نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز تو ادا ہوگئی لیکن امام کو ایسا ہرگز نہ کرنا چاہئے، مؤکدہ سنتوں کا اہتمام ضروری ہے مؤکدہ سنتوں کا چھوڑنا برا ہے اور ان کے چھوڑنے پر اصرار یعنی اکثر چھوڑنا گناہ کبیرہ ہے۔
’’وآکدہا سنۃ الفجر اتفاقاً لحدیث من ترکہا لم تنلہ شفاعتي‘‘(۱)
’’وفي مسلم رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا وفي أبي داؤد لا تدعوا رکعتي الفجر ولو طردتکم الخیل‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۳، زکریا دیوبند۔
(۲) أیضًا:۔
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: لم یکن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی شيء من النوافل أشد تعاہدا منہ علی رکعتي الفجر، متفق علیہ، (البغوي، مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب السنن وفضائلہا، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۰۴، یاسر ندیم دیوبند)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص306

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر صف میں کھڑے ہونے کی گنجائش نہ ہو تو امام کے رکوع میں جانے تک تو انتظار کرے اگر کوئی دوسرا شخص آجائے تو اس کے ہمراہ امام کی سیدھ میں صف کے پیچھے کھڑا ہوجائے اگر کوئی نہ آئے تو اکیلا ہی کھڑا ہوجائے اور اگر آتے ہی امام کے پیچھے سیدھ میں تنہا صف میں کھڑا ہوجائے تو یہ بھی جائز ہے۔(۱)
’’ومتی استویٰ جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ فإن وجد في الصف فرجۃ سدہا وإلا انتظر حتی یجيء آخر فیقفان خلفہ وإن لم یجيء حتی رکع الإمام یختار أعلم الناس بہذہ المسألۃ فیجذبہ ویقفان خلفہ ولو لم یجد عالماً یقف خلف الصف بحذاء الإمام للضرورۃ ولو وقف منفرداً لغیر عذر تصح صلاتہ عندنا خلافاً لأحمد‘‘(۲)

(۱ویقف الواحد رجلا کان أو صبیاً ممیّزاً عن یمین الإمام مساویاً لہ متاخراً بعقبہ … ویقف الأکثر من واحد خلفہ، الخفإذا استویٰ الجانبان یقوم الجائي عن جہۃ الیمین وإن ترجح الیمین یقوم عن یسار۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۵، شیخ الہند دیوبند)
(۲) الحصکفي، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۳۱۰، زکریا دیوبند۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص420

 

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام کے پیچھے محاذات میں کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کا تعامل ہے اس لیے یہی افضل ہے، البتہ حسب ضرورت وحسب موقعہ جس طرف کھڑے ہوکر تکبیر کہہ دے درست ہے۔ شرعی ضرورت کے بغیر ادھر ادھر کھڑے ہوکر تکبیر کہنا خلاف اولیٰ ہے، مگر تکبیرات کا اعادہ نہ ہوگا۔(۱)

(۱) ویسن الأذان في موضع عال والإقامۃ علی الأرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۸، زکریا دیوبند)
وعن أبي مسعود الأنصاري رضي اللّٰہ عنہ،  قال : کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یمسح مناکبنا في الصلوٰۃ ویقول استووا ولا تختلفوا فتخلتف قلوبکم لیلیني منکم أولوا الأحلام والنہي ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم، قال أبو مسعود: فأنتم الیوم أشد اختلافاً، رواہ مسلم۔ (أبو عبد اللّٰہ، محمد بن عبد اللّٰہ، مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، تسویۃ الصف، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم:۱۰۸۸)
وینبغي أن یکون المؤذن رجلا عاقلاً صالحاً تقیا عالماً بالسنۃ … والأحسن أن یکون إماما في الصلوٰۃ … ویکرہ الأذان قاعداً، وإن أذن لنفسہ قاعداً فلا بأس بہ، والمسافر إذا أذن راکباً لا یکرہ وینزل للإقامۃ، کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ وإن لم ینزل وأقام أجزاہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۱، زکریا،دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص202

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ یہ نوافل بیٹھ کر پڑھے ہیں، مگر کوئی دوسرا شخص بغیر عذر اگر بیٹھ کر پڑھے گا، تو اس کو آدھا ثواب ملے گا۔ روایت ہے کہ تمہاری نماز بیٹھے ہونے کی حالت میں اس کے کھڑے ہونے کی نماز کے نصف کے برابر ہے۔(۱)
ہاں! اگر کوئی شخص اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت سے بیٹھ کر پڑھے گا، تو اس کو دو ثواب ملیں گے، نفلوں کا اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا۔
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج، فرأی أناسا یصلون قعودا، فقال: صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم‘‘(۱)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: صلاۃ الجالس علی النصف من صلاۃ القائم۔
(أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الحادی عشر،مسند عبداللّٰہ ابن عمر‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۷، رقم: ۶۸۰۳)
(۱) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا، باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۸، رقم: ۱۲۳۰۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص389

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 960/41-104 B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ صورت میں دوبارہ جو چار رکعت سنت کی نیت سے آپ نےنماز شروع کی وہ نفل ہوگی۔ نماز کے دوران نیت کی تبدیلی معتبر نہیں ہوگی۔ تحریمہ کے وقت جس نیت سے آپ نے نماز شروع  کی وہی نماز ادا ہوگی۔ اس لئے دوبارہ فرض کی نیت کے ساتھ نماز شروع کریں۔

(وينوي للصلاة التي يدخل فيها بنية لا يفصل بينها وبين التحريمة بعمل) والأصل فيه قوله - عليه الصلاة والسلام - «الأعمال بالنيات» ولأن ابتداء الصلاة بالقيام وهو متردد بين العادة والعبادة ولا يقع التمييز إلا بالنية، والمتقدم على التكبير كالقائم عنده إذا لم يوجد ما يقطعه وهو عمل لا يليق بالصلاة ولا معتبر بالمتأخرة منها عنه لأن ما مضى لا يقع عبادة لعدم النية، وفي الصوم جوزت للضرورة، والنية هي الإرادة،  (فتح القدیر 1/265)


 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2611/45-4053

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں نماز درست ہوگئی، اس لئے معنی میں کوئی ایسی خرابی نہیں آئی جو مفسد صلوۃ ہو،  مکذبین کے لئے حسرت کی اس میں مزید تاکید ہوگئی، اس لئے نماز درست ہوگئی۔

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شادی شدہ مرد اپنی بیوی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر چار ماہ سے زیادہ مدت تک دور نہ رہے(۲) امام کو بیوی نے اجازت دی ہوگی اور ملازمت کی وجہ سے دور رہنے پر رضامند ہوگی لہٰذا ان کی امامت میں شبہ نہ کیا جائے۔

(۲) ویؤمر المتعبد بصحبتہا أحیاناً، ویؤیدہ ذلک أن عمر رضی اللّٰہ عنہ مما سمع في إمرأۃ تقول الطویل فواللّٰہ لولا اللّٰہ تخشیٰ عواقبہ، لزجزح من ہذا السریر جوانبہ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب القسم‘‘: ج۴، ص: ۳۸۰، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص94

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر ظہر کی سنتیں نہ پڑ سکا ہو تو بھی امامت درست ہے لیکن بلا عذر ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اس کی عادت بنا لینا تو بہت ہی برا ہے۔
’’الذي یظہر من کلام أہل المذہب أن الإثم منوط بترک الواجب أو السنۃ المؤکدۃ علی الصحیح لتصریحہم بأن من ترک سنن الصلوات الخمس قیل: لا یأثم والصحیح أنہ یأثم ذکرہ في فتح القدیر‘‘(۱)
’’رجل ترک سنن الصلوات الخمس إن لم یر السنن حقا فقد کفر لأن جاء الوعید بالترک‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في السنۃ وتعریفہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، زکریا دیوبند۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند۔
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- أن النبي صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان إذا لم یصل أربعاً قبل الظہر صلاہن بعدہا۔ (أخرجہ الترمذي  في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ماجاء في الرکعتین …بعد الظہور‘‘: ج۱، ص: ۹۷، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص307

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اہل علم کی تعظیم کی خاطر خود پیچھے ہٹ کر ان کو پہلی صف میں جگہ دینا بلا کراہت درست ہے؛ بلکہ ان کا یہ فعل مناسب ہے۔(۱)
’’وإن سبق أحد إلی الصف الأول فدخل رجل أکبر منہ سنا أو أہل علم ینبغي أن یتأخر ویقدمہ تعظیماً لہ فہذا یفید جواز الإیثار بالقرب بلا کراہۃ خلافاً للشافعیۃ، ویدل علیہ … وقولہ تعالیٰ: {ویؤثرون علٰی أنفسہم ولوکان بہم خصاصۃ}(۲)

(۱) عن ابن مسعود -رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیلني منکم أولوا الأحلام والنہي ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب تسویۃ الصفوف وإقامتہا وفضل الأول فالأول‘‘: ج۱، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۳۲)
قال النووي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ في ہذا الحدیث: تقدیم الأفضل فالأفضل لأنہ أولیٰ بالإکرام لأنہ ربما یحتاج الإمام إلی الاستخلاف فیکون ہو أولیٰ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ج۴، ص: ۳۴۱)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في جواز الإیثار بالقرب‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص421

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ اذان واقامت کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہئے؟ اس سلسلہ میں احادیث مبارکہ میں کوئی تحدید نہیں ہے؛ بلکہ اذان واقامت کے دوران عام طور پر اتنا وقت ہونا چاہئے کہ کھانا کھانے والا کھانے سے اور جس کو قضائے حاجت ہو وہ حاجت پوری کر لے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’عن جابر، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لبلال: یا بلال، إذَ أذنت فترسل في أذانک، وإذا أقمت فاحدر، واجعل بین أذانک وإقامتک قدرما یفرغ الآکل من أکلہ، والشارب من شربہ‘‘(۱)
امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ اذان کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مسجد کے ستونوں کو اپنے آگے کرکے نماز پڑھا کرتے تھے، یہاں تک کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے نکلتے اور امامت فرماتے تھے۔
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان المؤذن إذا أذن قام ناس من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یبتدرون السواري حتی یخرج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(۲)

حضرت عبداللہ بن مغفل المزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بین کل أذانین صلاۃ ثلاثا لمن شاء‘‘(۱)
ہر دو اذانوں (یعنی اذان و اقامت) کے درمیان نماز ہے۔ (یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دہرایا) اس شخص کے لیے جو نماز پڑھنا چاہے۔‘‘
 ان تفصیلات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اذان واقامت کے درمیان اتنا وقفہ کم از کم ضرور ہونا چاہیے کہ کوئی شخص چاہے تو چند رکعتیں نوافل ادا کرلے۔
اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کا وقت ہونے کی اطلاع دینا ہے، تاکہ وہ مسجد آکر باجماعت نماز ادا کرلیں۔ اس لیے اذان و اقامت کے درمیان اتنا فاصلہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ کوئی شخص اذان سننے کے بعد حوائج ضروریہ سے فارغ ہو، وضو کرے اور مسجد تک آئے تو اس کی تکبیر اولیٰ فوت نہ ہو، حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اذان واقامت کے درمیان وقفہ کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ: ’’اس کی کوئی حد نہیں، سوائے اس کے کہ وقت ہوجائے اور نمازی اکٹھاہوجائیں۔‘‘
’’لاحدّ لذلک غیرتمکن دخول الوقت واجتماع المصلین‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ،’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في الترسل في الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۹۵۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب کم بین الأذان والإقامۃ ومن ینتظرالإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، رقم: ۶۲۵۔
(۱) أیضًا۔ (۲) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح البخاري: ’’کتاب الأذان، باب کم بین الأذان والإقامۃ ومن ینتظر الإقامۃ‘‘، ج ۳، ص: ۱۳۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص203