نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2439/45-3716

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    صورت مسئولہ میں نماز درست ہوگئی،  عید کی نماز میں اگر مقتدیوں کی پریشانی کا اندیشہ ہو تو  سجدہ سہو ضروری نہیں ہے۔غالبا امام صاحب نے اسی وجہ سے سجدہ نہیں کیا، ورنہ واجب کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے، اور واجب کے ترک پر سجدہ سہو لازم ہوتاہے، نیز امام صاحب نے چونکہ رکوع کرلیا، اس لئے جو ان کے ساتھ رکوع میں شریک رہے، ان کی نماز درست ہوگئی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام کی امامت درست ہے مگر یہ عمل منصب امامت کے خلاف ہے ۔ آئندہ پرہیز کریں؛ کیوں کہ کافر کی عیادت اور تعزیت کی تو فقہاء نے اجازت دی ہے مگر ان کی آخری رسومات میں شرکت کو ناجائز کہا ہے اور نہ ہی ان کی مذہبی رسومات میں شریک ہونے کی اجازت دی ہے، البتہ نفسِ شرکت درست ہے، جب کہ مذہبی رسوم میں شرکت نہ ہو۔(۲)

(۲) لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بر وفاجر وصلوا علی کل بر وفاجر الخ، … وقال في مجمع الروایات وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
{وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖط} (سورۃ التوبہ: ۸۴)
والمراد لا نقف عند قبرہ للدفن أو للزیارۃ الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ج ۷، آیت: ۸۴)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص313

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مؤذن کا اگلی صف میں کھڑا ہونا ضروری نہیں ہے اور اگلی صف میںکھڑے ہونے کو لازم سمجھنا بھی درست نہیں اگر اگلی صف میں جگہ نہ ہو اور مؤذن دوسری تیسری، چوتھی صف میں کھڑے ہوکر تکبیر پڑھے تو جائز اور درست ہے اس میںکوئی کراہت نہیں، مؤذن اپنا مصلی بچھا کر جگہ متعین کرے اور پھر اس پر جھگڑا کرے یہ درست نہیں؛ لیکن اگر مؤذن اس جگہ کے لیے جھگڑا نہیں کرتا تو دوسروں کو بھی چاہئے کہ اس کی نشان زدہ جگہ پر اعتراض نہ کریں اس لیے کہ پہلے آکر مسجد میں کسی جگہ رومال وغیرہ رکھ کر نشان زد کرنا درست ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)

(۱) قولہ وتخصیص مکان لنفسہ لأنہ یخلّ بالخشوع کذا في القنیۃ أي لأنہ إذا اعتادہ ثم صلی في غیرہ یبقی بالہ مشغولا بالأوّل بخلاف ما إذا لم یألف مکاناً معیناً، قولہ ولیس لہ الخ … قال في القنیۃ: لہ في المسجد موضع معیّن یواظب علیہ وقد شغلہ غیرہ، قال الأوزاعي: لہ أن یزعجہ ولیس لہ ذلک عندنا، أي لأن المسجد لیس ملکاً لأحد قلت: وینبغي تقییدہ بما إذا لم یقم عنہ علی نیۃ العود بلا مہلۃ کما لوقام للوضوء مثلا ولا سیّما إذا وضع فیہ ثوبہ لتحقق سبق یدہ تأمل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في الغرس في المسجد‘‘: ج۲، ص:۴۳۶)
وعندي في النہي عن توطین الرجل مکاناً معیناً في المسجد وجہ وہو أنہ إذا وطن المکان المعین في المسجد یلازمہ فإذا سبق إلیہ غیرہ یزاحمہ ویدفعہ عنہ وہو لایجوز لقولہ علیہا السلام إلا مني مناخ من سبق فکما ہو حکم منی فہو حکم المسجد فمن سبق إلی موضع منہ فہو أحق بہ فعلی ہذا لو لازم أحد أن یقوم خلف الإمام قریباً منہ لأجل حصول الفضل وسبق إلیہ من القوم أحد لایزاحمہ ولا یدافعہ فلا یدخل في ہذا النہي۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود، ’’کتاب الصلوۃ: باب صلاۃ من لایقبح صلبہ في الرکوع والسجود‘‘: ج۲، ص: ۷۶، رقم: ۸۶۱، مکتبہ میرٹھ)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص427

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں بچھائے جانے والے فوم اور ہٹ لون اگر اتنے سخت ہوں کہ سجدہ کرتے وقت پیشانی اس پر ٹک جاتی ہو اور فوم بلا زور لگائے نہ دبتا ہو جس طرح کی روئی کانیا اور ڈنلپ (dunlop) کا گدا دبتا ہے۔ تو ایسے ہٹ لون یا فوم پر نماز پڑھنافی نفسہ جائز ہے، ہاں اگر فوم اتنا موٹااورنرم ہو کہ بلا زور لگائے دب جاتا ہو تو اس پر سجدہ درست نہیں ہوگا اس صورت میں سجدے کی جگہ پرایسے فوم کو نہ رکھا جائے؛ بلکہ سجدہ کسی گرم چادر وغیرہ پر کرلیا جائے۔
’’من ھنا یعلم الجواز علی الطراحۃ القطن: فإن وجد الحجم جاز وإلا فلا‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۲۰۶۔
یجوز السجود علی الحشیش والتبن والقطن والطنفسۃ إن وجد حجم الأرض وکذا الثلج الملبد فإن کان یغیب فیہ وجہہ ولا یجد الحجم لا۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۳۱۱)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص340

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ فعل اس کا بہت برا ہے اور مجالس شیعہ میں شرکت کرنا فاسقوں کا شیوہ ہے ایسے شخص کو امام نہ بنایا جائے، دوسرا متقی دیندار امام مسجد کے لیے مقرر کیا جائے۔(۱)

(۱) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ لإمامۃ وإذا تعذر منعہ ینقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)…قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن، وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص314

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام دروں میں اس طرح کھڑا ہوکہ قدم بھی اندر ہوں تو محراب کی طرح اس میں بھی کراہت ہوگی اور اگر قدم ستونوں سے باہر ہوں تو پھر کراہت نہیں ہوگی یعنی ان کا حکم بھی محراب جیسا ہے کہ قدم (ایڈیاں) کم از کم باہر ہونی چاہئے۔(۱)

(۱) ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب ولایکرہ سجودہ فیہ إذا کان قائماً خارجاً المحراب وإذا ضاق المسجد بمن خلف الإمام فلا بأس بأن یقوم في الطاق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلوۃ وما لایکرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۷، زکریا دیوبند)
وکرہ … قیام الإمام في المحراب لاسجودہ فیہ وقدما خارجۃ لأن العبرۃ للقدم مطلقاً، وقال الشامي، الأصح ماروي عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أنہ قال: أکرہ للإمام أن یقوم بین الساریتین أو في زاویۃ أو ناحیۃ المسجد أو إلی ساریۃ لأنہ بخلاف عمل الأمۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۴، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص428

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ گرمی یا سردی وغیرہ سے بچنے کے لیے قالین اور چٹائی، ایسے ہی ہلکے گدے کا استعمال مساجد میں آج کل عام ہو گیا ہے؛ اس لیے ان پر پڑھی گئی نمازیں درست ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چٹائی پر نمازادا کرنا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اپنے دامن پر سجدہ کرنا صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ امام بخاری نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔ ’’عن میمونۃ ؓ قالت: کان النبيُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یُصَلِّي علی الخُمْرَۃ‘‘(۱)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم میں سے ہر آدمی گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑے کے دامن پر سجدہ کیا کرتا تھا۔
’’کنا نُصلي مع النبيِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فیضعُ أحدُنا طَرَفَ الثوبِ، من شدۃِ الحرِّ، في مکان السجودِ‘‘(۲)
الحاصل: ایسی چٹائی، قالین یا گدا جن پر سجدہ کرنے سے پیشانی کو زمین پر استقرار ہو (زمین پر پیشانی ٹک جائے) اس پر سجدہ کرنے سے نماز ادا ہو جائے گی۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ علی الخمرۃ‘‘:…ج ۱، ص: ۵۵، رقم: ۳۸۱۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب السجود علی الثوب فی شدۃ الحر‘‘: ج ۱، ص: ۵۶، رقم: ۳۸۵۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص341

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 41/1093

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں نماز درست ہے، لیکن اگر فاصلہ دو صفوں کے بقدر یا زائد ہے تو اقتداء درست نہیں ہوگی۔

والمانع فی الصلوۃ فاصل یسع فیہ صفین علی المفتی بہ۔ (مراقی الفلاح  ۲۹۲)

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1527/43-1032

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز شروع کرنے سے قبل نیت کرنا شرائط نماز میں سے ہے۔ اس لئے تشہد پڑھنے کے بعد صرف ایک رکعت وتر کی نیت سے ملانے سے وتر کی تین رکعتیں شمار نہیں ہونگی۔ اگر تشہد پڑھ کر وتر کی نیت کرکے کھڑا ہوا، اور تکبیر تحریمہ کے ساتھ تین رکعت وترکی  پڑھی تو یہ وتر کی نماز درست ہوگئی۔ اور جو نماز تہجد پڑھ رہاتھا جس کا واجب سلام نہیں پھیرا،  اس کی قضاء کرے۔ آپ کی پیش کردہ صورت میں وتر کی ایک ہی  رکعت ہورہی ہے جبکہ وتر کی تین رکعتیں واجب ہیں، اور جو  رکعتیں سنت کی نیت سے پڑھی گئیں وہ وتر میں تبدیل نہیں ہوسکتی ہیں۔ اس لئے وتر دوبارہ ادا کریں۔  یہی حکم دو رکعت ، چار رکعت  اور چھ رکعت کا بھی ہے۔

قوله: ولاتبطل بنية القطع) وكذا بنية الانتقال إلى غيرها ط (قوله: ما لم يكبر بنية مغايرة) بأن يكبر ناوياً النفل بعد شروع الفرض وعكسه، أو الفائتة بعد الوقتية وعكسه، أو الاقتداء بعد الانفراد وعكسه. وأما إذا كبر بنية موافقة كأن نوى الظهر بعد ركعة الظهر من غير تلفظ بالنية فإن النية الأولى لاتبطل ويبني عليها. ولو بنى على الثانية فسدت الصلاة ط (قوله: الصوم) ونحوه الاعتكاف، ولكن الأولى عدم الاشتغال بغير ما هو فيه ( شامی 1/441)

(قوله فيجوز بناء النفل على النفل) تفريع على كون التحريمة شرطا، لكن كونها شرطا يقتضي صحة بناء أي صلاة على تحريمة أي صلاة، كما يجوز بناء أي صلاة على طهارة أي صلاة، وكذا بقية الشروط، لكن منعنا بناء الفرض على غيره، لا لأن التحريمة ركن، بل لأن المطلوب في الفرض تعيينه وتمييزه عن غيره بأخص أوصافه وجميع أفعاله وأن يكون عبادة على حدة، ولو بني على غيره لكان مع ذلك الغير عبادة واحدة كما في بناء النفل على النفل. (شامی، مطلب قد یطلق الفرض علی ما یقابل الرکن 1/442)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ تو ایمان کی کمزوری کی بات ہے؛ بلکہ امام کو جماعت میں اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ اسی کے ذریعہ سے میری نماز باجماعت ادا ہوجاتی ہے۔ اور مقتدیوں کو امام کا مشکور ہونا چاہئے کہ اس کی وجہ سے جماعت کا ثواب مل جاتا ہے۔ امام کا منصب یہ ہے کہ بھلائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے، امام کے اس کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی کسی کو اس پر ناگواری ہونی چاہئے کہ امام روزی سمجھ کر حق لینے سے روک دیا جائے۔(۱)

(۱) قال ابن عباس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحق ما أخذتم علیہ أجراً کتاب اللّٰہ وقال الشعبي لا یشترط المعلم إلا أن یعطي شیئاً فیقلبہ، وقال الحکم: لم أسمع أحداً کرہ أجر المعلم وأعطی الحسن عشرۃ دراہم ولم یر ابن سیرین بأجر القسام بأسا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإجارۃ، باب ما یعطی في الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتاب الخ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۴، نعیمیہ دیوبند)
قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم علماء کم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، وفي روایۃ فلیؤمکم خیارکم۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۱، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص314