Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: سوال میں جو حالات لکھے ہیں ان کے پیش نظر امام موصوف نے اگر مذکورہ عمل کیا تو کوئی غلطی یا شرعی جرم نہیں کیا نکتہ چینی کرنے والے یا امام سے مذکورہ وجہ کی بناء پر معافی کا مطالبہ کرنے والے غلطی پر ہیں امام واجب التعظیم ہے۔ مذکورہ مطالبہ امام کی حرمت اور عزت کے منافی اور غیر شرعی ہے جو موجب گناہ ہے۔ امام مذکور کے پیچھے نماز پڑھنی بلاشبہ جائز اور درست ہے۔(۱)
(۱) ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ فیکرہ لہ ذلک تحریما؛ لحدیث أبي داؤد: لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون،(وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم، (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص97
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں باہمی مشورے سے جو امام صاحب کا تقرر کیا گیا ہے وہ بالکل صحیح اور درست کیا ہے مرحوم امام صاحب کے کسی وارث کے لیے اس میں دخل دینا اور اپنے تقرر پر اصرار کرنا یا اپنا کوئی حق سمجھنا جائز نہیں ہے اہل محلہ پر ان کا تقرر ضروری نہیں ہے امامت کے لیے جو زیادہ مفید اور لائق ہو اسی کو امام بنانا چاہئے اس لیے بشرط صحت سوال نئے امام کا جو تقرر کیا گیا ہے وہ درست ہے۔(۱)
(۱) ولایۃ الأذان والإقامۃ لباني المسجد مطلقًا وکذا الإمامۃ لوعدلا، مطلقًا أي عدلا أولا، وفي الأشباہ ولد الباني وعشیرتہ أولٰی من غیرہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب ہل باشر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الأذان بنفسہ‘‘: ج۲، ص: ۷۱، دارالفکر)
الأولٰی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا فيالمضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۲، دارالفکر)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص311
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں دونوں صورتیں درست ہیں، امام بھی آگے بڑھ سکتاہے اور مقتدی بھی پیچھے ہوسکتے ہیں، ایسے مقامات میں عام طورپر ایسا کرسکتے ہیں کہ مقتدی کو آہستہ سے کھینچ کر پیچھے کردیا جائے شرط یہ ہے کہ مقتدی کی نماز کے فساد کا اندیشہ نہ ہو۔(۲)
(۲) إذا اقتدی بإمام فجاء آخر یتقدم الإمام موضع سجودہ کذا في مختارات النوازل۔…وفي القہستاني عن الجلابي أن المقتدي یتأخر عن الیمین إلی خلف إذا جاء آخر۔اہـ وفي الفتح: ولو اقتدی واحد بآخر فجاء ثالث یجذب المقتدي بعد التکبیر ولو جذبہ قبل التکبیر لا یضرہ، وقیل یتقدم الإمام اہـ۔ ومقتضاہ أن الثالث یقتدي متأخرا ومقتضی القول بتقدم الإمام أنہ یقوم بجنب المقتدي الأول۔ والذي یظہر أنہ ینبغي للمقتدي التأخر إذا جاء ثالث فإن تأخر وإلا جذبہ الثالث إن لم یخش إفساد صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص423
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: راجح قول کے موافق چوں کہ دونوں سجدے نماز کے فرض ہیں اس لیے ایک سجدہ فرض چھوٹ گیا اور فرض کے چھوٹ جانے سے نماز کا اعادہ فرض ہوتا ہے پس سجدہ سہو اس کے لیے ناکافی ہے اور اعادہ اس نماز کا فرض ہے۔(۲)
(۲) ومنہا السجود والسجود الثاني فرض کالأول بإجماع الأمۃ کذا في الزاہدي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷، زکریا)
وتکرارہ تعبد أي تکرار السجود أمر تعبدي أي لم یعقل معناہ علی قول أکثر المشایخ تحقیقاً للابتلاء وقیل ثني ترغیما للشیطان حیث لم یسجد مرۃ فنحن نسجد مرتین۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث الرکوع والسجود‘‘: ج۲، ص: ۱۳۵)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص336
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز استسقاء کا طریقہ یہ ہے کہ لوگ کسی میدان یا عیدگاہ میں جمع ہو جائیں، لباس معمولی ہو، نئے کپڑے بدل کر نہ جائیں، کسی غیر مسلم کو ساتھ نہ لیں، بوڑھے جوان سب ہی جمع ہوں، جمع ہونے سے قبل جس کے ذمہ قرض یا حقوق کسی کے ہوں ان کی ادائیگی کی حتی الامکان کوشش کریں، جمع ہو کر دو رکعت نماز بغیر اذان اور اقامت کے جماعت سے پڑھیں، امام دونوں رکعتوں میں قرأت جہری کرے، نماز کے بعد امام دو خطبے پڑھے جس طرح عید کے دن دو خطبے پڑھے جاتے ہیں اس کے بعد امام قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ سے پانی برسنے کی دعاء کرے اور استغفار کریں اور سب نمازی بھی انتہائی خشوع وخضوع اور گریہ وزاری کے ساتھ دعا کریں، تین روز تک ایسا ہی کریں(۱) امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ امام پہلا خطبہ پڑھ کر چادر کو بھی پلٹے، یعنی داہنا رخ بائیں جانب نیچے کا اوپر اور اوپر کا نیچے کرلے۔ فتویٰ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے ہی قول پر ہے۔(۲)
(۱) باب الاستسقاء۔ ہو دعاء واستغفار لأنہ السبب لإرسال الأمطار بلا جماعۃ مسنونۃ، بل ہي جائزۃ و بلا خطبۃ وقالا: تفعل کالعید، وہل یکبر للزوائد؟ خلاف و بلا قلب رداء خلافاً لمحمد و بلا حضور ذمي وإن کان الراجح أن دعاء الکافر قد یستجاب استدراجاً، وأما قولہ تعالیٰ {وما دعاء الکافرین إلا في ضلال} (سورۃ الغافر: ۵۰) ففي الآخرۃ۔ شروح۔ مجمع۔ وإن صلوا فرادی جاز … ویخرجون ثلاثۃ أیام متتابعات مشاۃ في ثیاب غسیلۃ أو مرقعۃ متذللین متواضعین خاشعین للّٰہ ناکسین رؤوسہم، ویقدمون الصدقۃ في کل یوم قبل خروجہم، ویجددون التوبۃ، ویستغفرون للمسلمین، ویستسقون بالضعفۃ والشیوخ۔ (الحصکفي: الدرالمختار مع رد المحتار’’کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء‘‘: ج ۳، ص: ۷۰- ۷۲، زکریا دیوبند)
(۲) واختار القدوري قول محمد، لأنہ علیہ الصلاۃ والسلام فعل ذلک نہر۔ وعلیہ الفتوی کما في شرح درر البحار۔ قال في النہر: وأما القوم فلا یقلبون أردیتہم عند کافۃ العلماء، خلافاً لمالک۔ (الحصکفي: رد المحتار مع الدرالمختار ’’کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء‘‘: ج ۳، ص: ۷۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص392
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1003
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں آیت کریمہ مذکورہ کے چھوڑنے کی وجہ سے معنی میں ایسا تغیر پیداہوگیا جس سے سورت کا مقصد ہی فوت ہوگیا، اس لئے نماز فاسد ہوگئی۔ نماز کااعادہ لازم ہے۔ ولوزاد کلمۃ او نقص کلمۃ او نقص حرفا او قدمہ او بدلہ بآخر۔۔۔۔ لم تفسد مالم یتغیرالمعنی (شامی ج1 ص633)
جس نماز میں ایسا ہوا ہے اسی نماز میں احتیاطا تین دن اعلان کردیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو معلوم ہوجائے اور وہ اعادہ کرلیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1069/41-229
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ جمعہ کے صحیح ہونے کے لئے شہر، قصبہ یا قریہ کبیرہ کا ہونا ضروری ہے۔ چھوٹے گاؤں میں جمعہ کی نماز درست نہیں ہے۔ بڑے گاؤں کی تشریح میں علماء نے قریب تین ہزار کی آبادی کی بات لکھی ہے۔ آپ نے گاؤ ں کے جو احوال لکھے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چھوٹا گاؤں ہے جس میں جمعہ درست نہیں ہے ۔
بہتر ہوگا کہ کسی قریبی مستند ادارے کے دو مفتیان کرام سے گاؤں کا معائنہ کرادیا جائے ؛ معائنہ کے بعد وہ حضرات جو فرمائیں اسی پر عمل کرلیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ امانت علی قاسمی
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1402/42-817
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مقتدی نے امام کو قیام کی حالت میں پایا اور امام قرات نہیں کررہاہے تو مقتدی ثنا پڑھ کرامام کے پیچھے خاموش کھڑا رہے۔ اور امام کے ساتھ نماز پڑھتارہے۔ پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی چھوٹی رکعت ادا کرنے کے لئے کھڑا ہو تو تعوذ وتسمیہ اور قرات سے شروع کرے، اور ثنا نہ پڑھے۔
(منها) أنه إذا أدرك الإمام في القراءة في الركعة التي يجهر فيها لا يأتي بالثناء. (الفتاوی الھندیۃ، الفصل السابع فی المسبوق واللاحق 1/90)
فقلنا: بأن المسبوق يأتي بالثناء متى دخل مع الإمام في الصلاة حتى يقع الثناء في محله وهو ما قبل أداء الأركان، واعتبرنا الحكم فيما أدرك، وفيما يقضي في حق القراءة، فجعلنا ما أدرك صلاته وما يقضي أول صلاته، فتجب القراءة عليه، فيما يقضي؛ لأن القراءة ركن لا تجوز الصلاة بدونها (المحیط البرھانی فی الفقہ النعمانی، الفصل الثالث والثلاثون فی حکم، 2/209)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس سلسلہ میں مسجد کی کمیٹی کو ضابطہ بنا لینا ضروری ہے ضابطہ بناتے وقت مسجد کی آمد اور اس کے اخراجات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے مثلاً حج فرض کے لیے رخصت ملے گی حج نفل کے لیے رخصت کی صورت میں تنخواہ وضع ہوگی یا کسی صورت کا بہر صورت مناسب متبادل نظم کرنا ضروری ہوگا پھر اسی ضابطہ کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے۔(۱)
(۱) نقل في القنیۃ عن بعض الکتب أنہ ینبغي أن یسترد من الإمام حصۃ مالم یؤم فیہ، قال ط: قلت: وہو الأقرب لغرض الواقف۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب اشتری بمال الوقف، داراللوقف یجوز‘‘: ج۶، ص: ۶۲۹، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص312
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو بچے بہت زیادہ چھوٹے ہوں اور ان کو بالکل شعور نہ ہو ماں باپ سے علیحدہ نہ رہ سکتے ہوں، پیشاب وغیرہ کا خیال نہ رکھنے ہوں اتنے چھوٹے بچوں کو مسجد لانا درست نہیں ہے۔ حدیث میں اس قدر چھوٹے بچوں کو لانے سے منع کیا گیا ہے۔
’’إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: جنبوا مساجدکم صبیانکم، ومجانینکم، وشرائکم، وبیعکم، وخصوماتکم، ورفع أصواتکم، وإقامۃ حدودکم، وسل سیوفکم، واتخذوا علی أبوابہا المطاہر، وجمروہا في الجمع‘‘(۱)
جو بچے شعور و ادراک رکھتے ہیں اور تنہا اسکول یا مدرسہ پڑھنے جاتے ہیں ایسے بچوں کو مسجد میں لانا درست ہے تاکہ وہ مسجد کے ماحول سے مانوس ہوں اور ابتداء سے ہی نماز کی عادت بن جائے یہی وجہ ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے سات سال کی عمر کے بچوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی تعلیم دینے کا حکم دیا ہے؛ اس لیے ایسے بچوں کو مسجد میں لانا بچوں کو مسجد کے ماحول سے مانوس کرنے کے لیے بہتر قدم ہے۔ اب دوسرا مسئلہ ہے کہ بچے نماز کی صفوں میں کہاں کھڑے ہوں گے اس سلسلے میں حکم یہ ہے کہ اگر صرف ایک بچہ ہے تو وہ مرد حضرات کے ساتھ صفوں میں کھڑا ہوگا اور اگر بچے متعدد ہوں تو بچوں کی صف مرد حضرات کی صف سے پیچھے لگائی جائے گی۔
’’(قولہ: و یصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء)؛ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لیلیني منکم أولو الأحلام والنہي … و لم أر صریحًا حکم ما إذا صلی ومعہ رجل و صبيّ، و إن کان داخلاً تحت قولہ: ’’و الإثنان خلفہ‘‘ و ظاہر حدیث أنس أنہ یسوی بین الرجل و الصبي و یکونان خلفہ؛ فإنہ قال: فصففت أنا و الیتیم ورائہ، و العجوز من ورائنا، و یقتضی أیضًا أن الصبيّ الواحد لایکون منفردًا عن صف الرجال بل یدخل في صفہم، وأن محلّ ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال و جمع من الصبیان فحینئذ تؤخر الصبیان‘‘(۱)
’’عن أنس بن مالک أن جدتہ ملیکۃ دعت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لطعام صنعتہ لہ فأکل منہ ثم قال قوموا فلأصل لکم قال أنس: فقمت إلی حصیر لنا قد اسود من طول ما لبس فنضحتہ بماء فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصففت والیتیم ورائہ والعجوز من ورائنا فصلی لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رکعتین ثم انصرف‘‘(۲)
لیکن اگر بچے شرارتی ہوں اور اندیشہ ہے کہ بچوں کو علا حدہ صف میں کھڑا کرنے کی صورت میں بچے شرارت اورشور کریں گے جس کی وجہ سے بڑوں کی نمازوں میں بھی خلل واقع ہوگا، تو ایسی صورت میں بچوں کے لیے علا حدہ صف لگانے کے بجائے مردوں کی صف میں ہی کھڑا کیا جائے تاکہ بچوں کی شرارت سے دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل واقع نہ ہو۔ مختلف حضرات فقہا نے اس کی صراحت کی ہے کہ شرارت کرنے کی صورت میں بچوں کے لیے علیحدہ صف نہ لگائی جائے؛ بلکہ ان کو اپنی صفوں میں کھڑا کیا جائے۔
’’(قولہ: ذکرہ في البحر بحثًا) قال الرحمتي: ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال، لأنّ المعہود منہم إذا اجتمع صبیّان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض و ربما تعدّی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال، انتہی‘‘(۱)
اگر نابالغ بچے ایک سے زائد ہوں تو ان کی صف مردوں کی صف کے پیچھے ہونی چاہیے یہ حکم بطور استحباب یا بطور سنت ہے بطور وجوب نہیں ہے۔(۲)
عید وغیرہ کے موقع پر جہاں ازدحام زیادہ ہو وہاں پر مردوں کی صف میں بچوں کو کھڑا کر سکتے ہیں بچوں کو پیچھے کرنا ضروری نہیں ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ بچے اگر بڑوں کی صف میں ہوں گے تو بڑوں کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی یہ غلط تصور ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہاں درمیان صف میں کھڑا کرنے میں ممکن ہے کہ بچے کے شرارت کریں اور ادھر ادھر حرکت کرنے کی وجہ سے ساتھ میں پڑھنے والے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہو؛ اس لیے بہتر ہے کہ ایسے بچوں کو مردوں کی صف میں ہی کنارے میں کھڑا کیا جائے۔
(۱) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب المساجد والجماعات، باب مایکرہ في المساجد‘‘: ج۱ ، ص: ۵۴، رقم: ۷۵۰۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۴۱۶۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلوۃ علی الحصیر‘‘: ج۱، ص:۵۵، رقم: ۳۸۰۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۷۱۔
(۲) ’’ثم الترتیب بین الرجال و الصبیان سنۃ لا فرض ہو الصحیح‘‘۔ (إبراہیم بن محمد الحلبي، غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلي: ص: ۴۸۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص424