نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صلاتک ایپ ہم نے استعمال کیا ہے، اور دائمی کلینڈر سے اس کو چیک کیا تو بہت مناسب ایپ لگا؛ اس لیے اس ایپ کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اوقات صلوۃ میں اس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؛ البتہ اس طرح کے تمام ایپ نیٹ سے مربوط ہوتے ہیں، اس ایپ کو کھولنے سے پہلے موبائل کا انٹرنیٹ اور لوکیشن (Location) بھی چیک کر لیں تا کہ صحیح وقت کی معرفت حاصل ہو سکے۔(۱)



(۱){إِنَّ الصَّلاۃَ کانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتاباً أی مکتوبا مَوْقُوتاً} (سورۃ النساء: ۱۰۳)
إِنَّ الصَّلاۃَ کانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتاباً أي مکتوبا مفروضا مَوْقُوتاً محدود الأوقات لا یجوز إخراجہا عن أوقاتہا في شيء من الأحوال فلا بدّ من إقامتہا سفرا أیضاً۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ النساء: ۱۰۳‘‘: ج۴، ص: ۲۰۲)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص98

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دوکانوں اور کھیت وغیرہ میں جو لوگ دور دراز کام کرتے ہیں ان کی اطلاع کے لیے اگر گھنٹہ بجادیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی ممانعت و مضائقہ نہیں ہے(۱) لیکن اذان کے عین وقت پر نہ بجایا جائے جس سے لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ اذان نہ پڑھ کر اذان ہی کی جگہ گھنٹہ بجایا جا رہا ہے۔(۲)

(۱) وتثویب کل بلدۃ علی ما تعارفوہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني: في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما، ج ۱، ص: ۱۱۳)
(۲) الأذان سنۃ والصحیح أنہ سنۃ مؤکدۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: کتاب الصلاۃ، الباب الثاني: في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص230

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جو مقتدی نماز کی جماعت میں شامل نہ ہوا ہو اس کو لقمہ دینا جائز نہیں اگر امام نے لقمہ لے لیا تو امام اور مقتدیوں کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ صورت مسئولہ میں لقمہ نہ لینے کی وجہ سے سب کی نماز درست ہوگئی۔(۱)

(۱) وإن فتح المصلي علی غیر إمامہ فسدت صلاتہ؛ لأنہ تعلیم وتعلم، فکان من جنس کلام الناس، إلا إذا نوی التلاوۃ، فإن نوی التلاوۃ لاتفسد صلاتہ عند الکل، وتفسد صلاۃ الآخذ، إلا إذا تذکر قبل تمام الفتح، وأخذ في التلاوۃ قبل تمام الفتح، فلاتفسد، وإلا فسدت صلاتہ، لأن تذکرہ یضاف إلی الفتح۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ’’فتح علی الإمام‘‘: ج ۳۲، ص: ۱۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص293

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص بدعتی اور فاسق ہے۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے؛ لیکن جو نمازیں اس کی امامت میں ادا کرلی ہیں وہ ادا ہوگئیں ان کا اعادہ ضروری نہیں۔(۲)

(۲) ویکرہ إمامۃ عبد …… ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول … لا یکفر بہا …… وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفر بہا۔ فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً۔
قال ابن عابدین: قولہ وہي اعتقاد إلخ: عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا، فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸- ۳۰۰)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، …وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (إبن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنائز، فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۰)
لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالاعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص124

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بوقت ضرورت (جب کہ دوسرا قادر علی القیام آدمی) موجود نہ ہو، مذکورہ شخص امام بن کر نماز پڑھا دے، تو نماز ادا ہوجائے گی اور دوسرے اچھے آدمی کے ہوتے ہوئے امامت کرائی، تو کراہت سے خالی نہیں ہوگی۔
’’وقائم بقاعد یرکع ویسجد وقائم بأحدب وإن بلغ حدبہ الرکوع علی المعتمد و کذا بأعرج وغیرہ أولیٰ الخ‘‘(۱)
اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ قادر علی القیام کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ صحیح طریقہ پر بلا کراہت ادا کیا جا سکے۔(۲)

(۱) الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ مطلب في رفع المبلغ صوتہ زیادۃ علی الحاجۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶، ۳۳۸۔
(۲) (وصح اقتداء قائم بقاعد) یرکع ویسجد؛ لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم   …صلی آخر صلاتہ قاعدا وہم قیام وأبو بکر یبلغہم تکبیرہ … وغیرہ أولٰی (وموم بمثلہ) إلا أن یومی الإمام مضطجعا والمؤتم قاعدا أو قائما ہو المختار۔ (أیضًا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص223

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عام نمازوں میں اذان و اقامت کے درمیان مناسب فاصلہ ضروری ہے تاکہ لوگ کھانے پینے اور قضائے حاجت سے فارغ ہوسکیں، پھر روایت میں ہے کہ ہر اذان واقامت کے درمیان نماز ہے؛ اس لیے اتنا فاصلہ ہونا چاہیے کہ اذان و اقامت کے درمیان سنت پڑھ سکیں جہاں تک مغرب کا تعلق ہے تو مغرب کی نماز میں بالاتفاق تعجیل مستحب ہے، اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میری امت مغرب میں تعجیل کرے گی خیر پر رہے گی؛ اس لیے مغرب کی نماز میں اتنا فاصلہ نہیں ہونا چاہیے جتنا کہ دیگر نمازوں میں ہوتا ہے، تاہم وصل یعنی اذان کے فوراً بعد اقامت درست نہیں ہے معمولی فاصلہ ہونا چاہیے۔ اس فصل کی تحدید میں امام صاحب رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ ایک سکتہ کے بقدر وقفہ کرے، اور موذن بیٹھے نہیں، اور ایک سکتہ کی مقدار امام صاحبؒ کے نزدیک ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات کے بقدر ہے، اور ایک روایت کے مطابق تین خطوات چلنے کے بقدر۔ اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک دو خطبوں کے درمیان جلسہ کے بقدر وقفہ کرنا کافی ہے، یعنی ان کے بقول مؤذن اتنی مقدار بیٹھے گا کہ زمین پر تمکن حاصل ہوجائے اور اس میں طوالت نہ ہو۔ اور خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عمل بھی یہی تھا کہ مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان وہ بیٹھتے نہیں تھے۔ اور یہ اختلاف افضلیت میں ہے؛ اس لیے مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان بیٹھنا امام صاحبؒ کے نزدیک بھی جائز ہے اور نہ بیٹھنا اور تین آیتوں کے بقدر کھڑے کھڑے فصل کرنا صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک بھی جائز ہے۔
حاصل یہ ہے کہ عام حالت میں مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے، مغرب کی نماز اور اذان میں صرف ایک بڑی آیت یا تین مختصر آیات کی تلاوت کے بقدر وقفہ کرکے نماز پڑھ لینی چاہیے، اور جتنی دیر میں دورکعت ادا کی جاتی ہیں (یعنی تقریباً 2 منٹ) یا اس سے زیادہ تاخیر کرنا خلافِ اولیٰ ہے، اور بغیر عذر کے اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے چمک جائیں مکروہِ تحریمی ہے۔ البتہ عذر کی وجہ سے تاخیر مکروہ نہیں ہے، جیساکہ مرض وسفر کی بنا پر مغرب کو آخر وقت تک مؤخر کرنا اور عشاء کو اول وقت میںپڑھنا درست ہے۔ اسی طرح اگر کہیں اس قدر تاخیر سے نماز کھڑی ہورہی ہو تو اذان کے بعد دو رکعت نماز بھی پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن باضابطہ سنت پڑھنے کے لیے وقفہ کرنا مکروہ ہے؛ اس لیے کہ یہ مغرب کی نماز میں تاخیر کا باعث ہے۔
’’قال في الجامع الصغیر: ویجلس بین الأذان والإقامۃ إلا في المغرب، وہذا قول أبي حنیفۃ، وقال أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ: یجلس في المغرب أیضاً جلسۃً خفیفۃً، یجب أن یعلم بأن الفصل بین الأذان والإقامۃ في سائر الصلوات مستحب۔ والأصل في ذلک قولہ علیہ السلام لبلال: اجعل بین أذانک وإقامتک مقدار ما یفرغ الآکل من أکلہ، والشارب من شربہا  ‘‘(۱)
’’ویجلس بین الأذان والإقامۃ، إلا في المغرب، وہذا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، وقالا: یجلس في المغرب أیضاً جلسۃً خفیفۃً؛ لأنہ لا بد من الفصل، إذ الوصل مکروہ، ولا یقع الفصل بالسکتۃ؛ لوجودہا بین کلمات الأذان، فیفصل بالجلسۃ کما بین الخطبتین، ولأبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ أن التأخیر مکروہ، فیکتفی بأدنی الفصل احترازاً عنہ، والمکان في مسألتنا مختلف، وکذا النغمۃ، فیقع الفصل بالسکتۃ، ولاکذلک الخطبۃ۔ وقال الشافعي: یفصل برکعتین اعتباراً بسائر الصلوات، والفرق قد ذکرناہ۔ قال یعقوب: رأیت أبا حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالی یؤذن في المغرب ویقیم، ولا یجلس بین الأذان والإقامۃ، وہذا یفید ما قلناہ‘‘(۲)
’’(قولہ: إلی اشتباک النجوم) ظاہرہ أنہا بقدر رکعتین لایکرہ مع أنہ یکرہ أخذاً من قولہم بکراہۃ رکعتین قبلہا۔ واستثناء صاحب القنیۃ القلیل یحمل علی ما ہو الأقل من قدرہما توفیقاً بین کلام الأصحاب … واعلم أن التاخیربقدر رکعتین مکروہ تنزیہاً وإلی اشتباک النجوم تحریماً‘‘(۱)

(۱)محمود بن احمد المرغینانی المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الصلاۃ، في الفصل بین الأذان والإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۶۔
(۲) العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۲، ۱۰۴۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸، ط:قدیمی۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص99


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں نماز سے پہلے اعلان درست نہیں ہے یہ تثویب میں داخل ہے جس کی اجازت نہیں ہے(۱) اور نماز فجر کے بعد طلوع کے وقت نماز پڑھنی درست نہیں ہے اس کی ممانعت ہے۔ اور غفلت کی وجہ سے لوگوں کو اس وقت کا پورا خیال نہیں رہتا اس لیے حسب ضرورت اعلان کی گنجائش ہے۔(۲)

(۱) ویثوب کقولہ بعد الأذان الصلاۃ الصلاۃ یا مصلین۔ (الشرنبلالي، نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۶۱، مکتبہ عکاظ دیوبند)
(۲) قال في العنایۃ: أحدث المتأخرون التثویب بین الأذان والإقامۃ علی حسب ما تعارفوہ في جمیع الصلاۃ سوی المغرب مع إبقاء الأول یعني الأصل ہو تثویب الفجر، و ما رآہ المسلمون حسنا فہو عند اللّٰہ حسن۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج ۲، ص: ۵۶)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص231

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: نماز درست ہے، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ہے۔
’’والصحیح أن ینوی الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ۔ قالوا : ہذا إذا ارتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ أو بعد ما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال، ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح، ہکذا في الکافي۔ ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ، لجواز أن یتذکر من ساعتہ، فیصیر قارئاً خلف الإمام من غیر حاجۃ، کذا في محیط السرخسي، ولا ینبغي للإمام أن یلجئہم إلی الفتح ؛ لإنہ یلجئہم إلی القراء ۃ خلفہ وإنہ مکروہ، بل یرکع إن قرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ وإلا ینتقل إلی آیۃ أخری، کذا في الکافي، وتفسیر الإلجاء أن یردد الآیۃ، أو یقف ساکتًا، کذا في النہایۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷، ۱۵۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص293

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بے تحقیقی بات کا تو اعتبار نہیں ہے؛ لیکن عرس وغیرہ میں شرکت اور قبروں کا طواف وغیرہ افعالِ بدعت ہیں خصوصاً قبر کا طواف کرنا کفر ہے کہ یہ عبادت بیت اللہ کے ساتھ مخصوص ہے، نیز نمازیوں کی ناراضی بجا اور باموقع ہے اس حالت میں ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔(۱)
’’ولا یمسح القبر ولا یقبلہ فإن ذلک من عادۃ النصاری‘‘(۲)
’’أما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ ۔۔۔۔۔ بل مشیٰ في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۳)

(۱) ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم لابمعاندۃ بل بنوع شبہۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸،۲۹۹)
وعن ابن عمرو رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول : ثلثۃ لاتقبل اللّٰہ منہم صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون، ورجل أتی الصلاۃ دباراً والدّبار أن یأتیہا بعد أن تفوتہ ورجل اعتبد محررہ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الرجل یؤم القوم وہم لہ کارہون‘‘: ج ۲، ص:۸۸، رقم: ۵۹۳)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب السادس عشر في زیارۃ القبور وقرأۃ القرآن في المقابر‘‘: ج ۵، ص: ۳۵۰۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب البدعۃ خمسۃ اقسام‘‘: ج۲، ص:۲۹۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص125

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں شرعی عذر کی وجہ سے پٹی باندھی ہو اور اس میں خون نہ بہتا ہو اور اس پر مسح کر رہا ہو، تو اس کی امامت جائز اور درست ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’ویجوز اقتداء الغاسل بماسح الخف وبالماسح علی الجبیرۃ‘‘(۱)

(۱) (وغاسل بماسح) ولو علی جبیرۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص224