Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عموماً جس شخص کو امام مقرر کیا جائے امامت مسجد کے متعلق امور اس کے ذمہ ہوتے ہیں، اس لیے تراویح میں قرآن سنانے کا مستحق بھی وہی ہے الا یہ کہ امام خود ہی اجازت دیدے یا جس وقت امام کو مقرر کیا جائے تبھی وضاحت ہو جائے کہ آپ صرف فرض نمازوں کی امامت کریں گے تراویح کے لیے متولی یا ذمہ دار حضرات جس کو مناسب سمجھیں گے مقرر کریں گے، تو پھر اختیار ہوگا کہ متولی جس کو چاہئے تراویح کے لیے مقرر کردے یا اہل محلہ مقرر کریں پس مسئولہ صورت میں زید کا یہ کہنا کہ میرا قدیمی حق ہے کوئی دلیل جواز نہیں ہے۔(۱)
(۱) دخل المسجد من ہو أولی بالإمامۃ في أہل محلۃ فإمام المحلۃ أولی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص:۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص98
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر صورت تو یہ ہے کہ بالغ حضرات جماعت کے وقت سے پہلے مسجد میں پہونچ جائیں اور اگر بالغ حضرات کو تاخیر ہوجائے اور جماعت کھڑی ہوجائے اور نابالغ بچے آگے صف میں کھڑے ہوگئے ہوں تو بعد میں آنے والے بچوں کو پیچھے کی صف میں کردیں اور خود آگے والی صف میں کھڑے ہوجائیں۔(۲)
(۲) قولہ ویصف الرجال ثم الصبیان ثم النساء لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لیلیني منکم أولو الأحلام والنہي … ویقتضی أیضا أن الصبي الواحد لا یکون منفردا عن صف الرجال بل یدخل في صفہم وأن محل ہذا الترتیب إنما ہو عند حضور جمع من الرجال وجمع من الصبیان فحینئذ تؤخر الصبیان۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۷۴)
قال الرحمتي ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض وربما تعدی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال۔ (تقریرات الرافعي: ج۱، ص: ۷۳)
ثم الترتیب بین الرجال والصبیان سنۃ، لا فرض۔ ہو الصحیح، (غنیۃ المستملي: ص: ۴۸۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص431
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: صحیح قول یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ فرض ہے۔ شامی میں ہے:
’’وفي الخزانۃ أنہا فرض ولیست برکن أصلي بل ہي شرط للتحلیل وجزم بأنہا فرض‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القعود الأخیر‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۶۔
اختلف في القعدۃ الأخیرۃ قال بعضہم: ہي رکن أصلي۔ وفي کشف البزدوي أنہا واجبۃ لا فرض، لکن الواجب ہنا في قوۃ الفرض في العمل کالوتر۔ وفي الخزانۃ أنہا فرض ولیست برکن أصلي بل ہي شرط للتحلیل وجزم بأنہا فرض في الفتح والتبیین۔ وفي الینابیع أنہ الصحیح، وأشار إلی الفرضیۃ الإمام المحبوبي في مناسک الجامع الصغیر ولذلک من حلف لا یصلي یحنث بالرفع من السجود دون توقف علی القعدۃ، فہي فرض لا رکن إذ الرکن ہو الداخل في الماہیۃ۔ وماہیۃ الصلاۃ تتم بدون القعدۃ۔ (أیضًا)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص343
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 978 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: عورتوں کے لئے چہرہ ، ہتھیلی اور پاؤں کے علاوہ پورا جسم ستر ہے، اور پورے ستر کا پردہ لازم ہے۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1683/43-1325
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز پڑھنے کے لئے جگہ کا پاک ہونا شرط ہے، اور اس سے مراد وہ جگہ ہے، جہاں نمازی کے دونوں پاؤں رہتے ہیں ، اور سجدے کی حالت میں جہاں دونوں گھٹنے، دونوں ہاتھ، پیشانی اور ناک رکھی جاتی ہو۔ اس لئے پنڈلی کے نیچے کی جگہ جس سے پنڈلی مس نہیں ہوتی ہے، اس کا ناپاک رہنا مضر نہیں، نماز درست ہوجائے گی۔
يشترط طهارة "موضع القدمين۔۔۔۔و "منها طهارة موضع "اليدين والركبتين" على الصحيح لافتراض السجود على سبعة أعظم۔۔۔"و" منها طهارة موضع "الجبهة على الأصح" من الروايتين عن أبي حنيفة وهو قولهم رحمهم الله ليتحقق السجود عليها لأن الفرض وإن كان يتأدى بمقدار الأرنبة على القول المرجوح يصير الوضع معدوما حكما بوجوده على النجس ولو أعاده على طاهر في ظاهر الرواية ولا يمنع نجاسة في محل أنفه مع طهارة باقي المحال بالاتفاق لأن الأنف أقل من الدرهم ويصير كأنه اقتصر على الجبهة مع الكراهة (مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی: ج: 1، ص: 210، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وإن كانت النجاسة تحت قدمي المصلي منع الصلاة. كذا في الوجيز للكردي ولا يفترق الحال بين أن يكون جميع موضع القدمين نجسا وبين أن يكون موضع الأصابع نجسا وإذا كان موضع إحدى القدمين طاهرا وموضع الأخرى نجسا فوضع قدميه اختلف المشايخ فيه الأصح أنه لا تجوز صلاته فإن وضع إحدى القدمين التي موضعها طاهر ورفع القدم الأخرى التي موضعها نجس وصلى فإن صلاته جائزة. كذا في المحيط۔ --- وإن كانت النجاسة تحت يديه أو ركبتيه في حالة السجود لم تفسد صلاته في ظاهر الرواية واختار أبو الليث أنها تفسد وصححه في العيون. كذا في السراج الوهاج. (الھندیۃ، الفصل الثانی فی طھارۃ مایستر بہ العورۃ 1/61)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2498/45-3819
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بچہ نے جائے نماز پر ایسی جگہ پیشاب کیا جہاں نمازی کے اعضاء سجدہ میں پڑتے ہیں تو اگر ممکن ہو تو نماز میں ہی تلویث سے بچتے ہوئے دائیں بائیں ہٹ کر نماز پوری کرلے، اس کو دوہرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اور اگر دائیں یا بائیں جگہ نہ ہو یا بچہ نے نمازی کے اوپر پیشاب کردیا تو ایسی صورت میں ایک طرف سلام پھیر کر نماز سے نکل جائے اور پاک ہوکر یا دوسری جائے نماز پر نماز ادا کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2688/45-4152
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز میں خشوع وخضوع کے لئے مستحب ہے کہ قیام کی حالت میں نظر سجدہ کی جگہ پر ہو، حالت رکوع میں قدموں پر سجدہ میں نگاہ ناک پر رہے اور قعدہ کی حالت میں اپنی گود پر نظر رہے، اکر کوئی شخص بیت اللہ کے سامنے نماز پڑھ رہا ہے تو اس کو بھی مذکورہ آداب کا خیال رکھنا چاہئے، اس لئے سوال میں مذکور صورت کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، بلکہ بوقت تحریمہ نظر سجدہ کی جگہ رکھنا ہی مستحب ہے۔
’’ومنہا نظر المصل سواء کان رجلا أو امرأۃ لی موضع سجودہ قائما حفظا لہ عن النظر الی ما یشغلہ عن الخشوع ونظرہ الی ظاہر القدم راکعا والی أرنبۃ أنفر ساجدا والی حجرہ جالسا ملاحظا، وفی الطحطاوی تحتہ ویفعل ہذا ولو کان مشاہدا للکعبۃ علی المذہب‘‘ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقی الفلاح: ص: ٢٧٦)
نظرہ الی موضع سجودہ حال قیامہ والی ظہر قدمیہ حال رکوع والی أرینۃ انفہ حال سجودہ والی حجرہ حال قعودہ والی منکبہ الأیمن والأسیر منہ التسلمیۃ الأول والثانیۃ لتحصیل الخشوع‘‘ (رد المحتار: ج ١، ص: ٤٧٧)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جو شخص امامت کر رہا ہے، جمعہ کی نماز پڑھاتا ہے، بچوں کو تعلیم دیتا ہے، وہی عیدین کی نماز پڑھانے کا مستحق ہے، اختلاف کرنا ہر گز جائز نہیں اور بغیر وجہ شرعی کسی کام سے (شرعی کاموں سے) کسی کو علیحدہ کرنا جائز اور درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) اعلم أن صاحب البیت ومثلہ إمام المسجد الراتب أولی بالإمامۃ من غیرہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۷)
دخل المسجد من ہو أولی بالإمامۃ من إمام المحلۃ، فإمام المحلۃ أولی، کذا في القنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس فيالإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص99
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسنون و متواتر طریقہ یہ ہے کہ امام مقتدیوں کی صف کے درمیانی حصہ کے سامنے ہو اس کے لیے کتابوں میں وسط کا لفظ آتا ہے یعنی اگلی صف میں کھڑے ہونے والے تقریباً آدھے لوگ امام کے دائیں اور آدھے بائیں جانب ہوں حتی الامکان اس کی رعایت کی جانی چاہئے امام کے مصلی کے قریب ہی منبر بنا لیا جائے۔ صورت مذکورہ میں نمازیں درست ہوں گی، تاہم اس بات کی کوشش کریں کہ جنوب کی سمت میں بھی توسیع ہو جائے یا پھر محراب کو وسط مسجد میں بنائیں۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وسطوا الإمام وسدوا الخلل۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب مقام الإمام من الصف‘‘: ج۱، ص: ۹۹، رقم: ۶۸۱)
السنۃ أن یقوم فی المحراب لیعتدل الطرفان، ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ، إلی قولہ: قال علیہ الصلاۃ والسلام: توسطوا الإمام وسدوا الخلل۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)
وینبغي للإمام أن یقف بإزاء الوسط فإن وقف في میمنۃ الوسط أو في میسرتہ فقد أساء لمخالفۃ السنۃ، ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص432
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں جو اذان دی جاتی ہے وہ اذان کافی ہے، گھر میں اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے صرف اقامت کہہ کر نماز پڑھی جائے۔ اگر چند افراد ہوں تو امام آگے کھڑا ہو اور باقی افراد پیچھے کھڑے ہوں جس طرح مسجد میں نماز ہوتی ہے، اور اگرامام اور ایک مقتدی ہو تو مقتدی امام کے دائیں طرف امام کے ساتھ کھڑا ہو، تھوڑا سا امام سے پیچھے رہے تاکہ بے خیالی میں کہیں امام سے آگے نہ بڑھ جائے۔ گھر میں نماز کی صورت میں خواتین بھی شریک ہوسکتی ہیں اور خواتین کی صف بالکل اخیر میں ہوگی، اگر گھر میں نماز پڑھنے والے صرف میاں بیوی ہوں تو بیوی امام کے مصلی کے پیچھے کھڑی ہوگی۔ اگر ایک مرد اور ایک عورت ہو، تو مرد امام کے ساتھ امام کے بغل میں کھڑا ہو اور عورت امام کے پیچھے کھڑی ہو۔
’’وشمل حالۃ السفر والحضر والانفراد والجماعۃ۔ قال في مواہب الرحمن ونور الإیضاح ولو منفردا أداء أو قضاء سفرا أو حضرا؛ لکن لا یکرہ ترکہ لمصل في بیتہ في المصر؛ لأن أذان الحي یکفیہ کما سیأتي۔ وفي الإمداد أنہ یأتي بہ ندبا وسیأتي تمامہ‘‘(۱)
’’(ویقف الواحد) ولو صبیا، أما الواحدۃ فتتأخر (محاذیا) أي مساویا (لیمین إمامہ) علی المذہب، ولا عبرۃ بالرأس بل بالقدم، فلو صغیرا فالأصح ما لم یتقدم أکثر قدم المؤتم لا تفسد، فلو وقف عن یسارہ کرہ (اتفاقا وکذا) یکرہ (خلفہ علی الأصح) لمخالفۃ السنۃ (والزائد) یقف (خلفہ) فلو توسط اثنین کرہ تنزیہا وتحریما لو أکثر، ولو قام واحد بجنب الإمام وخلفہ صف کرہ إجماعًا‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإسائۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹، زکریا دیوبند۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص344