نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں نماز نہیں ہوئی؛ بلکہ فاسد ہو گئی اس لیے اعادہ لازم ہے۔
’’وإن فتح المصلي علیٰ غیر إمامہ فسدت صلاتہ لأنہ تعلیم وتعلم فکان من جنس کلام الناس، إلا إذا نوی التلاوۃ، فإن نوی التلاوۃ لا تفسد صلاتہ عند الکل، وتفسد صلاۃ الآخذ، إلا إذا تذکر قبل تمام الفتح، وأخذ في التلاوۃ قبل تمام الفتح فلا تفسد، وإلا فسدت صلاتہ، لأن تذکرہ یضاف إلی الفتح‘‘(۱)
’’وفتحہ علیٰ غیر إمامہ إلا إذا أراد التلاوۃ وکذا الآخذ إلا إذا تذکر فتلا قبل تمام الفتح قولہ وفتحہ علی غیر إمامہ  لأنہ تعلم وتعلیم من غیر حاجۃ۔
’’قلت :والذي ینبغي أن یقال: إن حصل التذکر بسبب الفتح تفسد مطلقاً: أي سواء‘‘
’’شرع في التلاوۃ قبل تمام الفتح أو بعدہ لوجود التعلم،  وإن حصل تذکرہ من نفسہ لا بسبب الفتح لا تفسد مطلقا، وکون الظاہر أنہ حصل بالفتح لا یؤثر بعد تحقق أنہ من نفسہ، لأن ذلک من أمور الدیانۃ لا القضاء حتی یبني علی الظاہر‘‘(۲)
’’ولو فتح علی غیر إمامہ تفسد، إلا إذا عنی بہ التلاوۃ دون التعلیم …وتفسد صلاتہ بالفتح مرۃ، ولا یشترط فیہ التکرار‘‘(۱)

(۱) الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:’’فتح علی الإمام‘‘ ج ۳۲، ص: ۱۵۔)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۱، ۳۸۲۔)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص295

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے امامت اس کی مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) الاقتداء بأہل الأہواء جائز إلا الجہیۃ والقدریۃ والروافض الغالیۃ والقائل بخلق القرآن والخطابیۃ والمشبہۃ وجملتہ أن من کان من أہل قبلتنا ولم یغل حتی لم یحکم بکفرہ تجوز الصلاۃ خلفہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۶۰، زکریا دیوبند)
قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن، وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین والخلاصۃ وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص127

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نابینا آدمی اچھا پڑھا لکھا ہو اور نجاست وطہارت کے مسائل میں محتاط ہو تو اس کی امامت بینا کی موجودگی میں بھی درست ہے۔(۲)

(۲)وفیہ من الفقہ أجازہ إمامۃ الأعمیٰ ولا أعلمہم یختلفون فیہ۔ (حافظ ابن عبد البر، الاستذکار، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۱)
دخلنا علی جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما، وہو أعمی فجاء وقت الصلاۃ فقام في نساجۃ ملتحفا کلما وضعہا علی منکبیہ رجع طرفاہا إلیہ من صغرہا ورداؤہ إلی جنبہ علی المخشب فصلی بنا۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ، ج ۲، ص: ۲۱۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص225

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اذان کے بعد بغیر ضرورت شرعیہ یا بغیر ضرورت شدیدہ مسجد سے بغیر جماعت سے نماز پڑھے یا قبل از وقت اپنی جماعت کرکے چلا جانا درست نہیں(۲) ضرورت شرعیہ مثلاً دوسری مسجد میں نماز پڑھانی ہو اور ضرورت شدیدہ مثلاً کوئی سفر ہو اور ٹرین چھوٹنے کا خطرہ ہو جس سے کوئی نقصان لازم آئے ایسی صورت میں گنجائش ہے۔ اس پر جماعت تبلیغ کو قیاس کیا جائے کہ ان کے لیے جانا کیا ان دونوں مسئلوں میں سے تھا؟ عذر کی وجہ سے اگر اصل جماعت سے پہلے جماعت کی جائے تو وہ مسجد شرعی اور اس کی چھت سے علا حدہ کسی جگہ کی جائے، مسجد یا اس کی چھت پر جماعت مکروہ ہے۔(۱)

(۲) وکرہ تحریما للنھي خروج من لم یصل من سجد أذن فیہ إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری أو کان الخروج لمسجد حیۃ ولم یصلوا فیہ أو لأستاذہ لدرسہ أو لسماع الوعظ۔ (ابن عابدین، در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: مطلب في کراہۃ الخروج من المسجد بعد الأذان، ج ۲، ص: ۵۰۷-۵۰۸)
(۱) ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن … ولنا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أہل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أہلہ وصلی ولو جاز ذلک لما اختار الصلاۃ في بیتہ علی الجماعۃ في المسجد‘‘ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد، ج ۲، ص: ۲۸۸، ۲۸۹)
قولہ: إذا أقیمت فیکرہ لمن صلی وحدہ الخروج إلا لمقیم جماعۃ أخری فلا یکرہ لہ الخروج عندہما کما في صدر الشریعۃ والحموي عن البرجندي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸)
أن تکرار الجماعۃ في مسجد واحد مکروہ، قال في شرح الدرر والغرر وفي الکافي ولا تکرر جماعۃ وقال الشافعي رحمہ اللّٰہ: یجوز کما في المسجد الذي علی قارعۃ الطریق، لنا إنا أمرنا بتکثیر الجماعۃ وفي تکرار الجماعۃ في مسجد واحد تقلیلہا؛ لأنہم إذا عرفوا أنہم تفوتہم الجماعۃ یتعجلون للحضور فتکثر الجماعۃ، وفي المفتاح إذا دخل القوم مسجدا قد صلی فیہ أہلہ کرہ جماعۃ بأذان وإقامۃ ولکنہم یصلون وحدانا بغیر أذان ولا إقامۃ؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج لیصلح بین الأنصار فاستخلف عبد الرحمن بن عوف رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ فرجع بعدما صلی فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیتہ وجمع أہلہ فصلی بہم بأذان وإقامۃ، فلو کان یجوز إعادۃ الجماعۃ في المسجد لما ترک الصلاۃ فیہ والصلاۃ فیہ أفضل۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ’’کتاب الصلاۃ، سنن الفرائض، إجابۃ المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص233

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 39 / 967

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بجنور میں اپنا کچھ بھی نہیں ہے اور بجنور کو مستقل وطن کی حیثیت سے چھوڑدیا ہے اور مستقل طور پر دہلی میں رہائش اختیار کرلی ہے تو بجنور میں قصرکریں گے، اور اگر یہاں بھی گھر ہے اور تمام انتظامات ہیں یعنی بجنور کو وطن اصلی کی حیثیت سے باقی رکھا ہے تو پھر بجنور میں آنے کے بعد پوری نماز پڑھیں گے ، قصر کرنا جائز نہ ہوگا۔ وطن اصلی متعدد ہوسکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2509/45-3829

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد شرعی میں ایک سے زائد جماعت کرنا شرعا مکروہ ہے۔ اور جو سلسلہ کسی مجبوری میں شروع کیاگیاہو تو جب مجبوری باقی نہ رہے تو وہ سلسلہ بھی بند کردینا چاہئے، اس لئے جس مسجد میں لاک ڈاؤن کے دوران ایک مجبوری کے تحت دو جماعتیں شروع کی گئی تھیں، اب ان کو بند کردینا چاہئے، البتہ اب تک جو دو جماعتیں ہوتی رہیں ان سب کی نماز درست ہوگئی۔ شرعی مسئلہ معلوم ہوجانے کے بعد بھی کچھ لوگوں کا اپنی بات پر ضد کرنا درست نہیں ہے، جس طرح پہلے ایک ہی جمعہ ہوتاتھا اسی پرانے سلسلہ کو بحال کیاجائے اور ایک ہی جماعت سے جمعہ کی نماز ادا کی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بدعت اور شرک دونوں الگ ہیں، دونوں میں بڑا فرق ہے، شرک کرنے والے کے پیچھے نماز نہیںہوگی؛ لیکن اگر کوئی گنہگار ہے خواہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کیوں نہ ہو اور وہ بدعتی ہے تو ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے؛ لیکن اگر نماز ان کے پیچھے پڑھی گئی تو فریضہ ادا ہوجائے گا اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ اگر وہ تفسیر کی ایسی کتاب پڑھتا ہے جس میں مصنف نے تفسیر بالرائے کی ہو تو ایسی کتاب پڑھنی نہیں چاہئے اور اگر وہ تفسیر بالرائے کو صحیح مانتا ہے یا خود تفسیر بالرائے کرتا ہے تو ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے، انگوٹھے چومنا، مسجد میں بلند آواز سے سلام پڑھنا بدعت اور خلاف سنت ہے۔(۱)

(۱) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق والمبتدع بارتکابہ ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي۔ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ أو استحسان وروي محمد عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وأبي یوسفؒ أن الصلاۃ خلف أہل الأہواء لاتجوز، والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لا تکفرہ بدعتہ الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘ص: ۳۰۳، ۳۰۲، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لابمعاندۃ بل بنوع شبہۃ۔ (الحصکفي،  رد المحتار مع الدرالمختار،  ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹، ۲۹۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص128

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص کی امامت شرعاً درست ہے۔(۱)

(۱) ولذا قید الأبرص بالشیوع لیکون ظاہرا ولعدم إمکان إکمال الطہارۃ أیضاً…في المفلوج والأقطع والمجبوب۔ (ابن عابدین، در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص226

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایسا کرنا جائز نہیں ہے، مکروہ تحریمی ہے؛ لیکن بیع ہوجائے گی البتہ عاقدین کو ایک ناجائز معاملہ کرنے کی وجہ سے توبہ واستغفار کرنے کے ساتھ مذکورہ معاملہ کو ختم کرنا چاہئے۔
{فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ط}(۱)
’’ووجب یسعي إلیہا وترک البیع ولو مع السعي وفي المسجد أعظم وزرًا … قال الشامي أو علیٰ بابہ وحاصلہ أن السعي نفسہ فرض والواجب کونہ في وقت الأذان الأول‘‘(۲)
’’وکرہ تحریماً مع الصحۃ (البیع عندالأذان الأول)‘‘(۳)
’’إلا إذا تبایعا یمشیان فلا بأس بہ لتعلیل النہي بالإخلال بالسعي فإذا انتفی انتفی‘‘(۴)

(۱) سورۃ الجمعہ: ۹۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقي بین یدیی الخطیب‘‘ ج ۳، ص: ۳۸۔
(۳) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب البیوع: باب البیع الفاسد، مطلب أحکام نقصان المبیع فاسدًا‘‘: ج۷، ص: ۳۰۴۔    (۴) أیضًا۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص235

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حروف کی ادائیگی صحیح طریقہ پر ہونی چاہئے حتی الامکان امام صاحب کو اس کی کوشش کرنی چاہئے(۱) لیکن انگوٹھے چومنا اور دعاء میں یاغوث کہنا غلط عقیدہ ہے جو بدعت ہے ایسے شخص کو امام نہ بنانا چاہئے؛ بلکہ دیندار متبع سنت شخص کو نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کا امام بنانا چاہئے؛ البتہ حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا اور ایسے ہی شروع تکبیر میں کھڑا ہونا دونوں جائز ہیں اس بارے میں ایک فریق کو دوسرے پر نکیر نہ کرنی چاہئے مگر مذکورہ بالا غلط عقیدہ رکھنے والے بدعتی کی امامت مکروہ ہے۔ بیت المقدس تمام انبیاء کا قبلہ ہے اس کو آرام گاہ کہنا ہے بے ادبی ہے، اس لیے کہ وہ عبادت گاہ ہے آرام گاہ نہیں ہے۔(۲)

(۱) قولہ ثم الأحسن تلاوۃ و تجویدا أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ أي أجود لاأکثرہم حفظاً، وإن جعلہ في البحر متبادراً، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
(۲) ویکرہ إمامۃ مبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف، وقال الشامي، بأنہا ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال…بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دیناً قویماً وصراطاً مستقیماً۔ (أیضًا)
وقال في مجمع الروایات، إذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ لکن لاینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص129