نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آج کے ترقی یافتہ دور میں فلکیات کے نظام پر کافی ریسرچ ہوئی ہے اور بہت کام کیا گیا ہے اور اب پوری دنیامیں نماز کا وقت جاننے کے لیے انٹرنیٹ پر معلومات جمع ہیں، یہاں تک کہ نظام شمسی کے اعتبار سے پورے سال کا ٹائم ٹیبل بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل اسی طرح موبائل ایپ کے ٹائم ٹیبل پر اعتماد کیا جاسکتا ہے جب کہ نیٹ سے مربوط ہو۔ دائمی کلینڈر ہر علاقہ کے طول البلد اور عرض البلد کے لحاظ سے طے کیا جاتا ہے، اس لیے آپ کے علاقہ میں جو جنتری ہو اس کو نیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل سے چیک کر لیں اور اس پر اعتماد کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ تاریخ اور لوکیشن دونوں ڈال کر چیک کر یں تا کہ صحیح وقت معلوم ہو سکے۔(۱)

(۱){إِنَّ الصَّلاۃَ کانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتاباً أی مکتوبا مَوْقُوتاً} (سورۃ النساء: ۱۰۳)
إِنَّ الصَّلاۃَ کانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتاباً أي مکتوبا مفروضا مَوْقُوتاً محدود الأوقات لا یجوز إخراجہا عن أوقاتہا في شيء من الأحوال فلا بدّ من إقامتہا سفرا أیضاً۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ النساء: ۹۴‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۲)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص97

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں دعوت نماز کے لیے اذان کافی ہے۔ پھر سے لوگوں کو دعوت کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن اگر کیف مااتفق کبھی کبھی کسی آدمی کو ترغیباً نماز کے لیے کہہ دیا جائے تاکہ اس کی جماعت ترک نہ ہو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ البتہ روزانہ اس کے التزام سے پرہیز کیا جائے۔ تاہم بعض علماء نے غافلوں کی تنبیہ کے لیے اجازت دی ہے۔(۱)
’’واستحسن المتأخرون التثویب وہو العود إلی الإعلام بعد الإعلام بحسب ما تعارفہ کل قوم‘‘(۲)

(۱) الشرنبلالي، قال الزہري: وزاد بلال في نداء صلاۃ الفجر الصلاۃ خیر من النوم، قأقرہا نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقال عمر: أما إني قد رأیت مثل الذي رأي، ولکنہ سبقني۔ (اخرجہ مسند أبي یعلی، مسند عبداللّٰہ بن عمر:ج۹، ص: ۳۷۹)
أخبرنا مالک، أخبرنا ابن شہاب، عن عطاء بن یزید اللیثي، عن أبي سعید الخدري، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا سمعتم النداء، فقولوا مثل ما یقول المؤذن۔ (ص: ۵۵) قال مالک: بلغنا أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ جاء ہ المؤذن یؤذنہ لصلاۃ الصبح، فوجدہ نائماً فقال المؤذن: الصلاۃ خیر من النوم، فأمرہ عمر أن یجعلہا في نداء الصبح۔ (أخرجہ مالک في المؤطا، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والتثویب‘‘: ج ۱، ص: ۵۴؛ ومسند ابن أبي شیبۃ، ’’من کان یقول في الأذان الصلاۃ خیر من النوم‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹)
محمد، قال: أخبرنا أبو حنیفۃ، عن حماد، عن إبراہیم، قال: سألتہ عن التثویب، قال: ہو مما أحدثہ الناس، وہو حسن مما أحدثوا وذکر أن تثویبہم کان حین یفرغ المؤذن من أذانہ: الصلاۃ خیر من النوم قال محمد: وبہ نأخذ، وہو قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ۔ (محمد بن الحسن، الآثار، کتاب الصلاۃ،’’باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱)
(۲) نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۶۲؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج۲، ص: ۵۶۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص229

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: فرض نماز میں امام کو لقمہ دینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے یعنی امام سے قرأت میں غلطی ہو جائے یا کوئی آیت بھول جائے یا پڑھتے پڑھتے اٹک جائے تو مقتدی نے لقمہ دیا اور امام نے لقمہ لے کر نماز کو مکمل کیا تو نماز درست ہوگئی، لیکن یہاں خیال رکھنا چاہئے کہ لقمہ دینے میں جلدی نہ کی جائے اور امام کو چاہئے کہ اگر مقدار واجب قرأت کر چکا ہے تو رکوع کر لے یا کوئی دوسری جگہ سے تلاوت شروع کردے مقدار واجب قرأت کے بعد کسی آیت کو بار بار لوٹانا تاکہ یاد آجائے یا مقتدی لقمہ دے یہ مکروہ ہے، اسی طرح مقتدی کو چاہئے کہ لقمہ دینے میں جلدی نہ کرے؛ بلکہ توقف کرے ہو سکتا ہے امام رکوع کرلے یا دوسری سورت پڑھے یا خود ہی اٹکی ہوئی جگہ کو درست کرلے جلدی لقمہ دینا مقتدی کے حق میں مکروہ ہے ہاں شدید ضرورت ہو تو لقمہ دے سکتا ہے۔(۱)
(۱) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ، قالوا: ہذا إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح والصحیح أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح۔ ہکذا فی الکافي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول فیما یفسدہا، النوع الأول في الأقوال‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)
ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ؛ لجواز أن یتذکر من ساعتہ فیصیر قارئاً خلف الإمام من غیر حاجۃ۔ کذا فی محیط السرخسي۔ ولا ینبغي للإمام أن یلجئہم إلی الفتح؛ لأنہ یلجئھم إلی القراء ۃ خلفہ وإنہ مکروہ، بل یرکع إن قرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، وإلا ینتقل إلی آیۃ أخری۔ کذا فی الکافی۔ وتفسیر الإلجاء: أن یردد الآیۃ أو یقف ساکتاً۔ کذا فی النہایۃ: ولا ینبغي للمقتدي أن یفتح علی الإمام من ساعتہ؛ لأنہ ربما یتذکر الإنسان من ساعتہ فتکون قراء تہ خلفہ قراء ۃ من غیر حاجۃ۔ (أیضاً)
قالوا: یکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ، وکذا یکرہ للإمام أن یلجئہم إلیہ بأن یقف ساکتا بعد الحصر أو یکرر الآیۃ بل یرکع إذا جاء أوانہ أو ینتقل إلی آیۃ أخری لم یلزم من وصلہا ما یفسد الصلاۃ أو ینتقل إلی سورۃ أخری۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص291

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2294/44-3447

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں چونکہ متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہیں تو اس طرح  نیت کریں  کہ  مثلاً جتنی فجر کی نمازیں مجھ سے قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، تو اس طرح جتنے سالوں کی نمازیں ذمہ میں ہوں  گی اتنے سال کا حساب کرکے ادا کرلیں۔  ایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں،یعنی فجر کی نمازاداکرنے کے بعد فجر کی قضانماز ایک ادا کرلیں۔  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں۔ اورجو طریقہ آپ نے لکھاہے کہ ایک لسٹ بناکر جو نمازیں اداکرتے ر ہیں ان پر نشان لگاتے رہیں تو یہ بھی حساب کے لئے بہت بہتر طریقہ ہے۔

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره. (قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 76)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص امامت کا اہل نہ ہو، بدعات کا مرتکب ہو مسلمانوں میں گروہ بندی اور اختلاف کا مرتکب ہو۔ ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے(۱)، اگر کوئی امامت کا اہل نماز پڑھانے والا نہ ہو تو فاجر کے پیچھے نماز ادا ہوجائے گی؛ لیکن کراہت تحریمی کے ساتھ کہ فرض کی ادائیگی ہوگی ثواب کا حصول نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ (رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، فتاویٰ رشیدیہ، بدعتی کی امامت کا حکم: ص: ۳۵۲، جسیم بکڈپو، دہلی)
(۱) ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لاینال مثل ما ینال خلف تقي کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص123

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صلاتک ایپ ہم نے استعمال کیا ہے، اور دائمی کلینڈر سے اس کو چیک کیا تو بہت مناسب ایپ لگا؛ اس لیے اس ایپ کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اوقات صلوۃ میں اس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؛ البتہ اس طرح کے تمام ایپ نیٹ سے مربوط ہوتے ہیں، اس ایپ کو کھولنے سے پہلے موبائل کا انٹرنیٹ اور لوکیشن (Location) بھی چیک کر لیں تا کہ صحیح وقت کی معرفت حاصل ہو سکے۔(۱)



(۱){إِنَّ الصَّلاۃَ کانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتاباً أی مکتوبا مَوْقُوتاً} (سورۃ النساء: ۱۰۳)
إِنَّ الصَّلاۃَ کانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتاباً أي مکتوبا مفروضا مَوْقُوتاً محدود الأوقات لا یجوز إخراجہا عن أوقاتہا في شيء من الأحوال فلا بدّ من إقامتہا سفرا أیضاً۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ النساء: ۱۰۳‘‘: ج۴، ص: ۲۰۲)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص98

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دوکانوں اور کھیت وغیرہ میں جو لوگ دور دراز کام کرتے ہیں ان کی اطلاع کے لیے اگر گھنٹہ بجادیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی ممانعت و مضائقہ نہیں ہے(۱) لیکن اذان کے عین وقت پر نہ بجایا جائے جس سے لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ اذان نہ پڑھ کر اذان ہی کی جگہ گھنٹہ بجایا جا رہا ہے۔(۲)

(۱) وتثویب کل بلدۃ علی ما تعارفوہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني: في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما، ج ۱، ص: ۱۱۳)
(۲) الأذان سنۃ والصحیح أنہ سنۃ مؤکدۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: کتاب الصلاۃ، الباب الثاني: في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۰)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص230

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جو مقتدی نماز کی جماعت میں شامل نہ ہوا ہو اس کو لقمہ دینا جائز نہیں اگر امام نے لقمہ لے لیا تو امام اور مقتدیوں کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ صورت مسئولہ میں لقمہ نہ لینے کی وجہ سے سب کی نماز درست ہوگئی۔(۱)

(۱) وإن فتح المصلي علی غیر إمامہ فسدت صلاتہ؛ لأنہ تعلیم وتعلم، فکان من جنس کلام الناس، إلا إذا نوی التلاوۃ، فإن نوی التلاوۃ لاتفسد صلاتہ عند الکل، وتفسد صلاۃ الآخذ، إلا إذا تذکر قبل تمام الفتح، وأخذ في التلاوۃ قبل تمام الفتح، فلاتفسد، وإلا فسدت صلاتہ، لأن تذکرہ یضاف إلی الفتح۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ’’فتح علی الإمام‘‘: ج ۳۲، ص: ۱۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص293

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص بدعتی اور فاسق ہے۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے؛ لیکن جو نمازیں اس کی امامت میں ادا کرلی ہیں وہ ادا ہوگئیں ان کا اعادہ ضروری نہیں۔(۲)

(۲) ویکرہ إمامۃ عبد …… ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول … لا یکفر بہا …… وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفر بہا۔ فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً۔
قال ابن عابدین: قولہ وہي اعتقاد إلخ: عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا، فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸- ۳۰۰)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، …وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (إبن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنائز، فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۰)
لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالاعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص124

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بوقت ضرورت (جب کہ دوسرا قادر علی القیام آدمی) موجود نہ ہو، مذکورہ شخص امام بن کر نماز پڑھا دے، تو نماز ادا ہوجائے گی اور دوسرے اچھے آدمی کے ہوتے ہوئے امامت کرائی، تو کراہت سے خالی نہیں ہوگی۔
’’وقائم بقاعد یرکع ویسجد وقائم بأحدب وإن بلغ حدبہ الرکوع علی المعتمد و کذا بأعرج وغیرہ أولیٰ الخ‘‘(۱)
اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ قادر علی القیام کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ صحیح طریقہ پر بلا کراہت ادا کیا جا سکے۔(۲)

(۱) الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ مطلب في رفع المبلغ صوتہ زیادۃ علی الحاجۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶، ۳۳۸۔
(۲) (وصح اقتداء قائم بقاعد) یرکع ویسجد؛ لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم   …صلی آخر صلاتہ قاعدا وہم قیام وأبو بکر یبلغہم تکبیرہ … وغیرہ أولٰی (وموم بمثلہ) إلا أن یومی الإمام مضطجعا والمؤتم قاعدا أو قائما ہو المختار۔ (أیضًا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص223