نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2498/45-3819

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر بچہ نے جائے نماز پر ایسی جگہ پیشاب کیا جہاں نمازی کے اعضاء سجدہ میں پڑتے ہیں تو اگر ممکن ہو تو نماز میں ہی تلویث سے بچتے ہوئے  دائیں بائیں ہٹ کر نماز پوری کرلے، اس کو دوہرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اور اگر دائیں یا بائیں جگہ نہ ہو یا بچہ نے نمازی کے اوپر پیشاب کردیا تو ایسی صورت میں ایک طرف سلام پھیر کر نماز  سے نکل جائے اور پاک ہوکر یا دوسری جائے نماز پر نماز ادا کرے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2688/45-4152

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز میں خشوع وخضوع کے لئے مستحب ہے کہ قیام کی حالت میں نظر سجدہ کی جگہ پر ہو، حالت رکوع میں قدموں پر سجدہ میں نگاہ ناک پر رہے اور قعدہ کی حالت میں اپنی گود پر نظر رہے، اکر کوئی شخص بیت اللہ کے سامنے نماز پڑھ رہا ہے تو اس کو بھی مذکورہ آداب کا خیال رکھنا چاہئے، اس لئے سوال میں مذکور صورت کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، بلکہ بوقت تحریمہ نظر سجدہ کی جگہ رکھنا ہی مستحب ہے۔

’’ومنہا نظر المصل سواء کان رجلا أو امرأۃ لی موضع سجودہ قائما حفظا لہ عن النظر الی ما یشغلہ عن الخشوع ونظرہ الی ظاہر القدم راکعا والی أرنبۃ أنفر ساجدا والی حجرہ جالسا ملاحظا، وفی الطحطاوی تحتہ ویفعل ہذا ولو کان مشاہدا للکعبۃ علی المذہب‘‘ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقی الفلاح: ص: ٢٧٦)

نظرہ الی موضع سجودہ حال قیامہ والی ظہر قدمیہ حال رکوع والی أرینۃ انفہ حال سجودہ والی حجرہ حال قعودہ والی منکبہ الأیمن والأسیر منہ التسلمیۃ الأول والثانیۃ لتحصیل الخشوع‘‘ (رد المحتار: ج ١، ص: ٤٧٧)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جو شخص امامت کر رہا ہے، جمعہ کی نماز پڑھاتا ہے، بچوں کو تعلیم دیتا ہے، وہی عیدین کی نماز پڑھانے کا مستحق ہے، اختلاف کرنا ہر گز جائز نہیں اور بغیر وجہ شرعی کسی کام سے (شرعی کاموں سے) کسی کو علیحدہ کرنا جائز اور درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) اعلم أن صاحب البیت ومثلہ إمام المسجد الراتب أولی بالإمامۃ من غیرہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۷)
دخل المسجد من ہو أولی بالإمامۃ من إمام المحلۃ، فإمام المحلۃ أولی، کذا في القنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس فيالإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص99

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسنون و متواتر طریقہ یہ ہے کہ امام مقتدیوں کی صف کے درمیانی حصہ کے سامنے ہو اس کے لیے کتابوں میں وسط کا لفظ آتا ہے یعنی اگلی صف میں کھڑے ہونے والے تقریباً آدھے لوگ امام کے دائیں اور آدھے بائیں جانب ہوں حتی الامکان اس کی رعایت کی جانی چاہئے امام کے مصلی کے قریب ہی منبر بنا لیا جائے۔ صورت مذکورہ میں نمازیں درست ہوں گی، تاہم اس بات کی کوشش کریں کہ جنوب کی سمت میں بھی توسیع ہو جائے یا پھر محراب کو وسط مسجد میں بنائیں۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وسطوا الإمام وسدوا الخلل۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب مقام الإمام من الصف‘‘: ج۱، ص: ۹۹، رقم: ۶۸۱)
السنۃ أن یقوم فی المحراب لیعتدل الطرفان، ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ، إلی قولہ: قال علیہ الصلاۃ والسلام: توسطوا الإمام وسدوا الخلل۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
وینبغي للإمام أن یقف بإزاء الوسط فإن وقف في میمنۃ الوسط أو في میسرتہ فقد أساء لمخالفۃ السنۃ، ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص432

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں جو اذان دی جاتی ہے وہ اذان کافی ہے، گھر میں اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے صرف اقامت کہہ کر نماز پڑھی جائے۔ اگر چند افراد ہوں تو امام آگے کھڑا ہو اور باقی افراد پیچھے کھڑے ہوں جس طرح مسجد میں نماز ہوتی ہے، اور اگرامام اور ایک مقتدی ہو تو مقتدی امام کے دائیں طرف امام کے ساتھ کھڑا ہو، تھوڑا سا امام سے پیچھے رہے تاکہ بے خیالی میں کہیں امام سے آگے نہ بڑھ جائے۔ گھر میں نماز کی صورت میں خواتین بھی شریک ہوسکتی ہیں اور خواتین کی صف بالکل اخیر میں ہوگی، اگر گھر میں نماز پڑھنے والے صرف میاں بیوی ہوں تو بیوی امام کے مصلی کے پیچھے کھڑی ہوگی۔ اگر ایک مرد اور ایک عورت ہو، تو مرد امام کے ساتھ امام کے بغل میں کھڑا ہو اور عورت امام کے پیچھے کھڑی ہو۔
’’وشمل حالۃ السفر والحضر والانفراد والجماعۃ۔ قال في مواہب الرحمن ونور الإیضاح ولو منفردا أداء أو قضاء سفرا أو حضرا؛ لکن لا یکرہ ترکہ لمصل في بیتہ في المصر؛ لأن أذان الحي یکفیہ کما سیأتي۔ وفي الإمداد أنہ یأتي بہ ندبا وسیأتي تمامہ‘‘(۱)
’’(ویقف الواحد) ولو صبیا، أما الواحدۃ فتتأخر (محاذیا) أي مساویا (لیمین إمامہ) علی المذہب، ولا عبرۃ بالرأس بل بالقدم، فلو صغیرا فالأصح ما لم یتقدم أکثر قدم المؤتم لا تفسد، فلو وقف عن یسارہ کرہ (اتفاقا وکذا) یکرہ (خلفہ علی الأصح) لمخالفۃ السنۃ (والزائد) یقف (خلفہ) فلو توسط اثنین کرہ تنزیہا وتحریما لو أکثر، ولو قام واحد بجنب الإمام وخلفہ صف کرہ إجماعًا‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإسائۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹، زکریا دیوبند۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص344

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1283/42-622

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر دل کی  نیت میں  عشاء کی نمازہے اور غلطی سے  زبان سے  مغرب کا لفظ نکل گیا تو عشاء کی نماز  ادا ہوگئی، لیکن اگر جلدی میں  نیت کی تعیین نہیں کرسکا اور زبان سے مغرب  بول دیا تو نماز نہیں ہوگی۔ دوبارہ نماز پڑھنی ہوگی۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں بشرط صحت سوال امام معین کے ہوتے ہوئے اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو امامت کرانا شرعاً درست نہیں(۱) اگر امام معین میں کوئی نقص نہ ہو تو صرف اپنے ذاتی اختلاف کی بنا پر اس کی امامت پر اعتراض کرنا یا اس کی اقتدا نہ کرنا بھی شرعاً درست نہیں اپنے ذاتی اختلاف کو ذات تک ہی محدود رکھا جائے(۲) امام کی عظمت اور اس کا احترام لازم اور ضروری ہے۔ امام اس شخص کو بنایا جائے جو قرآن کریم صحیح اور مخارج کی ادائیگی کے ساتھ پڑھتا ہو۔ ک کو ق اور زبر کو پیش پڑھنے سے معانی، مطالب بدل جاتے ہیں جو شخص معذور نہ ہو تخلیقی طور پر اس کی زبان میں کمی نہ ہو؛ بلکہ قلت مشق کی بنا پر ایسی غلطی کرے ایسے شخص کی امامت شرعاً درست نہیں، اس لیے کہ نماز کے فاسد ہو جانے کا خوف رہتا ہے مثلاً اگر {قل أعوذ برب الناس} کو {کل أعوذ برب الناس} پڑھا، تو معنی میں بڑا فرق ہوکر نماز فاسد ہوجائے گی؛ لہٰذا ایسے لوگ امامت نہ کریں اور صحیح قرآن پڑھنے والے کی اقتدا کریں۔(۳)

(۱) اعلم أن صاحب البیت ومثلہ إمام المسجد الراتب أولٰی بالإمامۃ من غیرہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
(۲) وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (أیضاً: ج۲، ص: ۲۹۸)
(۳) معنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (أیضًا: ص: ۲۹۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص100

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام صاحب صف اول میں کھڑے ہوں تو بھی درست ہے اور یہ ہی مناسب ہے اگر نمازی زیادہ ہوں اور جگہ کی تنگی ہو تو محراب میں کھڑے ہوکر نماز پڑھائے اور پہلی صف میں نمازی کم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔(۲)

(۲) فلو قاموا علی الرفوف والإمام علی الأرض أو في المحراب لضیق المکان…لم یکرہ لو کان معہ بعض القوم في الأصح … (قولہ کجمعۃ وعید) مثال للعذر، وہو علی تقدیر مضاف: أي کزحمۃ جمعۃ وعید (قولہ فلو قاموا إلخ) تفریع علی عدم الکراہۃ عند العذر فی جمعۃ وعید، قال فی المعراج: وذکر شیخ الإسلام إنما یکرہ ہذا إذا لم یکن من عذر، أما إذا کان فلا یکرہ کما في الجمعۃ إذا کان القوم علی الرف، وبعضہم علی الأرض لضیق المکان۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص433

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زید کی فرض نماز پہلے ادا ہوگئی تھی دو بارہ جو نماز پڑھی وہ نفلی ہوئی اس کے پیچھے لوگوں کی فرض نماز ادا نہیں ہوئی۔(۱)

(۱) ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرضاً آخر لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۵)
ولا اقتداء المفترض بالمتنفل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص346

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت کے لیے مقدم اور زیادہ حقدار وہ ہے جو قرآن کریم، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورنماز کے مسائل سے زیادہ واقفیت رکھتا ہو، قرآن کریم تجوید کے ساتھ اچھے انداز پر پڑھتا ہو اور تقویٰ وطہارت کا زیادہ پابند ہو؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں جو عالم ایسا ہو کہ اس میں مذکورہ اوصاف زیادہ بہتر انداز میں پائے جاتے ہوں وہ امامت کا زیادہ حقدار ہے۔(۱)

(۱) الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحر الرائق ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ماتقوم بہ سنۃ القراء ۃ ہکذا في التبیین ولم یطعن في دینہ ہکذا في الکفایۃ وہکذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص101