نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ التسبیح عورتیں جماعت سے نہ پڑھیں نفل نماز کی جماعت نہیں ہوتی ہے، عورتیں یہ نماز علیحدہ علیحدہ جماعت کے بغیر پڑھیں اسی میں بڑا ثواب ہے۔(۲)

(۲) ولا ینبغي أن یتکلف لالتزام ما لم یکن في الصدر الأول، کل ہذا التکلف لإقامۃ أمر مکروہ، وہو أداء النفل بالجماعۃ علی سبیل التداعي، فلو ترک أمثال ہذہ الصلوات تارک لیعلم الناس أنہ لیس من الشعار فحسن اھـ۔ وظاہرہ أنہ بالنذر لم یخرج عن کونہ أداء النفل بالجماعۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في کراہۃ الإقتداء‘‘: ج ۲، ص:۵۰۱)
(ولا یصلي الوتر و) لا (التطوع بجماعۃ خارج رمضان) أي یکرہ ذلک علی سبیل التداعي۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۵۰۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص390

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ حافظ صاحب کی امامت درست ہے، لڑکی پر پردہ لازم اور ضروری ہے۔امام کو چاہئے اس کو اس بات سے روکے اگر امام صاحب اپنی بچی کو سمجھاتے نہیں ہیں تو ان کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔(۱)

(۱) وروي محمد عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وأبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أن الصلاۃ خلف أہل الہواء لاتجوز، والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لاتکفرہ بدعتہ لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بروفاجر وصلوا علی کل بروفاجر الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ … ثم الأحسن خلقا … ثم أکثرہم حسب ثم الأشرف نسبا … قولہ وفاسق من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۹۸ - ۲۹۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص95

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جمعہ کی نماز پڑھ لی، تو اس کے اوپر ظہر لازم نہیں رہی وہ ظہر کی نماز اگر پڑھے گا تو وہ نفل ہوگی ان کے ظہر کو فرض نہیں کہا جائے گا اور نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنے والوں کی نماز ادا نہیں ہوتی ؛اس لیے مذکورہ شخص کا ظہر کی نماز میں امامت کرنا درست نہیں، اگر کوئی دوسرا شخص امامت کرسکے تو کرائے ورنہ تنہا تنہا نماز ظہر پڑھیں اور اگر پہلے ظہر کی نماز پڑھائی تو نماز درست ہوگئی اس کے بعد جمعہ پڑھ لیا تو جمعہ کی نماز اس کی نفل ہوگئی، تاہم جمعہ کے دن نماز جمعہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔(۲)

(۲) وأن لایکون الإمام أدنیٰ حالاً من المأموم کافتراضہ وتفضل الإمام۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۹۱، شیخ الہند دیوبند)
قولہ: ومفترض بمتنفل وبمفترض آخر، أي وتفسد اقتداء المفترض بإمام متنفل أو بإمام یصلي فرضاً غیر فرض المقتدي لأن الاقتداء بناء ووصف الفرضیۃ معدوم في حق الإمام في الأولیٰ وہو مشارکۃ وموافقۃ فلا بد من الاتحاد وہو معدوم في الثانیۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۴۱، زکریا دیوبند)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص308

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جماعت جس جگہ ہو رہی ہے اور امام بھی وہیں موجود ہے (خواہ اوپر یا نیچے) وہیں کی صف اول شرعاً صف اول شمار ہوگی۔ البتہ اصل مسجد (نیچے کے حصہ) کو چھوڑ کر بلا عذر اوپر جماعت کرنا مکروہ ہے مگر فریضہ ادا ہوجائے گا اعادہ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) والقیام في الصف الأول أفضل من الثاني وفي الثاني أفضل من الثالث … وأفضل مکان المأموم حیث یکون أقرب إلی الإمام فإن تساوت المواضع ففي یمین الإمام وہو الأحسن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج۱، ص: ۱۴۷، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص422

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان کے ذریعہ نماز باجماعت کا مجموعی اعلان کرنے کے بعد جب اقامت کہی جاتی ہے تو اس سے مسجد میں موجود مصلیوں کو یہ بتلانا مقصود ہوتا ہے کہ جماعت کھڑی ہوچکی ہے، لہٰذا اقامت اور جماعت کے آغاز میں طویل وقفہ اور آغازِ نماز میں تاخیر ہوجائے تو اقامت باطل ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں دوبارہ اقامت کہنی چاہئے۔ اور اگر معمولی سا وقفہ ہوتو اقامت کو دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے، طویل وقفہ اور معمولی وقفہ کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ نے شامی میں لکھا ہے:
’’لأن تکرارہا غیر مشروع إذَا لم یقطعہا قاطع من کلام کثیر أو عمل کثیر مما یقطع المجلس في سجدۃ التلاوۃ‘‘(۱)
 آپ کی مسجد میں ظہر کی نماز سے قبل آپس میں اختلاف کی وجہ سے دس بارہ منٹ کا وقفہ طویل وقفہ ہے اس لیے اقامت باطل ہو گئی از سر نو اقامت کہنی چاہئیے تھی لیکن صورت مذکورہ میں نماز درست ہو گئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، نیز آئندہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے مسجد میں شور وغل کرنا اور باآواز بلند دنیوی باتیں کرنا، آپس میں اختلاف اور لڑائی جھگڑا کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی ایسے آدمی کو سنے جو مسجد میں گمشدہ چیزوں کا اعلان کر رہا ہے تو اس کے جواب میں کہے کہ اللہ تجھ پر تیری چیز نہ لوٹائے یعنی اللہ کرے نہ ملے کیوں کہ مسجدیں گمشدہ چیزوں کی تلاش کے لیے  نہیں بنائی گئیں۔‘‘
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع رجلا ینشد ضالۃ في المسجد فلیقل لا ردہا اللّٰہ علیک فإن المساجد لم تبن لہذا‘‘(۱)
دوسری حدیث میں ہے:
لا وجدت، إنما بنیت المساجد لما بنیت لہ۔
امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں تصریح فرماتے ہیں:
’’إنما بنیت المساجد لما بنیت لہ‘‘(۲)
مذکورہ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ مسجدیں تو اللہ تعالیٰ کا ذکر،نما ز، مذاکرۂ علمیہ اور خیر کے کاموں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اس لیے انہیں کاموں میں استعمال کیا جائے۔

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، فائدۃ التسلیم بعد الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النھي عن نشد الضالۃ في المسجد  وما یقولہ من سمع الناشد‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰، رقم: ۵۶۸۔
(۲) أبو زکریا محي الدین بن شرف النووي، المنہاج شرح صحیح مسلم، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب النہي عن نشد الضالۃ في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص205

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: گھر پر عبادت کرنا افضل ہے کہ اس میں نام ونمود اور دکھلاوے کی بیماری سے آدمی محفوظ رہتا ہے۔(۱)

(۱) والأفضل في النفل غیر التراویح المنزل إلا لخوف شغل عنہا والأصح أفضلیۃ ما کان أخشع وأخلص۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۲۲)
وحیث کان ہذا أفضل یراعی ما لم یلزم منہ خوف شغل عنہا لو ذہب لبیتہ، أو کان في بیتہ ما یشغل بالہ ویقلل خشوعہ، فیصلیہا حینئذ في المسجد لأن اعتبار الخشوع أرجح۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۲۲)
الأفضل في السنن والنوافل المنزل لقولہ علیہ السلام: صلاۃ الرجل في المنزل أفضل إلا المکتوبۃ، ثم باب المسجد إن کان الإمام یصلي في المسجد، ثم المسجد الخارج إن کان الإمام في الداخل، والداخل إن کان في الخارج۔ وإن کان المسجد واحد فخلف أسطوانۃ، وکرہ خلف الصفوف بلا حائل۔ وأشدہا کراہۃ أن یصلي في الصف مخالطا للقوم وہذا کلہ إذا کان الإمام في الصلاۃ، أما قبل الشروع فیأتي بہا في المسجد في أي موضع شاء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’الباب التاسع في النوافل، ومن المندوبات صلاۃ الضحی‘‘: ج ۱، ص:۱۷۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص391

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس امام نے وہ فرضی اور نام نہاد نکاح پڑھایا ہے اور وہ ایسا ہی کرتا ہے تو وہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے اور فاسق ہے۔ اس کو امامت سے الگ کردیا جائے اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔ اور شامی میں ہے ایسا شخص واجب الاہانۃ ہے اس کی توقیر جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً … بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار‘‘: ج۱، ص: ۵۶۰)
ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص96

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس شخص کی کل آمدنی یا اکثر آمدنی حرام ہو اور وہ اسی مال حرام سے دعوت کرتا ہو تو اس کے یہاں دعوت کھانا جائز نہیں ہے نہ ہی امام کے لیے جائز ہے او رنہ ہی کسی اور شخص کے لیے جائز ہے۔ایسے شخص سے امام کی تنخواہ کے لیے یا مسجد کی کسی ضرورت کے لیے چندہ لینا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر اس کے پاس مال حرام کے علاوہ مال حلال بھی ہو اور وہ اسی مال سے دعوت کرے تو اس کا قبول کرنا جائز ہے۔یہ مسئلہ عوام کو حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے۔ سوال میں جو صورت حال ذکر کی گئی ہے اس کا ایک حل یہ ہے کہ کسی کے یہاں دعوت کی باری نہ لگائی جائے؛ بلکہ امام کو کھانے کا پیسہ دیا جائے جس سے وہ خود اپنے کھانے کا نظم کرے اس صورت میں کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہوگا؛نیز گھر گھر جاکر کھانا کھانا یالانا منصب امامت کے مناسب بھی نہیں ہے؛ لیکن اگراس صورت حال پر عمل ممکن نہ ہو تو خالص مال حرام والے شخص کی دعوت سے حکمت ومصلحت کے ساتھ عذر کردیا جائے اور اگر منع کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو توامام صاحب کی ذمہ داری ہے کہ اس کا کھانا لے کر کسی غریب کو کھلادے اور مال حلال سے اپنا انتظام کرے۔
’’أھدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ھو الحرام ینبغي أن لا یقبل الھدیۃ ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ورثتہ أو استقرضتہ من رجل کذا في الینابیع۔ ولا یجوز قبول ھدیۃ أمراء الجور  لأن الغالب في مالھم الحرمۃ إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال بأن کان صاحب تجارۃ أو زرع فلا بأس بہ؛لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب، وکذا أکل طعامھم‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الکراھیۃ: الباب الثاني عشر في الھدایا والضیافات‘‘: ج۵، ص: ۳۴۲، ط مکتبۃ زکریا دیوبند
وفي عیون المسائل: رجل أہدی إلی إنسان أو أضافہ إن کان غالب مالہ حرام لا ینبغي أن یقبل ویأکل من طعامہ ما لم یخبر أن ذلک المال حلال استقرضہ أو ورثہ وإن کان غالب مالہ من حلال فلا بأس بأن یقبل ما لم یتبین لہ أن ذلک من الحرام، وہذا لأن أموال الناس لا یخلو عن قلیل حرام وتخلو عن کثیرۃ فیعتبر الغالب ویبقی الحکم علیہ۔ (المحیط البرہاني، ’’الفصل السابع: في الہدایا والضیافات‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۷، دارالکتاب دیوبند)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص309

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صف برابر سیدھی بھی ہونی چاہئے اور پُر بھی کہ درمیان میں خلا باقی نہ رہے اگر کوئی شخص عذر شرعی کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے، تو وہ کھڑے ہوئے لوگوں سے الگ نہ بیٹھے؛ بلکہ صف میں بیٹھے اور خلاء درمیان میں بالکل نہ چھوڑے خلا باقی رکھنا شرع کے  خلاف ہے، بہتر یہ ہے کہ صف کے آخر میں بیٹھ کر جماعت میں شریک ہو تاکہ صف پوری ہوجائے۔(۱)

(۱) وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلوۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسوا بین مناکبہم في الصفوف، ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج۱، ص: ۱۴۶، زکریا دیوبند)
عن ابن مسعود -رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ- قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یمسح مناکبنا في الصلوۃ ویقول استووا ولا تختلفوا فتختلف قلوبکم لیلني منکم أولو الأحلام والنہي ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب تسویۃ الصفوف وإقامتہا‘‘: ج۱، ص: ۱۸۱، رقم:۴۳۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص422

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بارش نہ ہو نے کی وجہ سے قحط کا اندیشہ ہو جائے، جانوروں کے چارے میں کمی آجائے، کنووں اور نلوں کا پانی کم ہو جائے، گرمی کی شدت باعث پریشانی اور تکلیف بن جائے تو ایسی صورت میں نماز استسقا پڑھنی چاہئے۔(۱)

(۱) ہو لغۃ: طلب السقي وإعطاء ما یشربہ…… وشرعاً: طلب إنزال المطر بکیفیۃ مخصوصۃ عند شدۃ الحاجۃ بأن یحبس المطر، ولم یکن لہم أودیۃ وآبار وأنہار یشربون منہا ویسقون مواشیہم وزرعہم أو کان ذلک إلا أنہ لا یکفي، فإذا کان کافیا لا یستسقی کما في المحیط۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار: ’’کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء‘‘: ج ۳، ص: ۷۰، زکریا دیوبند؛ و الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’باب الاستسقاء‘‘: ص: ۵۴۸، شیخ الہند دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص391