نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز باجماعت میں اقامت کہنا سنت ہے، جب کہ انفرادی طور پر اگر نماز پڑھی جائے تو اس صورت میں اقامت کہنا مستحب ہوگا اور اگر کوئی شخص اقامت کے بغیر ہی نماز پڑھ لے تو نماز ادا ہو جائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے اور گناہ کا باعث ہے، الحاصل: قصداً اقامت کو چھوڑنا مکروہ ہے اگر کسی عذر کی وجہ سے نماز گھر پر ہی ادا کرنی پڑے تو ایسی صورت میں مسجد کی اقامت کافی ہے، گھر میں اقامت چھوٹ جائے یا چھوڑ دے تو گناہ نہیں ہوگا۔
’’و‘‘ کذا’’الإقامۃ سنۃ مؤکدۃ‘‘ في قوۃ الواجب؛ لقول النبي صلي اللّٰہ علیہ وسلم: إذا حضرت الصلاۃ فلیؤذن لکم أحدکم ولیؤمکم أکبرکم، وللمدوامۃ علیہا ’’للفرائض‘‘، ومنہا الجمعۃ  فلایؤذن لعید واستسقاء وجنازۃ ووتر‘‘(۱)
’’ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان، ولا یکرہ ترکہما لمن یصلي في المصر إذا وجد في المحلۃ، ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین، والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي، وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما، ولو ترک الأذان وحدہ  لایکرہ کذا في المحیط، ولو ترک الإقامۃ یکرہ۔ کذا في التمرتاشي‘‘(۲)

(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۷۶۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص198

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس کی نماز پوری ہو جائے وہ اپنی نماز پوری ہونے پر بیٹھا رہے امام نماز پوری کرکے جب سلام پھیرے تو اس کے ساتھ سلام پھیردے۔(۱)

(۱) و لو کان الذین خلف الإمام المحدث کلہم مسبوقون، ینظر إن بقي علی الإمام شيء من الصلاۃ فإنہ یستخلف واحدا منہم، لأن المسبوق یصلح خلیفۃ لما بینا، فیتم صلاۃ الإمام ثم یقوم إلی قضاء ما سبق بہ من غیر تسلیم لبقاء بعض أرکان الصلاۃ علیہ۔  وکذا القوم یقومون من غیر تسلیم ویصلون وحدانا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شرائط جواز الاستخلاف‘‘: ج ۱، ص:۵۳۰،دارالکتاب، دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص44

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز خشوع وخضوع سے پڑھنی چاہئے بلا ضرورت بدن کھجلانا، بدن پر ہاتھ پھیرتے رہنا مکروہ تحریمی ہے۔ ’’وعبثہ بہ وبثوبہ وبجسدہ للنہي إلالحاجۃ ولا بأس بہ خارج الصلاۃ‘‘(۲) یعنی بلا ضرورت اپنے کپڑے اور بدن سے کھیلنا مکروہ تحریمی ہے۔(۳)
(۲) وکرہ (کفہ) أي رفعہ ولو لتراب کمشمرکم أو ذیل وعبثہ بہ أي بثوبہ و بجسدہ للنہی إلالحاجۃ۔ (قولہ للنہي) وہو ما أخرجہ القضاعي عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ کرہ لکم ثلاثا:  العبث في الصلاۃ، والرفث في الصیام، والضحک في المقابر۔ وہي کراہۃ تحریم کما في البحر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶، ۴۰۷)
(۳) یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني، فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، مکتبۃ الفیصل دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص158

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: تغیر فاحش اور معنی کی واضح طور پر تبدیلی ہوئی اس وجہ سے نماز کا اعادہ ضروری ہے فرض ادا نہیں ہوا۔(۱)

(۱)وإن غیر المعنی تغییرا فاحشاً فإن قرأ‘‘ وعصی آدم ربہ فغوی ’’بنصب المیم‘‘ آدم ’’ورفع باء‘‘ ربہ ’’ … وما أشبہ‘‘ ذلک لو تعمد بہ یکفر وإذا قرأ خطأ فسدت صلاتہ … الخ۔ (الفتاویٰ الخانیۃ علی ہامش الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، ط: المطعبۃ اکبری الأمیریۃ، بولاتہ، مصر)
ومنہا ذکر کلمۃ علی وجہ البدل إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن لا تفسد ’’صلاتہ‘‘ نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم … وإن کان في القرآن ولکن لا تتقاربان في المعنی نحو إن قرأ {وعدا علینا إنا کنا غافلین} مکان ’’فاعلین‘‘ ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷،زکریا، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص276

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اذان فجر کے بعد جماعت تک اور اس کے بعد طلوع آفتاب تک سنت فجر کے علاوہ کسی قسم کی نفل یا سنت آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے سنت فجر کے علاوہ کسی قسم کی سنت یا نوافل نہ پڑھنی چاہیے اور اگر فرض سے قبل سنت فجر نہیں پڑھی گئی، تو فرض کے بعد سنت فجر بھی پڑھنے کی اجازت نہیں طلوع آفتاب تک،البتہ اس کے بعد پڑھ سکتا ہے۔(۱)

(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا صلاۃ بعد الفجر إلا سجدتین … وروي عنہ: غیر واحد وہو ما أجمع علیہ أہل العلم کرہوا أن یصلي الرجل بعد طلوع الفجر إلا رکعتي الفجر ومعنی ہذا الحدیث إنما یقول لا صلاۃ بعد الفجر إلا رکعتي الفجر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما جاء لا صلاۃ بعد طلوع الفجر إلا رکعتین‘‘: ج ۱، ص: ۹۶، مکتبہ: نعیمیہ دیونبد)
لا صلاۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس ولا صلاۃ بعد العصر حتی تغیب الشمس۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب لا تتحری الصلاۃ قبل غروب الشمس:ج ۱، ص: ۳۱۲، رقم: ۵۶۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص386

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/00

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قمیص کا بٹن کھول کر نماز پڑھنا  یا کہنی کھول کر نماز پڑھنا مکرہ ہے۔ یہ عام آداب مجلس کے خلاف ہے تو احکم الحاکمین کے سامنے زیادہ مودب ہونے کی ضرورت ہے۔ خلاف وضع صورت اختیار کونے کو علماء  نے اس وجہ سے مکروہ قرار دیا ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت کے لیے ضروری ہے کہ امام قرآن کریم صحیح پڑھنے والا ہو اگر قرآن کریم صحیح نہ پڑھے تو بعض مرتبہ تو نماز فاسد ہوجاتی ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا؛ اس لیے ذمہ داران مسجد صحیح امام کا نظم کریں۔
’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا للقرأۃ … قال ابن عابدین: أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ أي أجود لا أکثرہم حفظاً … ومعنــی الحســن في التــلاوۃ أن یکون عــالماً بکیفیۃ الحـروف والوقف و إما یتعلق بہا‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴۔
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص218

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مذکورہ میں گاؤں والے اگر اس امام کی شرعی بناء پر مخالفت کرتے ہیں، تو اس کو چاہئے کہ امامت کو چھوڑ دے، کیوں کہ مشکوٰۃ شریف میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس امام سے نمازی کراہت کرتے ہوں اس کو امامت چھوڑ دینی چاہئے اور متولی عیدگاہ کو چاہئے کہ دیندار پرہیزگار امام متعین کریں۔لیکن اس کے الگ کرنے میں اگر فتنہ کا اندیشہ ہو، تو حسن تدبیر کے ساتھ ان کو ہٹانے کی کوشش کریں۔ اور جب تک وہ شخص امامت پر باقی رہے اس کی اقتداء میں نماز اداء کرتے رہیں اس کی امامت میں نماز بکراہت ادا ہوجاتی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

(۱) وعن ابن عمر -رضی اللّٰہ عنہما- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ثلثۃ لاتقبل منہم صلوٰتہم من تقدم قوماً وہم لہ کارہون، ورجل أتی الصلاۃ دباراً والدبار أن یأتیہا بعد أن تفوتہ، ورجل اعتبد حجرۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج۱، ص: ۱۰۰، رقم: ۱۱۲۳،یاسر ندیم دیوبند)
رجل أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ، أولأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الامامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴، زکریا دیوبند)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص302

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اذان کی طرح اقامت بھی سنت ہے اور خارج نماز ہے اس سنت کے ترک سے نماز کا اعادہ لازم نہیں اور سہوا ترک سے اس پر کوئی وعید بھی نہیں ہے۔
’’وھو أي الأذان سنۃ موکدۃ کالواجب، والإقامۃ کالأذان، ترک السنۃ لایوجب فسادا ولا سھوا بل إساء ۃ لوعامدا  غیر مستخف، وقالوا: الإساء ۃ أدون من الکراہۃ‘‘(۱)

(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح ’’کتاب الصلاۃ، فصل في سننہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۶)
ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ کذا في فتاویٰ قاضي خان، ولا یکرہ ترکہما لمن یصلي في المصر إذا وجد في المحلۃ، ولا فرق بین الواحد والجماعۃ ہکذا في التبیین، والأفضل أن یصلی بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتا شی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص199

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس سلسلہ میں ضابطہ یہ ہے کہ اگر اس نے بھولے سے امام کے ساتھ متصل سلام پھیرا تھا تو اس صورت میں اس پر سجدہ سہو واجب نہ ہوگا لیکن اگر مسبوق نے امام کے متصل سلام نہ پھیرا اس کے لفظ السلام کہنے میں امام سے تاخیر ہوئی ہو تو اس صورت میں بقیہ رکعات پوری کرنے کے بعد سجدہ سہو کرنا اس پر لازم ہے،اسی طرح اگر مسبوق بھولے سے دونوں طرف سلام پھیر دیا اگر اس نے نماز کے منافی کوئی کام نہ کیا ہو تو آخر میں سجدہ سہوکرلے اور اگر مسبوق عمداً امام کے ساتھ سلام پھیرا ہو یا یہ سمجھتے ہوئے سلام پھیرا ہو کہ اس پر امام کے ساتھ سلام پھیرنا لازم ہے، تو اس صورت میں اس کی نماز باطل ہو جائے گی، اعادہ ضروری ہوگا اور جن صورتوں میں مسبوق پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اگر اس نے سجدہ سہو نہ کیا تو وقت کے اندر نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
’’قولہ والمسبوق یسجد مع إمامہ … فإن سلم: فإن کان عامداً فسدت، وإلا لا، ولا سجود علیہ إن سلم سہواً قبل الإمام أو معہ؛  وإن سلم بعد لزمہ لکونہ منفرداً حینئذ، بحر۔ وأراد بالمعیۃ المقارنۃ، وہو نادر الوقوع کما في شرح المنیۃ۔  وفیہ :  ولو سلم علیٰ ظن أن علیہ أن یسلم فہو سلام عمد یمنع البناء‘‘(۱)
’’ولو سلم ساہیا إن بعد إمامہ لزمہ السہو وإلا لا۔ ’’قولہ ولم سلم ساہیا: قید بہ لأنہ لو سلم مع الإمام علی ظن أنہ علیہ السلام معہ فہو سلام عمد فتفسد کمافي البحر عن الظہیریۃ۔ قولہ: لزمہ السہو لأنہ منفرد في ہذہ الحالۃ … قولہ وإلا لا … أي وإن سلم معہ أو قبلہ لا یلزمہ لأنہ مقتد في ہاتین الحالتین‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص:۵۴۶، ۵۴۷، زکریا۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۰۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص45