Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اصل ضابطہ شرعیہ تو یہی ہے کہ ان تینوں اوقات میں کوئی بھی نماز جائز نہیں، مگر فقہاء نے اس دن کی عصر کی نماز بوقت غروب بھی پڑھنے کی اجازت دی ہے، لیکن اس کی عادت بنا لینا اچھا نہیں ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منافق کی نماز قرار دیا ہے۔(۱)
’’(وغروب، إلا عصر یومہ) فلا یکرہ فعلہ لأدائہ کما وجب بخلاف الفجر والأحادیث تعارضت فتساقطت کما بسطہ صدر الشریعۃ (قولہ: وغروب) أراد بہ التغیر کما صرح بہ في الخانیۃ حیث قال عند إحمرار الشمس إلی أن تغیب، (قولہ إلا عصر یومہ) قید بہ لأن عصر أمسہ لا یجوز وقت التغیر لثبوتہ في الذمۃ کاملا الخ وعن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: سمعت رسول اللّٰہ یقول تلک صلوٰۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتی إذا کانت بین قرني الشیطان قام ینقر أربعاً لا یذکر اللّٰہ فیہا إلا قلیلاً۔
وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک فإنہ یجوز أداؤہ عند الغروب‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا‘‘: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا، ج ۱، ص: ۱۰۸؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۳۲،۳۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص102
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ٹانگوں سے معذور شخص بیٹھ کر اذان دے سکتا ہے، البتہ غیر معذور کے لیے بیٹھ کر اذان دینا مکروہ ہے۔
’’عن الحسن بن محمد قال دخلت علي أبي زید الأنصاري فأذن وأقام وہو جالس إلی عن عطاء بن أبي رباح أنہ قال یکرہ أن یؤذن قاعدا إلا من عذر‘‘(۱)
’’ویکرہ أذان جنب وإقامۃ محدث لا أذانہ وأذان إمرأۃ وفاسق وقاعد إلا إذا أذن لنفسہ‘‘(۲)
(۱) السنن الکبیري للبیہقي: ج ۲، ص: ۱۴۱، رقم: ۱۸۸۳، دار الفکر؛ المصنف لابن أبي شیبۃ، في مصنفہ، ج ۲، ص: ۳۴۱؛
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰، زکریا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص238
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ نماز فاسد ہوگئی پھر کسی دوسرے کو امام بنا کر نماز ادا کرنی چاہئے۔(۱)
(۱) وکذلک لو مات الإمام استقبل القوم الصلاۃ بإمام آخر لأن عملہ انقطع بموتہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا مات ابن آدم انقطع عملہ إلا من ثلاث، وہذا لیس من جملتہا، والبناء علی المنقطع غیر ممکن فلہذا استقبلوا۔ (السرخسي، المبسوط، ’’باب الوضوء والغسل‘‘: ج ۱، ص: ۸۹، بیروت، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص72
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 848 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
نماز میں شرکت کے لئے عورتوں کا مسجد میں آنا ممنوع ہے۔ عن النبی ﷺ قال : صلوٰۃ المرءۃ فی بیتہا افضل من صلوٰتھا فی حجرتہا وصلوتہا فی مخدعہاافضل من صلوتہا فی بیتہا۔ (ابوداؤد شریف ج1 ص81)۔
والفتوی الیوم علی الکراھۃ فی کل الصلوات لظہور الفساد۔ (ہندیہ ج1 ص89)
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1714/43-1442
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عید کی نماز میں اجتماع مقصود ہے، اس لئے عید گاہ میں دوسری جماعت کرنا جائز نہیں ۔البتہ اگر یہ لوگ وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ جماعت کرلیتے تو اس کی گنجائش تھی۔ جن لوگوں کی نماز عید فوت ہوجائے ان کو گھر آکر انفرادی طور پر چاشت کی نماز پڑھنی چاہئے۔
یکرہ تکرار الجماعۃ فی مسجد (شامی، کتاب الصلوۃ، باب الامامۃ، مطلب فی تکرار الجماعۃ فی مسجد واحد 2/288 زکریا)
ان صلوۃ العیدین فی موضعین جائزۃ بالاتفاق (شامی، باب العیدین 3/49) وتجوز اقامۃ صلوۃ العیدین فی موضعین واما اقامتھا فی ثلاثۃ مواضع، فعند محمد تجوز، (الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب السابع عشر فی صلوۃ العیدین 1/211 زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2233/44-2362
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مخنث کے حرام مال کے علاوہ کوئی حلال آمدنی نہیں ہے تو اس حرام آمدنی سے کھانا پینا جائز نہیں ہے۔ لڑکا خود کمانے کے لائق ہے تو اس کو اپنی کمائی کا نظام بنانا لازم ہے، اور گھر کے تمام افراد کو چاہئے کہ اس حرام آمدنی سے کھانا پینا بند کردیں ۔مسجد انتظامیہ کو چاہئے کہ اس امام کو اتنی تنخواہ مہیا کریں کہ جس سے وہ اپنی اور گھروالوں کی بنیادی ضرورت پوری کرسکے۔ اگر یہ امام استطاعت کے باوجود حلال آمدنی کا کوئی ذریعہ اختیار نہیں کرتا ہے تو حرام مال کھانے کی وجہ سے فاسق ہے، اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب کا مذکورہ فعل غلط ہے، اس طرح کی بدعات سے اجتناب لازم ہے اور جو کیا اس پر توبہ اور استغفار لازم ہے، امامت اس کی درست ہے، تاہم اگر بدعات وخرافات میں مبتلا ہے تو اس کی امامت مکروہ ہے۔(۱)
(۱) قال الحصکفي: ویکرہ إمامۃ العبد … ومبتدع، أي: صاحب بدعۃ، وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول۔۔۔۔ لایکفر بہا۔۔۔۔ وإن کفر بہا، فلا یصح الاقتداء بہ أصلا۔
قال ابن عابدین: قولہ: وہي اعتقاد الخ) عزا ہذا التعریف فی ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر فی شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد) یشمل ماکان معہ عمل أو لا؛ فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ … الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
ویکرہ) … (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل بنوع شبہۃ وکل من کان) من قبلتنا (لا یکفر بہا) حتی الخوارج الذین یستحلون دماء نا وأموالنا وسب الرسول، وینکرون صفاتہ تعالی وجواز رؤیتہ لکونہ عن تأویل وشبہۃ بدلیل قبول شہادتہم، إلا الخطابیۃ ومنا من کفرہم (وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ إن اللہ تعالی جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق (فلا یصح الاقتداء بہ أصلا) فلیحفظ۔
(قولہ: وہی اعتقاد إلخ) عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد) یشمل ماکان معہ عمل أو لا، فإن من تدین یعقل لا بد أن یعتقدۃ کمسح الشیعۃ علی الرجلین وإنکارہم المسح علی الخفین وذلک، وحینئذ فیساوي تعریف الشمني لہا بأنہا ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي عن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ واستحسان، وجعل دینا قویما وصراطا مستقیما اہـ فافہم۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص134
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص امامت کے تقاضے پورا کرتا ہے تو اس کی امامت درست ہے صرف ہاتھ کی کچھ انگلیوں کا نہ ہونا، پیر کا کٹا ہوا ہوناامامت کی صحت کے لیے مضر نہیں، امامت بلا کراہت صحیح ہے۔(۱)
(۱) ولو کان قادرا علی بعض القیام دون تمامہ یؤمر بأن یقوم قدر ما یقدر … ولو قدر علی القیام متکئا، الصحیح أنہ یصلي قائما متکئا ولا یجزیہ غیر ذلک وکذلک لو قدر علی أن یعتمد علی عصا أو علی خادم لہ فإنہ یقوم ویتکئ، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶، زکریا دیوبند)
قید بتعذر القیام أي جمیعہ لأنہ لو قدر علیہ متکئا أو متعمداً علی عصاً أو حائط لا یجزئہ إلا کذلک خصوصا علی قولہما فإنہما یجعلان قدرۃ الغیر قدرۃ لہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸، زکریا دیوبند)
(برکوع وسجود وإن قدر علی بعض القیام) ولو متکئا علی عصا أو حائط (قام) لزوماً۔ (الحصکفي، رد المحتارمع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص230
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:عصر ومغرب کے درمیان تغیر شمس سے قبل سجدہ تلاوت، نماز جنازہ، فرض اور وتر کی قضاء جائز ہے، نوافل وسنن ممنوع ہیں اور تغیر شمس کے وقت یہ سب چیز یں ممنوع ہیں۔
’’تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل وما في معناہا لا الفرائض۔ ہکذا في النہایۃ والکفایۃ فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان۔ومنہا ما بعد صلاۃ العصر قبل التغیر۔ ہکذا في النہایۃ‘‘(۱)
’’ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ إذا طلعت الشمس حتی ترتفع وعند الانتصاف إلی أن تزول وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک فإنہ یجوز أداؤہ عند الغروب‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول: في المواقیت وما یتصل بہا‘‘: الفصل الثالث في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹۔ (۲) أیضاً، ص: ۱۰۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص103
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان واقامت میں بھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی آئے تو بھی درود شریف پڑھنا چاہئے یعنی صلی اللہ علیہ وسلم کہنا چاہئے؛ لیکن اگر کوئی اذان کا جواب دے رہا ہو تو اس کو ’’أشہد أن محمد رسول اللّٰہ‘‘ کے جواب میں صرف یہ ہی جملہ کہنا چاہئے اذان کے بعد دعاء اور اس کے بعد درود شریف پڑھنی چاہئے۔(۳)
(۳) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول ثم صلوا علی فإنہ من صلی علي صلاۃ صلی اللّٰہ علیہ بہا عشرا ثم سلوا اللّٰہ لي الوسیلۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في کراہۃ الجماعۃ في المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۶۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص239