Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز اشراق وچاشت نوافل میں سے ہیں اور عیدین کے روز نماز عیدین سے قبل نوافل پڑھنا آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔(۳)
(۳) ویکرہ التنفل قبل صلاۃ العید في المصلی اتفاقاً، وفي البیت عند عامتہم وہو الأصح؛ لأن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج، فصلی بہم العید لم یصل قبلہا ولا بعدہا۔ متفق علیہ۔ ویکرہ التنفل بعدہا في المصلیٰ فلا یکرہ في البیت علی اختیار الجمہور لقول أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ: کان رسول اللّٰہ علیہ وسلم لا یصلی قبل العید شیئاً، فإذا رجع إلی منزلہ صلی رکعتین۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام العیدین‘‘: ص: ۵۳۱، ۵۳۲، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص388
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/925
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام عارضی ہو یا مستقل نماز شروع کرنے سے قبل ہرامام کو چاہئے کہ لوگوں کی امامت کی نیت کرے، لیکن امامت کی نیت کے بغیر نماز درست ہوجاتی ہے، البتہ اقتداء کے لئے نیت شرط ہے۔ اگر امام غلطی سے سری نماز میں جہر کردے یا جہری نماز میں سری قراءت کردے تو اس پر سجدہ سہو لازم ہے۔ وجہر (ای الامام وجوبا ) بقراءۃالفجر واولیی العشائین (کنزالدقائق ص27)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 959/41-100 B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ظہر کی فرض نماز سے پہلے کی چار رکعت سنت اگر رہ جائے تو اس کو فرض کے بعد پڑھ لینا چاہئے۔ بعد والی دو رکعت سنت پڑھ کر پھر چار رکعت سنت پڑھی جائے تو بہتر ہے۔ اور اگر پہلے چھوٹی ہوئی چار رکعت سنت پڑھے اور پھر بعد والی دو رکعت سنت ادا کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
(قوله وقضى التي قبل الظهر في وقته قبل شفعه) بيان لشيئين أحدهما القضاء والثاني محله أما الأول ففيه اختلاف والصحيح أنها تقضى كما ذكره قاضي خان في شرحه مستدلا بما عن عائشة أن النبي - صلى الله تعالى عليه وسلم - «كان إذا فاتته الأربع قبل الظهر قضاهن بعده» ۔۔۔ ورجح في فتح القدير تقديم الركعتين لأن الأربع فاتت عن الموضع المسنون فلا يفوت الركعتين عن موضعهما قصدا بلا ضرورة اهـ. (البحرالرائق 2/81)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1611/43-1164
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) نیت دل کے ارادہ کا نام ہے، اگر نیت کرلی تو زبان سے کہنا ضروری نہیں ہے، البتہ زبان سے نیت کا ادا کرنا بھی جائز ہے،اس کو بدعت کہنا درست نہیں ہے جبکہ بعض فقہاءِ کرام نے زبان سے نیت کو مستحب قراردیا ہے۔ (2) صورت مسئولہ میں اگر حالت قیام میں اللہ اکبر کہا اور ہاتھ باندھے بغیر رکوع میں چلاگیا تو بھی اس کی نماز درست ہوجائے گی۔ ہاتھ کانوں تک اٹھانا، ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا اوراللہ اکبر کہنے کے بعد قیام میں کچھ دیررہنافرائض میں سے نہیں ہے۔ اللہ اکبر (تکبیر تحریمہ) کھڑے ہونے کی حالت میں کہے اور اس کے فورا بعد رکوع میں چلاجائے تو اس کو رکوع پانے والا شمار کیاجائے گا۔ اس میں کسی فرض کا ترک کرنا لازم نہیں آیا اس لئے نماز درست ہوجائے گی۔
والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة ) فلا عبرة للذكر باللسان إن خالف القلب؛ لأنه كلام لا نية إلا إذا عجز عن إحضاره لهموم أصابته فيكيفيه اللسان ، مجتبى ( وهو ) أي عمل القلب ( أن يعلم ) عند الإرادة ( بداهة ) بلا تأمل ( أي صلاة يصلي ) فلو لم يعلم إلا بتأمل لم يجز ( والتلفظ ) عند الإرادة ( بها مستحب ) هو المختار(شامی (1/415) الفصل الرابع في النية) النية إرادة الدخول في الصلاة والشرط أن يعلم بقلبه أي صلاة يصلي وأدناها ما لو سئل لأمكنه أن يجيب على البديهة وإن لم يقدر على أن يجيب إلا بتأمل لم تجز صلاته ولا عبرة للذكر باللسان، فإن فعله لتجتمع عزيمة قلبه فهو حسن، كذا في الكافي (الھندیۃ 2/459)
فلو کبر قائماً فرکع ولم یقف صح؛ لأن ما أتی بہ من القیام إلی أن یبلغ حد الرکوع یکفیہ، قنیة (شامی، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، 2/131 ط؛ مکتبة زکریا دیوبند) ولا یصیر شارعاً بالتکبیر إلا في حالة القیام الخ (الہندیة، کتاب الصلاة، الباب الرابع، الفصل الأول 1/68)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوں کہ بکرے وغیرہ ذبح کرنا کوئی عیب نہیں ہے(۱) اس لیے اس کی امامت بلا شبہ درست ہے۔
(۱) {وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ…اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِط وَاِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآئِھِمْ بِغَیْرِعِلْمٍط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَاَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَہ۱۱۹} (سورۃ الانعام: ۱۱۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص94
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز تو ادا ہوگئی لیکن امام کو ایسا ہرگز نہ کرنا چاہئے، مؤکدہ سنتوں کا اہتمام ضروری ہے مؤکدہ سنتوں کا چھوڑنا برا ہے اور ان کے چھوڑنے پر اصرار یعنی اکثر چھوڑنا گناہ کبیرہ ہے۔
’’وآکدہا سنۃ الفجر اتفاقاً لحدیث من ترکہا لم تنلہ شفاعتي‘‘(۱)
’’وفي مسلم رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا وفي أبي داؤد لا تدعوا رکعتي الفجر ولو طردتکم الخیل‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۳، زکریا دیوبند۔
(۲) أیضًا:۔
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: لم یکن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی شيء من النوافل أشد تعاہدا منہ علی رکعتي الفجر، متفق علیہ، (البغوي، مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب السنن وفضائلہا، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۰۴، یاسر ندیم دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص306
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر صف میں کھڑے ہونے کی گنجائش نہ ہو تو امام کے رکوع میں جانے تک تو انتظار کرے اگر کوئی دوسرا شخص آجائے تو اس کے ہمراہ امام کی سیدھ میں صف کے پیچھے کھڑا ہوجائے اگر کوئی نہ آئے تو اکیلا ہی کھڑا ہوجائے اور اگر آتے ہی امام کے پیچھے سیدھ میں تنہا صف میں کھڑا ہوجائے تو یہ بھی جائز ہے۔(۱)
’’ومتی استویٰ جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ فإن وجد في الصف فرجۃ سدہا وإلا انتظر حتی یجيء آخر فیقفان خلفہ وإن لم یجيء حتی رکع الإمام یختار أعلم الناس بہذہ المسألۃ فیجذبہ ویقفان خلفہ ولو لم یجد عالماً یقف خلف الصف بحذاء الإمام للضرورۃ ولو وقف منفرداً لغیر عذر تصح صلاتہ عندنا خلافاً لأحمد‘‘(۲)
(۱) ویقف الواحد رجلا کان أو صبیاً ممیّزاً عن یمین الإمام مساویاً لہ متاخراً بعقبہ … ویقف الأکثر من واحد خلفہ، الخ … فإذا استویٰ الجانبان یقوم الجائي عن جہۃ الیمین وإن ترجح الیمین یقوم عن یسار۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۵، شیخ الہند دیوبند)
(۲) الحصکفي، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۳۱۰، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص420
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام کے پیچھے محاذات میں کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کا تعامل ہے اس لیے یہی افضل ہے، البتہ حسب ضرورت وحسب موقعہ جس طرف کھڑے ہوکر تکبیر کہہ دے درست ہے۔ شرعی ضرورت کے بغیر ادھر ادھر کھڑے ہوکر تکبیر کہنا خلاف اولیٰ ہے، مگر تکبیرات کا اعادہ نہ ہوگا۔(۱)
(۱) ویسن الأذان في موضع عال والإقامۃ علی الأرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۸، زکریا دیوبند)
وعن أبي مسعود الأنصاري رضي اللّٰہ عنہ، قال : کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یمسح مناکبنا في الصلوٰۃ ویقول استووا ولا تختلفوا فتخلتف قلوبکم لیلیني منکم أولوا الأحلام والنہي ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم، قال أبو مسعود: فأنتم الیوم أشد اختلافاً، رواہ مسلم۔ (أبو عبد اللّٰہ، محمد بن عبد اللّٰہ، مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، تسویۃ الصف، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم:۱۰۸۸)
وینبغي أن یکون المؤذن رجلا عاقلاً صالحاً تقیا عالماً بالسنۃ … والأحسن أن یکون إماما في الصلوٰۃ … ویکرہ الأذان قاعداً، وإن أذن لنفسہ قاعداً فلا بأس بہ، والمسافر إذا أذن راکباً لا یکرہ وینزل للإقامۃ، کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ وإن لم ینزل وأقام أجزاہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۱، زکریا،دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص202
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ یہ نوافل بیٹھ کر پڑھے ہیں، مگر کوئی دوسرا شخص بغیر عذر اگر بیٹھ کر پڑھے گا، تو اس کو آدھا ثواب ملے گا۔ روایت ہے کہ تمہاری نماز بیٹھے ہونے کی حالت میں اس کے کھڑے ہونے کی نماز کے نصف کے برابر ہے۔(۱)
ہاں! اگر کوئی شخص اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت سے بیٹھ کر پڑھے گا، تو اس کو دو ثواب ملیں گے، نفلوں کا اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا۔
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج، فرأی أناسا یصلون قعودا، فقال: صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم‘‘(۱)
(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: صلاۃ الجالس علی النصف من صلاۃ القائم۔
(أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الحادی عشر،مسند عبداللّٰہ ابن عمر‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۷، رقم: ۶۸۰۳)
(۱) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا، باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۸، رقم: ۱۲۳۰۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص389
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 960/41-104 B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں دوبارہ جو چار رکعت سنت کی نیت سے آپ نےنماز شروع کی وہ نفل ہوگی۔ نماز کے دوران نیت کی تبدیلی معتبر نہیں ہوگی۔ تحریمہ کے وقت جس نیت سے آپ نے نماز شروع کی وہی نماز ادا ہوگی۔ اس لئے دوبارہ فرض کی نیت کے ساتھ نماز شروع کریں۔
(وينوي للصلاة التي يدخل فيها بنية لا يفصل بينها وبين التحريمة بعمل) والأصل فيه قوله - عليه الصلاة والسلام - «الأعمال بالنيات» ولأن ابتداء الصلاة بالقيام وهو متردد بين العادة والعبادة ولا يقع التمييز إلا بالنية، والمتقدم على التكبير كالقائم عنده إذا لم يوجد ما يقطعه وهو عمل لا يليق بالصلاة ولا معتبر بالمتأخرة منها عنه لأن ما مضى لا يقع عبادة لعدم النية، وفي الصوم جوزت للضرورة، والنية هي الإرادة، (فتح القدیر 1/265)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند