Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:عام نمازوں میں اذان و اقامت کے درمیان مناسب فاصلہ ضروری ہے تاکہ لوگ کھانے پینے اور قضائے حاجت سے فارغ ہوسکیں، پھر روایت میں ہے کہ ہر اذان واقامت کے درمیان نماز ہے؛ اس لیے اتنا فاصلہ ہونا چاہیے کہ اذان و اقامت کے درمیان سنت پڑھ سکیں جہاں تک مغرب کا تعلق ہے تو مغرب کی نماز میں بالاتفاق تعجیل مستحب ہے، اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میری امت مغرب میں تعجیل کرے گی خیر پر رہے گی؛ اس لیے مغرب کی نماز میں اتنا فاصلہ نہیں ہونا چاہیے جتنا کہ دیگر نمازوں میں ہوتا ہے، تاہم وصل یعنی اذان کے فوراً بعد اقامت درست نہیں ہے معمولی فاصلہ ہونا چاہیے۔ اس فصل کی تحدید میں امام صاحب رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ ایک سکتہ کے بقدر وقفہ کرے، اور موذن بیٹھے نہیں، اور ایک سکتہ کی مقدار امام صاحبؒ کے نزدیک ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات کے بقدر ہے، اور ایک روایت کے مطابق تین خطوات چلنے کے بقدر۔ اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک دو خطبوں کے درمیان جلسہ کے بقدر وقفہ کرنا کافی ہے، یعنی ان کے بقول مؤذن اتنی مقدار بیٹھے گا کہ زمین پر تمکن حاصل ہوجائے اور اس میں طوالت نہ ہو۔ اور خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عمل بھی یہی تھا کہ مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان وہ بیٹھتے نہیں تھے۔ اور یہ اختلاف افضلیت میں ہے؛ اس لیے مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان بیٹھنا امام صاحبؒ کے نزدیک بھی جائز ہے اور نہ بیٹھنا اور تین آیتوں کے بقدر کھڑے کھڑے فصل کرنا صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک بھی جائز ہے۔
حاصل یہ ہے کہ عام حالت میں مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے، مغرب کی نماز اور اذان میں صرف ایک بڑی آیت یا تین مختصر آیات کی تلاوت کے بقدر وقفہ کرکے نماز پڑھ لینی چاہیے، اور جتنی دیر میں دورکعت ادا کی جاتی ہیں (یعنی تقریباً 2 منٹ) یا اس سے زیادہ تاخیر کرنا خلافِ اولیٰ ہے، اور بغیر عذر کے اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے چمک جائیں مکروہِ تحریمی ہے۔ البتہ عذر کی وجہ سے تاخیر مکروہ نہیں ہے، جیساکہ مرض وسفر کی بنا پر مغرب کو آخر وقت تک مؤخر کرنا اور عشاء کو اول وقت میںپڑھنا درست ہے۔ اسی طرح اگر کہیں اس قدر تاخیر سے نماز کھڑی ہورہی ہو تو اذان کے بعد دو رکعت نماز بھی پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن باضابطہ سنت پڑھنے کے لیے وقفہ کرنا مکروہ ہے؛ اس لیے کہ یہ مغرب کی نماز میں تاخیر کا باعث ہے۔
’’قال في الجامع الصغیر: ویجلس بین الأذان والإقامۃ إلا في المغرب، وہذا قول أبي حنیفۃ، وقال أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ: یجلس في المغرب أیضاً جلسۃً خفیفۃً، یجب أن یعلم بأن الفصل بین الأذان والإقامۃ في سائر الصلوات مستحب۔ والأصل في ذلک قولہ علیہ السلام لبلال: اجعل بین أذانک وإقامتک مقدار ما یفرغ الآکل من أکلہ، والشارب من شربہا ‘‘(۱)
’’ویجلس بین الأذان والإقامۃ، إلا في المغرب، وہذا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، وقالا: یجلس في المغرب أیضاً جلسۃً خفیفۃً؛ لأنہ لا بد من الفصل، إذ الوصل مکروہ، ولا یقع الفصل بالسکتۃ؛ لوجودہا بین کلمات الأذان، فیفصل بالجلسۃ کما بین الخطبتین، ولأبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ أن التأخیر مکروہ، فیکتفی بأدنی الفصل احترازاً عنہ، والمکان في مسألتنا مختلف، وکذا النغمۃ، فیقع الفصل بالسکتۃ، ولاکذلک الخطبۃ۔ وقال الشافعي: یفصل برکعتین اعتباراً بسائر الصلوات، والفرق قد ذکرناہ۔ قال یعقوب: رأیت أبا حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالی یؤذن في المغرب ویقیم، ولا یجلس بین الأذان والإقامۃ، وہذا یفید ما قلناہ‘‘(۲)
’’(قولہ: إلی اشتباک النجوم) ظاہرہ أنہا بقدر رکعتین لایکرہ مع أنہ یکرہ أخذاً من قولہم بکراہۃ رکعتین قبلہا۔ واستثناء صاحب القنیۃ القلیل یحمل علی ما ہو الأقل من قدرہما توفیقاً بین کلام الأصحاب … واعلم أن التاخیربقدر رکعتین مکروہ تنزیہاً وإلی اشتباک النجوم تحریماً‘‘(۱)
(۱)محمود بن احمد المرغینانی المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الصلاۃ، في الفصل بین الأذان والإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۶۔
(۲) العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۲، ۱۰۴۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸، ط:قدیمی۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص99
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں نماز سے پہلے اعلان درست نہیں ہے یہ تثویب میں داخل ہے جس کی اجازت نہیں ہے(۱) اور نماز فجر کے بعد طلوع کے وقت نماز پڑھنی درست نہیں ہے اس کی ممانعت ہے۔ اور غفلت کی وجہ سے لوگوں کو اس وقت کا پورا خیال نہیں رہتا اس لیے حسب ضرورت اعلان کی گنجائش ہے۔(۲)
(۱) ویثوب کقولہ بعد الأذان الصلاۃ الصلاۃ یا مصلین۔ (الشرنبلالي، نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۶۱، مکتبہ عکاظ دیوبند)
(۲) قال في العنایۃ: أحدث المتأخرون التثویب بین الأذان والإقامۃ علی حسب ما تعارفوہ في جمیع الصلاۃ سوی المغرب مع إبقاء الأول یعني الأصل ہو تثویب الفجر، و ما رآہ المسلمون حسنا فہو عند اللّٰہ حسن۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج ۲، ص: ۵۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص231
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: نماز درست ہے، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ہے۔
’’والصحیح أن ینوی الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ۔ قالوا : ہذا إذا ارتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ أو بعد ما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال، ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح، ہکذا في الکافي۔ ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ، لجواز أن یتذکر من ساعتہ، فیصیر قارئاً خلف الإمام من غیر حاجۃ، کذا في محیط السرخسي، ولا ینبغي للإمام أن یلجئہم إلی الفتح ؛ لإنہ یلجئہم إلی القراء ۃ خلفہ وإنہ مکروہ، بل یرکع إن قرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ وإلا ینتقل إلی آیۃ أخری، کذا في الکافي، وتفسیر الإلجاء أن یردد الآیۃ، أو یقف ساکتًا، کذا في النہایۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷، ۱۵۸۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص293
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بے تحقیقی بات کا تو اعتبار نہیں ہے؛ لیکن عرس وغیرہ میں شرکت اور قبروں کا طواف وغیرہ افعالِ بدعت ہیں خصوصاً قبر کا طواف کرنا کفر ہے کہ یہ عبادت بیت اللہ کے ساتھ مخصوص ہے، نیز نمازیوں کی ناراضی بجا اور باموقع ہے اس حالت میں ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔(۱)
’’ولا یمسح القبر ولا یقبلہ فإن ذلک من عادۃ النصاری‘‘(۲)
’’أما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ ۔۔۔۔۔ بل مشیٰ في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۳)
(۱) ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم لابمعاندۃ بل بنوع شبہۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸،۲۹۹)
وعن ابن عمرو رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول : ثلثۃ لاتقبل اللّٰہ منہم صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون، ورجل أتی الصلاۃ دباراً والدّبار أن یأتیہا بعد أن تفوتہ ورجل اعتبد محررہ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الرجل یؤم القوم وہم لہ کارہون‘‘: ج ۲، ص:۸۸، رقم: ۵۹۳)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب السادس عشر في زیارۃ القبور وقرأۃ القرآن في المقابر‘‘: ج ۵، ص: ۳۵۰۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب البدعۃ خمسۃ اقسام‘‘: ج۲، ص:۲۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص125
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں شرعی عذر کی وجہ سے پٹی باندھی ہو اور اس میں خون نہ بہتا ہو اور اس پر مسح کر رہا ہو، تو اس کی امامت جائز اور درست ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’ویجوز اقتداء الغاسل بماسح الخف وبالماسح علی الجبیرۃ‘‘(۱)
(۱) (وغاسل بماسح) ولو علی جبیرۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص224
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں تشہد کے علاوہ مقامات پر انگلی سے اشارے کا ثبوت نظروں سے نہیں گزرا؛ البتہ خطبات میں شہادتین کے کلمات ادا کرتے وقت شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اذان کے بعد کلمہ شہادت پڑھنا حدیث سے ثابت ہے۔
’’والإتیان بالشہادتین بعدہ ذکر الغزنوي أنہ یشیر بسبابتہ حین النظر إلی السماء‘‘(۱)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما منکم من أحد یتوضأ فیسبغ الوضوء ثم یقول أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ إلا فتحت لہ أبواب الجنۃ الثمانیۃ یدخلہا من أي باب شاء‘‘(۲)
’’وصحح في شرح الہدایۃ أنہ یشیر وکذا في الملتقط وغیرہ وصفتہا أن یحلق من یدہ الیمنیٰ عند الشہادۃ الإبہام والوسطیٰ، ویقبض البنصر والخنصر ویشیر بالمسبحۃ أو یعقد ثلاثۃ وخمسین بأن یقبض الوسطیٰ والبنصر والخنصر، ویضع رأس إبہامہ علی حرف مفصل الوسطیٰ الأوسط ویرفع الأصبع عند النفي ویضعہا عند الإثبات‘‘(۳)
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في آداب الوضوء‘‘: ج۱، ص: ۷۷۔ (۲) أیضًا۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب مہم في عقد الأصابع عند التشہد، ج ۲، ص: ۲۱۷، زکریا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص231
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نہ امام کی نماز فاسد ہوئی اور نہ ہی مقتدی کی، دونوں کی نماز درست ہوگئی ہے۔(۲)
(۲)بخلاف فتحہ علی إمامہ فإنہ لا یفسد مطلقا لفاتح وآخذ بکل حال، تنویر مع الدر وفي الشامیۃ: قولہ: (مطلقا) فسرہ بما بعدہ (قولہ بکل حال) أي سواء قرأ الإمام قدر ما تجوز بہ الصلاۃ أم لا، انتقل إلی آیۃ أخری أم لا، تکرر الفتح أم لا، ہو الأصح۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب المواضع التي لا یجب فیہا‘‘: ج ۲، ۳۸۱، ۳۸۲؛ و محمود بن أحمد، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل السادس عشر‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص294
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بریلوی مسلک کا امام شرکیہ عقائد نہیں رکھتا، صرف بدعات میں مبتلا ہے اور دیوبندیوں کو کا فر کہتا ہے، تو اس کے پیچھے نماز بکراہت تحریمی ادا ہوگی اگر صحیح العقیدہ امام مل جائے، تو ایسے بدعتی امام کی اقتداء میںنماز نہیں پڑھنی چاہئے اور اگر صحیح العقیدہ امام نہ ملے، تو اس کے پیچھے ہی نماز پڑھ لی جائے، جماعت نہیں چھوڑنی چاہئے، نیز کسی بھی مسلمان پر کسی شرعی دلیل کے بغیر کافر ہونے کا حکم لگانا سخت گناہ اور حرام ہے، اس سے آدمی کا اپنا دین بھی سلامت نہیں رہتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالاں کہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اس پر لوٹ آئے گا۔
’’إذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بہ أحدہما‘‘(۱)
(۱) أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب: من أکفر أخاہ بغیر تأویل فہو کما قال‘‘: ج ۲، ص:۹۰۱، رقم: ۶۱۰۳۔ وفي المحیط لو صلی خلف فاسق أو مبتدع أحرز ثواب الجماعۃ لکن لایجوز ثواب المصلي خلف تقي اھـ، یرید بالمبتدع من لم یکفر ولا بأس بتفضیلہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۰-۳۵۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص126
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ شخص کی امامت درست ہے ہاں! اگر متولی ومنتظمین ومصلیان ان سے بہتر کسی دیگر متقی شخص کو امام مقرر کرنا چاہیں تو ان کو اس کا بھی اختیار ہے۔(۱)
(۱) وصح اقتداء (قائم بأحدب) وإن بلغ حدبہ الرکوع علی المعتمد، وکذا بأعرج وغیرہ أولی۔ (الحصکفي، رد المحتار مع المدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۸- ۳۳۶)
وہکذا في الفتاویٰ الہندیۃ، ’’جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ، الباب الخامس في الإمامۃ،الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص225
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:اذان کا مقصد بھی اعلان واعلام ہی ہے اس لیے جمعہ کے دن دو اذانیں ہوتی ہیں تاکہ پہلی اذان کے بعد لوگ جمعہ کی تیاری شروع کر دیں؛ اس لیے اذان کے علاوہ کسی طرح کا اعلان کرنا اور اس کی عادت بنا لینا درست معلوم نہیں ہوتا اس سے اذان کی اہمیت ختم ہو جانے کا قوی امکان ہے، تاہم اگر کسی جگہ غیروں کی کثرت یا کسی اور وجہ سے لوگوں کے اندر سستی اور غفلت انتہا درجہ کی ہو تو اس اعلان کی گنجائش ہوگی۔(۱)
(۱) قولہ في الکل أي کل الصلوات لظہور التواني في الأمور الدینیۃ، قال في العنایۃ: أحدث المتأخرون التثویب بین الأذان والإقامۃ علی حسب ما تعارفوہ في جمیع الصلوٰۃ سوی المغرب مع إبقاء الأول: یعني الأصل ہو تثویب الفجر۔ (ابن عابدین، رد المحتار،کتاب الصلاۃ، ’’باب الأذان‘‘: مطلب: في الکلام علی حدیث الأذان جزم، ج ۲، ص: ۵۶)
لظہور التواني في الأمور الدینیۃ استحسن المتأخرون التثویب … بحسب ما تعارفہ کل قوم لأنہ مبالغۃ في الإعلام فلا یحصل ذلک إلا بما یتعارفونہ۔ (مجالس الأبرار: ص: ۲۸۷، مجلس: ۴۸)(شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص233