نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز میں تشہد کے علاوہ مقامات پر انگلی سے اشارے کا ثبوت نظروں سے نہیں گزرا؛ البتہ خطبات میں شہادتین کے کلمات ادا کرتے وقت شہادت کی انگلی سے اشارہ  کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور اذان کے بعد کلمہ شہادت پڑھنا حدیث سے ثابت ہے۔
’’والإتیان بالشہادتین بعدہ ذکر الغزنوي أنہ یشیر بسبابتہ حین النظر إلی السماء‘‘(۱)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما منکم من أحد یتوضأ فیسبغ الوضوء ثم یقول أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ إلا فتحت لہ أبواب الجنۃ الثمانیۃ یدخلہا من أي باب شاء‘‘(۲)
’’وصحح في شرح الہدایۃ أنہ یشیر وکذا في الملتقط وغیرہ وصفتہا أن یحلق من یدہ الیمنیٰ عند الشہادۃ الإبہام والوسطیٰ، ویقبض البنصر والخنصر ویشیر بالمسبحۃ أو یعقد ثلاثۃ وخمسین بأن یقبض الوسطیٰ والبنصر والخنصر، ویضع رأس إبہامہ علی حرف مفصل الوسطیٰ الأوسط ویرفع الأصبع عند النفي ویضعہا عند الإثبات‘‘(۳)

(۱)  أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في آداب الوضوء‘‘: ج۱، ص: ۷۷۔    (۲) أیضًا۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب مہم في عقد الأصابع عند التشہد، ج ۲، ص: ۲۱۷، زکریا۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص231

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نہ امام کی نماز فاسد ہوئی اور نہ ہی مقتدی کی، دونوں کی نماز درست ہوگئی ہے۔(۲)

(۲)بخلاف فتحہ علی إمامہ فإنہ لا یفسد مطلقا لفاتح وآخذ بکل حال، تنویر مع الدر وفي الشامیۃ: قولہ: (مطلقا) فسرہ بما بعدہ (قولہ بکل حال) أي سواء قرأ الإمام قدر ما تجوز بہ الصلاۃ أم لا، انتقل إلی آیۃ أخری أم لا، تکرر الفتح أم لا، ہو الأصح۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب المواضع التي لا یجب فیہا‘‘: ج ۲، ۳۸۱، ۳۸۲؛ و محمود بن أحمد،  المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل السادس عشر‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص294

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بریلوی مسلک کا امام شرکیہ عقائد نہیں رکھتا، صرف بدعات میں مبتلا ہے اور دیوبندیوں کو کا فر کہتا ہے، تو اس کے پیچھے نماز بکراہت تحریمی ادا ہوگی اگر صحیح العقیدہ امام مل جائے، تو ایسے بدعتی امام کی اقتداء میںنماز نہیں پڑھنی چاہئے اور اگر صحیح العقیدہ امام نہ ملے، تو اس کے پیچھے ہی نماز پڑھ لی جائے، جماعت نہیں چھوڑنی چاہئے، نیز کسی بھی مسلمان پر کسی شرعی دلیل کے بغیر کافر ہونے کا حکم لگانا سخت گناہ اور حرام ہے، اس سے آدمی کا اپنا دین بھی سلامت نہیں رہتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالاں کہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اس پر لوٹ آئے گا۔
’’إذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بہ أحدہما‘‘(۱)

(۱) أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب: من أکفر أخاہ بغیر تأویل فہو کما قال‘‘: ج ۲، ص:۹۰۱، رقم: ۶۱۰۳۔ وفي المحیط لو صلی خلف فاسق أو مبتدع أحرز ثواب الجماعۃ لکن لایجوز ثواب المصلي خلف تقي اھـ، یرید بالمبتدع من لم یکفر ولا بأس بتفضیلہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۰-۳۵۹، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص126

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ شخص کی امامت درست ہے  ہاں! اگر متولی ومنتظمین ومصلیان ان سے بہتر کسی دیگر متقی شخص کو امام مقرر کرنا چاہیں تو ان کو اس کا بھی اختیار ہے۔(۱)

(۱) وصح اقتداء (قائم بأحدب) وإن بلغ حدبہ الرکوع علی المعتمد، وکذا بأعرج وغیرہ أولی۔ (الحصکفي، رد المحتار مع المدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۸- ۳۳۶)
وہکذا في الفتاویٰ الہندیۃ، ’’جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ، الباب الخامس في الإمامۃ،الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص225

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اذان کا مقصد بھی اعلان واعلام ہی ہے اس لیے جمعہ کے دن دو اذانیں ہوتی ہیں تاکہ پہلی اذان کے بعد لوگ جمعہ کی تیاری شروع کر دیں؛ اس لیے اذان کے علاوہ کسی طرح کا اعلان کرنا اور اس کی عادت بنا لینا درست معلوم نہیں ہوتا اس سے اذان کی اہمیت ختم ہو جانے کا قوی امکان ہے، تاہم اگر کسی جگہ غیروں کی کثرت یا کسی اور وجہ سے لوگوں کے اندر سستی اور غفلت انتہا درجہ کی ہو تو اس اعلان کی گنجائش ہوگی۔(۱)

(۱) قولہ في الکل أي کل الصلوات لظہور التواني في الأمور الدینیۃ، قال في العنایۃ: أحدث المتأخرون التثویب بین الأذان والإقامۃ علی حسب ما تعارفوہ في جمیع الصلوٰۃ سوی المغرب مع إبقاء الأول: یعني الأصل ہو تثویب الفجر۔ (ابن عابدین، رد المحتار،کتاب الصلاۃ، ’’باب الأذان‘‘: مطلب: في الکلام علی حدیث الأذان جزم، ج ۲، ص: ۵۶)
لظہور التواني في الأمور الدینیۃ استحسن المتأخرون التثویب … بحسب ما تعارفہ کل قوم لأنہ مبالغۃ في الإعلام فلا یحصل ذلک إلا بما یتعارفونہ۔ (مجالس الأبرار:  ص: ۲۸۷، مجلس: ۴۸)(شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص233

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں نماز نہیں ہوئی؛ بلکہ فاسد ہو گئی اس لیے اعادہ لازم ہے۔
’’وإن فتح المصلي علیٰ غیر إمامہ فسدت صلاتہ لأنہ تعلیم وتعلم فکان من جنس کلام الناس، إلا إذا نوی التلاوۃ، فإن نوی التلاوۃ لا تفسد صلاتہ عند الکل، وتفسد صلاۃ الآخذ، إلا إذا تذکر قبل تمام الفتح، وأخذ في التلاوۃ قبل تمام الفتح فلا تفسد، وإلا فسدت صلاتہ، لأن تذکرہ یضاف إلی الفتح‘‘(۱)
’’وفتحہ علیٰ غیر إمامہ إلا إذا أراد التلاوۃ وکذا الآخذ إلا إذا تذکر فتلا قبل تمام الفتح قولہ وفتحہ علی غیر إمامہ  لأنہ تعلم وتعلیم من غیر حاجۃ۔
’’قلت :والذي ینبغي أن یقال: إن حصل التذکر بسبب الفتح تفسد مطلقاً: أي سواء‘‘
’’شرع في التلاوۃ قبل تمام الفتح أو بعدہ لوجود التعلم،  وإن حصل تذکرہ من نفسہ لا بسبب الفتح لا تفسد مطلقا، وکون الظاہر أنہ حصل بالفتح لا یؤثر بعد تحقق أنہ من نفسہ، لأن ذلک من أمور الدیانۃ لا القضاء حتی یبني علی الظاہر‘‘(۲)
’’ولو فتح علی غیر إمامہ تفسد، إلا إذا عنی بہ التلاوۃ دون التعلیم …وتفسد صلاتہ بالفتح مرۃ، ولا یشترط فیہ التکرار‘‘(۱)

(۱) الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:’’فتح علی الإمام‘‘ ج ۳۲، ص: ۱۵۔)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۱، ۳۸۲۔)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص295

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے امامت اس کی مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) الاقتداء بأہل الأہواء جائز إلا الجہیۃ والقدریۃ والروافض الغالیۃ والقائل بخلق القرآن والخطابیۃ والمشبہۃ وجملتہ أن من کان من أہل قبلتنا ولم یغل حتی لم یحکم بکفرہ تجوز الصلاۃ خلفہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۶۰، زکریا دیوبند)
قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن، وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین والخلاصۃ وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص127

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نابینا آدمی اچھا پڑھا لکھا ہو اور نجاست وطہارت کے مسائل میں محتاط ہو تو اس کی امامت بینا کی موجودگی میں بھی درست ہے۔(۲)

(۲)وفیہ من الفقہ أجازہ إمامۃ الأعمیٰ ولا أعلمہم یختلفون فیہ۔ (حافظ ابن عبد البر، الاستذکار، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۱)
دخلنا علی جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما، وہو أعمی فجاء وقت الصلاۃ فقام في نساجۃ ملتحفا کلما وضعہا علی منکبیہ رجع طرفاہا إلیہ من صغرہا ورداؤہ إلی جنبہ علی المخشب فصلی بنا۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ، ج ۲، ص: ۲۱۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص225

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اذان کے بعد بغیر ضرورت شرعیہ یا بغیر ضرورت شدیدہ مسجد سے بغیر جماعت سے نماز پڑھے یا قبل از وقت اپنی جماعت کرکے چلا جانا درست نہیں(۲) ضرورت شرعیہ مثلاً دوسری مسجد میں نماز پڑھانی ہو اور ضرورت شدیدہ مثلاً کوئی سفر ہو اور ٹرین چھوٹنے کا خطرہ ہو جس سے کوئی نقصان لازم آئے ایسی صورت میں گنجائش ہے۔ اس پر جماعت تبلیغ کو قیاس کیا جائے کہ ان کے لیے جانا کیا ان دونوں مسئلوں میں سے تھا؟ عذر کی وجہ سے اگر اصل جماعت سے پہلے جماعت کی جائے تو وہ مسجد شرعی اور اس کی چھت سے علا حدہ کسی جگہ کی جائے، مسجد یا اس کی چھت پر جماعت مکروہ ہے۔(۱)

(۲) وکرہ تحریما للنھي خروج من لم یصل من سجد أذن فیہ إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری أو کان الخروج لمسجد حیۃ ولم یصلوا فیہ أو لأستاذہ لدرسہ أو لسماع الوعظ۔ (ابن عابدین، در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: مطلب في کراہۃ الخروج من المسجد بعد الأذان، ج ۲، ص: ۵۰۷-۵۰۸)
(۱) ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن … ولنا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أہل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أہلہ وصلی ولو جاز ذلک لما اختار الصلاۃ في بیتہ علی الجماعۃ في المسجد‘‘ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد، ج ۲، ص: ۲۸۸، ۲۸۹)
قولہ: إذا أقیمت فیکرہ لمن صلی وحدہ الخروج إلا لمقیم جماعۃ أخری فلا یکرہ لہ الخروج عندہما کما في صدر الشریعۃ والحموي عن البرجندي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸)
أن تکرار الجماعۃ في مسجد واحد مکروہ، قال في شرح الدرر والغرر وفي الکافي ولا تکرر جماعۃ وقال الشافعي رحمہ اللّٰہ: یجوز کما في المسجد الذي علی قارعۃ الطریق، لنا إنا أمرنا بتکثیر الجماعۃ وفي تکرار الجماعۃ في مسجد واحد تقلیلہا؛ لأنہم إذا عرفوا أنہم تفوتہم الجماعۃ یتعجلون للحضور فتکثر الجماعۃ، وفي المفتاح إذا دخل القوم مسجدا قد صلی فیہ أہلہ کرہ جماعۃ بأذان وإقامۃ ولکنہم یصلون وحدانا بغیر أذان ولا إقامۃ؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج لیصلح بین الأنصار فاستخلف عبد الرحمن بن عوف رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ فرجع بعدما صلی فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیتہ وجمع أہلہ فصلی بہم بأذان وإقامۃ، فلو کان یجوز إعادۃ الجماعۃ في المسجد لما ترک الصلاۃ فیہ والصلاۃ فیہ أفضل۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ’’کتاب الصلاۃ، سنن الفرائض، إجابۃ المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص233

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 39 / 967

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بجنور میں اپنا کچھ بھی نہیں ہے اور بجنور کو مستقل وطن کی حیثیت سے چھوڑدیا ہے اور مستقل طور پر دہلی میں رہائش اختیار کرلی ہے تو بجنور میں قصرکریں گے، اور اگر یہاں بھی گھر ہے اور تمام انتظامات ہیں یعنی بجنور کو وطن اصلی کی حیثیت سے باقی رکھا ہے تو پھر بجنور میں آنے کے بعد پوری نماز پڑھیں گے ، قصر کرنا جائز نہ ہوگا۔ وطن اصلی متعدد ہوسکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند