نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صف میں جگہ ہونے کے باوجود صف سے دور کھڑا ہونا مکروہ ہے، اس کو چاہئے کہ صف تک پہونچ کر نماز شروع کرے، چاہے رکعت فوت ہوجائے اس لیے کہ افضلیت حاصل کرنے کی بہ نسبت مکروہ سے بچنا ضروری ہے۔(۱)
’’ویکرہ للمقتدي أن یقوم خلف الصف وحدہ إلا إذا لم یجد في الصف فرجۃ یمکنہ القیام فیہا لقولہ علیہ السلام: أتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن في الصف المؤخر، رواہ أبوداود والنسائي‘‘(۲)

(۱) ولو کان الصف منتظما ینتظر مجيء آخر فإن خاف فوت الرکعۃ جذب عالماً بالحکم لایتأذی بہ وإلا قام وحدہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۷، شیخ الہند دیوبند)
(۲) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۱۴، ط: درا الکتاب دیوبند)۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص419

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اقامت شریعت کی نظر میں مسنون ہے۔ اذان کے کلمات میں شرعی ضابطہ کے تحت فصل ہونا چاہئے۔ اور اقامت کے کلمات میں وصل ہونا چاہئے، مذکورہ طریقہ جو سوال میں تحریر ہے اس سے اقامت ادا ہو گئی، اعادہ کی ضرورت نہیں۔(۲)
(۲) والإقامۃ کالأذان فیما مر لکن ہي أفضل منہ، ولا یضع إصبعیہ في أذنیہ ویحدر أي یسرع فیہا فلو ترسل لم یعدہا في الأصح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج ۲، ص: ۵۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص201



 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  اس صورت میں اس مقتدی جو کہ تیسری رکعت میں شامل ہو) کی نماز صحیح ہوگئی۔(۱)

(۱) والمسبوق یسجد مع إمامہ قید بالسجود لأنہ لا بتابعہ في السلام، بل یسجد معہ ویتشہد، فإذا سلم الإمام قام إلی القضاء، فإن سلم: فإن کان عامداً فسدت، وإلا لا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۶، زکریا دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص48

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مجبوری کی وجہ سے جمائی لی ہو اور احتیاط کرتا ہو کہ آواز نہ نکلے تو معاف ہے اور اگر اس میں احتیاط نہ کرتا ہو اور بے احتیاطی کی وجہ سے آواز نکلے اور حروف پیدا ہوں تو نماز فاسد ہو جائے گی ۔ در مختار میں ہے:
’’والتنحنح بحرفین بلا عذر أما بہ بأن نشأ من طبعہ فلا أو بلا غرض صحیح فلو لتحسین صوتہ أو لیہتدي إمامہ‘‘(۱)
(۱) الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲ ، ص:۳۷۶، ۳۷۷، زکریا دیوبند ۔
ویفسد الصلاۃ التنحنح بلا عذر بأن لم یکن مدفوعاً إلیہ وحصل منہ حروف، ہکذا في التبیین۔ ولو لم یظہر لہ حروف فإنہ لایفسد اتفاقا لکنہ مکروہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، فیما یفسد الصلاۃ  وما یکرہ فیہا‘‘: ج۱، ص: ۱۵۹، زکریا دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص161

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: اگر غلطی سے نماز میں کسی سورت کی ایک آیت چھوٹ جائے، یا آیت کا بعض حصہ چھوٹ جائے، اور فی الجملہ تین آیتوں کے بعد قرأت پائی جائے، تو اس کی وجہ سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، اور نماز درست ہوجائے گی، لیکن اگر درمیان آیت چھوٹنے کے بعد ایسی جگہ سے آیت کو ملایا کہ معنی میں تغیر فاحش پیدا ہوگیا تو نماز درست نہیں ہوگی۔ اس لیے مکمل وضاحت کے ساتھ معلوم کرلیں کہ کون سی آیت چھوٹی ہے او رکہاں سے پڑھاہے۔
’’ولو زاد کلمۃً أو نقص کلمۃً أو نقص حرفًا، … لم تفسد ما لم یتغیر المعنی۔ (قولہ: أو نقص کلمۃً) کذا في بعض النسخ ولم یمثل لہ الشارح۔ قال في شرح المنیۃ: وإن ترک کلمۃً من آیۃ فإن لم تغیر المعنی مثل : وجزاء سیئۃ مثلہا بترک سیئۃ الثانیۃ لاتفسد وإن غیرت، مثل: فما لہم یؤمنون بترک لا، فإنہ یفسد  عند العامۃ؛  وقیل:  لا،  والصحیح الأول‘‘(۱)
’’وعن ابن عوف قال: سألت ابن سیرین عن الرجل یقرأ من السورۃ آیتین ثم یدعہا ویأخذ في غیرہا، قال: لیتق أحدکم أن یأثم إثما کبیراً من حیث لا یشعر‘‘(۲)
’’قلت: سند صحیح، وابن عوف تصحیف، وإنما ہو ابن عون بالنون من ثقات أصحاب ابن سیرین‘‘(۳)
’’فرض القراء ۃ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ یتأدي بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ وہو الأصح، وروی الحسن عن أبي حنیفۃ: أدنی ما یجوز من القراء ۃ في الصلاۃ في کل رکعۃ ثلاث أیات تکون تلک الاٰیات الثلاث مثل أقصر سورۃ من القراٰن، وإن قرأ باٰیتین طویلتین أو باٰیۃ طویلۃ تکون تلک الاٰیات مثل أقصر سورۃ في القراٰن یجزیہ ذٰلک‘‘(۴)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ: وما یکرہ فیہا، مطلب: مسائل زلۃ القاري‘‘: ج۲، ص: ۳۹۵، ۳۹۶، زکریا دیوبند۔
(۲) أخرجہ أبوعبید، کذا في الإتقان: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۳) أخرجہ مسلم في صحیحہ: ج ۱، ص: ۴؛ وإعلاء السنن: ج ۴، ص: ۱۳۰)
(۴) الفتاویٰ التاتارخانیۃ: ج ۲، ص: ۵۹، رقم: ۱۷۳۵، وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸، زکریا دیوبند ۔
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص279

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز اشراق وچاشت نوافل میں سے ہیں اور عیدین کے روز نماز عیدین سے قبل نوافل پڑھنا آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔(۳)

(۳) ویکرہ التنفل قبل صلاۃ العید في المصلی اتفاقاً، وفي البیت عند عامتہم وہو الأصح؛ لأن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج، فصلی بہم العید لم یصل قبلہا ولا بعدہا۔ متفق علیہ۔ ویکرہ التنفل بعدہا في المصلیٰ فلا یکرہ في البیت علی اختیار الجمہور لقول أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ: کان رسول اللّٰہ علیہ وسلم لا یصلی قبل العید شیئاً، فإذا رجع إلی منزلہ صلی رکعتین۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام العیدین‘‘: ص: ۵۳۱، ۵۳۲، شیخ الہند دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص388

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 41/925

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام  عارضی ہو یا مستقل نماز شروع کرنے سے قبل  ہرامام کو چاہئے کہ لوگوں کی  امامت کی نیت کرے، لیکن امامت کی نیت کے بغیر نماز درست ہوجاتی ہے، البتہ اقتداء کے لئے نیت شرط ہے۔ اگر امام  غلطی سے سری نماز میں جہر کردے یا جہری نماز میں سری قراءت کردے تو اس پر سجدہ سہو لازم ہے۔   وجہر (ای الامام وجوبا ) بقراءۃالفجر واولیی العشائین (کنزالدقائق ص27)

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 959/41-100 B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ظہر کی فرض نماز سے پہلے کی چار رکعت سنت اگر رہ جائے تو اس کو فرض کے بعد پڑھ لینا چاہئے۔  بعد والی دو رکعت سنت پڑھ کر پھر چار رکعت سنت پڑھی جائے تو بہتر ہے۔ اور اگر پہلے چھوٹی ہوئی چار رکعت سنت پڑھے اور پھر بعد والی دو رکعت سنت ادا کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

(قوله وقضى التي قبل الظهر في وقته قبل شفعه) بيان لشيئين أحدهما القضاء والثاني محله أما الأول ففيه اختلاف والصحيح أنها تقضى كما ذكره قاضي خان في شرحه مستدلا بما عن عائشة أن النبي - صلى الله تعالى عليه وسلم - «كان إذا فاتته الأربع قبل الظهر قضاهن بعده» ۔۔۔ ورجح في فتح القدير تقديم الركعتين لأن الأربع فاتت عن الموضع المسنون فلا يفوت الركعتين عن موضعهما قصدا بلا ضرورة اهـ. (البحرالرائق 2/81)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1611/43-1164

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1)  نیت دل  کے  ارادہ کا نام ہے، اگر نیت کرلی تو زبان سے کہنا ضروری نہیں ہے، البتہ زبان سے نیت کا ادا کرنا بھی جائز ہے،اس کو  بدعت  کہنا درست نہیں ہے جبکہ  بعض فقہاءِ کرام نے زبان سے نیت کو مستحب قراردیا ہے۔ (2) صورت مسئولہ میں اگر  حالت قیام میں اللہ اکبر کہا اور ہاتھ باندھے بغیر رکوع میں چلاگیا تو بھی اس کی نماز درست ہوجائے گی۔ ہاتھ کانوں تک اٹھانا، ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا اوراللہ اکبر کہنے کے بعد  قیام میں کچھ دیررہنافرائض میں سے  نہیں ہے۔ اللہ اکبر (تکبیر تحریمہ) کھڑے ہونے کی حالت میں کہے اور اس کے فورا بعد رکوع میں چلاجائے تو اس کو رکوع پانے والا شمار کیاجائے گا۔ اس میں کسی فرض کا ترک کرنا لازم نہیں آیا اس لئے نماز درست ہوجائے گی۔  

والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادة ) فلا عبرة للذكر باللسان إن خالف القلب؛ لأنه كلام لا نية إلا إذا عجز عن إحضاره لهموم أصابته فيكيفيه اللسان ، مجتبى ( وهو ) أي عمل القلب ( أن يعلم ) عند الإرادة ( بداهة ) بلا تأمل ( أي صلاة يصلي ) فلو لم يعلم إلا بتأمل لم يجز ( والتلفظ ) عند الإرادة ( بها مستحب ) هو المختار(شامی  (1/415) الفصل الرابع في النية) النية إرادة الدخول في الصلاة والشرط أن يعلم بقلبه أي صلاة يصلي وأدناها ما لو سئل لأمكنه أن يجيب على البديهة وإن لم يقدر على أن يجيب إلا بتأمل لم تجز صلاته ولا عبرة للذكر باللسان، فإن فعله لتجتمع عزيمة قلبه فهو حسن، كذا في الكافي (الھندیۃ 2/459)

فلو کبر قائماً فرکع ولم یقف صح؛ لأن ما أتی بہ من القیام إلی أن یبلغ حد الرکوع یکفیہ، قنیة (شامی، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، 2/131 ط؛ مکتبة زکریا دیوبند) ولا یصیر شارعاً بالتکبیر إلا في حالة القیام الخ (الہندیة، کتاب الصلاة، الباب الرابع، الفصل الأول 1/68)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوں کہ بکرے وغیرہ ذبح کرنا کوئی عیب نہیں ہے(۱) اس لیے اس کی امامت بلا شبہ درست ہے۔


(۱) {وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ…اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِط وَاِنَّ  کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآئِھِمْ بِغَیْرِعِلْمٍط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَاَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَہ۱۱۹} (سورۃ الانعام: ۱۱۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص94