالَةِ الْقُعُودِ أَقْرَبُ عَادَ وَقَعَدَ وَتَشَهَّدَ لِأَنَّ مَا يَقْرُبُ مِنْ الشَّيْءِ يَأْخُذُ حُكْمَهُ، ثُمَّ قِيلَ يَسْجُدُ لِلسَّهْوِ لِلتَّأْخِيرِ. وَالْأَصَحُّ أَنَّهُ لَا يَسْجُدُ كَمَا إذَا لَمْ يَقُمْ وَلَوْ كَانَ إلَى الْقِيَامِ أَقْرَبَ لَمْ يَعُدْ لِأَنَّهُ كَالْقَائِمِ مَعْنًى،وَيَسْجُدُ لِلسَّهْوِ لِأَنَّهُ تَرَكَ الْوَاجِبَ. )مرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 75، المكتبة الاسلامية(

إذا ظن الإمام أنه عليه سهواً فسجد للسهو وتابعه المسبوق في ذلك ثم علم أن الامام لم يكن عليه سهو فيه روايتان ... وقال الإمام أبو حفص الكبير: لايفسد، والصدر الشهيد أخذ به في واقعاته، وإن لم يعلم الإمام أن ليس عليه سهو لم يفسد صلاة المسبوق عندهم جميعاً".(خلاصۃ الفتاوی 1/163، امجداکیڈمی)

ویجب سجدتان بتشھد و تسلیم – ھما واجبان بعد سجود السھو لان الاولین ارتفعا بالسجود (مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی، شیخ الھند دیوبند، ص 460)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  بعد نماز فجر دعاء دائماً بالجہر خلاف سنت نبوی ہے، خطبہ جمعہ عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھنا مکروہ ہے اور خطبہ کو اتنا لمبا کرنا جس سے لوگوں کو پریشانی ہو اور لوگوں کی ناراضگی کا سبب بنے تو اس میں دینی حرج ہے؛ اس لیے شرعاً درست نہیں ہے اور اگر مقتدی اس پر راضی ہوں، تو طویل خطبہ میں کوئی حرج نہیں اور خطبہ نکاح کا مذکورہ طریقہ بھی خلاف سنت ماثورہ ہے۔ نماز جنازہ کے بعد دعا اور فاتحہ منقول نہیں ہے اور گیارہویں، بارھویں میں شریک ہونااس لیے جائز نہیں کہ اس کا ثبوت نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے نہ صحابہ کرامؓ سے ہے نیز یہ بہت سے مفاسد کا ذریعہ ہے؛ لہٰذا مذکورہ امام کے اگر ایسے حالات ہوں تو وہ مشعل راہ نہیں ہیں امام کو چاہئے کہ شریعت کا پابند رہے حتی کہ تہمت کی جگہوں اور افعال سے بھی پرہیز کرے اور یہ شخص اگر اس طریقہ کو نہ چھوڑے تو امام بدل دیا جائے۔(۱)

(۱) وکرہ إمامۃ المبتدع، بارتکابہ ما أخذت علی خلاف الحق الملتقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم وعمل أو مال بنوع شبہۃ أو استحسان، وروی محمد عن أبي حنیفۃؒ وأبي یوسفؒ أن الصلاۃ خلف أہل الأہواء لاتجوز والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لاتکفرہ بدعتہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص54

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب نے بلا شرعی ضرورت کے سود پر پیسے لے کر کاروبار شروع کیا ہے تو وہ کمائی حلال نہیں ہے، ان کا یہ عمل غلط ہے، اس کاروبار کو فورا ترک کردینا چاہئے اور توبہ کرنی چائیے، بعد توبہ کے امام صاحب کی امامت درست ہوگی، اور اس سے قبل ان کی امامت مکروہ ہے، نیز اگر تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہو کہ کل آمدنی یا غالب آمدنی حرام ہے تو ایسی صورت میں ان کی دعوت کھانا جائز نہیں ہے، لیکن اگر کوئی اور بھی کاروبار یا آمدنی ہے جو حلال طریقہ سے کمائی ہوئی ہے اس حلال پیسے سے دعوت کرے تو ایسی صورت میں دعوت قبول کرنے کی گنجائش ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وفاسق وفاسق، من الفسق وھو الخروج عن الاستقامۃ۔ ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر‘‘(۱)
’’وأماالفاسق فقد عللوا کراھۃ تقدیمہ بأنہ لا یھتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیھم إھانتہ شرعا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لا تزول العلۃ، فإنہ لا یؤمن أن یصلي بھم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال‘‘(۱)
’’وکسبہ حرام فالمیراث حلال ثم رمز وقال لا ناخذ بھذہ الروایۃ وھو حرام مطلقا علی الورثۃ‘‘(۲)

(۱) (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸۔
(۱) أیضًا:ص: ۲۹۹۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج۹، ص:۴۴۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص181

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2750/45-2750

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں یہ باب درست ہے کہ مقتدی کی اقتداء پہلے سلام کے بعد ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا امام کے دوسرے سلام کی تکمیل سے پہلے مقتدی اپنا دوسرا سلام پھیر سکتا ہے تاہم بلا کسی عذر کے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔

’’وتنقطع التحريمة بتسليمة واحدة ........ وتنقضى قدوة بالأول قبل عليكم بالمشهور قال في التنجيس الامام اذا فرغ من صلاته فلما قال السلام جاء رجل واقتدى به قبل أن يقول عليكم لا يصير داخلا في صلاته‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار’’كتاب الصلاة‘‘: ج 2، ص: 126 اور 239)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز درست ہوگئی اگر پہلی رکعت کے رکوع میں یا رکوع سے پہلے امام کے ساتھ شامل ہوگیا ہو اور اگر رکعت چھوٹ گئی اور اس نے امام کے بعد کھڑے ہوکر اس رکعت کو پورا کرلیا تب بھی نماز درست ہو جائے گی؛ لیکن ایسا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) قطع العبادۃ الواجبۃ بعد الشروع فیہا بلا مسوغ شرعي غیر جائز باتفاق الفقہاء لأن قطعہا بلا مسوغ شرعي عبث یتنافی مع حرمۃ العبادۃ وورد النہي عن إفساد العبادۃ، قال تعالیٰ: ولا تبطلوا أعمالکم۔ أما قطعہا بمسوغ شرعي فمشروع فتقطع الصلوۃ لقتل حیۃ ونحوہا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج۳۴، ص:۵۰، ۵۱)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص5518

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اذان دینے کے وقت مؤذن کا کانوں میں انگلیوں کو ڈالنا لازم اور ضروری نہیں ہے؛ البتہ اذان کا مقصد دور تک آواز پہونچانا ہے اور آواز کو بلند کرنے کے لیے عموماً دیکھا گیا ہے کہ کانوں میں انگلیاں رکھی جاتی ہیں تاکہ آواز بلند اور سانس لمبی ہو، اس بات کی تائید حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوتی ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کے وقت انگلیوں کو کانوں میں ڈال کر اذان دینے کا حکم دیا تاکہ آواز بلند ہو؛ اس لیے اذان دینے کے وقت کانوں میں انگلی رکھنے کو فقہاء نے مستحب لکھا ہے۔
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمر بلالا أن یجعل إصبعیہ في أذنیہ وقال: إنہ أرفع لصوتک‘‘ (۱)
’’وأخرج البخاري تعلیقاً: ویذکر عن بلال أنہ جعل إصبعیہ في أذنیہ، وکان ابن عمر لا یجعل إصبعیہ في أذنیہ‘‘(۲)
’’ویستحب أن یجعل إصبعیہ في أذنیہ، لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لبلال رضي اللّٰہ عنہ: ’’إجعل إصبعیک في أذنیک فإنہ أرفع صوتک‘‘(۳)
’’ویجعل ندباً إصبعیہ في صماخ أذنیہ، فأذانہ بدونہ حسن وبہ أحسن‘‘(۴)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ: ’’کتاب الصلاۃ، أبواب الأذان والسنۃ فیہا‘‘ ص: ۵۲، رقم: ۱۰۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب: ہل یتتبع المؤذن فاہ ہہنا وہہنا؟‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۸؛ وہکذا في الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳۔
(۴)  ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب: في أول من بنی المنائر للأذان، ج ۲، ص: ۵۴۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص158

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی اقتداء تکبیر تحریمہ سے شروع ہو کر سلام تک ہے۔ سلام کے بعد امام اور اقتداء کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، دعا میں اقتداء ضروری نہیں ہے، نماز کے بعد دعا کرنا احادیث سے ثابت ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہے، اس لیے دعا کا اہتمام ہونا چاہئے اور جب سب ہی لوگ کریں گے تو اجتماعی صورت پیدا ہو جائے گی، اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ لیکن یہ نماز والی اقتداء نہیں ہے نہ ہی اس کو لازم سمجھنا درست ہے۔(۱)
’’عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال یا معاذ واللّٰہ أني لأحبک فقال: أوصیک یا معاذ لا تدعن في دبر کل صلاۃ تقول: اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘(۲)

(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: مفتاح الصلاۃ الطہور وتحریمہا التکبیر وتحلیہا التسلیم، قال أبو عیسیٰ ہذا الحدیث أصح شيء في ہذا الباب۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء أن مفتاح الصلاۃ الطہور‘‘: ج ۱، ص: ۵، رقم: ۳)
عن المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول: في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ: لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وہو علی کل شيء قدیر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۶، رقم: ۸۴۴)
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في الاستغفار‘‘: ج۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۱۵۵۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص427

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر جان بوجھ کر ایسا کیا تو نماز بکراہت تنزیہی ادا ہوگی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اور اگر بھول سے ایسا ہوگیا تو نماز بلا کراہت ادا ہوگئی ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ فصلہ بسورۃ بین سورتین قرأہما في رکعتین لما فیہ من شبہۃ التفضیل والہجر، وقال بعضہم: لایکرہ إذا کانت السورۃ طویلۃ کما لوکان بینہما سورتان قصیرتان۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۲، شیخ الہند دیوبند)
وإذا جمع بین سورتین بینہما سور أو سورۃ واحدۃ في رکعۃ واحدۃ … یکرہ وقال بعضہم: إن کانت السورۃ طویلۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص224

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت ظہر اگر شروع کردی اور جماعت شروع ہوگئی ہے، تو دو رکعت پر سلام پھیر دے(۲) لیکن اگر جماعت کے چھوٹنے کا خطرہ ہو، تو سنت ظہر چھوڑ کر جماعت میں شریک ہو جائے اور بعد میں سنت ظہر ادا کرلے۔(۳)

(۲) أو شرع في سنۃ فأقیمت الجماعۃ سلم بعد الجلوس علی رأس رکعتین کذا روي عن أبي یوسف والإمام وہو الأوجہ لجمعہ بین المصلحتین ثم قضیٰ السنۃ أربعاً لتمکنہ منہ بعد أداء الفرض مع ما بعدہ۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘:ج ، ص: ۴۵۱؛ وفتح القدیر، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۹، زکریا دیوبند)
(۳) بخلاف سنۃ الظہر حیث یترکہا في الحالین، لأنہ یمکنہ أداؤہا في الوقت بعد الفرض ہو الصحیح۔ (مرغیناني، ھدایہ، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، دار الکتاب دیوبند؛ و ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۲، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص351