نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: گھر پر عبادت کرنا افضل ہے کہ اس میں نام ونمود اور دکھلاوے کی بیماری سے آدمی محفوظ رہتا ہے۔(۱)

(۱) والأفضل في النفل غیر التراویح المنزل إلا لخوف شغل عنہا والأصح أفضلیۃ ما کان أخشع وأخلص۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۲۲)
وحیث کان ہذا أفضل یراعی ما لم یلزم منہ خوف شغل عنہا لو ذہب لبیتہ، أو کان في بیتہ ما یشغل بالہ ویقلل خشوعہ، فیصلیہا حینئذ في المسجد لأن اعتبار الخشوع أرجح۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۲۲)
الأفضل في السنن والنوافل المنزل لقولہ علیہ السلام: صلاۃ الرجل في المنزل أفضل إلا المکتوبۃ، ثم باب المسجد إن کان الإمام یصلي في المسجد، ثم المسجد الخارج إن کان الإمام في الداخل، والداخل إن کان في الخارج۔ وإن کان المسجد واحد فخلف أسطوانۃ، وکرہ خلف الصفوف بلا حائل۔ وأشدہا کراہۃ أن یصلي في الصف مخالطا للقوم وہذا کلہ إذا کان الإمام في الصلاۃ، أما قبل الشروع فیأتي بہا في المسجد في أي موضع شاء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’الباب التاسع في النوافل، ومن المندوبات صلاۃ الضحی‘‘: ج ۱، ص:۱۷۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص391

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس امام نے وہ فرضی اور نام نہاد نکاح پڑھایا ہے اور وہ ایسا ہی کرتا ہے تو وہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے اور فاسق ہے۔ اس کو امامت سے الگ کردیا جائے اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔ اور شامی میں ہے ایسا شخص واجب الاہانۃ ہے اس کی توقیر جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً … بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار‘‘: ج۱، ص: ۵۶۰)
ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص96

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس شخص کی کل آمدنی یا اکثر آمدنی حرام ہو اور وہ اسی مال حرام سے دعوت کرتا ہو تو اس کے یہاں دعوت کھانا جائز نہیں ہے نہ ہی امام کے لیے جائز ہے او رنہ ہی کسی اور شخص کے لیے جائز ہے۔ایسے شخص سے امام کی تنخواہ کے لیے یا مسجد کی کسی ضرورت کے لیے چندہ لینا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر اس کے پاس مال حرام کے علاوہ مال حلال بھی ہو اور وہ اسی مال سے دعوت کرے تو اس کا قبول کرنا جائز ہے۔یہ مسئلہ عوام کو حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے۔ سوال میں جو صورت حال ذکر کی گئی ہے اس کا ایک حل یہ ہے کہ کسی کے یہاں دعوت کی باری نہ لگائی جائے؛ بلکہ امام کو کھانے کا پیسہ دیا جائے جس سے وہ خود اپنے کھانے کا نظم کرے اس صورت میں کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہوگا؛نیز گھر گھر جاکر کھانا کھانا یالانا منصب امامت کے مناسب بھی نہیں ہے؛ لیکن اگراس صورت حال پر عمل ممکن نہ ہو تو خالص مال حرام والے شخص کی دعوت سے حکمت ومصلحت کے ساتھ عذر کردیا جائے اور اگر منع کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو توامام صاحب کی ذمہ داری ہے کہ اس کا کھانا لے کر کسی غریب کو کھلادے اور مال حلال سے اپنا انتظام کرے۔
’’أھدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ھو الحرام ینبغي أن لا یقبل الھدیۃ ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ورثتہ أو استقرضتہ من رجل کذا في الینابیع۔ ولا یجوز قبول ھدیۃ أمراء الجور  لأن الغالب في مالھم الحرمۃ إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال بأن کان صاحب تجارۃ أو زرع فلا بأس بہ؛لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب، وکذا أکل طعامھم‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الکراھیۃ: الباب الثاني عشر في الھدایا والضیافات‘‘: ج۵، ص: ۳۴۲، ط مکتبۃ زکریا دیوبند
وفي عیون المسائل: رجل أہدی إلی إنسان أو أضافہ إن کان غالب مالہ حرام لا ینبغي أن یقبل ویأکل من طعامہ ما لم یخبر أن ذلک المال حلال استقرضہ أو ورثہ وإن کان غالب مالہ من حلال فلا بأس بأن یقبل ما لم یتبین لہ أن ذلک من الحرام، وہذا لأن أموال الناس لا یخلو عن قلیل حرام وتخلو عن کثیرۃ فیعتبر الغالب ویبقی الحکم علیہ۔ (المحیط البرہاني، ’’الفصل السابع: في الہدایا والضیافات‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۷، دارالکتاب دیوبند)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص309

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صف برابر سیدھی بھی ہونی چاہئے اور پُر بھی کہ درمیان میں خلا باقی نہ رہے اگر کوئی شخص عذر شرعی کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے، تو وہ کھڑے ہوئے لوگوں سے الگ نہ بیٹھے؛ بلکہ صف میں بیٹھے اور خلاء درمیان میں بالکل نہ چھوڑے خلا باقی رکھنا شرع کے  خلاف ہے، بہتر یہ ہے کہ صف کے آخر میں بیٹھ کر جماعت میں شریک ہو تاکہ صف پوری ہوجائے۔(۱)

(۱) وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلوۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسوا بین مناکبہم في الصفوف، ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج۱، ص: ۱۴۶، زکریا دیوبند)
عن ابن مسعود -رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ- قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یمسح مناکبنا في الصلوۃ ویقول استووا ولا تختلفوا فتختلف قلوبکم لیلني منکم أولو الأحلام والنہي ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب تسویۃ الصفوف وإقامتہا‘‘: ج۱، ص: ۱۸۱، رقم:۴۳۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص422

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بارش نہ ہو نے کی وجہ سے قحط کا اندیشہ ہو جائے، جانوروں کے چارے میں کمی آجائے، کنووں اور نلوں کا پانی کم ہو جائے، گرمی کی شدت باعث پریشانی اور تکلیف بن جائے تو ایسی صورت میں نماز استسقا پڑھنی چاہئے۔(۱)

(۱) ہو لغۃ: طلب السقي وإعطاء ما یشربہ…… وشرعاً: طلب إنزال المطر بکیفیۃ مخصوصۃ عند شدۃ الحاجۃ بأن یحبس المطر، ولم یکن لہم أودیۃ وآبار وأنہار یشربون منہا ویسقون مواشیہم وزرعہم أو کان ذلک إلا أنہ لا یکفي، فإذا کان کافیا لا یستسقی کما في المحیط۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار: ’’کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء‘‘: ج ۳، ص: ۷۰، زکریا دیوبند؛ و الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’باب الاستسقاء‘‘: ص: ۵۴۸، شیخ الہند دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص391

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1401/42-819

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صفوں کی درستگی اور خلل کو پُر کرنے کی احادیث میں  بہت تاکید آئی ہے۔ اس لئے اگر آگے کی صف میں جگہ ہو تو دوسرے نمازیوں کے آگے سے گزرکر وہاں تک پہونچنا درست ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں۔ اگلی صف میں جگہ ہوتے ہوئے پچھلی صف بنانا مکروہ ہے۔ اس کا خیال رکھنا چاہئے۔

فلو صلى في نفس طريق العامة لم تكن صلاته محترمة كمن صلى خلف فرجة الصف فلا يمنعون من المرور لتعديه فليتأمل (شامی، فروع مشی المصلی مستقبل القبلۃ 1/635)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: سوال میں جو حالات لکھے ہیں ان کے پیش نظر امام موصوف نے اگر مذکورہ عمل کیا تو کوئی غلطی یا شرعی جرم نہیں کیا نکتہ چینی کرنے والے یا امام سے مذکورہ وجہ کی بناء پر معافی کا مطالبہ کرنے والے غلطی پر ہیں امام واجب التعظیم ہے۔ مذکورہ مطالبہ امام کی حرمت اور عزت کے منافی اور غیر شرعی ہے جو موجب گناہ ہے۔ امام مذکور کے پیچھے نماز پڑھنی بلاشبہ جائز اور درست ہے۔(۱)

(۱) ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ فیکرہ لہ ذلک تحریما؛ لحدیث أبي داؤد: لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون،(وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم، (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص97

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں باہمی مشورے سے جو امام صاحب کا تقرر کیا گیا ہے وہ بالکل صحیح اور درست کیا ہے مرحوم امام صاحب کے کسی وارث کے لیے اس میں دخل دینا اور اپنے تقرر پر اصرار کرنا یا اپنا کوئی حق سمجھنا جائز نہیں ہے اہل محلہ پر ان کا تقرر ضروری نہیں ہے امامت کے لیے جو زیادہ مفید اور لائق ہو اسی کو امام بنانا چاہئے اس لیے بشرط صحت سوال نئے امام کا جو تقرر کیا گیا ہے وہ درست ہے۔(۱)

(۱) ولایۃ الأذان والإقامۃ لباني المسجد مطلقًا وکذا الإمامۃ لوعدلا، مطلقًا أي عدلا أولا، وفي الأشباہ ولد الباني وعشیرتہ أولٰی من غیرہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب ہل باشر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الأذان بنفسہ‘‘: ج۲، ص: ۷۱، دارالفکر)
الأولٰی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا فيالمضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۲، دارالفکر)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص311

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں دونوں صورتیں درست ہیں، امام بھی آگے بڑھ سکتاہے اور مقتدی بھی پیچھے ہوسکتے ہیں، ایسے مقامات میں عام طورپر ایسا کرسکتے ہیں کہ مقتدی کو آہستہ سے کھینچ کر پیچھے کردیا جائے شرط یہ ہے کہ مقتدی کی نماز کے فساد کا اندیشہ نہ ہو۔(۲)

(۲) إذا اقتدی بإمام فجاء آخر یتقدم الإمام موضع سجودہ کذا في مختارات النوازل۔…وفي القہستاني عن الجلابي أن المقتدي یتأخر عن الیمین إلی خلف إذا جاء آخر۔اہـ وفي الفتح: ولو اقتدی واحد بآخر فجاء ثالث یجذب المقتدي بعد التکبیر ولو جذبہ قبل التکبیر لا یضرہ، وقیل یتقدم الإمام اہـ۔ ومقتضاہ أن الثالث یقتدي متأخرا ومقتضی القول بتقدم الإمام أنہ یقوم بجنب المقتدي الأول۔ والذي یظہر أنہ ینبغي للمقتدي التأخر إذا جاء ثالث فإن تأخر وإلا جذبہ الثالث إن لم یخش إفساد صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص423

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: راجح قول کے موافق چوں کہ دونوں سجدے نماز کے فرض ہیں اس لیے ایک سجدہ فرض چھوٹ گیا اور فرض کے چھوٹ جانے سے نماز کا اعادہ فرض ہوتا ہے پس سجدہ سہو اس کے لیے ناکافی ہے اور اعادہ اس نماز کا فرض ہے۔(۲)

(۲) ومنہا السجود والسجود الثاني فرض کالأول بإجماع الأمۃ کذا في الزاہدي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷، زکریا)
 وتکرارہ تعبد أي تکرار السجود أمر تعبدي أي لم یعقل معناہ علی قول أکثر المشایخ تحقیقاً للابتلاء وقیل ثني ترغیما للشیطان حیث لم یسجد مرۃ فنحن نسجد مرتین۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث الرکوع والسجود‘‘: ج۲، ص: ۱۳۵)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص336