Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مسبوق وہ شخص کہلاتا ہے کہ جو ایک رکعت یا اس سے زیادہ ہوجانے کے بعد امام کے ساتھ جماعت میں تاخیر سے آکر شریک ہوا ہو۔
’’المسبوق من لم یدرک الرکعۃ الأولی مع الإمامۃ‘‘(۱)
’’المسبوق من سبقہ الإمام بھا أو ببعضھا‘‘(۲)
’’کالمسبوق وھو الذي لم یدرک أول الصلاۃ مع الإمام‘‘(۳)
’’وحقیقۃ المسبوق ھو من لم یدرک أول صلاۃ الإمام والمراد بالأول الرکعۃ الأولی‘‘(۴)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج۱، ص: ۱۴۸۔
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتی بالرکوع و السجود أو بھما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۶،( زکریا، دیوبند)
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان کیفیۃ القضاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۳۔
(۴) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الحدث في الصلاۃ، (وصح استخلاف المسبوق)‘‘: ج۱، ص: ۶۶۱؛ و جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص52
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا ضرورت پیروں کو حرکت دینا مکروہ ہے ہاں اگر تھوڑا سا پیر ادھر اُدھر ہو جائے تو نماز میں کوئی نقص نہیں آئے گا۔ نماز بہر صورت ہوجاتی ہے۔(۲)
(۲) فإن کان أجنبیا من الصلاۃ لیس فیہ تتمیم لہا، ولا فیہ دفع ضرر فہو مکروہ أیضا کالعبث بالثوب أو البدن وکل مایحصل بسبہ شغل القلب وکذا ماہو من عادۃ أہل التکبیر أو صنیع أہل الکتاب۔ (غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی ’’مطلب في حکم تغطیۃ المصلی فمہ في الصلاۃ‘‘ ج۱، ص: ۲۱۶)
یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، و إن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لایکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص173
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1247 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-:جیسی چھوٹی ہے اسی طرح ادا کریں گے، لہذا صورت مسئولہ میں چھوٹی ہوئی رکعت میں دعاء قنوت دوبارہ نہیں پڑھی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام مسجد و خطیب کو نوکر یا ملازم کہنا اگر اس کی اہانت کے پیش نظر ہے تو یہ گناہ کبیرہ ہے اس سے توبہ و استغفار ضروری ہے۔ ایسے الفاظ سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے تاکہ لوگوں کو شبہات پیدا نہ ہوں اس کی ممانعت حدیث میں بھی ہے۔
’’دع ما یریبک إلی ما یریبک‘‘(۱)
’’عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘(۲)
{وَلَا تَلْمِزُوْٓا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِط بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَہ۱۱}(۳)
(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج۲، ص:۸۳، رقم: ۲۴۴۲۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب خوف المؤمن من أن یحیط عملہ وہو لا یشعر‘‘: ج۱، ص: ۱۲، رقم: ۴۸؛ وأخرجہ المسلم في سننہ، ’’کتاب الإیمان، باب ما جاء سباب المسلم فسوق الخ‘‘: ج۱، ص: ۲۰، رقم: ۶۴۔
(۳) سورۃ الحجرات: ۱۱۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص320
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’حی علی الصلوٰۃ الصلوٰۃ‘‘ پر اور ’’حی علی الفلاح‘‘ میں الفلاح پر اگر وقف نہ کیا جائے تو عربی کے قاعدے کے لحاظ سے الصلوٰۃ اور الفلاح پر کسرہ پڑھا جائے۔اور اذان واقامت کا مروجہ طریقہ درست ہے۔(۱)
(۱)حدثنا الحسن بن علي حدثنا عفان وسعید بن عامر وحجاج والمعنی واحد قالوا حدثنا ہمام حدثنا عامر الأحول حدثني مکحول أن ابن محیریز حدثہ أن أبا محذورۃ حدثہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علمہ الأذان تسع عشرۃ کلمۃ والإقامۃ سبع عشرۃ کلمۃ الأذان اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ حي علی الصلاۃ حي علی الصلاۃ حي علی الفلاح حي علی الفلاح اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر لا إلہ إلا اللّٰہ والإقامۃ اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ حي علی الصلاۃ حي علی الصلاۃ حي علی الفلاح حي علی الفلاح قد قامت الصلاۃ قد قامت الصلاۃ اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر لا إلہ إلا اللّٰہ، کذا في کتابہ في حدیث أبي محذورۃ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۷۳ رقم:۴۳۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص216
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ شخص مدرک تھا اور غلطی سے اس نے اپنے آپ کو مسبوق سمجھ کر امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہوگیا تو جب تک اس نے رکعت پوری نہیں کی ہے اس کو چاہیے کہ واپس تشہد میں بیٹھ کر سجدہ سہو کرکے اپنی نماز پوری کرے اور اگر کھڑے ہونے کے بعد ایک رکعت پوری کر چکا ہے تو اسے چاہیے کہ دوسری رکعت بھی مکمل کرلے اور سجدہ سہو کرکے نماز کو پوری کرے؛ لیکن اگر ایک رکعت پر ہی بیٹھ کر سجدہ سہو کرکے نماز کو مکمل کرلیا تو بھی نماز ہوجائے گی۔
’’(وإن قعد في الرابعۃ) مثلاً قدر التشھد (ثم قام عاد وسلم) …، (وإن سجد للخامسۃ سلموا) … (وضم إلیھا سادسۃ) لو في العصر، وخامسۃ في المغرب، ورابعۃ في الفجر، بہ یفتی (لتصیر الرکعتان لہ نفلاً) والضم ھنا آکد، ولا عھدۃ لو قطع، ولا بأس بإتمامہ في وقت کراھۃ علی المعتمد (وسجد للسھو) في الصورتین، لنقصان فرضہ بتأخیر السلام في الأولی وترکہ في الثانیۃ‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السھو‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۳، ۵۵۴۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص53
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح کے فرش پر جو تصویر دیکھائی دیتی ہے اس کا حکم عکس کا ہے تصویر کا نہیں ،اس طرح کے فرش پر بلاکراہت نماز درست ہے ہاں اگر تصوریر اس طرح نمایاں ہوتی ہوں کہ نماز ی کا خشوع و خضو ع متاثر ہوتاہوتو خشوع و خضوع کے متاثر ہونے کی وجہ سے نماز میں کراہت پیدا ہوگی۔ بہتر ہے کہ اس طرح کے فرش پر کوئی چادر یا قالین بچھالیں تاکہ نمازیوں کا خشوع متاثر نہ ہو۔
’’ولو صلی علی زجاج یصف ماتحتہ قالوا جمیعا یجوز‘‘(۱)
’’(قولہ لأنہ یلہي المصلی) أي فیخل بخشوعہ من النظر إلی موضع سجودہ ونحوہ، وقد صرح في البدائع في مستحبات الصلاۃ أنہ ینبغي الخشوع فیہا، ویکون منتہی بصرہ إلی موضع سجودہ إلخ وکذا صرح في الأشباہ أن الخشوع فی الصلاۃ مستحب۔ والظاہر من ہذا أن الکراہۃ ہنا تنزیہیۃ فافہم‘‘(۱)
’’قید الزیلعي أیضا الإباحۃ بأن لا یتکلف لدقائق النقش في المحراب فإنہ مکروہ؛ لأنہ یلہی المصلی۔ اہـ۔ قلت فعلی ہذا لا یختص بالمحراب بل في أي محل یکون أمام من یصلی بل أعم منہ وبہ صرح الکمال فقال بکراہۃ التکلف بدقائق النقوش ونحوہا خصوصا فی المحراب‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، ردالمحتار مع الدر المختار، ج۲، ص: ۷۳۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، فروع أفضل المساجد، ج۱، ص: ۶۵۸۔
(۲) علي حیدر خواجہ أمین آفتندي، درر الحکام، ’’مکروہات الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۱۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص174
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ امام ظہر کی نماز پڑھا سکتا ہے کوئی وجہ ممانعت نہیں۔(۱)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ، والعقل، والذکورۃ، والقراء ۃ، والسلامۃ من الأعذار کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ واللثغ، وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸، ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل برو فاجر، الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح،’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص321
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق:ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس سے کم کرانا یا کاٹنا ناجائز ہے، ایسا کرنے والاشریعت کی نگاہ میں فاسق ہے اور فاسق کی اذان واقامت مکروہ ہے۔
(وکرہ أذان الفاسق) لعدم الاعتماد ولکن لا یعاد‘‘(۱)
’’کذا أي: کما کرہ أذان السبعۃ المذکورین ومنھم الفاسق کرہ إقامتھم وإقامۃ المحدث لکن لا تعاد إقامتھم لعدم شرعیۃ تکرار الإقامۃ‘‘(۲)
(۱) عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ، صفۃ الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
(۲) محمد بن فرامرز، درر الحکام شرح غرر الأحکام: ج ۱، ص: ۵۶، (شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص217
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس کی امام کے ساتھ کوئی رکعت چھوٹ جائے اس کو مسبوق کہتے ہیں، مسبوق اپنی چھوٹی ہوئی رکعت اسی طرح پوری کرتا ہے جس طرح کے منفرد اپنی نماز پوری کرتا ہے، یعنی قرأت وغیرہ امور انجام دیتا ہے، اس میں کبھی سجدہ سہو کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے، پس مسبوق کے لیے سجدہ سہو ضروری نہیں ہے، لیکن اگر چھوٹی رکعت کے پوری کرنے کے دوران ایسی غلطی ہوگئی جس پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، تو مسبوق کو بھی سجدہ سہو کرنا پڑتا ہے۔
’’والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو ببعضہا وہو منفرد) حتی یثنی ویتعوذ ویقرأ، وإن قرأ مع الإمام لعدم الاعتداد بہا لکراہتہا۔ مفتاح السعادۃ (فیما یقضیہ) أي: بعد متابعتہ لإمامہ، فلو قبلہا فالأظہر الفساد، ویقضي أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وآخرہا في حق تشہد؛ (في الشامیہ)، ویلزمہ السجود إذا سہا فیما یقضیہ کما یأتي، وغیر ذلک مما یأتي متنا وشرحا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود الخ ‘‘: ج ۲، ص:۳۴۶، ۳۴۷۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص54