نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2509/45-3829

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد شرعی میں ایک سے زائد جماعت کرنا شرعا مکروہ ہے۔ اور جو سلسلہ کسی مجبوری میں شروع کیاگیاہو تو جب مجبوری باقی نہ رہے تو وہ سلسلہ بھی بند کردینا چاہئے، اس لئے جس مسجد میں لاک ڈاؤن کے دوران ایک مجبوری کے تحت دو جماعتیں شروع کی گئی تھیں، اب ان کو بند کردینا چاہئے، البتہ اب تک جو دو جماعتیں ہوتی رہیں ان سب کی نماز درست ہوگئی۔ شرعی مسئلہ معلوم ہوجانے کے بعد بھی کچھ لوگوں کا اپنی بات پر ضد کرنا درست نہیں ہے، جس طرح پہلے ایک ہی جمعہ ہوتاتھا اسی پرانے سلسلہ کو بحال کیاجائے اور ایک ہی جماعت سے جمعہ کی نماز ادا کی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بدعت اور شرک دونوں الگ ہیں، دونوں میں بڑا فرق ہے، شرک کرنے والے کے پیچھے نماز نہیںہوگی؛ لیکن اگر کوئی گنہگار ہے خواہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کیوں نہ ہو اور وہ بدعتی ہے تو ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے؛ لیکن اگر نماز ان کے پیچھے پڑھی گئی تو فریضہ ادا ہوجائے گا اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ اگر وہ تفسیر کی ایسی کتاب پڑھتا ہے جس میں مصنف نے تفسیر بالرائے کی ہو تو ایسی کتاب پڑھنی نہیں چاہئے اور اگر وہ تفسیر بالرائے کو صحیح مانتا ہے یا خود تفسیر بالرائے کرتا ہے تو ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے، انگوٹھے چومنا، مسجد میں بلند آواز سے سلام پڑھنا بدعت اور خلاف سنت ہے۔(۱)

(۱) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق والمبتدع بارتکابہ ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي۔ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ أو استحسان وروي محمد عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وأبي یوسفؒ أن الصلاۃ خلف أہل الأہواء لاتجوز، والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لا تکفرہ بدعتہ الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘ص: ۳۰۳، ۳۰۲، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لابمعاندۃ بل بنوع شبہۃ۔ (الحصکفي،  رد المحتار مع الدرالمختار،  ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹، ۲۹۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص128

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص کی امامت شرعاً درست ہے۔(۱)

(۱) ولذا قید الأبرص بالشیوع لیکون ظاہرا ولعدم إمکان إکمال الطہارۃ أیضاً…في المفلوج والأقطع والمجبوب۔ (ابن عابدین، در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص226

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایسا کرنا جائز نہیں ہے، مکروہ تحریمی ہے؛ لیکن بیع ہوجائے گی البتہ عاقدین کو ایک ناجائز معاملہ کرنے کی وجہ سے توبہ واستغفار کرنے کے ساتھ مذکورہ معاملہ کو ختم کرنا چاہئے۔
{فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ط}(۱)
’’ووجب یسعي إلیہا وترک البیع ولو مع السعي وفي المسجد أعظم وزرًا … قال الشامي أو علیٰ بابہ وحاصلہ أن السعي نفسہ فرض والواجب کونہ في وقت الأذان الأول‘‘(۲)
’’وکرہ تحریماً مع الصحۃ (البیع عندالأذان الأول)‘‘(۳)
’’إلا إذا تبایعا یمشیان فلا بأس بہ لتعلیل النہي بالإخلال بالسعي فإذا انتفی انتفی‘‘(۴)

(۱) سورۃ الجمعہ: ۹۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقي بین یدیی الخطیب‘‘ ج ۳، ص: ۳۸۔
(۳) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب البیوع: باب البیع الفاسد، مطلب أحکام نقصان المبیع فاسدًا‘‘: ج۷، ص: ۳۰۴۔    (۴) أیضًا۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص235

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حروف کی ادائیگی صحیح طریقہ پر ہونی چاہئے حتی الامکان امام صاحب کو اس کی کوشش کرنی چاہئے(۱) لیکن انگوٹھے چومنا اور دعاء میں یاغوث کہنا غلط عقیدہ ہے جو بدعت ہے ایسے شخص کو امام نہ بنانا چاہئے؛ بلکہ دیندار متبع سنت شخص کو نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کا امام بنانا چاہئے؛ البتہ حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا اور ایسے ہی شروع تکبیر میں کھڑا ہونا دونوں جائز ہیں اس بارے میں ایک فریق کو دوسرے پر نکیر نہ کرنی چاہئے مگر مذکورہ بالا غلط عقیدہ رکھنے والے بدعتی کی امامت مکروہ ہے۔ بیت المقدس تمام انبیاء کا قبلہ ہے اس کو آرام گاہ کہنا ہے بے ادبی ہے، اس لیے کہ وہ عبادت گاہ ہے آرام گاہ نہیں ہے۔(۲)

(۱) قولہ ثم الأحسن تلاوۃ و تجویدا أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ أي أجود لاأکثرہم حفظاً، وإن جعلہ في البحر متبادراً، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
(۲) ویکرہ إمامۃ مبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف، وقال الشامي، بأنہا ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال…بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دیناً قویماً وصراطاً مستقیماً۔ (أیضًا)
وقال في مجمع الروایات، إذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ لکن لاینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص129

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ شخص کو اتنا وقت بھی نہ مل سکے کہ ایک وقت کی نماز وضو کر کے ادا کر لے اور اس وقت میں قطرہ نہ آئے، بلکہ قطرہ آجاتا ہو تو وہ شخص شرعاً معذور ہے اس کا حکم یہ ہے کہ ایک وقت میں وضو کر کے جس قدر نمازیں چاہے پڑھے، دوسری نماز کے لیے از سر نو وضو کرے یہ شخص معذور ہے جو غیر معذور کا امام نہیں بن سکتا۔(۲)

(۲) وصاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ أو استطلاق بطن أو انفلات ریح… إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتہا زمنا یتوضأ ویصلي فیہ خالیا عن الحدث ولو حکما لأن الانقطاع الیسیر ملحق بالعدم۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذورین‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۴)
ومعذور بمثلہ وذي عذرین بذي عذر، لا عکسہ کذي انفلات ریح بذي سلس لأن مع الإمام حدثا ونجاسۃ۔ (أیضًا:’’مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص226

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایک مسجد میں ایک آدمی اذان پڑھے اور وہی آدمی دوسری مسجد میں اسی وقت کی نماز پڑھاوے تو شرعاً جائز ہے، اس کی اقتداء میں پڑھی گئیں نمازیں بلاکراہت درست ہیں۔(۱)

(۱) کرہ تحریمہا للنھي خروج من لم یصل من سجد قد أذن فیہ إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘:  مطلب في کراہۃ الخروج من المسجد بعد الأذان، ۲، ص: ۵۰۶، ۵۰۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص236

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے دوران عمل قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوتی او رعمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، عمل قلیل وکثیر کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں جن میں دو تعریفیں زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ دیکھنے والے کو یقین یا ظن غالب ہو کہ وہ نماز میں نہیں ہے تو وہ عمل کثیر ہے ورنہ قلیل ہے اور دوسری یہ کہ جس میں دونوں ہاتھ کا استعمال ہو وہ کثیر ہے اور جس میں ایک ہاتھ کا استعمال ہو وہ قلیل ہے۔ صورت مذکورہ میں امام صاحب نے ایک ہاتھ سے موبائل نکال کر بلا دیکھے اسے بند کردیا ہے، تو بظاہر یہ عمل قلیل ہے جس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن امام صاحب کو اس طرح کے عمل سے بھی احتراز کرنا چاہیے اس سے بھی کراہت بہر حال پیدا ہوتی ہے۔
’’(و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا (ما لا یشک) بسببہ (الناظر) من بعید (في فاعلہ أنہ لیس فیہا) صححہ في البدائعِ، وتابعہ الزیلعي والولوالجي۔ وفي المحیط أنہ الأحسن۔ وقال الصدر الشہید: إنہ الصواب۔ وفي الخانیۃ والخلاصۃ: إنہ اختیار العامۃ۔ وقال في المحیط وغیرہ: رواہ الثلجي عن أصحابنا۔ حلیۃ۔ القول الثاني: أن ما یعمل عادۃ بالیدین کثیر وإن عمل بواحدۃ کالتعمم وشد السراویل، وما عمل بواحدۃ قلیل وإن عمل بہما کحل السراویل ولبس القلنسوۃ ونزعہا إلا إذا تکرر ثلاثا متوالیۃ وضعفہ في البحر بأنہ قاصر عن إفادۃ ما لا یعمل بالید کالمضغ والتقبیل‘‘(۱)

(۱) الحصکفي و ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص:۳۸۴، ۳۸۵)۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص69

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 888/41-20B

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احناف کے نزدیک نابالغ کی امامت تراویح اور غیرتراویح میں درست نہیں ہے۔

 ولایجوز للرجال ان یقتدوا بامراۃ او صبی۔ وفی التراویح والسنن المطلقۃ جوزہ مشائخ بلخ ولم یجوزہ مشائخنا والمختار انہ لایجوز فی الصلوات کلھا (الھدایہ) لان نفل الصبی دون نفل البالغ۔ فان لم یوجد فیھما شیئ فحتی یتم بکل منھما خمس عشر سنۃ بہ یفتی (در مختار مع الشامی)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1628/43-1187

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دیگرنمازیوں کو دشواری ہو اس قدرتاخیر جائز نہیں ہے۔ معمولی تاخیر کرنے میں حرج نہیں ہے۔

وفي أذان التتارخانية قال: وفي المنتقى أن تأخير المؤذن وتطويل القراءة لإدراك بعض الناس حرام، هذا إذا مال لأهل الدنيا تطويلا وتأخيرا يشق على الناس. فالحاصل أن التأخير القليل لإعانة أهل الخير غير مكروه. (شامی، فروع قرا بالفارسیۃ 1/495)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند