نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2398/45-3624

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر امام صاحب نماز کی شرطوں کا خیال نہیں کرتے، اور آپ کے آواز اٹھانے سے فتنہ کا اندیشہ ہے،  اور آپ نے اب تک جو کچھ کہا اس پر کوئی فرق نہیں پڑا تو آپ کسی اور مسجد میں نماز پڑھ لیا کریں یا اس اما م کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد اپنی نماز کی صحت میں شک ہو تو اطمینان قلبی کے لئے آپ اپنی نماز دوہرالیا کریں۔

نوٹ: اما م کے ہونٹ نہ ہلانے کا مقتدی کو کیسے پتا چلتاہے، یہ سمجھ میں نہیں آیا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال اگر امام صاحب کے عقائد شرکیہ اور کفریہ نہ ہوں تو تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ آپ اسی امام صاحب کے پیچھے نماز ادا کریں ؛البتہ فقہاء نے بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے؛ لیکن بدعتی کے پیچھے پڑھی گئی نماز ہو جائے گی آپ کو جماعت کا ثواب بھی ملے گا۔
’’قال الحصکفي: ویکرہ تنزیہاً إمامۃ مبتدع لا یکفر بہا، وإن کفر بہا فلا یصح الاقتداء بہ أصلا … وقال: صلی خلف فاسق أو مبتدع، نال فضل الجماعۃ، قال ابن عابدین: قولہ: ’’نال فضل الجماعۃ‘‘ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد‘‘(۱)
’’(قولہ: وہي اعتقادالخ) عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولایخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا؛ فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ … الخ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۶، ۲۹۸۔
(۲) أیضًا: ص: ۲۹۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص133

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: کھڑے ہوکر سہارا لگاکر نماز پڑھانا درست نہیں ہے البتہ عذر کی صورت میں درست ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ امامت کے لیے دوسرا متبادل نظم کیا جائے بدرجۂ مجبوری مذکورہ شخص امامت کراسکتا ہے۔(۱)

(۱) (وللمتطوع الاتکاء علی شيء) کعصا وجدار (مع الإعیاء) أي التعب بلا کراہۃ وبدونہ یکرہ (و) لہ (القعود) بلا کراہۃ مطلقا ہو الأصح … (قولہ وبدونہ یکرہ) أي اتفاقا لما فیہ من إسائۃ الأدب … وظاہرہ أنہ لیس فیہ نہي خاص فتکون الکراہۃ تنزیہیۃ تأمل (قولہ ولہ القعود) أي بعد الافتتاح قائما (قولہ بلا کراہۃ مطلقا) أي بعذر ودونہ؛ أما مع العذر فاتفاقا، وأما بدونہ فیکرہ عند الإمام علی اختیار صاحب الہدایۃ، ولا یکرہ علی اختیار فخر الإسلام وہو الأصح لأنہ مخیر في الابتداء بین القیام والقعود فکذا في الانتہاء وأما الاتکاء فإنہ لم یخیر فیہ ابتداء بلا عذر بل یکرہ فکذا الانتہاء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب صلاۃ المریض، مطلب في الصلاۃ في السفینۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۲)
ولو قدر علی القیام متکئا، الصحیح أنہ یصلي قائما متکئا ولا یجزیہ غیر ذلک وکذلک لو قدر علی أن یعتمد علی عصا أو علی خادم لہ فإنہ یقوم ویتکئ، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص229

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اصل ضابطہ شرعیہ تو یہی ہے کہ ان تینوں اوقات میں کوئی بھی نماز جائز نہیں، مگر فقہاء نے اس دن کی عصر کی نماز بوقت غروب بھی پڑھنے کی اجازت دی ہے، لیکن اس کی عادت بنا لینا اچھا نہیں ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منافق کی نماز قرار دیا ہے۔(۱)
’’(وغروب، إلا عصر یومہ) فلا یکرہ فعلہ لأدائہ کما وجب بخلاف الفجر والأحادیث تعارضت فتساقطت کما بسطہ صدر الشریعۃ (قولہ: وغروب) أراد بہ التغیر کما صرح بہ في الخانیۃ حیث قال عند إحمرار الشمس إلی أن تغیب، (قولہ إلا عصر یومہ) قید بہ لأن عصر أمسہ لا یجوز وقت التغیر لثبوتہ في الذمۃ کاملا الخ وعن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: سمعت رسول اللّٰہ یقول  تلک صلوٰۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتی إذا کانت بین قرني الشیطان قام ینقر أربعاً لا یذکر اللّٰہ فیہا إلا قلیلاً۔
وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک فإنہ یجوز أداؤہ عند الغروب‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا‘‘: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا، ج ۱، ص: ۱۰۸؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۳۲،۳۳۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص102

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ٹانگوں سے معذور شخص بیٹھ کر اذان دے سکتا ہے، البتہ غیر معذور کے لیے بیٹھ کر اذان دینا مکروہ ہے۔
’’عن الحسن بن محمد قال دخلت علي أبي زید الأنصاري فأذن وأقام وہو جالس إلی عن عطاء بن أبي رباح أنہ قال یکرہ أن یؤذن قاعدا إلا من عذر‘‘(۱)
’’ویکرہ أذان جنب وإقامۃ محدث لا أذانہ وأذان إمرأۃ وفاسق وقاعد إلا إذا أذن لنفسہ‘‘(۲)

(۱) السنن الکبیري للبیہقي: ج ۲، ص: ۱۴۱، رقم: ۱۸۸۳، دار الفکر؛ المصنف لابن أبي شیبۃ، في مصنفہ، ج ۲، ص: ۳۴۱؛
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰، زکریا۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص238

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ نماز فاسد ہوگئی پھر کسی دوسرے کو امام بنا کر نماز ادا کرنی چاہئے۔(۱)

(۱) وکذلک لو مات الإمام استقبل القوم الصلاۃ بإمام آخر لأن عملہ انقطع بموتہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا مات ابن آدم انقطع عملہ إلا من ثلاث، وہذا لیس من جملتہا، والبناء علی المنقطع غیر ممکن فلہذا استقبلوا۔ (السرخسي، المبسوط، ’’باب الوضوء والغسل‘‘: ج ۱، ص: ۸۹، بیروت، لبنان)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص72

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 848 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

نماز میں شرکت کے لئے عورتوں کا مسجد میں آنا ممنوع ہے۔ عن النبی ﷺ قال : صلوٰۃ المرءۃ فی بیتہا افضل من صلوٰتھا فی حجرتہا وصلوتہا فی مخدعہاافضل من صلوتہا فی بیتہا۔ (ابوداؤد شریف ج1 ص81)۔

والفتوی الیوم علی الکراھۃ فی کل الصلوات لظہور الفساد۔ (ہندیہ ج1 ص89)

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1714/43-1442

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عید کی نماز میں اجتماع مقصود ہے، اس لئے عید گاہ  میں دوسری جماعت کرنا جائز نہیں ۔البتہ اگر یہ لوگ وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ جماعت کرلیتے تو اس کی گنجائش تھی۔  جن لوگوں کی نماز عید فوت ہوجائے ان کو گھر آکر انفرادی طور پر چاشت کی نماز پڑھنی چاہئے۔  

یکرہ تکرار الجماعۃ فی مسجد (شامی، کتاب الصلوۃ، باب الامامۃ، مطلب فی تکرار الجماعۃ فی مسجد واحد 2/288 زکریا)

ان صلوۃ العیدین فی موضعین جائزۃ بالاتفاق (شامی، باب العیدین 3/49) وتجوز اقامۃ صلوۃ العیدین فی موضعین واما اقامتھا فی ثلاثۃ مواضع، فعند محمد تجوز، (الھندیۃ، کتاب الصلوۃ، الباب السابع عشر فی صلوۃ العیدین 1/211 زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2233/44-2362

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مخنث کے حرام مال کے علاوہ کوئی حلال آمدنی نہیں ہے تو اس حرام آمدنی سے کھانا پینا جائز نہیں ہے۔ لڑکا خود کمانے کے لائق ہے تو اس کو اپنی کمائی کا نظام بنانا لازم ہے، اور گھر کے تمام افراد کو چاہئے کہ اس حرام آمدنی سے کھانا پینا بند کردیں ۔مسجد انتظامیہ کو چاہئے کہ اس امام کو اتنی تنخواہ مہیا کریں کہ جس سے وہ اپنی اور گھروالوں کی بنیادی ضرورت پوری کرسکے۔  اگر  یہ امام استطاعت کے باوجود حلال آمدنی کا کوئی ذریعہ  اختیار نہیں کرتا ہے تو حرام مال کھانے کی وجہ سے فاسق ہے، اور اس کی امامت مکروہ  تحریمی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب کا مذکورہ فعل غلط ہے، اس طرح کی بدعات سے اجتناب لازم ہے اور جو کیا اس پر توبہ اور استغفار لازم ہے، امامت اس کی درست ہے، تاہم اگر بدعات وخرافات میں مبتلا ہے تو اس کی امامت مکروہ ہے۔(۱)

(۱) قال الحصکفي: ویکرہ إمامۃ العبد … ومبتدع، أي: صاحب بدعۃ، وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول۔۔۔۔ لایکفر بہا۔۔۔۔ وإن کفر بہا، فلا یصح الاقتداء بہ أصلا۔
قال ابن عابدین: قولہ: وہي اعتقاد الخ) عزا ہذا التعریف فی ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر فی شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد) یشمل ماکان معہ عمل أو لا؛ فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ … الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
ویکرہ) … (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل بنوع شبہۃ وکل من کان) من قبلتنا (لا یکفر بہا) حتی الخوارج الذین یستحلون دماء نا وأموالنا وسب الرسول، وینکرون صفاتہ تعالی وجواز رؤیتہ لکونہ عن تأویل وشبہۃ بدلیل قبول شہادتہم، إلا الخطابیۃ ومنا من کفرہم (وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ إن اللہ تعالی جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق (فلا یصح الاقتداء بہ أصلا) فلیحفظ۔
(قولہ: وہی اعتقاد إلخ) عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد) یشمل ماکان معہ عمل أو لا، فإن من تدین یعقل لا بد أن یعتقدۃ کمسح الشیعۃ علی الرجلین وإنکارہم المسح علی الخفین وذلک، وحینئذ فیساوي تعریف الشمني لہا بأنہا ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي عن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ واستحسان، وجعل دینا قویما وصراطا مستقیما اہـ فافہم۔ (أیضًا:  ص: ۲۹۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص134