نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایسا کرنا جائز نہیں ہے، مکروہ تحریمی ہے؛ لیکن بیع ہوجائے گی البتہ عاقدین کو ایک ناجائز معاملہ کرنے کی وجہ سے توبہ واستغفار کرنے کے ساتھ مذکورہ معاملہ کو ختم کرنا چاہئے۔
{فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ط}(۱)
’’ووجب یسعي إلیہا وترک البیع ولو مع السعي وفي المسجد أعظم وزرًا … قال الشامي أو علیٰ بابہ وحاصلہ أن السعي نفسہ فرض والواجب کونہ في وقت الأذان الأول‘‘(۲)
’’وکرہ تحریماً مع الصحۃ (البیع عندالأذان الأول)‘‘(۳)
’’إلا إذا تبایعا یمشیان فلا بأس بہ لتعلیل النہي بالإخلال بالسعي فإذا انتفی انتفی‘‘(۴)

(۱) سورۃ الجمعہ: ۹۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقي بین یدیی الخطیب‘‘ ج ۳، ص: ۳۸۔
(۳) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب البیوع: باب البیع الفاسد، مطلب أحکام نقصان المبیع فاسدًا‘‘: ج۷، ص: ۳۰۴۔    (۴) أیضًا۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص235

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حروف کی ادائیگی صحیح طریقہ پر ہونی چاہئے حتی الامکان امام صاحب کو اس کی کوشش کرنی چاہئے(۱) لیکن انگوٹھے چومنا اور دعاء میں یاغوث کہنا غلط عقیدہ ہے جو بدعت ہے ایسے شخص کو امام نہ بنانا چاہئے؛ بلکہ دیندار متبع سنت شخص کو نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کا امام بنانا چاہئے؛ البتہ حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا اور ایسے ہی شروع تکبیر میں کھڑا ہونا دونوں جائز ہیں اس بارے میں ایک فریق کو دوسرے پر نکیر نہ کرنی چاہئے مگر مذکورہ بالا غلط عقیدہ رکھنے والے بدعتی کی امامت مکروہ ہے۔ بیت المقدس تمام انبیاء کا قبلہ ہے اس کو آرام گاہ کہنا ہے بے ادبی ہے، اس لیے کہ وہ عبادت گاہ ہے آرام گاہ نہیں ہے۔(۲)

(۱) قولہ ثم الأحسن تلاوۃ و تجویدا أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ أي أجود لاأکثرہم حفظاً، وإن جعلہ في البحر متبادراً، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
(۲) ویکرہ إمامۃ مبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف، وقال الشامي، بأنہا ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال…بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دیناً قویماً وصراطاً مستقیماً۔ (أیضًا)
وقال في مجمع الروایات، إذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ لکن لاینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص129

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ شخص کو اتنا وقت بھی نہ مل سکے کہ ایک وقت کی نماز وضو کر کے ادا کر لے اور اس وقت میں قطرہ نہ آئے، بلکہ قطرہ آجاتا ہو تو وہ شخص شرعاً معذور ہے اس کا حکم یہ ہے کہ ایک وقت میں وضو کر کے جس قدر نمازیں چاہے پڑھے، دوسری نماز کے لیے از سر نو وضو کرے یہ شخص معذور ہے جو غیر معذور کا امام نہیں بن سکتا۔(۲)

(۲) وصاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ أو استطلاق بطن أو انفلات ریح… إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتہا زمنا یتوضأ ویصلي فیہ خالیا عن الحدث ولو حکما لأن الانقطاع الیسیر ملحق بالعدم۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذورین‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۴)
ومعذور بمثلہ وذي عذرین بذي عذر، لا عکسہ کذي انفلات ریح بذي سلس لأن مع الإمام حدثا ونجاسۃ۔ (أیضًا:’’مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص226

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایک مسجد میں ایک آدمی اذان پڑھے اور وہی آدمی دوسری مسجد میں اسی وقت کی نماز پڑھاوے تو شرعاً جائز ہے، اس کی اقتداء میں پڑھی گئیں نمازیں بلاکراہت درست ہیں۔(۱)

(۱) کرہ تحریمہا للنھي خروج من لم یصل من سجد قد أذن فیہ إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘:  مطلب في کراہۃ الخروج من المسجد بعد الأذان، ۲، ص: ۵۰۶، ۵۰۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص236

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے دوران عمل قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوتی او رعمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، عمل قلیل وکثیر کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں جن میں دو تعریفیں زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ دیکھنے والے کو یقین یا ظن غالب ہو کہ وہ نماز میں نہیں ہے تو وہ عمل کثیر ہے ورنہ قلیل ہے اور دوسری یہ کہ جس میں دونوں ہاتھ کا استعمال ہو وہ کثیر ہے اور جس میں ایک ہاتھ کا استعمال ہو وہ قلیل ہے۔ صورت مذکورہ میں امام صاحب نے ایک ہاتھ سے موبائل نکال کر بلا دیکھے اسے بند کردیا ہے، تو بظاہر یہ عمل قلیل ہے جس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن امام صاحب کو اس طرح کے عمل سے بھی احتراز کرنا چاہیے اس سے بھی کراہت بہر حال پیدا ہوتی ہے۔
’’(و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا (ما لا یشک) بسببہ (الناظر) من بعید (في فاعلہ أنہ لیس فیہا) صححہ في البدائعِ، وتابعہ الزیلعي والولوالجي۔ وفي المحیط أنہ الأحسن۔ وقال الصدر الشہید: إنہ الصواب۔ وفي الخانیۃ والخلاصۃ: إنہ اختیار العامۃ۔ وقال في المحیط وغیرہ: رواہ الثلجي عن أصحابنا۔ حلیۃ۔ القول الثاني: أن ما یعمل عادۃ بالیدین کثیر وإن عمل بواحدۃ کالتعمم وشد السراویل، وما عمل بواحدۃ قلیل وإن عمل بہما کحل السراویل ولبس القلنسوۃ ونزعہا إلا إذا تکرر ثلاثا متوالیۃ وضعفہ في البحر بأنہ قاصر عن إفادۃ ما لا یعمل بالید کالمضغ والتقبیل‘‘(۱)

(۱) الحصکفي و ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص:۳۸۴، ۳۸۵)۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص69

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 888/41-20B

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احناف کے نزدیک نابالغ کی امامت تراویح اور غیرتراویح میں درست نہیں ہے۔

 ولایجوز للرجال ان یقتدوا بامراۃ او صبی۔ وفی التراویح والسنن المطلقۃ جوزہ مشائخ بلخ ولم یجوزہ مشائخنا والمختار انہ لایجوز فی الصلوات کلھا (الھدایہ) لان نفل الصبی دون نفل البالغ۔ فان لم یوجد فیھما شیئ فحتی یتم بکل منھما خمس عشر سنۃ بہ یفتی (در مختار مع الشامی)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1628/43-1187

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دیگرنمازیوں کو دشواری ہو اس قدرتاخیر جائز نہیں ہے۔ معمولی تاخیر کرنے میں حرج نہیں ہے۔

وفي أذان التتارخانية قال: وفي المنتقى أن تأخير المؤذن وتطويل القراءة لإدراك بعض الناس حرام، هذا إذا مال لأهل الدنيا تطويلا وتأخيرا يشق على الناس. فالحاصل أن التأخير القليل لإعانة أهل الخير غير مكروه. (شامی، فروع قرا بالفارسیۃ 1/495)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال اگر وہ امام بدعت میں شرک کی حد تک پہنچ گیا جیسے قبر کو سجدہ کرنا وغیرہ تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں اور اگر شرکیہ عقائد نہ ہوں تو نماز تو ہو جائے گی؛ لیکن مکروہ ہوگی اس لیے صورت مسئولہ میں اس بریلوی امام کے پیچھے نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے کے مقابلہ بہتر ہے۔ تنہا نماز پڑھنے سے جماعت کی نماز افضل ہے اگرچہ کسی فاسق کے پیچھے ہو، اس سلسلے میں بڑی حکمت عملی سے کام لیا جانا چاہئے، آہستہ آہستہ سارے کام ٹھیک ہوتے ہیں جلد بازی کرکے مسجد چھوڑ دینا، کسی فساد و جھگڑے کا سبب بننا، عقلمندی کا تقاضا نہیں ہے، آپ کوشش کرتے رہیں ان شاء اللہ دیر سہی کامیابی ہوگی فی الحال فساد سے بچنا لازم ہے۔

’’ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وھي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول … لا یکفر بہا … وإن کفر بہا … فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً … قولہ وہي اعتقاد عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أولا؛ فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ‘‘(۱)
’’وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ … قولہ نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث :  من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي … أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند۔
(۲) أیضًا:ص: ۳۰۱۔
وحاصلہ إن کان ہوی لایکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا لا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)، زکریا دیوبند۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص130

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰـہ التوفیق:ایسا نابینا جو خود بھی نجاست سے پرہیز نہ کرے اور دوسرے بھی اس کی دیکھ بھال نہ کریں اس کی امامت مکروہ تنزیہی ہے۔ دوسرے اچھے شخص کے ہوتے ہوئے اس کو امام نہ بنایا جائے تاہم اگراس کے پیچھے نماز پڑھی جائے اور اس کوامام بنایا جائے تو تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے، نماز کا فریضہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر بھی ادا ہو جائے گا اور جماعت کا ثواب بھی مل جائے گا۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعمیٰ، و في الشامیۃ قید کراہۃ إمامۃ الأعمیٰ في المحیط وغیرہ بأن لا یکون أفضل القوم فإن کان أفضلہم فہو أولیٰ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص:۲۹۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص227

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واقعی طور پر اگر مذکورہ گاؤں میں مسلمانوں کی آبادی متفرق ہے اور اذان کی آواز بھی نہیں پہونچتی اور لوگ جماعت سے محروم رہ جاتے ہیں اور مائک کا بھی انتظام نہیں ہوسکتا ہے تو ایسی مجبوری کی صورت میں جب تک اذان کی آواز پہونچنے کا انتظام نہ ہوسکے اس وقت تک اذان پڑھنے کے بعد لوگوں کو نماز و جماعت کی اطلاع کے لیے گھنٹہ بجانا درست ہے تاکہ لوگ جماعت میں شرکت کرسکیں۔(۱)

(۱) أن بدء الأذان کان بالمدینۃ علی ما في مسلم کان المسلمون حین قدموا المدینۃ یجتمعون ویتحینون الصلاۃ ولیس ینادي لہا أحد فتکلموا في ذلک فقال بعضہم ننصب رایۃ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، کتاب الصلاۃ،’’باب الأذان‘‘: ج ۲، ص:۴۸)
(قولہ: في الکل) أي کل الصلوات لظہور التواني في الأمور الدینیۃ۔ قال في العنایۃ: أحدث المتأخرون التثویب بین الأذان والإقامۃ علی حسب ما تعارفوہ في جمیع الصلوات سوی المغرب مع إبقاء الأول یعني الأصل وہو تثویب الفجر، وما رآہ المسلمون حسنا فہو عند اللّٰہ حسن۔ (قولہ: للکل) أي کل أحد، وخصہ أبو یوسف بمن یشتغل بمصالح العامۃ کالقاضي والمفتي والمدرس، واختارہ قاضي خان وغیرہ نہر۔ (قولہ: بما تعارفوہ) کتنحنح، أو قامت قامت، أو الصلاۃ الصلاۃ، ولو أحدثوا إعلاما مخالفا لذلک جاز نہر عن المجتبی۔ (ابن عابدین،رد المحتار،  ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذن‘‘:  مطلب في الکلام علی حدیث ’’الأذان جزم‘‘، ج ۲، ص: ۵۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص236