Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق:اس صورت میں سجدہ سہو لازم تھا وہ ادا کرلیا تو نماز درست ہوگئی، اگر سجدہ سہو نہ کیا جاتا تو نماز واجب الاعادہ ہوتی۔
’’وہي قــراء ۃ الفاتحۃ وضم سورۃ في الأولین من الفرض وجمیــع النفل والوتــر‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب صلاۃ أدیت مع الکراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹، ۱۵۰، زکریا۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص371
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’سبحان اللّٰہ‘‘ کہہ کر لقمہ دیدے کہ امام خود متنبہ ہوکر غلطی کو دور کرنے کی سعی کرے گا۔(۱)
(۱)عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من نابہ شیء في صلاتہ فلیقل: سبحان اللّٰہ، إنما التصفیق للنساء والتسبیح للرجال (أخرجہ أبوداؤد، وأحمد في سننہ، کتاب الإمامۃ: إذا تقدم الرجل من الرعیۃ ثم جاء الوالي ھل یتأخر؟ ج۱، ص۹۰، رقم:۷۸۴)
وعن أبی ہریرۃؓ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال التسبیح للرجال والتصفیق للنساء فمنع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لمن نابہ شيء في صلاتہ من الکلام وأمر بالتسبیح۔ (الجصاص، أحکام القرآن، ’’باب الصلاۃ الوسطی وذکر الکلام في الصلاۃ ‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص290
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2365/44-3570
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور غلطی کی بناء پر نماز فاسد نہیں ہوئی تھی، اور انفرادی طور پر بھی اعادہ کی ضرورت نہیں تھی، البتہ احتیاطا اعادہ صلوۃ کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہوا ۔
"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین". (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)
"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة". (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)
"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)ف
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2454/45-3723
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ آپ نے قعدہ اخیرہ کے بعد سلام پھیرنے میں تاخیرکیوں کی جوکہ واجب ہے ۔ اگر کوئی شرعی وجہ نہیں تھی ذہول ہوگیا تھا، تو ایسی صورت میں سجدہ سہو لازم ہوگا۔ یادآنے پر سہو کا سجدہ کریں، اور پھر تشہد وغیرہ سے فارغ ہوکر سلام پھیردیں۔
"في الظهيرية: لو شك بعد ما قعد قدر التشهد أصلى ثلاثًا أو أربعًا حتى شغله ذلك عن السلام، ثم استيقن و أتمّ صلاته فعليه السهو ا هـ. و علله في البدائع بأنه أخر الواجب وهو السلام ا هـ و ظاهره لزوم السجود وإن كان مشتغلا بقراءة الأدعية أو الصلاة." )حاشية رد المحتار على الدر المختار (2/ 93)
زائدًا عن التشهد ) أي الأول أو الثاني سواء كان بعد الفراغ من الصلاة والأدعية أو قبلهما قوله : ( وجب عليه سجود السهو ) إذا شغله التفكر عن أداء واجب بقدر ركن." (حاشية على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 307)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال میں جو جملہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کا مذکور ہے اگر وہ صحیح ہے، تو مذکورہ شخص بلا شبہ مرتد اور اسلام سے خارج ہو گیا، نیز دیگر مذکورہ امور بھی مشتبہ ہیں؛ اس لیے متولی، نمازی ومقتدی حضرات اور اہل محلہ پر اس کو فوراً امامت سے علاحدہ کر دینا واجب ہے۔(۱)
(۱) (قولہ: خلف من لا تکفرہ بدعتہ) فلا تجوز الصلاۃ خلف من ینکر شفاعۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو الکرام الکاتبین أو الرؤیۃ لأنہ کافر، وإن قال لا یری لجلالہ وعظمتہ فہو مبتدع۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
(ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع لا یکفر بہا … وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ إن اللّٰہ تعالیٰ جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱-۲۹۸)
وحاصلہ: إن کان ہویٰ لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص121
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ تعجیل عصر کو مستحب کہتے ہیں،سایہ ایک مثل ہوجائے تو فورا نماز عصر پڑھ لو، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اصفرارِ شمس سے پہلے پہلے تک عصر کی تاخیر کومستحب کہتے ہیں؛ البتہ اصفرارِ شمس تک نمازکو موخر کرنا مکروہ ہے۔یہ تاخیر اس وقت مستحب ہے جب آسمان میں بادل نہ ہواگر آسمان میں بدلی ہو تو تاخیر مستحب نہیںہے۔عصر کی نماز تاخیر سے پڑھنا احادیث سے ثابت ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت نقل کی ہے: ’’أم سلمۃ، قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أشد تعجیلا للظہر منکم، وأنتم أشد تعجیلا للعصر منہ‘‘(۱)
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں: کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں سے زیادہ ظہر میں جلدی کرنے والے تھے اور تم لوگ عصر کی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جلدی کرنے والے ہو۔ ایک روایت طبرانی رحمۃ اللہ علیہ، بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور دارقطنی میں رافع بن خدیج کی ہے وہ کہتے ہیں:
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کان یأمر بتأخیر العصر‘‘(۱)
اسی طرح طبرانی وغیر ہ میں ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ عصر کی نماز تاخیر کرکے پڑھتے تھے۔
(أن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، کان یؤخر العصر‘‘(۲)
روایتوں میں آتاہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی اتباع میں پیش پیش تھے، جب یہ متبع سنت ہیں تو ان کا دیر سے عصر پڑھنا دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تاخیر سے پڑھتے تھے۔
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے موطأ میں تاخیر عصر پر ایک استدلال کیا ہے۔ فرماتے ہیں: عصر کے معنی ہی لغت میں تاخیر کے آتے ہیں ’’سمی العصر عصرا لانہا تعصر أي تؤخر‘‘ عصر کا نام عصر اس لیے رکھا گیا کہ عصر کے معنی لغت میں تاخیر کے آتے ہیں تو اگر تاخیر کردی جائے تو معنی لغوی کی بھی رعایت ہوجائے گی؛ کیوں کہ شرعی افعال کے ناموں میں لغوی معنی کی رعایت پائی جاتی ہے۔
دوسری بات: یہ سب مانتے ہیں کہ عصر کے بعد نفل نماز پڑھنا ممنوع ہے اگر عصر جلدی سے پڑھ لی جائے تو نفل پڑھنے کا موقع نہیں ملے گا اور اگر عصر کی نماز تاخیر سے پڑھی جائے تو زیادہ سے زیادہ نفل پڑھنے کا موقع ملے گا اس لیے کثرت نفل کا تقاضا ہے کہ عصر کی نماز کو مؤخر کیا جائے۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلوات ’’ باب ماجاء في تاخیر صلاۃ العصر‘‘: ج ۱، ص: ۴۲، رقم: ۱۶۱، دارالکتاب، دیوبند۔
(۱) الطبراني، في المعجم الکبیر ’’باب عبد اللّٰہ بن رافع بن خدیج‘‘: ج ۳، ص: ۸۵، رقم: ۴۳۷۶؛ وسنن دارقطني، ’’کتاب الصلاۃ، باب ذکر بیان المواقیت واختلاف الروایات في ذلک‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۱، رقم: ۹۷۸؛و سنن الکبری للبیہقي، ’’کتاب الصلاۃ، باب تعجیل صلاۃ العصر‘‘: ج ۳، ص: ۲۷۰، رقم: ۲۰۸۴۔
(۲) الطبراني، في المعجم الکبیر، ج ۳، ص: ۱۲۲، رقم: ۹۲۷۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص95
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:عام طور پر لوگ افطار کے لیے اذان کا انتظار کرتے ہیں اور اذان کے بعد ہی افطار کرتے ہیں؛ اس لیے جیسے عام دنوں میں اول وقت میں اذان دی جاتی ہے، اسی طرح رمضان میں بھی اول وقت میں پہلے اذان دے، اور پھر افطار کرے اور چند منٹ کی تاخیر سے جماعت کھڑی کی جائے، ہاں بعض جگہوں پر افطار کے لیے اذان سے پہلے سائرن بجایا جاتا ہے جو افطار کے وقت کی اطلاع ہوتی ہے ایسی جگہوں پر پہلے افطار کرلے اس کے بعد اذان دے۔
’’وحکم الأذان کالصلاۃ تعجیلاً وتاخیراً ۔۔۔۔۔ حاصلہ أنہ لا یلزم الموالاۃ بین الأذان والصلاۃ بل ہي الأفضل فلو أذن أولہ وصلی آخرہ أتی بالسنۃ تأمل‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۳۰- ۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص228
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ناقابلِ عفو غلطی ہوجانے پر نماز میں لقمہ دینا فرضِ کفایہ ہے تاہم مقتدی کے لیے امام کو لقمہ دینے میں جلدی کرنا مکروہ ہے۔
’’ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ، لجواز أن یتذکر من ساعتہ، فیصیر قارئاً خلف الإمام من غیر حاجۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول فیما یفسدہا، النوع الثاني في الأقوال‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)
بخلاف فتحہ علی إمامہ فإنہ لایفسد مطلقا لفاتح وآخذ بکل حال۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب المواضع التي یکرہ فیہا السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۱،۳۸۲)
عن المسور بن یزید الأسدي المالکي قال : شہدت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في الصلاۃ، فترک شیئاً لم یقرأہ: فقال لہ رجل: یارسول اللّٰہ ترکت آیۃ کذا وکذا۔ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہلا ٔذکرتنیہا؟ (أخرجہ أبي داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الفتح علی الإمام في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۳۱، رقم: ۹۰۷)
و فرض الکفایۃ: معناہ فرض ذو کفایۃ: أي یکتفي بحصولہ من أي فاعل کان۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في الفرق بین فرض العین و فرض الکفایۃ، ج۲، ص۲۵۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص290
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No 2453/45-3724
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معنی میں ایسا تغیر ہوا ہے جو فاحش ہے اس لئے نماز درست نہیں ہوئی، لہذا نماز کا اعادہ کیاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا بدعت وگمراہی ہے اور کافرانہ رسم ورواج ہے پس مذکورہ شخص بھی (تاوقتیکہ توبہ نہ کرلے) امام بنانے کہ قابل نہیں ہے اس کی نماز مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) قولہ: (یکون محرزاً ثواب الجماعۃ) أي مع الکراہۃ إن وجد غیر ہم وإلا فلا کراہۃ، کما في البحر بحثاً وفي السراج ہل الأفضل أن یصلي خلف ہٰؤلاء أم الإنفراد؟ قیل أما في الفاسق فالصلاۃ خلفہ أولیٰ، وہذا إنما یظہر علی أن إمامتہ مکروہۃ تنزیہا أما علی القول بکراہۃ التحریم فلا وأما الآخرون فیمکن أن یقال الإنفراد أولیٰ لجہلہم بشروط الصلاۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق الإمامۃ، ص:۳۰۳)
ویکرہ إمامتہ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹)
وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص122