Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1283/42-622
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر دل کی نیت میں عشاء کی نمازہے اور غلطی سے زبان سے مغرب کا لفظ نکل گیا تو عشاء کی نماز ادا ہوگئی، لیکن اگر جلدی میں نیت کی تعیین نہیں کرسکا اور زبان سے مغرب بول دیا تو نماز نہیں ہوگی۔ دوبارہ نماز پڑھنی ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں بشرط صحت سوال امام معین کے ہوتے ہوئے اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو امامت کرانا شرعاً درست نہیں(۱) اگر امام معین میں کوئی نقص نہ ہو تو صرف اپنے ذاتی اختلاف کی بنا پر اس کی امامت پر اعتراض کرنا یا اس کی اقتدا نہ کرنا بھی شرعاً درست نہیں اپنے ذاتی اختلاف کو ذات تک ہی محدود رکھا جائے(۲) امام کی عظمت اور اس کا احترام لازم اور ضروری ہے۔ امام اس شخص کو بنایا جائے جو قرآن کریم صحیح اور مخارج کی ادائیگی کے ساتھ پڑھتا ہو۔ ک کو ق اور زبر کو پیش پڑھنے سے معانی، مطالب بدل جاتے ہیں جو شخص معذور نہ ہو تخلیقی طور پر اس کی زبان میں کمی نہ ہو؛ بلکہ قلت مشق کی بنا پر ایسی غلطی کرے ایسے شخص کی امامت شرعاً درست نہیں، اس لیے کہ نماز کے فاسد ہو جانے کا خوف رہتا ہے مثلاً اگر {قل أعوذ برب الناس} کو {کل أعوذ برب الناس} پڑھا، تو معنی میں بڑا فرق ہوکر نماز فاسد ہوجائے گی؛ لہٰذا ایسے لوگ امامت نہ کریں اور صحیح قرآن پڑھنے والے کی اقتدا کریں۔(۳)
(۱) اعلم أن صاحب البیت ومثلہ إمام المسجد الراتب أولٰی بالإمامۃ من غیرہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
(۲) وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (أیضاً: ج۲، ص: ۲۹۸)
(۳) معنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (أیضًا: ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص100
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام صاحب صف اول میں کھڑے ہوں تو بھی درست ہے اور یہ ہی مناسب ہے اگر نمازی زیادہ ہوں اور جگہ کی تنگی ہو تو محراب میں کھڑے ہوکر نماز پڑھائے اور پہلی صف میں نمازی کم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔(۲)
(۲) فلو قاموا علی الرفوف والإمام علی الأرض أو في المحراب لضیق المکان…لم یکرہ لو کان معہ بعض القوم في الأصح … (قولہ کجمعۃ وعید) مثال للعذر، وہو علی تقدیر مضاف: أي کزحمۃ جمعۃ وعید (قولہ فلو قاموا إلخ) تفریع علی عدم الکراہۃ عند العذر فی جمعۃ وعید، قال فی المعراج: وذکر شیخ الإسلام إنما یکرہ ہذا إذا لم یکن من عذر، أما إذا کان فلا یکرہ کما في الجمعۃ إذا کان القوم علی الرف، وبعضہم علی الأرض لضیق المکان۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص433
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: زید کی فرض نماز پہلے ادا ہوگئی تھی دو بارہ جو نماز پڑھی وہ نفلی ہوئی اس کے پیچھے لوگوں کی فرض نماز ادا نہیں ہوئی۔(۱)
(۱) ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرضاً آخر لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۵)
ولا اقتداء المفترض بالمتنفل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص346
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت کے لیے مقدم اور زیادہ حقدار وہ ہے جو قرآن کریم، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورنماز کے مسائل سے زیادہ واقفیت رکھتا ہو، قرآن کریم تجوید کے ساتھ اچھے انداز پر پڑھتا ہو اور تقویٰ وطہارت کا زیادہ پابند ہو؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں جو عالم ایسا ہو کہ اس میں مذکورہ اوصاف زیادہ بہتر انداز میں پائے جاتے ہوں وہ امامت کا زیادہ حقدار ہے۔(۱)
(۱) الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحر الرائق ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ماتقوم بہ سنۃ القراء ۃ ہکذا في التبیین ولم یطعن في دینہ ہکذا في الکفایۃ وہکذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص101
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ احادیث میں صف بندی اور نمازیوں کے درمیان خلا نہ ہونے کی بڑی تاکید آئی ہے اس لیے نمازیوں کا مل کر کھڑا نہ ہونا مکروہ ہے۔(۱)
(۱) عن النعمان بن بشیر قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسوي صفوفنا فخرج یوماً فرأی رجلا خارجا صدرہ عن القوم فقال: لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم‘‘
وقد روي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من تمام الصلوٰۃ إقامۃ الصف۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في إقامۃ الصفوف‘‘: ج ۱، ص:۲۲۷)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلوٰۃ، متفق علیہ إلا أن عند مسلم من تمام الصلاۃ۔
عن أنس رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رصوا صفوفکم وقاربوا بینہا وحاذوا بالأعناق فوالذي نفسي بیدہ إني لأری الشیطان یدخل من خلل الصف کأنہا الخذف۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج۱، ص:۹۶، رقم: ۶۶۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص434
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ کے سلسلے میں علامہ حصکفی نے لکھا ہے:
’’وأخر العصر إلی اصفرار ذکاء‘‘(۱)
مذکورہ عبارت کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز عصر کو احناف کے یہاں تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے؛ لیکن اتنی تاخیر کرنا کہ سورج زرد ہو جائے، فقہاء نے اس کو مکروہ تحریمی لکھا ہے؛ اس لیے سورج پر زردی کے آثار ظاہر ہونے سے قبل ہی عصر کی نماز سے فارغ ہو جانا چاہئے۔ جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’ویستحب تأخیر العصر في کل زمان ما لم تتغیر الشمس والعبرۃ لتغیر القرص الخ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:مطلب: في طلوع الشمس من مغربہا، ج ۲، ص: ۲۷۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني: في بیان فضیلۃ الأوقات‘‘ ج ۱، ص: ۱۰۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص75
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: دونوں ایک ساتھ یعنی ایک جگہ برابر برابر کھڑے ہوں اور اپنی اپنی نمازیں الگ الگ پڑھیں یہ درست ہے اور اگر اتفاقاً جماعت کریں تو بیوی تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو تو اس صورت میں بھی نماز درست ہے محاذات والی صورت یہاں نہیں ہے۔(۲)
(۲) (قولہ لیس في صلاتہا) بأن صلیا منفردین أو مقتدیا أحدہما بإمام لم یقتد بہ الآخر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج۲، ص: ۳۱۷)……أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی في المسجد بجماعۃ فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص346
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1685/43-1328
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قعدہ اولی و اخیرہ میں شہادت سے پہلے ، آخر کی دو چھوٹی انگلیوں کو بند کرلیا جائے ، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنالیا جائے اور ”لا الہ“ پر شہادت کی انگلی اٹھائی جائے اور ”الا اللہ“ پر گرادی جائے اور انگلیوں کا حلقہ سلام تک باقی رکھا جائے۔ یہ سنت طریقہ ہے، سنن ابی داؤد و ابن ماجہ میں موجود ہے۔ اعلاء السنن میں تفصیلی بحث موجود ہے:
عن عاصم بن كُليب، عن أبيه عن وائل بن حُجر قال: قلتُ: لأنظُرَنَّ إلى صلاةِ رسولِ الله- صلى الله عليه وسلم - كيف يُصلي، قال: فقام رسولُ الله- صلى الله عليه وسلم -، فاستَقبَلَ القِبلَةَ، فكبَّر فرفع يَدَيهِ حتى حاذتا أُذُنَيهِ، ثم أخذ شِمالَه بيمينه، فلمَّا أراد أن يركعَ رَفَعَهما مثلَ ذلك، ثم وضع يَدَيهِ على رُكبَتَيهِ، فلفَا رفعَ رأسَه من الركوع رَفَعَهما مِثلَ ذلك، فلمَّا سجدَ وضعَ رأسَه بذلك المَنزِلِ من بين يَدَيهِ، ثم جلسَ فافتَرَشَ رِجلَه اليُسرى ووضعَ يَدَه اليُسرى على فَخِذِه اليُسرى، وحَد مِرفَقِهِ الأيمَنِ على فَخِذِه اليُمنى، وقبضَ ثِنتَينِ وحلَّق حَلقةً، ورأيته يقول: هكذا، وحلَّقَ بِشرٌ الإبهامَ والوسطى، وأشارَ بالسبابة (سنن ابی داؤد ، باب رفع الیدین 2/48 الرقم 726). عن عاصم بن کلیب الجرمی عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي وَقَدْ وَضَعَ يَدَهُ اليُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ اليُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ اليُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ اليُمْنَى وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ وَبَسَطَ السَّبَّابَةَ، وَهُوَ يَقُولُ: «يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ»: (سنن الترمذی، 5/573 رقم الحدیث 3587)
الصحیح أنہ یشیر بمسبحتہ وحدہا، یرفعہا عند النفی ویضعہا عند الإثبات وفي الشامیة: الثانی بسط الأصابع إلی حین الشہادة فیعقد عندہا ویرفع السبابة عند النفي ویضعہا عند الإثبات وہذا ما اعتمدہ المتأخرون لثبوتہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بالأحادیث الصحیحة ولصحة نقلہ عن أئمتنا الثلاثة الخ (درمختار مع الشامی، زکریا: ۲/۲۱۸) "يرفعها الخ" وعند الشافعية يرفعها لذا بلغ الهمزة من قوله إلا الله ويكون قصده بها التوحيد والإخلاص عند كلمة الإثبات والدليل للجانبين في المطولات قوله: "وأشرنا إلى أنه لا يعقد شيئا من أصابعه وقيل الخ" صنيعه يقتضي ضعف العقد وليس كذلك إذ قد صرح في النهر بترجيحه وأنه قول كثير من مشايخنا قال وعليه الفتوى كما في عامة الفتاوى وكيفيته أن يعقد الخنصر والتي تليها محلقا بالوسطى والإبهام (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، فصل فی بیان سننھا 1/270) اصابعہ ای بسط اصابعہ فی اطلاق البسط ایماء الی انہ لایشیر بالسبابۃ عندالشھادتین عاقدا الخنصر والتی تلیھا محلقا الوسطی والابھام وعدم الاشارۃ خلاف الروایۃ والدرایۃ ففی مسلم کان النبی ﷺ یشیر باصبعہ التی تلی الابھام قال محمد ونحن نصنع بصنعہ ﷺ وفی المجتبی لما اتفقت الروایات وعلم عن اصھابنا جمیعا کونھا سنۃ وکذا عن الکوفیین والمدنیین وکثرت الاخباروالآثار کان العمل بھا اولی وھو الاصح ثم قال الحلوانی یقیم الاصابع عندالمنفی ویضعہ عندالاثبات واختلف فی وضع الید الیمنی فعن ابی یوسف انہ یعقد الخنصر والبنصر ویحلق الوسطی والابھام وفی در البحار المفتی بہ عندنا انہ یشیر باسطا اصابعہ کلھا وجاء فی الاخبار وضع الیمنی علی صورۃ عقد ثلاثۃ وخمسین ایضا فتح وعینی وغیرہ (کنزالدقائق، کیفیۃ اداء الصلوۃ، حاشیۃ 6، ص26)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ دونوں حضرات میں سے جو شخص عمر رسیدہ متقی پرہیزگار اور چالیس سال سے امام ہیں اور اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور گاؤں کے لوگ ان کی عزت اور احترام کرتے ہیں وہی امام نماز جمعہ بننے کے مستحق ہیں پس اگر اصل امام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نماز جمعہ پڑھائے، تو مذکورہ حافظ ان دونوں میں سے زیادہ مستحق ہیں کہ ان سے نماز جمعہ پڑھوائی جائے۔(۱)
(۱) وإن کان متبحرا في علم الصلاۃ لکن لم یکن لہ حظ في غیرہ في العلوم فہو أولی، ہکذا في الخلاصۃ فإن تساووا فأقرأہم أي أعلمہم بعلم القراء ۃ … فإن تساووا فأورعہم فإن تساووا فأسنہم کذا في الہدایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
ثم الأورع ثم الأسن۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص101