Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز ایسی جگہ پر پڑھنی چاہئے جہاں خشوع وخضوع مکمل طور پر باقی رہ سکے، سامنے سوتا ہوا آدمی اچانک اٹھ جائے، تو خشوع وخضوع میں خلل پڑے گا؛ لہٰذا بغیر عذر اس طرح نماز پڑھنا مناسب نہیں؛ لیکن مذکورہ طریقہ پر ادا کی گئی نماز بلا شبہ درست وادا ہوجائے گی۔(۱)
(۱) ویکرہ أن یصلي وبین یدیہ قیام، کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷)
ویکرہ أن یکون فوق رأسہ أو خلفہ أو بین یدیہ أو بحذائہ صورۃ … أو یکون بین یدیہ قوم قیام یخشی خروج مایضحک أو یخبل أو یقابل وجہاً وإلا فلا کراہۃ لأن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي صلاۃ اللیل کلہا وأنا معترضۃ بینہ وبین القبلۃ فإذا أراد أن یوتر أیقظني فأوتر۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۶۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص453
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ کے کان میں اذان واقامت قبلہ رخ ہونی چاہیے، یہی افضل ہے۔ اگرچہ جائز دوسرا رخ بھی ہے۔(۱)
(۱) ویلتفت فیہ وکذا فیہا مطلقاً وقیل إن المحل متسعاً یمیناً ویساراً فقط لئلا یستدبر القبلۃ بصلاۃ وفلاح ولو وحدہ أو لمولود لأنہ سنۃ الأذان مطلقاً۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۳، زکریا دیوبند)
قولہ: حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود ینبغي أن یحول قال السندي: فیرفع المولود عند الولادۃ علی یدیہ مستقبل القبلۃ ویؤذن في أذنہ الیمنیٰ ویقیم في الیسریٰ ویلتفت فیہما بالصلاۃ لجہۃ الیمین وبالفلاح لجہۃ الیسار، وفائدۃ الأذان في أذنہ أنہ یدفع أم الصبیان منہ۔ (تقریرات الرافعي علی رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵)
(قولہ ولو وحدہ الخ) أشار بہ إلی رد قول الحلواني: إنہ لا یلتفت لعدم الحاجۃ إلیہ وفي البحر عن السراج أنہ من سنن الأذان فلا یخل المنفرد بشيء منہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج۲، ص: ۵۳، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص222
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک مرتبہ کے بقدر کافی ہے۔(۱)
(۱)سنتہا رفع الیدین للتحریمۃ … والقومۃ والجلسۃ … وکذا الطمأنینۃ فیہا قدر تسبیحۃ، کذا في شرح المنیۃ لابن الحاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
قولہ وتسن الجلسۃ بین السجدتین، المراد بہا الطمانینۃ في القومۃ وتفترض عند أبي یوسف، ومقدار الجلوس عندنا بین السجدتین مقدار تسبیحۃ ولیس فیہ ذکر مسنون، کما في السراج۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان سننہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص366
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرامؓ سے نوافل کی جماعت ثابت نہیں ہے؛ اس لیے رمضان ہو یا غیر رمضان نوافل تنہا تنہا پڑھنے چاہئیں نوافل کی جماعت درست نہیں ہے۔(۲)
(۲) واعلم أن النفل بالجماعۃ علی سبیل التداعی مکروہ۔ (إبراھیم الحلبي، حلبی کبیري، ’’تتمات من النوافل‘‘: ص: ۴۳۲، سہیل اکیڈمی)
ولا یصلي الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أي یکرہ ذلک لوعلی سبیل التداعي، بأن یقتدی أربعۃ بواحد۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، قبیل باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰، زکریا؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص410
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر دھوکہ سے کوئی شخص نمازی کے بالکل ہی آگے پہونچ جائے اور آگے پہونچ کر پھر خبر لگے کہ نمازی نماز پڑھ رہا ہے، تو اس کو چاہئے کہ پیچھے کی طرف لوٹ جائے کہ یہ ہی بہتر ہے اور اگر دوسری جانب کو چلا گیاتواب واپس نہ لوٹے۔(۲)
(۲) وقد أفاد بعض الفقہاء أن ہنا صوراً أربعاً، الأولیٰ: أن یکون للمار مندوحۃ عن المرور بین یدي المصلي ولم یتعرض المصلي لذلک فیختص المار بالإثم دون المار، والثانیۃ: مقابلتہا، وہو أن یکون المصلي تعرض للمرور والمار لیس لہ مندوحۃ عن المرور فیختص المصلي بالإثم دون المار، الثالثۃ: أن یتعرض المصلي للمرور ویکون للمار مندوحۃ فیأثمان أما المصلي فلتعرضہ وأما المار فلمرورہ مع أمکان أن لایفعل، الأربعۃ: أن لایتعرض المصلي ولا یکون للمار مندوحۃ فلا یأثم واحد منہما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۳۹۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص453
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اذان کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرنا درست ہے، بشرطیکہ نمازیوں کو نماز کی اطلاع کرنا مقصد نہ ہو اور عام لوگوں کو نماز کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اذان کے بعد حمد، نعت پڑھنا اور الصلوۃ خیر من النوم کہنا عربی یا اردو میں کوئی دوسرا جملہ کہنا اور اس کو ثواب سمجھنا بدعت ہے صرف ایسے لوگوں کے لیے اجازت ہے جو عامۃ المسلمین کے کاموں میں ہر وقت مشغول رہتے ہوں تاکہ ترک جماعت نہ ہو جیسے قاضی مفتی وغیرہ۔(۱)
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ،’’کتاب الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج۲، ص: ۷۷ رقم ۱۷۱۸، اعزازیہ دیوبند)
کما یستفاد أن علیا رأی مؤذناً یثوب في العشاء فقال: أخرجوا ہذا المبتدع من المسجد۔ (المبسوط للسرخسي، ’’کتاب الأذان، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص223
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: علمائے احناف کے نزدیک مطلقاً قرأت کرنا فرض ہے اگر کسی شخص سورہ فاتحہ پڑھی اور قرأت کرنا یعنی کوئی سورت پڑھنا بھول گیا، اخیر رکعت میں ایک سلام کے بعد سجدہ سہو کر لیا یا اس نے ثناء پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ کے بجائے بھول سے قرأت (کوئی سورت یا آیات کریمہ پڑھ لی) کر لی اور اخیر رکعت میں سجدہ سہو کر لیا تو دونوں صورتوں میں نماز درست ہو جائے گی؛ البتہ اگر جان بوجھ کر کسی نے سورہ فاتحہ یا سورت نہ ملائی تو نماز نہیں ہوگی اس نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے، امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے: ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ سورہ فاتحہ اور سورتوں میں جو بھی یاد ہو اس کو پڑھ لیا کریں۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أمرنا نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۱)
نیز فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورت کو ملایا جائے گا باقی رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ
پڑھی جائے گی جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت پڑھتے، پہلی میں طویل قرأت کرتے اور دوسری میں مختصر اور کسی آیت کو قصداً سنا بھی دیتے اور نماز عصر میں سورۂ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے اور پہلی رکعت میں قرأت طویل فرماتے اور نماز فجر کی پہلی رکعت میں بھی قرأت فرماتے اور دوسری میں مختصر پڑھتے۔
’’کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في الرکعتین الأولیین من صلاۃ الظہر بفاتحۃ الکتاب وسورتین، یطول في الأولٰی، ویقصر في الثانیۃ، ویسمع الآیۃ أحیانا، وکان یقرأ في العصر بفاتحۃ الکتاب وسورتین، وکان یطول في الأولٰی، وکان یطول في الرکعۃ الأولٰی من صلاۃ الصبح، ویقصر في الثانیۃ‘‘(۱)
وفي الفقہ علی المذاہب الأربعۃ:
’’ضم سورۃ إلی الفاتحۃ في جمیع رکعات النفل والوتر والأولیین من الفرض ویکفی في أداء الواجب أقصر سورۃ أو ما یماثلہا کثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ والأیات القصار الثلاث‘‘(۲)
(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ‘ ’’کتاب الصلاۃ، باب من ترک القراء ۃ في صلاتہ بفاتحۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۶ ، رقم:۸۱۸۔
(۱) أخرجہ البخاري، فی صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب القراء ۃ في الظہر‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، رقم: ۷۵۹۔
(۲) عبد الرحمن الجزیري، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’واجبات الصلاۃ (في حاشیۃ)‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۹۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص367
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اتفاقی طور پر کچھ لوگ جمع ہوکر صلاۃ الستبیح ادا کرلیں، تو شرعاً گنجائش ہے؛ لیکن اس نماز کے لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع کرنا اور نماز پڑھانا بدعت ہے جس کی اصل خیر القرون میں نہیں ملتی۔(۱)
(۱) ولا یصلی الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أی یکرہ ذلک علی سبیل التداعي بأن یقتدی أربعۃ بواحد کما في الدرر ولا خلاف في صحۃ الاقتداء۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰، زکریا دیوبند)
ومثل ذلک یقال في صلاۃ التطوع جماعۃ اذا کان علی غیر وجہ التداعي یحرر۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقي، ’’فصل في صلاۃ التراویح‘‘: ص: ۴۱۲، اشرفیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص411
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No.2843/45-4481
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دلال اگرکسی کا کوئی کام کراتا ہے اور اس کام پر معاوضہ طے کرلیتا ہے تو اس پر وہ طے شدہ معاوضہ لے سکتا ہے جس کو دلالی کی اجرت کہاجاتاہے، بشرطیکہ کام جائز ہو اور دلال کی جانب سے محنت و عمل بھی پایا جائے۔اس لئے دلالی کی اجرت جائز ہے، البتہ اگر دلال جھوٹ اور مکروفریب سے کام لیتاہے تو اس کا وبال اس پر ہوگا اور وہ ان ناجائز امور کا مرتکب ہونے کی بناء پر گنہگار ہوگا۔ سوال میں مذکور باتیں اگر درست ہیں اور مبنی بر حقیقت ہیں تو ایسا شخص فاسق ہےاور اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."(رد المحتار كتاب الاجارة، ج:6، ص:63، ط:سعيد)
"كره إمامة "الفاسق" العالم لعدم اهتمامه بالدين فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة وإذا تعذر منعه ينتقل عنه إلى غير مسجده للجمعة وغيرها وإن لم يقم الجمعة إلا هو تصلى معه"۔ (حاشیۃالطحطاوی، کتاب الصلاۃ، فصل فی بیان الأحق بالإمامة، ص:303، 304، ط:دار الکتب العلمیة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال امام اگر واقعی طور پر ایسا ہی ہے جیسا کہ تحریر سوال میں لکھا گیا ہے، تو وہ شخص بد عقیدہ اور بدعتی ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے پس ایسے شخص کو امام نہ بنایا جائے، بلکہ کسی متقی دیندار اور پرہیز گار متبع سنت کو امام بنایا جائے، کیوں کہ مذکورہ شخص اپنی بد اعتقادی اور بدعت کی وجہ سے فاسق وفاجر ہے اور فاسق کو امام بنانا جائز نہیں ہے اور جو نماز یں اس کی امامت میں ادا ہوئی ہیں ان کا اعادہ ضروری نہیں ہے وہ نمازیں کراہت کے ساتھ ادا ہوگئی ہیں۔(۱)
(۱) وذکر الشارح وغیرہ أن الفاسق إذا تعذر منعہ یصلي الجمعۃ خلفہ وفي غیرہا ینتقل إلی مسجد آخر وعلل لہ في المعراج بأن في غیر الجمعۃ یجد إماما غیرہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۱)
(وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع) فالحاصل أنہ یکرہ إلخ قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۱، ۶۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص118