Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2399/44-3622
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بظاہر اتنی چھوٹی بستی میں جمعہ درست نہیں ہے۔ تاہم کسی ماہر مفتی سے معائنہ کرالیاجائے، معائنہ کے بعد وہ جو فتوی دیں اس کے مطابق عمل کیاجانا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس شخص کا قول غلط ہے اور اہل سنت والجماعت اور اہل اسلام کے عقیدہ کے خلاف ہے، لہٰذا اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ اگر وہ شخص اپنے اس عقیدہ سے باز آ جائے اور توبہ کرلے تو آئندہ اس کی امامت درست ہوگی۔(۱)
’’عن عبد اللّٰہ ابن مسعود أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(۲)
’’عن أبي ہریرہ رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لو أخطأتم حتی تبلغ خطایاکم السماء ثم تبتم لتاب علیکم‘‘(۳)
(۱) وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفر بہا کقولہ: إن اللّٰہ تعالیٰ جسم کالأجسام و في الشامیۃ قولہ کقولہ جسم کالأجسام وکذا لو لم یقل کالأجسام، وأما لو قال لا کالأجسام فلا یکفر لأنہ لیس فیہ إلا إطلاق لفظ الجسم الموہم للنقص فرفعہ بقولہ لا کالأجسام فلم یبق إلا مجرد الإطلاق وذلک معصیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۰، مکتبۃ: زکریا دیوبند)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ في سننہ، ’’کتاب الزہد: باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰، نعیمیہ۔
(۳) أیضًا:رقم: ۴۲۵۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص131
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: جو شخص معذوری کی وجہ سے کھڑے ہونے پر قدرت نہ رکھتا ہو اور بیٹھ کر امامت کرائے تو اس کی امامت درست ہے۔ بشرطیکہ وہ سجدہ زمین پر کرتا ہو، اشارہ سے نہ کرتا ہو، لیکن بہتر یہ ہے کہ قادر علی القیام امامت کرنے والا موجود ہو تو اس کو امام بنایا جائے۔
’’لا یفسد اقتداء قائم بقاعد وبأحدب وأما الأول فہو قولہما، وحکم محمد بالفساد نظرا إلی أنہ بناء القوي علی الضعیف، ولہما اقتداء الناس بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في مرض موتہ وہو قاعد وہم قیام وہو آخر أحوالہ، فتعین العمل بہ بناء علی أنہ علیہ السلام کان إماما وأبو بکر مبلغاً للناس تکبیرہ‘‘(۱)
’’وصح اقتداء … قائم بقاعد یرکع ویسجد، لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی آخر صلاتہ قاعداً وہم قیام وأبو بکر یبلغہم تکبیرہ۔۔۔۔ وغیرہ أولی، وقال الشامي: وقید القاعد بکونہ یرکع ویسجد لأنہ لو کان مومیاً لم یجز اتفاقاً‘‘(۲)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص:۶۳۷، زکریا دیوبند۔ (۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶، ۳۳۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص228
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:سرکار کے محکمہ اوقاف کی طرف سے ائمہ و مؤذنین کو جو تنخواہ ملتی ہے اس کا لینا درست ہے؛ اس لیے کہ اوقاف یہ درحقیقت مسلمانوں کی جائدادیں ہیں جس کی آمدنی سرکار عام طور پر مسلمانوں کے نجی مسائل میں خرچ کرتی ہے، اگر یہ تنخواہ اوقاف سے نہ ملتی بلکہ سرکار اپنے نجی خزانے سے دیتی تو بھی جائز ہوتی، تو یہاں بدرجہ اولی جائز ہے؛ البتہ اگر یہ اندیشہ ہو کہ آئندہ سرکار ائمہ و مؤذنین پر اس تنخواہ کی وجہ سے دباؤ بناسکتی ہے یا کسی قسم کی پریشانی میں ڈال سکتی ہے یا سرکار خود ہی امام ومؤذن کا تعین کرسکتی ہے کسی فاسق وفاجر کو امام بناسکتی ہے، تو پرہیز کرنا ہی بہتر ہوگا۔
’’اختلف الناس في اخذ الجائزۃ من السلطان قال بعضہم یجوز ما لم یعلم أنہ یعطیہ من حرام قال محمد: و بہ نأخذ مالم نعرف شیئا حراما بعینہ و ہو قول أبي حنیفۃ و أصحابہ‘‘(۱)
’’في شرح الجیل للخصاف لشمس الأئمۃ السرخسي أن الشیخ أبا القاسم کان یأخذ جائزۃ السلطان وکان یستقرض جمیع حوائجہ وما یأخذ من الجائزۃ یقضی بہا دیونہ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات‘‘: ج ۵، ص: ۳۹۶۔
(۲) عالم بن العلاء، تاتارخانیہ: ج ۱۸، ص: ۳۱۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص237
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’ارے اللہ‘‘ نماز میں کہہ دینا نماز کو فاسد کردے گا، البتہ صرف اللہ اگر منہ سے نکل جائے، تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔(۲)
(۲) والدعاء بما یشبہ کلا منا أفردہ وإن دخل في التکلم لأن الشافعي لا یفسدہا بالدعاء وینبغي أن یتعلق قولہ ’’بما یشبہ کلامنا‘‘ بالتکلم والدعاء إلی قولہ بخلاف التکلم فإنہ یفسد وإن لم یشبہ کلامنا کالمہمل۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص71
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 982/41-131
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز درست ہوگئی، اس سے معنی میں کوئی فساد نہیں پیدا ہوا بلکہ حیرت و استعجاب کا مفہوم ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1630/43-1189
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس رکن میں وضو ٹوٹا ہے اس کو لوٹاکر نماز کی بناء کرے۔ اس لئے وضو کے بعد واپس آکر رکوع کرے اور پھر رکوع سے تحمید کے ساتھ اٹھے۔ اگر اس نے رکوع نہیں کیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔
(ولو احدث فی رکوعہ او سجودہ توضا و بنی و اعادھما (بین السطور: ای الرکوع والسجود الذین احدث فیھما وجوبا لان الانتقال من رکن الی رکن بالطھارۃ شرط ولم یوجد، ولو لم یعدھما تفسد صلوتہ (کنز الدقائق، باب الحدث فی الصلوۃ 1/31 ط مکتبہ تھانوی دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2398/45-3624
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر امام صاحب نماز کی شرطوں کا خیال نہیں کرتے، اور آپ کے آواز اٹھانے سے فتنہ کا اندیشہ ہے، اور آپ نے اب تک جو کچھ کہا اس پر کوئی فرق نہیں پڑا تو آپ کسی اور مسجد میں نماز پڑھ لیا کریں یا اس اما م کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد اپنی نماز کی صحت میں شک ہو تو اطمینان قلبی کے لئے آپ اپنی نماز دوہرالیا کریں۔
نوٹ: اما م کے ہونٹ نہ ہلانے کا مقتدی کو کیسے پتا چلتاہے، یہ سمجھ میں نہیں آیا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال اگر امام صاحب کے عقائد شرکیہ اور کفریہ نہ ہوں تو تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ آپ اسی امام صاحب کے پیچھے نماز ادا کریں ؛البتہ فقہاء نے بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے؛ لیکن بدعتی کے پیچھے پڑھی گئی نماز ہو جائے گی آپ کو جماعت کا ثواب بھی ملے گا۔
’’قال الحصکفي: ویکرہ تنزیہاً إمامۃ مبتدع لا یکفر بہا، وإن کفر بہا فلا یصح الاقتداء بہ أصلا … وقال: صلی خلف فاسق أو مبتدع، نال فضل الجماعۃ، قال ابن عابدین: قولہ: ’’نال فضل الجماعۃ‘‘ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد‘‘(۱)
’’(قولہ: وہي اعتقادالخ) عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولایخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا؛ فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ … الخ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۶، ۲۹۸۔
(۲) أیضًا: ص: ۲۹۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص133
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: کھڑے ہوکر سہارا لگاکر نماز پڑھانا درست نہیں ہے البتہ عذر کی صورت میں درست ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ امامت کے لیے دوسرا متبادل نظم کیا جائے بدرجۂ مجبوری مذکورہ شخص امامت کراسکتا ہے۔(۱)
(۱) (وللمتطوع الاتکاء علی شيء) کعصا وجدار (مع الإعیاء) أي التعب بلا کراہۃ وبدونہ یکرہ (و) لہ (القعود) بلا کراہۃ مطلقا ہو الأصح … (قولہ وبدونہ یکرہ) أي اتفاقا لما فیہ من إسائۃ الأدب … وظاہرہ أنہ لیس فیہ نہي خاص فتکون الکراہۃ تنزیہیۃ تأمل (قولہ ولہ القعود) أي بعد الافتتاح قائما (قولہ بلا کراہۃ مطلقا) أي بعذر ودونہ؛ أما مع العذر فاتفاقا، وأما بدونہ فیکرہ عند الإمام علی اختیار صاحب الہدایۃ، ولا یکرہ علی اختیار فخر الإسلام وہو الأصح لأنہ مخیر في الابتداء بین القیام والقعود فکذا في الانتہاء وأما الاتکاء فإنہ لم یخیر فیہ ابتداء بلا عذر بل یکرہ فکذا الانتہاء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب صلاۃ المریض، مطلب في الصلاۃ في السفینۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۲)
ولو قدر علی القیام متکئا، الصحیح أنہ یصلي قائما متکئا ولا یجزیہ غیر ذلک وکذلک لو قدر علی أن یعتمد علی عصا أو علی خادم لہ فإنہ یقوم ویتکئ، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص229