نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت اسلامیہ نے نماز کے آداب میں سر کا ڈھانپنا بتلایا ہے جو پاک چیز کے ذریعہ ہونا چاہئے خواہ کپڑا ہو یا کپڑے جیسی کوئی اور چیز ہو، جس سے سر کے ڈھانپنے کا مقصد پورا ہوتا ہو پس مذکورہ ٹوپی جو پلاسٹک کی ہوتی ہے اور ایسے ہی باریک لکڑی کے چھلکے (بیت کی بنی ہوئی ٹوپی) اس سے چوں کہ سر ڈھانپنے کا مقصد پورا ہوجاتا ہے، اس لیے اس کو اوڑھ کر نماز پڑھنا صحیح اور درست ہے، بشرطیکہ پاک بھی ہو؛ البتہ عام طور پر پلاسٹک کی ٹوپیاں اچھی نہیں سمجھی جاتیں، لوگ ایسی ٹوپیاں پہن کر شریف اور معزز لوگوں کی مجلس میں جانا پسند نہیں کرتے اور عام  حالات میں بھی یہ ٹوپیاں نہیں پہنتے، اس لیے ایسی ٹوپیاں پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے۔
’’وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا وإلا لا‘‘(۱)
’’قال في البحر وفسرہا في شرح الوقایۃ بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر والظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ‘‘(۲)
’’ورأي عمر رجلاً فعل ذلک، فقال: أرأیت لو کنت أرسلتک إلی بعض الناس أکنت تمر في ثیابک ہذہ، فقال: لا، فقال عمر: أللّٰہ أحق أن تتزین لہ‘‘(۳)

اور یہ ہی حکم پلاسٹک کی چٹائی کا ہے کہ اس سے بھی مقصد پورا ہوتا ہے؛ لہٰذا اس کا استعمال بھی بلا شبہ جائز اور درست ہے۔

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۷، زکریا۔
(۲) أیضًا:۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۵۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص429

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سجدہ میں اس طرح پیر اٹھانا برا ہے، لیکن اگر سجدے میں پیروں کی انگلیاں تھوڑی دیر کے لیے بھی زمین پر رکھی گئیں، تو سجدہ ادا ہو جائے گا۔(۱)

(۱) ولو سجد ولم یضع قدمیہ علی الأرض لا یجوز ولو وضع إحداہما جاز مع الکراہۃ إن کان بغیر عذر: کذا في شرح منیۃ المصلي لابن أمیر الحاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸، مکتبہ زکریا دیوبند)
وأما وضع القدم علی الأرض في الصلوٰۃ حال السجدۃ ففرض فلو وضع إحداہما دون الأخریٰ تجوز صلاتہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۳۰، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
لأن أصبع واحدۃ منہما یکفی کما ذکرہ بعد، وأفاد أنہ لو لم یضع شیئاً من القدمین لم یصح السجود۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ: بحث الرکوع والسجود ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۵، مکتبہ زکریا دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص342

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو لوگ اصل صف میں ہیں اور مسجد میں جو لوگ پہلے سے صف لگاکر بیٹھے ہوتے ہیں وہی پہلی صف کے ثواب کے مستحق ہیں اور جنہوں نے اس صف سے بھی آگے صف بنالی بعید نہیں کہ اللہ انہیں بھی صف اول کا ثواب دیدیں۔
صف میں جگہ نہ ہونے کے باوجود صف میں گھس کر نماز پڑھنا اور لوگوں کو پریشان کرنا درست نہیں ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) قولہ: وخیر صفوف الرجال أولہا: لأنہ روي في الأخبار أن اللّٰہ تعالٰی إذا أنزل الرحمۃ علی الجماعۃ ینزلہا أولاً علی الإمام، ثم تتجاوز عنہ إلی من بحذائہ في الصف الأول، ثم إلی المیامن، ثم إلی المیاسر، ثم إلی الصف الثاني، وتمامہ في البحر: (تنبیہ) قال في المعراج: الأفضل أن یقف في الصف الآخر إذا خاف إیذاء أحد، قال علیہ الصلاۃ والسلام: من ترک الصف الأول مخافۃ أن یؤذي مسلما أضعف لہ…أجر الصف الأول، وبہ أخذ أبوحنیفۃ ومحمد، وفي کراہۃ ترک الصف الأول مع إمکانہ خلاف۔ أي لو ترکہ مع عدم خوف الإیذاء، وہذا لو قبل الشروع؛ فلو شرعوا وفي الصف الأول فرجۃ لہ خرق الصفوف کما یأتي قریبا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أوأفحش منہا‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص430

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بھول کر سجدہ چھوٹ گیا تھا پھردوسری رکعت میں وہ سجدہ کرلیا اور سجدۂ سہو بھی کیا تو نماز درست ہوگئی۔(۱)

(۱) حتی لونسي سجدۃ من الأولیٰ قضاہا ولو بعد السلام قبل الکلام لکنہ یتشہد ثم یسجد للسہو ثم یتشہد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب: کل شفع من النفل صلاۃ، ج۲، ص: ۱۵۶، زکریا دیوبند)
ومنہا رعایۃ الترتیب في فعل مکروہ فلو ترک سجدۃ من رکعۃ فتذکرہا في أخر الصلوٰۃ سجدہا وسجد للسہو لترک الترتیب فیہ ولیس علیہ إعادۃ ما قبلہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر في سجود السہو، واجبات الصلاۃ أنواع، ومنہا: تعیین القرأۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۶)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص336

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2497/3804

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   (1) سفر وحضر ہر حالت میں فرض نمازوں کوان کے مقررہ اوقات میں پڑھنا ضروری ہے، ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔البتہ ایامِ حج میں نو ذی الحج کو عرفہ میں (ظہر کے وقت میں) ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھنا اور غروب آفتاب کے بعد  مزدلفہ میں پہنچ کر مغرب اورعشاء کی نماز (عشاء کے وقت میں) جمع کرکے پڑھنا حضور ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے، اس کے علاوہ کسی بھی موقع پرجمع بین الصلوتین  ثابت نہیں ہے، اور اگر کسی نے ایک وقت میں دو نمازیں پڑھیں تو نماز بھی درست نہ ہوگی۔ حدیث میں ہے: من جمع بین الصلوتین من غیرعذر فقد اتی بابا من ابواب الکبائر (سنن الترمذی ، باب ما جاء فی الجمع بین الصلوتین فی الحضر 188) ۔ اور جن حدیثوں میں جمع بین الصلاتین کا ذکر ہے ان سے جمع صوری مراد ہے یعنی  اگر سفر میں دونمازوں کو صورتا جمع کیاجائے کہ ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں ، اوراگلی نماز کو اس کے ابتدائی وقت میں ادا کیا جائے تو اس کی اجازت ہے۔ البتہ ایسا کرسکتے ہیں  کہ  ٹرین یا ہوائی جہاز کے سفر میں  بیٹھے بیٹھے نماز اداکریں، اور پھر منزل پر پہونچنے کے بعدان کی  قضا کرلیں ، اور جو نمازیں آپ نے وقت سے پہلے اداکرلی ہیں ان کی بھی قضا کرلیں۔

 (2) حالت احرام میں کسی بھی ایسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے، جس پر خوشبو لگی ہوئی ہو؛ اس لیے ملتزم پر اگر خوشبو لگائی گئی ہو تو احتیاط کرنا چاہئے؛ ورنہ حسب شرائط جزا واجب ہوجائے گی۔ زیادہ خوشبو لگنے کی صورت میں دم لازم آئے گا اور معمولی خوشبو لگنے کی صورت میں دم تو لازم نہیں آئے گا، البتہ صدقہ فطر  (یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت) کے برابر صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

قال اللہ تعالٰی :إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (النساء:103)

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةً قَطُّ إِلَّا لِوَقْتِهَا، إِلَّا أَنَّهُ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِعَرَفَةَ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ».(مصنف عبد الرزاق،باب من نسي صلاة الحضر والجمع بين ۔۔۔ج2ص551)

قال: "ولا يجمع بين صلاتين في وقت إحداهما في حضر ولا في سفر" ما خلا عرفة ومزدلفة۔(المسوط للسرخسي ،كتاب الصلاة،ج1ص272)

والتطیب وان لم یقصدہ (الدر المحتار مع رد المحتار، کتاب الحج، ۳: ۴۹۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

' فإذا استعمل الطيب فإن كان كثيراً فاحشاً ففيه الدم، وإن كان قليلاً ففيه الصدقة ۔ كذا في المحيط. واختلف المشايخ في الحد الفاصل بين القليل والكثير، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكبير، والشيخ الإمام أبو جعفر اعتبر القلة والكثرة في نفس الطيب إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره الناس ككفين من ماء الورد، وكف من الغالية والمسك، بقدر ما استكثره الناس فهو كثير، وما لا فلا۔ (الفتاوى الهندية (1/ 240)
' وقال في المحرم: إذا مس الطيب أو استلم الحجر فأصاب يده خلوق، إن كان ما أصابه كثير فعليه الدم، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، فقالوا: إذا طيب الساق أو الفخذ بكماله يلزمه الدم، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكثير (المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 453)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عموماً جس شخص کو امام مقرر کیا جائے امامت مسجد کے متعلق امور اس کے ذمہ ہوتے ہیں، اس لیے تراویح میں قرآن سنانے کا مستحق بھی وہی ہے الا یہ کہ امام خود ہی اجازت دیدے یا جس وقت امام کو مقرر کیا جائے تبھی وضاحت ہو جائے کہ آپ صرف فرض نمازوں کی امامت کریں گے تراویح کے لیے متولی یا ذمہ دار حضرات جس کو مناسب سمجھیں گے مقرر کریں گے، تو پھر اختیار ہوگا کہ متولی جس کو چاہئے تراویح کے لیے مقرر کردے یا اہل محلہ مقرر کریں پس مسئولہ صورت میں زید کا یہ کہنا کہ میرا قدیمی حق ہے کوئی دلیل جواز نہیں ہے۔(۱)

(۱) دخل المسجد من ہو أولی بالإمامۃ في أہل محلۃ فإمام المحلۃ أولی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص:۱۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص98

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر صورت تو یہ ہے کہ بالغ حضرات جماعت کے وقت سے پہلے مسجد میں پہونچ جائیں اور اگر بالغ حضرات کو تاخیر ہوجائے اور جماعت کھڑی ہوجائے اور نابالغ بچے آگے صف میں کھڑے ہوگئے ہوں تو بعد میں آنے والے بچوں کو پیچھے کی صف میں کردیں اور خود آگے والی صف میں کھڑے ہوجائیں۔(۲)

(۲) قولہ ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لیلیني منکم أولو الأحلام والنہي … ویقتضی أیضا أن الصبي الواحد لا یکون منفردا عن صف الرجال بل یدخل في صفہم وأن محل ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال وجمع من الصبیان فحینئذ تؤخر الصبیان۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۷۴)
قال الرحمتي ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض وربما تعدی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال۔ (تقریرات الرافعي: ج۱، ص: ۷۳)
 ثم الترتیب بین الرجال والصبیان سنۃ، لا فرض۔ ہو الصحیح، (غنیۃ المستملي: ص: ۴۸۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص431

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صحیح قول یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ فرض ہے۔ شامی میں ہے:
’’وفي الخزانۃ أنہا فرض ولیست برکن أصلي بل ہي شرط للتحلیل وجزم بأنہا فرض‘‘(۲)

(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القعود الأخیر‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۶۔
اختلف في القعدۃ الأخیرۃ قال بعضہم: ہي رکن أصلي۔ وفي کشف البزدوي  أنہا واجبۃ لا فرض، لکن الواجب ہنا في قوۃ الفرض في العمل کالوتر۔ وفي الخزانۃ أنہا فرض ولیست برکن أصلي بل ہي شرط للتحلیل وجزم بأنہا فرض في الفتح والتبیین۔ وفي الینابیع أنہ الصحیح، وأشار إلی الفرضیۃ الإمام المحبوبي في مناسک الجامع الصغیر ولذلک من حلف لا یصلي یحنث بالرفع من السجود دون توقف علی القعدۃ، فہي فرض لا رکن  إذ الرکن ہو الداخل في الماہیۃ۔ وماہیۃ الصلاۃ تتم بدون القعدۃ۔ (أیضًا)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص343

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 978 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: عورتوں کے لئے  چہرہ ، ہتھیلی اور پاؤں کے علاوہ پورا جسم ستر ہے، اور پورے ستر کا پردہ لازم ہے۔   واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1683/43-1325

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز پڑھنے کے لئے جگہ کا پاک ہونا شرط ہے، اور اس سے مراد وہ جگہ ہے، جہاں نمازی کے دونوں پاؤں رہتے ہیں ، اور سجدے کی حالت میں جہاں دونوں گھٹنے، دونوں ہاتھ، پیشانی اور ناک رکھی جاتی ہو۔ اس لئے پنڈلی کے نیچے کی جگہ جس سے پنڈلی مس نہیں ہوتی ہے، اس کا ناپاک رہنا مضر نہیں، نماز درست ہوجائے گی۔

يشترط طهارة "موضع القدمين۔۔۔۔و "منها طهارة موضع "اليدين والركبتين" على الصحيح لافتراض السجود على سبعة أعظم۔۔۔"و" منها طهارة موضع "الجبهة على الأصح" من الروايتين عن أبي حنيفة وهو قولهم رحمهم الله ليتحقق السجود عليها لأن الفرض وإن كان يتأدى بمقدار الأرنبة على القول المرجوح يصير الوضع معدوما حكما بوجوده على النجس ولو أعاده على طاهر في ظاهر الرواية ولا يمنع نجاسة في محل أنفه مع طهارة باقي المحال بالاتفاق لأن الأنف أقل من الدرهم ويصير كأنه اقتصر على الجبهة مع الكراهة (مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی: ج: 1، ص: 210، ط: دار الکتب العلمیۃ)

وإن كانت النجاسة تحت قدمي المصلي منع الصلاة. كذا في الوجيز للكردي ولا يفترق الحال بين أن يكون جميع موضع القدمين نجسا وبين أن يكون موضع الأصابع نجسا وإذا كان موضع إحدى القدمين طاهرا وموضع الأخرى نجسا فوضع قدميه اختلف المشايخ فيه الأصح أنه لا تجوز صلاته فإن وضع إحدى القدمين التي موضعها طاهر ورفع القدم الأخرى التي موضعها نجس وصلى فإن صلاته جائزة. كذا في المحيط۔ --- وإن كانت النجاسة تحت يديه أو ركبتيه في حالة السجود لم تفسد صلاته في ظاهر الرواية واختار أبو الليث أنها تفسد وصححه في العيون. كذا في السراج الوهاج. (الھندیۃ، الفصل الثانی فی طھارۃ مایستر بہ العورۃ 1/61)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند