نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنتوں کا گھر میں پڑھنا اولیٰ ہے مسجد میں پڑھنا بھی درست ہے۔(۱)
(۱) الأفضل في السنن والنوافل المنزل لقولہ علیہ السلام: صلاۃ الرجل في المنزل أفضل إلا المکتوبۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع في النوافل، من المندوب صلاۃ الضحی‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، زکریا دیوبند)
والأفضل في عامۃ السنن والنوافل المنزل ہو المروي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۴، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص352

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 184/43-1662

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو لوگ رکوع وسجدہ پر قادر نہ ہوں، ان سے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو زمین پر بیٹھ کر ہی نماز پڑھنی چاہئے۔ البتہ اگر زمین پر بیٹھنے میں دشواری ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگ کرسی کا پچھلا پایہ اپنی صف  میں کھڑے مقتدیوں کے ایڑیوں کے برابر لکیر پر رکھے، اپنی صف سے تجاوز نہ کرے۔ ورنہ دوسری صف والوں کو تکلیف ہوگی یا ان کی صف میں خلل پیدا ہوگا، اور یہ دونوں چیزیں ممنوع ہیں۔

عن أبی مسعود، قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمسح مناکبنا فی الصلاة، ویقول: استووا، ولا تختلفوا، فتختلف قلوبکم، لیلنی منکم أولو الأحلام والنہی ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم(صحیح مسلم 1/ ۱۸۱،باب تسویة الصفوف، وإقامتہا...الخ)

"(قوله: بل تعذر السجود كاف) نقله في البحر عن البدائع وغيرها. وفي الذخيرة: رجل بحلقه خراج إن سجد سال وهو قادر على الركوع والقيام والقراءة يصلي قاعداً يومئ؛ ولو صلى قائماً بركوع وقعد وأومأ بالسجود أجزأه، والأول أفضل؛ لأن القيام والركوع لم يشرعا قربة بنفسهما، بل ليكونا وسيلتين إلى السجود" )الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 97(

قولہ: ( فلو قدر علیہ) أي: علی القیام وحدہ أو مع الرکوع کما فی المنیة ۔ قولہ: (ندب إیماوٴہ قاعداً) أي: لقربہ من السجود ، وجاز إیماوٴہ قائماً کما فی البحر ، وأوجب الثاني زفر والأئمة الثلاثة ؛ لأن القیام رکن، فلا یترک مع القدرة علیہ۔ ولنا أن القیام وسیلة إلی السجود للخرور، والسجود أصل ؛لأنہ شرع عبادة بلا قیام کسجدة التلاوة، والقیام لم یشرع عبادة وحدہ، حتی لو سجد لغیر اللہ تعالی یکفر بہ بخلاف القیام۔ وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسیلة کالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة۔ وما أوردہ ابن الھمام أجاب عنہ في شرح المنیة الخ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مطلب بحث القیام،۲: ۱۳۲، ط: ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام کے پیچھے شرعاً نماز جائز و درست ہے۔(۲)

(۲) وإن قدموا غیر الأولیٰ فقد أساؤا ولکن لا یأثمون وفیہ لوأمّ قوماً وہم لہ کارہون فہو علی ثلاثۃ أوجہ: إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو کانوا أحق بالإمامۃ منہ یکرہ: وإن کان ہو أحق بہا منہم ولافساد فیہ ومع ہذا یکرہونہ لایکرہ لہ التقدم۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۱، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص55

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: متعہ معتبر علماء وفقہاء کرام کے نزدیک حرام ہے(۴) جس کی حرمت صریح حدیث سے ثابت ہے(۵) اس لیے متعہ کے جواز کا قائل و فاعل فاسق ہے جس کی امامت و تقلید مکروہ تحریمی ہے، ایسے شخص کے بہکائے میں قطعاً نہ آئیں۔(۱)

(۴) ونکاح المتعۃ باطل وہو أن یقول لإمرأۃ أتمتع بک کذا مدۃ بکذا من المال۔ (المرغیناني،  ہدایۃ، ’’فصل في بیان المحرمات‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۰)
(۵) عن علي بن أبي طالب: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن متعۃ النساء یوم خیبر وعن لحوم الحمر الإنسیۃ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ،  في سننہ، ’’باب النہي عن نکاح المتعۃ‘‘: رقم: ۱۹۶۱)
(۱) قال الحصکفي ویکرہ إمامۃ عبد ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لایکفر بہا وإن کفر بہا فلایصح الاقتداء بہ أصلا، قال ابن عابدین: قولہ وہي اعتقاد الخ، عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ ولایخفی أن الاعتقاد یشمل ماکان معہ عمل أولا فإن من تدین بعمل لابد أن یعتقدہ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۰- ۲۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص183

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ایسے امام کے پیچھے متقی پرہیز گار لوگوں کی نماز یعنی فریضہ تو ادا ہو جائے گا، مگر اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، اس صورت میں کسی دیندار پرہیز گار مستحق امامت شخص کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی سنت کے مطابق ہو جائے۔(۱)

(۱) وذکر الشارح وغیرہ أن الفاسق إذا تعذر منعہ یصلي الجمعۃ خلفہ وفي غیرہا ینتقل إلی مسجد آخر، وعلل لہ في المعراج بأن في غیر الجمعۃ یجد إماما غیرہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۱)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ الخ، قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (أیضًا:)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع أي صاحب بدعۃ، وفي النہر عن المحیط صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین،  ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص273

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان کے بعد جو دعا پڑھی جاتی ہے، اسے زبانی پڑھنا چاہئے ہاتھ اٹھا کر دعاء پڑھنا ثابت نہیں ہے، اس لیے ہاتھ اٹھائے بغیر دعاء کرنی چاہئے۔
’’المسنون في ہذا الدعاء أن لاترفع الأیدی لأنہ لم یثبت عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رفعہا‘‘(۱)
اذان کے وقت انگوٹھے چومنے اور آنکھوں سے لگانے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے، نہ ہی احادیث سے یہ ثابت ہے اور نہ ہی خیر القرون میں اس کا ثبوت ملتا ہے، کفایت المفتی میں ہے: حضور کا نام سننے پر ابہام کو چومنا اور آنکھوں سے لگانا سنت نہیںہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا ہے اور نہ ہی صحابہ ؓسے یہ عمل در آمد ہوا۔
’’الأحادیث التي رویت في تقبیل الأنامل وجعلہا علی العینین عند سماع اسمہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من المؤذن في کلمۃ الشہادۃ کلہا موضوعات‘‘ (۲)

(۱) الکشمیري، فیض الباري شرح البخاري، ’’کتاب الأذان: باب الدعاء عند النداء‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۴۔
(۲) مفتی کفایت اللہ، پانی پتی، کفایت المفتی: ج ۲، ص: ۱۶۶

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص160

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرائض کے بعد دعاء سے فارغ ہوکر مقتدیوں کو متفرق ہو جانا چاہئے، سنن ونوافل کے بعد اجتماعی دعا کا التزام ثابت نہیں ہے، کیوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اکثر وبیشتر سنتیں گھر جاکر اداء فرماتے تھے؛ لہٰذا سنن ونوافل کے بعد اجتماعی دعا سے اجتناب کیا جائے۔
’’قیل لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أي الدعاء أسمع؟ قال جوف اللیل الآخر ودبر الصلوٰت المکتوبۃ(۱)، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یطیل القرأۃ في الرکعتین بعد المغرب حتی یتفرق أہل المسجد‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الدعوات، باب،: ج ۱، ص: ۲۸۰، رقم: ۳۴۹۹۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تفریع أبواب التطوع ورکعات السنۃ، باب رکعتي المغرب أین تصلیان‘‘: ج۱، ص:۱۸۴، رقم: ۱۳۰۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص429

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: درست ہے لیکن پہلے سے سورتوں کو متعین کرلینا اچھا نہیں ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ أن یوقت شیئاً من القرآن لشيء من الصلوات … وأما إذ قرأ لأجل الیسر علیہ أو تبرکاً بقراء تہ علیہ السلام فلا کراہیۃ في ذلک … الأفضل أن یقرأ في کل رکعۃ الفاتحۃ وسورۃ کاملۃ في المکتوبۃ … ہذا کلہ في الفرائض وأما في السنن فلا یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القرائۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۶، ۱۳۵، زکریا دیوبند)
لابأس أن یقرأ سورۃ ویعیدہا في الثانیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فروع في القراء ۃ خارج الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص226

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں دو رکعت سنت ہو گئی اور دو رکعت نفل ہوگئی۔(۱)

(۱) وفي روایۃ الجامع أربع رکعات بتسلیمۃ واحدۃ ولو لم یقعد علی رأس الشفع الأول القیاس أنہ لا یجوز وبہ أخذ محمد وزفر رحمہما اللّٰہ تعالیٰ وہو إحدی الروایتین عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وفي الاستحسان یجوز وہو قول أبي حنیفۃ وأبي یوسف رحمہما اللّٰہ تعالیٰ واختلفوا علی قولہما أنہ متی جاز تجوز عن تسلیمۃ واحدۃ أم عن تسلیمتین، والأصح أنہ یجوز عن تسلیمۃ واحدۃ۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب التراویح، الفصل الثامن في الزیادۃ علی القدر المسنون‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص353

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال شخص بلا شبہ فاسق ہے جس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے(۱) لیکن اگر کوئی شخص فاسق و گناہگار ہو سچی توبہ کرے اور اپنی توبہ کا اعلان کرے تو اس کو اللہ رب العزت معاف کردیتے ہیں حدیث شریف میں ہے۔ ’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(۲) جس شخص نے توبہ کرلی وہ ایسا ہو جاتا ہے کہ اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو؛ اس لیے مذکورہ فی السوال حافظ کی اقتداء میں تراویح یا دیگر نماز پڑھنا بلا شبہ درست ہے اس کی اقتداء میں جو لوگ تراویح پڑھ رہے ہیں شرعاً ان کا یہ فعل بلا شبہ درست ہے۔(۳)

(۱) إمامۃ الفاسق مکروہۃ تحریماً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ   في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ‘‘:ص: ۳۰۳، رقم: ۴۲۵۰۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص56