Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2611/45-4053
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں نماز درست ہوگئی، اس لئے معنی میں کوئی ایسی خرابی نہیں آئی جو مفسد صلوۃ ہو، مکذبین کے لئے حسرت کی اس میں مزید تاکید ہوگئی، اس لئے نماز درست ہوگئی۔
"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: شادی شدہ مرد اپنی بیوی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر چار ماہ سے زیادہ مدت تک دور نہ رہے(۲) امام کو بیوی نے اجازت دی ہوگی اور ملازمت کی وجہ سے دور رہنے پر رضامند ہوگی لہٰذا ان کی امامت میں شبہ نہ کیا جائے۔
(۲) ویؤمر المتعبد بصحبتہا أحیاناً، ویؤیدہ ذلک أن عمر رضی اللّٰہ عنہ مما سمع في إمرأۃ تقول الطویل فواللّٰہ لولا اللّٰہ تخشیٰ عواقبہ، لزجزح من ہذا السریر جوانبہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب القسم‘‘: ج۴، ص: ۳۸۰، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص94
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: اگر ظہر کی سنتیں نہ پڑ سکا ہو تو بھی امامت درست ہے لیکن بلا عذر ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اس کی عادت بنا لینا تو بہت ہی برا ہے۔
’’الذي یظہر من کلام أہل المذہب أن الإثم منوط بترک الواجب أو السنۃ المؤکدۃ علی الصحیح لتصریحہم بأن من ترک سنن الصلوات الخمس قیل: لا یأثم والصحیح أنہ یأثم ذکرہ في فتح القدیر‘‘(۱)
’’رجل ترک سنن الصلوات الخمس إن لم یر السنن حقا فقد کفر لأن جاء الوعید بالترک‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في السنۃ وتعریفہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، زکریا دیوبند۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند۔
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- أن النبي صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان إذا لم یصل أربعاً قبل الظہر صلاہن بعدہا۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ماجاء في الرکعتین …بعد الظہور‘‘: ج۱، ص: ۹۷، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص307
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اہل علم کی تعظیم کی خاطر خود پیچھے ہٹ کر ان کو پہلی صف میں جگہ دینا بلا کراہت درست ہے؛ بلکہ ان کا یہ فعل مناسب ہے۔(۱)
’’وإن سبق أحد إلی الصف الأول فدخل رجل أکبر منہ سنا أو أہل علم ینبغي أن یتأخر ویقدمہ تعظیماً لہ فہذا یفید جواز الإیثار بالقرب بلا کراہۃ خلافاً للشافعیۃ، ویدل علیہ … وقولہ تعالیٰ: {ویؤثرون علٰی أنفسہم ولوکان بہم خصاصۃ}(۲)
(۱) عن ابن مسعود -رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیلني منکم أولوا الأحلام والنہي ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب تسویۃ الصفوف وإقامتہا وفضل الأول فالأول‘‘: ج۱، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۳۲)
قال النووي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ في ہذا الحدیث: تقدیم الأفضل فالأفضل لأنہ أولیٰ بالإکرام لأنہ ربما یحتاج الإمام إلی الاستخلاف فیکون ہو أولیٰ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ج۴، ص: ۳۴۱)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في جواز الإیثار بالقرب‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص421
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ اذان واقامت کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہئے؟ اس سلسلہ میں احادیث مبارکہ میں کوئی تحدید نہیں ہے؛ بلکہ اذان واقامت کے دوران عام طور پر اتنا وقت ہونا چاہئے کہ کھانا کھانے والا کھانے سے اور جس کو قضائے حاجت ہو وہ حاجت پوری کر لے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’عن جابر، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لبلال: یا بلال، إذَ أذنت فترسل في أذانک، وإذا أقمت فاحدر، واجعل بین أذانک وإقامتک قدرما یفرغ الآکل من أکلہ، والشارب من شربہ‘‘(۱)
امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ اذان کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مسجد کے ستونوں کو اپنے آگے کرکے نماز پڑھا کرتے تھے، یہاں تک کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے نکلتے اور امامت فرماتے تھے۔
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان المؤذن إذا أذن قام ناس من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یبتدرون السواري حتی یخرج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(۲)
حضرت عبداللہ بن مغفل المزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بین کل أذانین صلاۃ ثلاثا لمن شاء‘‘(۱)
ہر دو اذانوں (یعنی اذان و اقامت) کے درمیان نماز ہے۔ (یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دہرایا) اس شخص کے لیے جو نماز پڑھنا چاہے۔‘‘
ان تفصیلات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اذان واقامت کے درمیان اتنا وقفہ کم از کم ضرور ہونا چاہیے کہ کوئی شخص چاہے تو چند رکعتیں نوافل ادا کرلے۔
اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کا وقت ہونے کی اطلاع دینا ہے، تاکہ وہ مسجد آکر باجماعت نماز ادا کرلیں۔ اس لیے اذان و اقامت کے درمیان اتنا فاصلہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ کوئی شخص اذان سننے کے بعد حوائج ضروریہ سے فارغ ہو، وضو کرے اور مسجد تک آئے تو اس کی تکبیر اولیٰ فوت نہ ہو، حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اذان واقامت کے درمیان وقفہ کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ: ’’اس کی کوئی حد نہیں، سوائے اس کے کہ وقت ہوجائے اور نمازی اکٹھاہوجائیں۔‘‘
’’لاحدّ لذلک غیرتمکن دخول الوقت واجتماع المصلین‘‘(۲)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ،’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في الترسل في الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۹۵۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب کم بین الأذان والإقامۃ ومن ینتظرالإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، رقم: ۶۲۵۔
(۱) أیضًا۔ (۲) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح البخاري: ’’کتاب الأذان، باب کم بین الأذان والإقامۃ ومن ینتظر الإقامۃ‘‘، ج ۳، ص: ۱۳۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص203
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ التسبیح عورتیں جماعت سے نہ پڑھیں نفل نماز کی جماعت نہیں ہوتی ہے، عورتیں یہ نماز علیحدہ علیحدہ جماعت کے بغیر پڑھیں اسی میں بڑا ثواب ہے۔(۲)
(۲) ولا ینبغي أن یتکلف لالتزام ما لم یکن في الصدر الأول، کل ہذا التکلف لإقامۃ أمر مکروہ، وہو أداء النفل بالجماعۃ علی سبیل التداعي، فلو ترک أمثال ہذہ الصلوات تارک لیعلم الناس أنہ لیس من الشعار فحسن اھـ۔ وظاہرہ أنہ بالنذر لم یخرج عن کونہ أداء النفل بالجماعۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في کراہۃ الإقتداء‘‘: ج ۲، ص:۵۰۱)
(ولا یصلي الوتر و) لا (التطوع بجماعۃ خارج رمضان) أي یکرہ ذلک علی سبیل التداعي۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۵۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص390
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ حافظ صاحب کی امامت درست ہے، لڑکی پر پردہ لازم اور ضروری ہے۔امام کو چاہئے اس کو اس بات سے روکے اگر امام صاحب اپنی بچی کو سمجھاتے نہیں ہیں تو ان کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔(۱)
(۱) وروي محمد عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وأبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أن الصلاۃ خلف أہل الہواء لاتجوز، والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لاتکفرہ بدعتہ لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بروفاجر وصلوا علی کل بروفاجر الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ … ثم الأحسن خلقا … ثم أکثرہم حسب ثم الأشرف نسبا … قولہ وفاسق من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۹۸ - ۲۹۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص95
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جمعہ کی نماز پڑھ لی، تو اس کے اوپر ظہر لازم نہیں رہی وہ ظہر کی نماز اگر پڑھے گا تو وہ نفل ہوگی ان کے ظہر کو فرض نہیں کہا جائے گا اور نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنے والوں کی نماز ادا نہیں ہوتی ؛اس لیے مذکورہ شخص کا ظہر کی نماز میں امامت کرنا درست نہیں، اگر کوئی دوسرا شخص امامت کرسکے تو کرائے ورنہ تنہا تنہا نماز ظہر پڑھیں اور اگر پہلے ظہر کی نماز پڑھائی تو نماز درست ہوگئی اس کے بعد جمعہ پڑھ لیا تو جمعہ کی نماز اس کی نفل ہوگئی، تاہم جمعہ کے دن نماز جمعہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔(۲)
(۲) وأن لایکون الإمام أدنیٰ حالاً من المأموم کافتراضہ وتفضل الإمام۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۹۱، شیخ الہند دیوبند)
قولہ: ومفترض بمتنفل وبمفترض آخر، أي وتفسد اقتداء المفترض بإمام متنفل أو بإمام یصلي فرضاً غیر فرض المقتدي لأن الاقتداء بناء ووصف الفرضیۃ معدوم في حق الإمام في الأولیٰ وہو مشارکۃ وموافقۃ فلا بد من الاتحاد وہو معدوم في الثانیۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۴۱، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص308
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جماعت جس جگہ ہو رہی ہے اور امام بھی وہیں موجود ہے (خواہ اوپر یا نیچے) وہیں کی صف اول شرعاً صف اول شمار ہوگی۔ البتہ اصل مسجد (نیچے کے حصہ) کو چھوڑ کر بلا عذر اوپر جماعت کرنا مکروہ ہے مگر فریضہ ادا ہوجائے گا اعادہ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔(۱)
(۱) والقیام في الصف الأول أفضل من الثاني وفي الثاني أفضل من الثالث … وأفضل مکان المأموم حیث یکون أقرب إلی الإمام فإن تساوت المواضع ففي یمین الإمام وہو الأحسن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج۱، ص: ۱۴۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص422
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان کے ذریعہ نماز باجماعت کا مجموعی اعلان کرنے کے بعد جب اقامت کہی جاتی ہے تو اس سے مسجد میں موجود مصلیوں کو یہ بتلانا مقصود ہوتا ہے کہ جماعت کھڑی ہوچکی ہے، لہٰذا اقامت اور جماعت کے آغاز میں طویل وقفہ اور آغازِ نماز میں تاخیر ہوجائے تو اقامت باطل ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں دوبارہ اقامت کہنی چاہئے۔ اور اگر معمولی سا وقفہ ہوتو اقامت کو دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے، طویل وقفہ اور معمولی وقفہ کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ نے شامی میں لکھا ہے:
’’لأن تکرارہا غیر مشروع إذَا لم یقطعہا قاطع من کلام کثیر أو عمل کثیر مما یقطع المجلس في سجدۃ التلاوۃ‘‘(۱)
آپ کی مسجد میں ظہر کی نماز سے قبل آپس میں اختلاف کی وجہ سے دس بارہ منٹ کا وقفہ طویل وقفہ ہے اس لیے اقامت باطل ہو گئی از سر نو اقامت کہنی چاہئیے تھی لیکن صورت مذکورہ میں نماز درست ہو گئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، نیز آئندہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے مسجد میں شور وغل کرنا اور باآواز بلند دنیوی باتیں کرنا، آپس میں اختلاف اور لڑائی جھگڑا کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی ایسے آدمی کو سنے جو مسجد میں گمشدہ چیزوں کا اعلان کر رہا ہے تو اس کے جواب میں کہے کہ اللہ تجھ پر تیری چیز نہ لوٹائے یعنی اللہ کرے نہ ملے کیوں کہ مسجدیں گمشدہ چیزوں کی تلاش کے لیے نہیں بنائی گئیں۔‘‘
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع رجلا ینشد ضالۃ في المسجد فلیقل لا ردہا اللّٰہ علیک فإن المساجد لم تبن لہذا‘‘(۱)
دوسری حدیث میں ہے:
لا وجدت، إنما بنیت المساجد لما بنیت لہ۔
امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں تصریح فرماتے ہیں:
’’إنما بنیت المساجد لما بنیت لہ‘‘(۲)
مذکورہ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ مسجدیں تو اللہ تعالیٰ کا ذکر،نما ز، مذاکرۂ علمیہ اور خیر کے کاموں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اس لیے انہیں کاموں میں استعمال کیا جائے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، فائدۃ التسلیم بعد الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النھي عن نشد الضالۃ في المسجد وما یقولہ من سمع الناشد‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰، رقم: ۵۶۸۔
(۲) أبو زکریا محي الدین بن شرف النووي، المنہاج شرح صحیح مسلم، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب النہي عن نشد الضالۃ في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص205