نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ احادیث میں صف بندی اور نمازیوں کے درمیان خلا نہ ہونے کی بڑی تاکید آئی ہے اس لیے نمازیوں کا مل کر کھڑا نہ ہونا مکروہ ہے۔(۱)

(۱) عن النعمان بن بشیر قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسوي صفوفنا فخرج یوماً فرأی رجلا خارجا صدرہ عن القوم فقال: لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم‘‘
وقد روي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من تمام الصلوٰۃ إقامۃ الصف۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في إقامۃ الصفوف‘‘: ج ۱، ص:۲۲۷)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلوٰۃ، متفق علیہ إلا أن عند مسلم من تمام الصلاۃ۔
عن أنس رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رصوا صفوفکم وقاربوا بینہا وحاذوا بالأعناق فوالذي نفسي بیدہ إني لأری الشیطان یدخل من خلل الصف کأنہا الخذف۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج۱، ص:۹۶، رقم: ۶۶۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص434

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ کے سلسلے میں علامہ حصکفی نے لکھا ہے:
’’وأخر العصر إلی اصفرار ذکاء‘‘(۱)
مذکورہ عبارت کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز عصر کو احناف کے یہاں تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے؛ لیکن اتنی تاخیر کرنا کہ سورج زرد ہو جائے، فقہاء نے اس کو مکروہ تحریمی لکھا ہے؛ اس لیے سورج پر زردی کے آثار ظاہر ہونے سے قبل ہی عصر کی نماز سے فارغ ہو جانا چاہئے۔ جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’ویستحب تأخیر العصر في کل زمان ما لم تتغیر الشمس والعبرۃ لتغیر القرص الخ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:مطلب: في طلوع الشمس من مغربہا، ج ۲، ص: ۲۷۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني: في بیان فضیلۃ الأوقات‘‘  ج ۱، ص: ۱۰۸۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص75

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: دونوں ایک ساتھ یعنی ایک جگہ برابر برابر کھڑے ہوں اور اپنی اپنی نمازیں الگ الگ پڑھیں یہ درست ہے اور اگر اتفاقاً جماعت کریں تو بیوی تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو تو اس صورت میں بھی نماز درست ہے محاذات والی صورت یہاں نہیں ہے۔(۲)

(۲) (قولہ لیس في صلاتہا) بأن صلیا منفردین أو مقتدیا أحدہما بإمام لم یقتد بہ الآخر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج۲، ص: ۳۱۷)……أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی في المسجد بجماعۃ فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۴)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص346

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1685/43-1328

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قعدہ اولی و اخیرہ میں  شہادت سے پہلے ،  آخر کی دو چھوٹی انگلیوں کو بند کرلیا جائے ، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے سے  حلقہ بنالیا جائے اور ”لا الہ“ پر شہادت کی انگلی اٹھائی جائے اور الا اللہ“ پر گرادی جائے اور انگلیوں کا حلقہ سلام تک باقی رکھا جائے۔ یہ سنت طریقہ ہے، سنن ابی داؤد و ابن ماجہ میں موجود  ہے۔ اعلاء السنن میں تفصیلی بحث موجود ہے:

عن عاصم بن كُليب، عن أبيه عن وائل بن حُجر قال: قلتُ: لأنظُرَنَّ إلى صلاةِ رسولِ الله- صلى الله عليه وسلم - كيف يُصلي، قال: فقام رسولُ الله- صلى الله عليه وسلم -، فاستَقبَلَ القِبلَةَ، فكبَّر فرفع يَدَيهِ حتى حاذتا أُذُنَيهِ، ثم أخذ شِمالَه بيمينه، فلمَّا أراد أن يركعَ رَفَعَهما مثلَ ذلك، ثم وضع يَدَيهِ على رُكبَتَيهِ، فلفَا رفعَ رأسَه من الركوع رَفَعَهما مِثلَ ذلك، فلمَّا سجدَ وضعَ رأسَه بذلك المَنزِلِ من بين يَدَيهِ، ثم جلسَ فافتَرَشَ رِجلَه اليُسرى ووضعَ يَدَه اليُسرى على فَخِذِه اليُسرى، وحَد مِرفَقِهِ الأيمَنِ على فَخِذِه اليُمنى، وقبضَ ثِنتَينِ وحلَّق حَلقةً، ورأيته يقول: هكذا، وحلَّقَ بِشرٌ الإبهامَ والوسطى، وأشارَ بالسبابة (سنن ابی داؤد ، باب رفع الیدین 2/48 الرقم 726). عن عاصم بن کلیب الجرمی عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي وَقَدْ وَضَعَ يَدَهُ اليُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ اليُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ اليُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ اليُمْنَى وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ وَبَسَطَ السَّبَّابَةَ، وَهُوَ يَقُولُ: «يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ»: (سنن الترمذی، 5/573 رقم الحدیث 3587)

الصحیح أنہ یشیر بمسبحتہ وحدہا، یرفعہا عند النفی ویضعہا عند الإثبات وفي الشامیة: الثانی بسط الأصابع إلی حین الشہادة فیعقد عندہا ویرفع السبابة عند النفي ویضعہا عند الإثبات وہذا ما اعتمدہ المتأخرون لثبوتہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بالأحادیث الصحیحة ولصحة نقلہ عن أئمتنا الثلاثة الخ (درمختار مع الشامی، زکریا: ۲/۲۱۸) "يرفعها الخ" وعند الشافعية يرفعها لذا بلغ الهمزة من قوله إلا الله ويكون قصده بها التوحيد والإخلاص عند كلمة الإثبات والدليل للجانبين في المطولات قوله: "وأشرنا إلى أنه لا يعقد شيئا من أصابعه وقيل الخ" صنيعه يقتضي ضعف العقد وليس كذلك إذ قد صرح في النهر بترجيحه وأنه قول كثير من مشايخنا قال وعليه الفتوى كما في عامة الفتاوى وكيفيته أن يعقد الخنصر والتي تليها محلقا بالوسطى والإبهام (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، فصل فی بیان سننھا 1/270) اصابعہ ای بسط اصابعہ فی اطلاق البسط ایماء الی انہ لایشیر بالسبابۃ عندالشھادتین عاقدا الخنصر والتی تلیھا محلقا الوسطی والابھام وعدم الاشارۃ خلاف الروایۃ والدرایۃ ففی مسلم کان النبی ﷺ یشیر باصبعہ التی تلی الابھام قال محمد ونحن نصنع بصنعہ ﷺ وفی المجتبی لما اتفقت الروایات وعلم عن اصھابنا جمیعا کونھا سنۃ وکذا عن الکوفیین والمدنیین وکثرت الاخباروالآثار کان العمل بھا اولی وھو الاصح ثم قال الحلوانی یقیم الاصابع عندالمنفی ویضعہ عندالاثبات واختلف فی وضع الید الیمنی فعن ابی یوسف انہ یعقد الخنصر والبنصر ویحلق الوسطی والابھام وفی در البحار المفتی بہ عندنا انہ یشیر باسطا اصابعہ کلھا وجاء فی الاخبار وضع الیمنی علی صورۃ عقد ثلاثۃ وخمسین ایضا فتح وعینی وغیرہ (کنزالدقائق، کیفیۃ اداء الصلوۃ، حاشیۃ 6، ص26)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ دونوں حضرات میں سے جو شخص عمر رسیدہ متقی پرہیزگار اور چالیس سال سے امام ہیں اور اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور گاؤں کے لوگ ان کی عزت اور احترام کرتے ہیں وہی امام نماز جمعہ بننے کے مستحق ہیں پس اگر اصل امام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نماز جمعہ پڑھائے، تو مذکورہ حافظ ان دونوں میں سے زیادہ مستحق ہیں کہ ان سے نماز جمعہ پڑھوائی جائے۔(۱)

(۱) وإن کان متبحرا في علم الصلاۃ لکن لم یکن لہ حظ في غیرہ في العلوم فہو أولی، ہکذا في الخلاصۃ فإن تساووا فأقرأہم أي أعلمہم بعلم القراء ۃ … فإن تساووا فأورعہم فإن تساووا فأسنہم کذا في الہدایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
ثم الأورع ثم الأسن۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص: ۲۹۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص101

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت مسجد کے نچلے حصہ میں ہی ہونی چاہئے؛ لیکن کسی ضرورت مثلاً شدت گرمی کی وجہ سے مسجد کے اوپر کے حصہ میں نماز پڑھ لی گئی تو بھی درست ہے اور مسجد ہی کا ثواب ملے گا۔ ’’إن شاء اللّٰہ‘‘(۱)

(۱) وکرہ تحریماً الوطأ فوقہ والبول والتغوّط لأنہ مسجد إلی عنان السماء، قال الزیلعي: ولہٰذا صح اقتداء من علی سطح المسجد بمن فیہ إذ لم یتقدم علی الإمام ولایبطل الاعتکاف بالصعود إلیہ ولایحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف علیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب فيأحکام المسجد‘‘: ج۲، ص: ۴۲۸)
عند العذر کما في الجمعۃ والعیدین فإن القوم یقومون علی الخذف والإمام علی الأرض لم یکرہ ذلک لضیق المکان، کذا في النہایۃ … والأصح أنہ لایکرہ وبہ جرت العادۃ في جوامع المسلمین في أغلب الأمصار۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۴۴۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص435

نماز / جمعہ و عیدین

 الجواب وباللہ التوفیق:غروب کے ڈیڑھ گھنٹہ (شفق ابیض کے غروب ہونے کے بعد) عشاء کی نماز پڑھنی چاہئے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے۔ اور اگر کوئی مجبوری ہو تو ایک گھنٹہ (شفق احمر کے غروب کے) بعد بھی پڑھی جاسکتی ہے یہ صاحبین رحمہما اللہ کا مسلک ہے۔ اور اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پر عمل کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) وأخر وقتہا ما لم یغب الشفق أي الجزء الکائن قبیل غیبوبۃ الشفق من الزمان وہو أي المراد بالشفق ہو البیاض الذي في الأفق الکائن بعد الحمرۃ التي تکون في الأفق عند أبي حنیفۃ وقالا أي أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو قول الأئمۃ الثلثۃ وروایۃ اسد بن عمرو عن أبي حنیفۃ أیضاً المراد بالشفق ہو الحمرۃ نفسہا لا البیاض الذي بعدہا۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۰، مکتبہ، دار الکتاب، دیوبند؛ ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في الصلاۃ الوسطی‘‘: ج ۲، ص: ۱۸، مکتبہ، زکریا، دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص76

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں قرأت کرنا فرض ہے، پہلی رکعت میں اس نے قرأت نہیں کی اس لیے ترک فرض کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوگئی، اعادہ کرنا لازم ہے۔(۱)

(۱) ومنہا القراء ۃ: وفرضہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶، زکریا دیوبند)
وفي الولو الجیۃ‘‘ الأصل في ہذا أن المتروک ثلاثۃ أنواع: فرض، وسنۃ، وواجب ففي الأول: أمکنہ التدارک بالقضاء یقضي وإلا فسدت صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵، زکریا دیوبند)
وقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صلاۃ إلا بقرأۃ‘‘ رواہ مسلم من حدیث أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ وعلیہ انعقد الإجماع … (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلوٰۃ‘‘: ص: ۲۲۵، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص347

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1741/43-1439

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اذان میں حی علی الصلوۃ کے وقت چہرہ کو دائیں جانب پھیرنا، اور حی علی الفلاح کے وقت بائیں جانب چہرہ پھیرنا مسنون ہے۔ سنت کے خلاف عمل جان بوجھ کر نہ کرنا چاہئے،کہ ایسا کرنا مکروہ ہے،  لیکن اگر کبھی اتفاق سے ایسا ہوگیا تو کوئی حرج نہیں ہے، اذان ہوگئی اوراس کے بعد پڑھی گئی نمازبلاکراہت درست ہوگئی۔ 2 جو شخص اذان دے اقامت  کہنا بھی اسی کا حق ہے، اذان کہنے والے کی اجازت کے بغیر دوسرے شخص کا اقامت کہنا مکروہ ہے اگر مؤذن ناراض ہوتاہو، لیکن اگر مؤذن نے اجازت دیدی، یا مؤذن ناراض نہیں ہوتاہے تو دوسرا شخص بلااجازت بھی اقامت کہہ سکتاہے۔ نماز بہرصورت درست ہوجاتی ہے۔

قوله: ويلتفت يمينًا وشمالًا بالصلاة والفلاح) لما قدمناه ولفعل بلال - رضي الله عنه - على ما رواه الجماعة، ثم أطلقه فشمل ما إذا كان وحده على الصحيح؛ لكونه سنة الأذان فلايتركه خلافًا للحلواني؛ لعدم الحاجة إليه، وفي السراج الوهاج: أنه من سنن الأذان فلايخل المنفرد بشيء منها، حتى قالوا في الذي يؤذن للمولود: ينبغي أن يحول. اهـ.

وقيد باليمين والشمال؛ لأنه لايحول وراءه لما فيه من استدبار القبلة، ولا أمامه لحصول الإعلام في الجملة بغيرها من كلمات الأذان، وقوله بالصلاة والفلاح لف ونشر مرتب، يعني أنه يلتفت يمينًا بالصلاة وشمالاً بالفلاح، وهو الصحيح خلافًا لمن قال: إن الصلاة باليمين والشمال والفلاح كذلك، وفي فتح القدير: أنه الأوجه، ولم يبين وجهه، وقيد بالالتفات؛ لأنه لايحول قدميه؛ لما رواه الدارقطني عن بلال قال: «أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أذّنّا أو أقمنا أن لانزيل أقدامنا عن مواضعها»، وأطلق في الالتفات ولم يقيده بالأذان، وقدمنا عن الغنية أنه يحول في الإقامة أيضًا، وفي السراج الوهاج: لايحول فيها؛ لأنها لإعلام الحاضرين بخلاف الأذان فإنه إعلام للغائبين، وقيل: يحول إذا كان الموضع متسعًا". (البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (1/ 272)

ويحول في الإقامة إذا كان المكان متسعًا وهو أعدل الأقوال كما في النهر". حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 197)
"وفي البستان: لايحول في الإقامة إلا لإناس ينتظرون، ذكره التمرتاشي. اهـ. كاكي". تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 92)
 أقام غير من أذن بغيبته) أي المؤذن (لا يكره مطلقاً)، وإن بحضوره كره إن لحقه وحشة‘‘.(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 395)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک شخص صرف حافظ ہے اور دوسرا شخص عالم باعمل ہے پس اگر کوئی مقررہ امام مسجد موجود نہ ہو یا اس کا قائم مقام نہ ہو تو ایسی صورت میں عالم دین کو امامت کا مستحق قرار دیا جائے گا یہی افضل اور بہتر ہے جیسا کہ ہدایہ، شامی، البحرالرائق اور فقہ کی بہت سی کتابوں میں اس کی تصریح موجود ہے۔(۲)

(۲) الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
 الأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصبا۔ مجمع الأنہر۔ الأعلم بأحکام الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص102