نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ تعجیل عصر کو مستحب کہتے ہیں،سایہ ایک مثل ہوجائے تو فورا نماز عصر پڑھ لو، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اصفرارِ شمس سے پہلے پہلے تک عصر کی تاخیر کومستحب کہتے ہیں؛ البتہ اصفرارِ شمس تک نمازکو موخر کرنا مکروہ ہے۔یہ تاخیر اس وقت مستحب ہے جب آسمان میں بادل نہ ہواگر آسمان میں بدلی ہو تو تاخیر مستحب نہیںہے۔عصر کی نماز تاخیر سے پڑھنا احادیث سے ثابت ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت نقل کی ہے: ’’أم سلمۃ، قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أشد تعجیلا للظہر منکم، وأنتم أشد تعجیلا للعصر منہ‘‘(۱)
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں: کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں سے زیادہ ظہر میں جلدی کرنے والے تھے اور تم لوگ عصر کی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جلدی کرنے والے ہو۔ ایک روایت طبرانی رحمۃ اللہ علیہ، بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور دارقطنی میں رافع بن خدیج کی ہے وہ کہتے ہیں:
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کان یأمر بتأخیر العصر‘‘(۱)
اسی طرح طبرانی وغیر ہ میں ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ عصر کی نماز تاخیر کرکے پڑھتے تھے۔
(أن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، کان یؤخر العصر‘‘(۲)
روایتوں میں آتاہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی اتباع میں پیش پیش تھے، جب یہ متبع سنت ہیں تو ان کا دیر سے عصر پڑھنا دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تاخیر سے پڑھتے تھے۔
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے موطأ میں تاخیر عصر پر ایک استدلال کیا ہے۔ فرماتے ہیں: عصر کے معنی ہی لغت میں تاخیر کے آتے ہیں ’’سمی العصر عصرا لانہا تعصر أي تؤخر‘‘ عصر کا نام عصر اس لیے رکھا گیا کہ عصر کے معنی لغت میں تاخیر کے آتے ہیں تو اگر تاخیر کردی جائے تو معنی لغوی کی بھی رعایت ہوجائے گی؛ کیوں کہ شرعی افعال کے ناموں میں لغوی معنی کی رعایت پائی جاتی ہے۔
دوسری بات: یہ سب مانتے ہیں کہ عصر کے بعد نفل نماز پڑھنا ممنوع ہے اگر عصر جلدی سے پڑھ لی جائے تو نفل پڑھنے کا موقع نہیں ملے گا اور اگر عصر کی نماز تاخیر سے پڑھی جائے تو زیادہ سے زیادہ نفل پڑھنے کا موقع ملے گا اس لیے کثرت نفل کا تقاضا ہے کہ عصر کی نماز کو مؤخر کیا جائے۔

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلوات ’’ باب ماجاء في تاخیر صلاۃ العصر‘‘: ج ۱، ص: ۴۲، رقم: ۱۶۱، دارالکتاب، دیوبند۔
(۱) الطبراني، في المعجم الکبیر  ’’باب عبد اللّٰہ بن رافع بن خدیج‘‘: ج ۳، ص: ۸۵، رقم: ۴۳۷۶؛ وسنن دارقطني، ’’کتاب الصلاۃ، باب ذکر بیان المواقیت واختلاف الروایات في ذلک‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۱، رقم: ۹۷۸؛و سنن الکبری للبیہقي، ’’کتاب الصلاۃ، باب تعجیل صلاۃ العصر‘‘: ج ۳، ص: ۲۷۰، رقم: ۲۰۸۴۔
(۲) الطبراني، في المعجم الکبیر، ج ۳، ص: ۱۲۲، رقم: ۹۲۷۹۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص95

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عام طور پر لوگ افطار کے لیے اذان کا انتظار کرتے ہیں اور اذان کے بعد ہی افطار کرتے ہیں؛ اس لیے جیسے عام دنوں میں اول وقت میں اذان دی جاتی ہے، اسی طرح رمضان میں بھی اول وقت میں پہلے اذان دے، اور پھر افطار کرے اور چند منٹ کی تاخیر سے جماعت کھڑی کی جائے، ہاں بعض جگہوں پر افطار کے لیے اذان سے پہلے سائرن بجایا جاتا ہے جو افطار کے وقت کی اطلاع ہوتی ہے ایسی جگہوں پر پہلے افطار کرلے اس کے بعد اذان دے۔
’’وحکم الأذان کالصلاۃ تعجیلاً وتاخیراً ۔۔۔۔۔ حاصلہ أنہ لا یلزم الموالاۃ بین الأذان والصلاۃ بل ہي الأفضل فلو أذن أولہ وصلی آخرہ أتی بالسنۃ تأمل‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۳۰- ۴۹۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص228

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ناقابلِ عفو غلطی ہوجانے پر نماز میں لقمہ دینا فرضِ کفایہ ہے تاہم مقتدی کے لیے امام کو لقمہ دینے میں جلدی کرنا مکروہ ہے۔
’’ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ، لجواز أن یتذکر من ساعتہ، فیصیر قارئاً خلف الإمام من غیر حاجۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول فیما یفسدہا، النوع الثاني في الأقوال‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)
بخلاف فتحہ علی إمامہ فإنہ لایفسد مطلقا لفاتح وآخذ بکل حال۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب المواضع التي یکرہ فیہا السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۱،۳۸۲)
عن المسور بن یزید الأسدي المالکي قال : شہدت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في الصلاۃ، فترک شیئاً لم یقرأہ: فقال لہ رجل: یارسول اللّٰہ ترکت آیۃ کذا وکذا۔ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہلا ٔذکرتنیہا؟ (أخرجہ أبي داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الفتح علی الإمام في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۳۱، رقم: ۹۰۷)

و فرض الکفایۃ: معناہ فرض ذو کفایۃ: أي یکتفي بحصولہ من أي فاعل کان۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في الفرق بین فرض العین و فرض الکفایۃ، ج۲، ص۲۵۸، زکریا دیوبند)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص290

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No 2453/45-3724

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  معنی میں ایسا تغیر ہوا ہے جو فاحش ہے اس لئے نماز درست نہیں  ہوئی، لہذا نماز کا اعادہ کیاجائے گا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا بدعت وگمراہی ہے اور کافرانہ رسم ورواج ہے پس مذکورہ شخص بھی (تاوقتیکہ توبہ نہ کرلے) امام بنانے کہ قابل نہیں ہے اس کی نماز مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) قولہ: (یکون محرزاً ثواب الجماعۃ) أي مع الکراہۃ إن وجد غیر ہم   وإلا فلا کراہۃ، کما في البحر بحثاً وفي السراج ہل الأفضل أن یصلي خلف ہٰؤلاء أم الإنفراد؟ قیل أما في الفاسق فالصلاۃ خلفہ أولیٰ، وہذا إنما یظہر علی أن إمامتہ مکروہۃ تنزیہا أما علی القول بکراہۃ التحریم فلا وأما الآخرون فیمکن أن یقال الإنفراد أولیٰ لجہلہم بشروط الصلاۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق الإمامۃ، ص:۳۰۳)
ویکرہ إمامتہ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹)
وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص122

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آج کے ترقی یافتہ دور میں فلکیات کے نظام پر کافی ریسرچ ہوئی ہے اور بہت کام کیا گیا ہے اور اب پوری دنیامیں نماز کا وقت جاننے کے لیے انٹرنیٹ پر معلومات جمع ہیں، یہاں تک کہ نظام شمسی کے اعتبار سے پورے سال کا ٹائم ٹیبل بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل اسی طرح موبائل ایپ کے ٹائم ٹیبل پر اعتماد کیا جاسکتا ہے جب کہ نیٹ سے مربوط ہو۔ دائمی کلینڈر ہر علاقہ کے طول البلد اور عرض البلد کے لحاظ سے طے کیا جاتا ہے، اس لیے آپ کے علاقہ میں جو جنتری ہو اس کو نیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل سے چیک کر لیں اور اس پر اعتماد کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ تاریخ اور لوکیشن دونوں ڈال کر چیک کر یں تا کہ صحیح وقت معلوم ہو سکے۔(۱)

(۱){إِنَّ الصَّلاۃَ کانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتاباً أی مکتوبا مَوْقُوتاً} (سورۃ النساء: ۱۰۳)
إِنَّ الصَّلاۃَ کانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتاباً أي مکتوبا مفروضا مَوْقُوتاً محدود الأوقات لا یجوز إخراجہا عن أوقاتہا في شيء من الأحوال فلا بدّ من إقامتہا سفرا أیضاً۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ النساء: ۹۴‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۲)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص97

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں دعوت نماز کے لیے اذان کافی ہے۔ پھر سے لوگوں کو دعوت کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن اگر کیف مااتفق کبھی کبھی کسی آدمی کو ترغیباً نماز کے لیے کہہ دیا جائے تاکہ اس کی جماعت ترک نہ ہو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ البتہ روزانہ اس کے التزام سے پرہیز کیا جائے۔ تاہم بعض علماء نے غافلوں کی تنبیہ کے لیے اجازت دی ہے۔(۱)
’’واستحسن المتأخرون التثویب وہو العود إلی الإعلام بعد الإعلام بحسب ما تعارفہ کل قوم‘‘(۲)

(۱) الشرنبلالي، قال الزہري: وزاد بلال في نداء صلاۃ الفجر الصلاۃ خیر من النوم، قأقرہا نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقال عمر: أما إني قد رأیت مثل الذي رأي، ولکنہ سبقني۔ (اخرجہ مسند أبي یعلی، مسند عبداللّٰہ بن عمر:ج۹، ص: ۳۷۹)
أخبرنا مالک، أخبرنا ابن شہاب، عن عطاء بن یزید اللیثي، عن أبي سعید الخدري، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا سمعتم النداء، فقولوا مثل ما یقول المؤذن۔ (ص: ۵۵) قال مالک: بلغنا أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ جاء ہ المؤذن یؤذنہ لصلاۃ الصبح، فوجدہ نائماً فقال المؤذن: الصلاۃ خیر من النوم، فأمرہ عمر أن یجعلہا في نداء الصبح۔ (أخرجہ مالک في المؤطا، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والتثویب‘‘: ج ۱، ص: ۵۴؛ ومسند ابن أبي شیبۃ، ’’من کان یقول في الأذان الصلاۃ خیر من النوم‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹)
محمد، قال: أخبرنا أبو حنیفۃ، عن حماد، عن إبراہیم، قال: سألتہ عن التثویب، قال: ہو مما أحدثہ الناس، وہو حسن مما أحدثوا وذکر أن تثویبہم کان حین یفرغ المؤذن من أذانہ: الصلاۃ خیر من النوم قال محمد: وبہ نأخذ، وہو قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ۔ (محمد بن الحسن، الآثار، کتاب الصلاۃ،’’باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱)
(۲) نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۶۲؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج۲، ص: ۵۶۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص229

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: فرض نماز میں امام کو لقمہ دینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے یعنی امام سے قرأت میں غلطی ہو جائے یا کوئی آیت بھول جائے یا پڑھتے پڑھتے اٹک جائے تو مقتدی نے لقمہ دیا اور امام نے لقمہ لے کر نماز کو مکمل کیا تو نماز درست ہوگئی، لیکن یہاں خیال رکھنا چاہئے کہ لقمہ دینے میں جلدی نہ کی جائے اور امام کو چاہئے کہ اگر مقدار واجب قرأت کر چکا ہے تو رکوع کر لے یا کوئی دوسری جگہ سے تلاوت شروع کردے مقدار واجب قرأت کے بعد کسی آیت کو بار بار لوٹانا تاکہ یاد آجائے یا مقتدی لقمہ دے یہ مکروہ ہے، اسی طرح مقتدی کو چاہئے کہ لقمہ دینے میں جلدی نہ کرے؛ بلکہ توقف کرے ہو سکتا ہے امام رکوع کرلے یا دوسری سورت پڑھے یا خود ہی اٹکی ہوئی جگہ کو درست کرلے جلدی لقمہ دینا مقتدی کے حق میں مکروہ ہے ہاں شدید ضرورت ہو تو لقمہ دے سکتا ہے۔(۱)
(۱) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ، قالوا: ہذا إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح والصحیح أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح۔ ہکذا فی الکافي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول فیما یفسدہا، النوع الأول في الأقوال‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)
ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ؛ لجواز أن یتذکر من ساعتہ فیصیر قارئاً خلف الإمام من غیر حاجۃ۔ کذا فی محیط السرخسي۔ ولا ینبغي للإمام أن یلجئہم إلی الفتح؛ لأنہ یلجئھم إلی القراء ۃ خلفہ وإنہ مکروہ، بل یرکع إن قرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، وإلا ینتقل إلی آیۃ أخری۔ کذا فی الکافی۔ وتفسیر الإلجاء: أن یردد الآیۃ أو یقف ساکتاً۔ کذا فی النہایۃ: ولا ینبغي للمقتدي أن یفتح علی الإمام من ساعتہ؛ لأنہ ربما یتذکر الإنسان من ساعتہ فتکون قراء تہ خلفہ قراء ۃ من غیر حاجۃ۔ (أیضاً)
قالوا: یکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ، وکذا یکرہ للإمام أن یلجئہم إلیہ بأن یقف ساکتا بعد الحصر أو یکرر الآیۃ بل یرکع إذا جاء أوانہ أو ینتقل إلی آیۃ أخری لم یلزم من وصلہا ما یفسد الصلاۃ أو ینتقل إلی سورۃ أخری۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص291

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2294/44-3447

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں چونکہ متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہیں تو اس طرح  نیت کریں  کہ  مثلاً جتنی فجر کی نمازیں مجھ سے قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، تو اس طرح جتنے سالوں کی نمازیں ذمہ میں ہوں  گی اتنے سال کا حساب کرکے ادا کرلیں۔  ایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں،یعنی فجر کی نمازاداکرنے کے بعد فجر کی قضانماز ایک ادا کرلیں۔  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں۔ اورجو طریقہ آپ نے لکھاہے کہ ایک لسٹ بناکر جو نمازیں اداکرتے ر ہیں ان پر نشان لگاتے رہیں تو یہ بھی حساب کے لئے بہت بہتر طریقہ ہے۔

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره. (قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 76)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص امامت کا اہل نہ ہو، بدعات کا مرتکب ہو مسلمانوں میں گروہ بندی اور اختلاف کا مرتکب ہو۔ ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے(۱)، اگر کوئی امامت کا اہل نماز پڑھانے والا نہ ہو تو فاجر کے پیچھے نماز ادا ہوجائے گی؛ لیکن کراہت تحریمی کے ساتھ کہ فرض کی ادائیگی ہوگی ثواب کا حصول نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ (رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، فتاویٰ رشیدیہ، بدعتی کی امامت کا حکم: ص: ۳۵۲، جسیم بکڈپو، دہلی)
(۱) ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لاینال مثل ما ینال خلف تقي کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص123