نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر جوتا پاک ہو تو ایسے جوتے کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ ؓسے جوتا پہن کر نماز پڑھنا ثابت ہے، تاہم مسجد میں جوتے کے ساتھ نماز پڑھنا موجودہ ماحول میں درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد میں فرش نہیں تھا؛ بلکہ مسجد میں سنگ ریزے تھے؛ ا س لیے وہاں پر آپ جوتے میں نماز پڑھتے تھے؛ لیکن آج کل مساجد میں فرش، ٹائلس اور عمدہ قالین بچھی ہوئی ہوتی ہے مسجد میں جوتا لے کر جانے میں مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہے۔ نیز یہ آپسی نزاع کا باعث بن سکتاہے؛ اس لیے کہ عام طورپر لوگ مسجد میں جوتا لے کر داخل نہیں ہوتے؛ بلکہ ہمارے عرف میں مسجد میں جوتا پہن کر جانا اگر چہ جوتا پاک ہو احترام مسجد کے خلاف تصور کیا جاتا ہے اب اگر کوئی ایک آدمی جوتا پہن کر مسجد میں داخل ہوگا تو دوسرے لوگوں کو اعتراض ہوگا اور یہ نزاع کا باعث بنے گا؛ اس لیے مسجد میں جوتا پہن کر نماز نہیں پڑھنی چاہیے؛ ہاں! مسجد کے علاوہ کسی جگہ جوتے پہن کر نماز پڑھنے کی ضرورت ہو تو نماز پڑھ سکتے ہیں۔
’’(قولہ: وصلاتہ فیہما) أي في النعل والخف الطاہرین أفضل؛ مخالفۃً للیہود، تتارخانیۃ۔ وفي الحدیث: صلوا في نعالکم، ولاتشبہوا بالیہود رواہ الطبراني کما في الجامع الصغیر رامزًا لصحتہ۔ وأخذ منہ جمع من الحنابلۃ أنہ سنۃ، ولو کان یمشي بہا في الشوارع؛ لأنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصحبہ کانوا یمشون بہا في طرق المدینۃ ثم یصلون بہا۔ قلت: لکن إذا خشی تلویث فرش المسجد بہا ینبغي عدمہ وإن کانت طاہرۃً۔ و أما المسجد النبوي فقد کان مفروشًا بالحصی في زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بخلافہ في زماننا، ولعل ذلک محمل ما في عمدۃ المفتي من أن دخول المسجد متنعلًا من سوء الأدب   تأمل‘‘(۱)
’’فروع: یکرہ اشتمال الصلاۃ علی الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وکل عمل قلیل بلا عذر‘‘(۲)
’’أخبرنا أبو مسلمۃ سعید بن یزید الأزدي، قال: سألت أنس بن مالک: أکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي في نعلیہ؟ قال: ’’نعم‘‘(۱) وقد علمت أن النعال غیر المداس المعروف الآن في بلادنا، والصلاۃ في المداس ربما لا تصح؛ لأن
القدم تبقی فیہا معلّقۃ، ولا تقع علی الأرض، فلا تتم السجدۃ۔ ثم في الشامي: أن الصلاۃ في النعلین مستحبۃ، وفي موضع آخر: أنہا مکروہۃ تنزیہًا۔ قلتُ: بل ہي مباح، وحقیقۃ الأمر عندي: أن موسی علیہ الصلاۃ والسلام لما ذہب إلی الطور {نُوْدِيَ ٰیمُوْسٰیہط ۱۱ إِنِّيْٓ أَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَج} (سورۃ طہ: ۱۱، ۱۲) حملہ الیہود علی النہی مطلقًا، فلم یجوزوا الصلاۃ في النعلین بحال، وغلطوا فیہ فأصلَحہُ الشرع وکشف عن حقیقتہ من أنہا جائزۃ فیہما، وما زعموہ باطل، ولذا ورد في بعض الروایات: خالفوا الیہود فعلم أن الأمر بالصلاۃ فیہما علی ما في بعض الروایات، إنما ہي لأجل تقریر مُخالفتہم، لا لأنہا مطلوبۃ في نفسہا‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘:  مطلب في أحکام  المساجد، فروع: یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار، ج ۲، ص: ۴۲۹
(۲) أیضًا۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في  النعال‘‘: ج۱، ص: ۵۶، رقم: ۳۸۶۔
(۲) الکشمیری، فیض الباري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الصلاۃ في النعال‘‘: ج ۲، ص:۳۵، شیخ الہند دیوبند۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص338

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: نفل زائد اور مستحب نماز ہوتی ہے اس کا پڑھنا ضروری نہیں ہے، نفل نماز کا حکم یہ ہے کہ پڑھ لیا جائے تو باعث اجر و ثواب ہے، اور ہماری فرض نمازوں میں جو کمی رہ جاتی ہے یہ نفل ہمارے فرض کے ثواب کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہے؛ اس لیے روزانہ کچھ نہ کچھ نوافل پڑھتے رہنا چاہئے اور اُن کا شوق رکھنا چاہئے؛ جیساکہ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: قیامت کے دن بندے سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہوگی، اگر اس نے نماز مکمل طریقے سے ادا کی ہوگی تو نفل نماز علیحدہ لکھی جائے گی، اور اگر مکمل طریقے سے ادا نہ کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ: دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس نفل نمازیں ہیں، تو ان سے فرض کی کمی کو پورا کرو، پھر باقی اعمال کا بھی اسی طرح حساب ہوگا۔
’’عن تمیم الداري، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ صلاتہ، فإن أکملہا کتبت لہ نافلۃ، فإن لم یکن أکملہا، قال اللّٰہ سبحانہ للملائکتہ: انظروا، ہل تجدون لعبدي من تطوع؟ فأکملوا بہا ما ضیع من فریضتہ، ثم تؤخذ الأعمال علی حسب ذلک‘‘(۱)
مذکورہ حدیث میں نوافل کی واضح اہمیت وافضلیت بیان کی گئی ہے اور اس میں دعوت فکر ہے ایسے حضرات کے لیے جو سنن ونوافل کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ رب العزت کا شکر گزار بندہ بنے اور اپنے رب کے حضور فرض نماز کے علاوہ بھی شکرانے کے طور پر زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو جائے اور دنیا و آخرت کی تمام مشکلات اس کے لیے آسان ہو جائیں۔
نیز آپ نے پوچھا ہے کہ نفل نماز میں لمبی رکعتیں اور تلاوت میں دلچسپی کی بنا پر قرآن کریم دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اس سلسلے میں یاد رکھیں کہ آپ تمام فرض، واجب اور نفل نمازوں میں قرآن کریم کا وہی حصہ تلاوت کریں جو آپ کو زبانی یاد ہے۔ مزید سورتیں اور آیات یاد کرنے کی کوشش کریں۔ اگر نوافل میں طویل تلاوت کا دل چاہ رہا ہو تو ہر رکعت میں وہ تمام آیات اور چھوٹی سورتیں تلاوت کر لیں جو آپ کو یاد ہیں۔
اگر آپ قرآن کریم دیکھ کر تلاوت کریں گے تو آپ کی نماز فاسد ہو جائیگی اس لیے کہ فقہائے احناف کے نزدیک نماز میں مصحف (قرآن کریم) سے دیکھ کر تلاوت کرنا، صفحہ پلٹنا اور رکوع و سجود کے لیے مصحف (قرآن کریم) کو ایک طرف رکھنا عملِ کثیر ہے اور عملِ کثیر سے نماز فاسد جاتی ہے۔ جیسا کہ صاحب ہدایہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’إذا قرأ الإمام من المصحف فسدت صلاتہ، عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وقالا: ہي تامۃ، لأنہا عبادۃ انضافت إلی عبادۃ، إلا أنہ یکرہ، لأنہ یشبہ بصنع أہل الکتاب، ولأبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ أن حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الأوراق عمل کثیر، ولأنہ تلقن من المصحف فصار کما إذا تلقن من غیرہ، وعلی ہذا لا فرق بین المحمول والموضوع، وعلی الأول یفترقان‘‘(۱)
خلاصہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک فرائض ونوافل تمام نمازوں میں قرآن سے دیکھ کر قرات کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک کراہت کے ساتھ نماز ہو جاتی ہے، مگر احناف کا فتویٰ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر ہے۔

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’باب ما جاء في أول ما یحاسب بہ‘‘: ج ۱ ، ص: ۱۰۳ رقم: ۱۴۲۶۔)
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا: ج ۱، ص: ۱۳۷-۱۳۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص395

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1614/43-1167

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قصر و اتمام کے سلسلہ میں آخر وقت کا اعتبار ہوگا۔اگر آخر وقت میں سفر شروع کیا تو قصر کرے گا، اور اگر آخر وقت میں مقیم ہوگیا تو اتمام کرے گا۔ اس لئے اگر کوئی مغرب سے قبل اپنے گھر پہونچ گیا اور عصر کا وقت موجود تھا مگر اس نے نماز نہیں پڑھی توچار رکعت  قضا میں پڑھے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے مغرب سے دس منٹ قبل سفر شروع کیا اور فناء شہر سے نکل گیا تو وہ دو رکعت یعنی قصر پڑھے گا، اور اگر قضا ہوگئی تو دو رکعت قضا کرے گا۔

والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت) وهو قدر ما يسع التحريمة (فإن كان) المكلف (في آخره مسافراً وجب ركعتان وإلا فأربع) ؛ لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله۔ (قوله : والمعتبر في تغيير الفرض) أي من قصر إلى إتمام وبالعكس۔ (قوله: وهو) أي آخر الوقت قدر ما يسع التحريمة، كذا في الشرنبلالية والبحر والنهر، والذي في شرح المنية تفسيره بما لا يبقى منه قدر ما يسع التحريمة، وعند زفر بما لا يسع فيه أداء الصلاة، (قوله: وجب ركعتان) أي وإن كان في أوله مقيماً وقوله: وإلا فأربع أي وإن لم يكن في آخره مسافراً بأن كان مقيماً في آخره فالواجب أربع' (شامی 2/131)

'' قال - رحمه الله - : (والمعتبر فيه آخر الوقت) أي المعتبر في وجوب الأربع أو الركعتين آخر الوقت، فإن كان آخر الوقت مسافراً وجب عليه ركعتان، وإن كان مقيماً وجب عليه الأربع ؛ لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء في أول الوقت''۔( تبيين الحقائق 1/215)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1792/43-1525

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  پیدل مسجد جانے میں زیادہ ثواب ہے، احادیث مبارکہ میں مسجد پیدل جانے کی بہت فضیلت آئی ہے، اور مختلف اجروثواب کا وعدہ ہے۔ عبادت کے لئے جس قدر مشقت برداشت کی جائے اسی قدر ثواب میں اضافہ ہوتاہے ۔ مالی مشقت سے جسمانی مشقت کا ثواب زیادہ ہے۔ اس لئے موٹر سائیکل اور کار سے مسجد جانا درست ہے اور قطعا کوئی حرج نہیں ہے، تاہم پیدل جانا زیادہ ثواب کا حامل ہے۔

عن اوس بن اوس الثقفی قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول من غسل یوم الجمعۃ واغتسل ثم بکر وابتکر ومشی ولم یرکب ودنا من الامام فاستمع ولم یبلغ کان لہ بکل خطوۃ عمل سنۃ اجر صیامھا وقیامھا (سنن ابی داؤد ، کتاب الطھارۃ 1/50 نعیمیہ دیوبند)

1

۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : أَلَا أَدُلُّکُمْ عَلَی مَا یَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَایَا وَیَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ قَالُوْا : بَلَی یَا رَسُوْلَ اللهِ۔ قَالَ : إِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ عَلَی الْمَکَارِهِ وَکَثْرَةُ الْخُطَا إِلَی الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَذَلِکُمُ الرِّبَاطُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔

3 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الطهارۃ، باب : فضل إسباغ الوضوء علی المکاره، 1 / 219، الرقم : 251،

4۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنهما قَالَ : خَلَتِ الْبِقَاعُ حَوْلَ الْمَسْجِدِ۔ فَأَرَادَ بَنُوْ سَلِمَةَ أَنْ یَنْتَقِلُوْا إِلَی قُرْبِ الْمَسْجِدِ۔ فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقَالَ لَهُمْ : إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّکُمْ تُرِيْدُوْنَ أَنْ تَنْتَقِلُوْا قُرْبَ الْمَسْجِدِ قَالُوْا : نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَدْ أَرَدْنَا ذَلِکَ۔ فَقَالَ : یَا بَنِي سَلِمَةَ، دِیَارَکُمْ تُکْتَبْ آثَارُکُمْ۔ دِیَارَکُمْ تُکْتَبْ آثَارُکُمْ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔

4 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاۃ، باب : فضل کثرۃ الخطا إلی المساجد، 1 / 462، الرقم : 665،

5۔ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ : کَانَ رَجُلٌ لَا أَعْلَمُ رَجُلًا أَبْعَدَ مِنَ الْمَسْجِدِ مِنْهُ۔ وَکَانَ لَا تُخْطِئُهُ صَلَاةٌ۔ قَالَ : فَقِيْلَ لَهُ أَوْ قُلْتُ لَهُ : لَوِ اشْتَرَيْتَ حِمَارًا تَرْکَبُهُ فِي الظَّلْمَاءِ وَفِي الرَّمْضَاءِ۔ قَالَ : مَا یَسُرُّنِي أَنَّ مَنْزِلِي إِلَی جَنْبِ الْمَسْجِدِ۔ إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ یُکْتَبَ لِي مَمْشَايَ إِلَی الْمَسْجِدِ۔ وَرُجُوْعِي إِذَا رَجَعْتُ إِلَی أَهْلِي۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : قَدْ جَمَعَ اللهُ لَکَ ذَلِکَ کُلَّهُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ۔

5 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاۃ، باب : فضل کثرۃ الخطا إلی المساجد، 1 / 460، الرقم : 663،

6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : ما جاء في فضل العشاء والفجر في الجماعۃ، 1 / 435، الرقم : 223،

 

7۔ عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمَسَيَّبِ قَالَ : حَضَرَ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ الْمَوْتُ فَقَالَ : إِنِّي مُحَدِّثُکُمْ حَدِيْثًا مَا أُحَدِّثُکُمُوْهُ إِلاَّ احْتِسَاباً۔ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ یَقُوْلُ : إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُکُمْ فَأَحْسَنَ الْوُضُوْءَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاةِ لَمْ یَرْفَعْ قَدَمَهُ الْیُمْنَی إِلَّا کَتَبَ اللهُ عزوجل لَهُ حَسَنَةً وَلَمْ یَضَعْ قَدَمَهُ الْیُسْرَی إِلَّا حَطَّ اللهُ عزوجل عَنْهُ سَيِّئَةً، فَلْیُقَرِّبْ أَحَدُکُمْ أَوِ لْیُبَعِّدْ فَإِنْ أَتَی الْمَسْجِدَ فَصَلَّی فِي جَمَاعَةٍ غُفِرَ لَهُ، فَإِنْ أَتَی الْمَسْجِدَ وَقَدْ صَلُّوْا بَعْضًا وَبَقِيَ بَعْضٌ صَلَّی مَا أَدْرَکَ وَأَتَمَّ مَا بَقِيَ، کَانَ کَذَلِکَ، فَإِنْ أَتَی الْمَسْجِدَ وَقَدْ صَلُّوْا فَأَتَمَّ الصَّلَاةَ، کَانَ کَذَلِکَ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَيْهَقِيُّ۔

7 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصلاۃ، باب : ما جاء في الھدی في المشی إلی الصلاۃ، 1 / 154، الرقم : 563،

8۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلْمَشَّائُوْنَ إِلَی الْمَسَاجِدِ فِي الظُّلَمِ، أُوْلَئِکَ الْخَوَّاضُوْنَ فِي رَحْمَةِ اللهِ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه۔

8 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : المساجد والجماعات، باب : المشي إلی الصلاۃ، 1 / 256، الرقم : 779،

9۔ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : أَ لَا أَدُلُّـکُمْ عَلَی مَا یُکَفِّرُ اللهُ بِهِ الْخَطَایَا : إِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ فِي الْمَکَارِهِ، وَأَعْمَالُ الإِقْدَامِ إِلَی الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، یَغْسِلُ الخَطَایَا غَسْلًا۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَبُوْ یَعْلَی وَالْبَزَّارُ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ وَهَذَا لَفْظُهُ۔

9 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الطهارۃ وسنتها، باب : ما جاء في إسباغ الوضوئ، 1 / 148، الرقم : 428،

10۔ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : بَشِّرِ الْمُدْلِجِيْنَ إِلَی الْمَسَاجِدِ فِي الظُّلَمِ بِمَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَفْزَعُ النَّاسُ وَلَا یَفْزَعُوْنَ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

10 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 8 / 142، 293، الرقم : 7633، 8125،

11۔ عَنْ یَحْیَی بْنِ یَحْیَی الْغَسَّانِيِّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَشْیُکَ إِلَی الْمَسْجِدِ، وَرُجُوْعُکَ إِلَی بَيْتِکَ فِي الْأَجْرِ سَوَاءٌ۔

11 : أخرجه ابن المبارک في الزهد : 442، وابن السری في الزهد، 2 / 472، الرقم : 956۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2077/44-2090

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں نماز فاسد ہوگئی، اس لئے نماز دوہرالی جائے۔

"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین". (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)

"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2439/45-3716

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    صورت مسئولہ میں نماز درست ہوگئی،  عید کی نماز میں اگر مقتدیوں کی پریشانی کا اندیشہ ہو تو  سجدہ سہو ضروری نہیں ہے۔غالبا امام صاحب نے اسی وجہ سے سجدہ نہیں کیا، ورنہ واجب کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے، اور واجب کے ترک پر سجدہ سہو لازم ہوتاہے، نیز امام صاحب نے چونکہ رکوع کرلیا، اس لئے جو ان کے ساتھ رکوع میں شریک رہے، ان کی نماز درست ہوگئی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام کی امامت درست ہے مگر یہ عمل منصب امامت کے خلاف ہے ۔ آئندہ پرہیز کریں؛ کیوں کہ کافر کی عیادت اور تعزیت کی تو فقہاء نے اجازت دی ہے مگر ان کی آخری رسومات میں شرکت کو ناجائز کہا ہے اور نہ ہی ان کی مذہبی رسومات میں شریک ہونے کی اجازت دی ہے، البتہ نفسِ شرکت درست ہے، جب کہ مذہبی رسوم میں شرکت نہ ہو۔(۲)

(۲) لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر وصلوا علی کل بر وفاجر الخ، … وقال في مجمع الروایات وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
{وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖط} (سورۃ التوبہ: ۸۴)
والمراد لا نقف عند قبرہ للدفن أو للزیارۃ الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ج ۷، آیت: ۸۴)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص313

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مؤذن کا اگلی صف میں کھڑا ہونا ضروری نہیں ہے اور اگلی صف میںکھڑے ہونے کو لازم سمجھنا بھی درست نہیں اگر اگلی صف میں جگہ نہ ہو اور مؤذن دوسری تیسری، چوتھی صف میں کھڑے ہوکر تکبیر پڑھے تو جائز اور درست ہے اس میںکوئی کراہت نہیں، مؤذن اپنا مصلی بچھا کر جگہ متعین کرے اور پھر اس پر جھگڑا کرے یہ درست نہیں؛ لیکن اگر مؤذن اس جگہ کے لیے جھگڑا نہیں کرتا تو دوسروں کو بھی چاہئے کہ اس کی نشان زدہ جگہ پر اعتراض نہ کریں اس لیے کہ پہلے آکر مسجد میں کسی جگہ رومال وغیرہ رکھ کر نشان زد کرنا درست ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)

(۱) قولہ وتخصیص مکان لنفسہ لأنہ یخلّ بالخشوع کذا في القنیۃ أي لأنہ إذا اعتادہ ثم صلی في غیرہ یبقی بالہ مشغولا بالأوّل بخلاف ما إذا لم یألف مکاناً معیناً، قولہ ولیس لہ الخ … قال في القنیۃ: لہ في المسجد موضع معیّن یواظب علیہ وقد شغلہ غیرہ، قال الأوزاعي: لہ أن یزعجہ ولیس لہ ذلک عندنا، أي لأن المسجد لیس ملکاً لأحد قلت: وینبغي تقییدہ بما إذا لم یقم عنہ علی نیۃ العود بلا مہلۃ کما لوقام للوضوء مثلا ولا سیّما إذا وضع فیہ ثوبہ لتحقق سبق یدہ تأمل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في الغرس في المسجد‘‘: ج۲، ص:۴۳۶)
وعندي في النہي عن توطین الرجل مکاناً معیناً في المسجد وجہ وہو أنہ إذا وطن المکان المعین في المسجد یلازمہ فإذا سبق إلیہ غیرہ یزاحمہ ویدفعہ عنہ وہو لایجوز لقولہ علیہا السلام إلا مني مناخ من سبق فکما ہو حکم منی فہو حکم المسجد فمن سبق إلی موضع منہ فہو أحق بہ فعلی ہذا لو لازم أحد أن یقوم خلف الإمام قریباً منہ لأجل حصول الفضل وسبق إلیہ من القوم أحد لایزاحمہ ولا یدافعہ فلا یدخل في ہذا النہي۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود، ’’کتاب الصلوۃ: باب صلاۃ من لایقبح صلبہ في الرکوع والسجود‘‘: ج۲، ص: ۷۶، رقم: ۸۶۱، مکتبہ میرٹھ)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص427

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں بچھائے جانے والے فوم اور ہٹ لون اگر اتنے سخت ہوں کہ سجدہ کرتے وقت پیشانی اس پر ٹک جاتی ہو اور فوم بلا زور لگائے نہ دبتا ہو جس طرح کی روئی کانیا اور ڈنلپ (dunlop) کا گدا دبتا ہے۔ تو ایسے ہٹ لون یا فوم پر نماز پڑھنافی نفسہ جائز ہے، ہاں اگر فوم اتنا موٹااورنرم ہو کہ بلا زور لگائے دب جاتا ہو تو اس پر سجدہ درست نہیں ہوگا اس صورت میں سجدے کی جگہ پرایسے فوم کو نہ رکھا جائے؛ بلکہ سجدہ کسی گرم چادر وغیرہ پر کرلیا جائے۔
’’من ھنا یعلم الجواز علی الطراحۃ القطن: فإن وجد الحجم جاز وإلا فلا‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۲۰۶۔
یجوز السجود علی الحشیش والتبن والقطن والطنفسۃ إن وجد حجم الأرض وکذا الثلج الملبد فإن کان یغیب فیہ وجہہ ولا یجد الحجم لا۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۳۱۱)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص340

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ فعل اس کا بہت برا ہے اور مجالس شیعہ میں شرکت کرنا فاسقوں کا شیوہ ہے ایسے شخص کو امام نہ بنایا جائے، دوسرا متقی دیندار امام مسجد کے لیے مقرر کیا جائے۔(۱)

(۱) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ لإمامۃ وإذا تعذر منعہ ینقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)…قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن، وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص314