نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں تشہد پڑھتے وقت ’’أن‘‘ پر شہادت کی انگلی اٹھانا اور ’’إلا اللّٰہ‘‘ پر گرا دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جو مسنون ہے اس کے  خلاف کرنے والے کا قول بالکل غلط ہے۔
’’کان عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہ إذا جلس في الصلاۃ وضع یدیہ علیٰ رکبتیہ وأشار بإصبعہ وأتبعہا بصرہ، ثم قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لہی أشد علی الشیطان من الحدید، یعني السبابۃ‘‘(۱)
’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یشیر بأصبعہ إذا دعا، ولا یحرکہا‘‘(۲)

(۱) أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’مسند عبداللّٰہ بن عمر‘‘: ج ۱۰، ص: ۲۰۴، رقم: ۶۰۰۰۔
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإشارۃ في التشہد‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲، رقم:۹۸۹)۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص73

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: بزرگوں کے ناموں کی منت ماننا اور پھر ان کے ناموں سے بکرے ذبح کرنا اور ان کا کھانا یہ سب باتیں حرام اور ناجائز ہیں ۔ {ولا تأکلوا مما لم یذکراسم اللہ علیہ} اور {ما أہل لغیراللّٰہ} پس اس شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ کیوں کہ وہ شخص گناہگار ہے۔(۱)

(۱) فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لما ذکرنا۔ (ابن عبادین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب خمسۃ أقسام‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
وحاصلہ إن کان ہوی لایکفر صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص136

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: زید اگرلنگڑا ہے؛ لیکن رکوع سجدہ کرنے پر قادر ہے  رکوع سجد ہ اشارہ سے نہیں کرتا ہے، تو اس کی امامت درست ہے، تاہم دوسرے حضرات اگر امامت کے اہل موجود ہوں جو امامت کے فرائض سے اچھی طرح واقف ہوں تو ان کی امامت مکروہ ہے۔ بہتر ہے کہ دوسرے شخص کو امام بنادیا جائے یعنی افضلیت میں کراہت ہے جواز میں نہیں۔
’’وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ، فالاقتداء بغیرہ أولی‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص:۳۰۲، ۳۰۱۔
ولا قادر علی رکوع وسجود بعاجز عنہما؛ لبناء القوي علی الضعیف (قولہ بعاجز عنہما) أي بمن یومیٔ بہما قائماً أو قاعداً ۔۔۔۔۔  کما سیأتي، قال: والعبرۃ للعجز عن السجود، حتی لو عجز عنہ وقدر علی الرکوع أومأ۔ (أیضًا: ’’مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘:  ص: ۳۲۴)
وصح اقتداء قائم بأحدب وإن بلغ حدبہ الرکوع علی المعتمد، وکذا بأعرج وغیرہ أولٰی۔ (أیضًا: ’’مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘:  ص: ۳۳۶، ۳۳۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص232

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: وہ بھنگی جس کو عرف عام میں حلال خور مسلمان کہتے ہیں ان کی نماز جنازہ پڑھنا درست ہے اور ان کے بچہ کے کان میں اذان پڑھنا بھی درست ہے لہٰذا اس پر اعتراض نہ کیا جائے مذکورہ شخص کی امامت بھی درست اور جائز ہے۔(۱)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض ثم (الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقرأۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن۔ الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۴)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص336

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اہل حدیث کی نماز حنفی امام کی اقتداء میں بلاشبہ درست ہے، نیز اہل حدیث، احناف کی مسجد میں حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو صرف اہل حدیث ہونے کی وجہ سے اس کو منع کرنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۴۹)
{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِھَاط اُولٰٓئِک مَا کَانَ لَہُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَآئِفِیْنَ۵ط لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌہ۱۱۴} (سورۃ البقرۃ: ۱۱۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص459

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر اسی وقت جنازہ آیا ہو، تو پڑھ سکتے ہیں مکروہ نہیں ہے۔ پہلے آیا ہو تو تا خیر کرکے زوال کے وقت پڑھنا ممنوع ہے۔(۲)

(۲) وسجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ تلیت الآیۃ في کامل وحضرت الجنازۃ قبل لوجوبہ کاملاً فلا یتأدی ناقصاً فلو وجبتا فیہا لم یکرہ فعلہما أي تحریماً۔ وفي التحفۃ: الأفضل أن لا تؤخر الجنازۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۴)
أما لو وجبتا في ہذ الوقت وأدیتا فیہ جاز، لأنہا أدیت ناقصۃ کما وجبت۔۔۔۔ وفي صلاۃ الجنازۃ التأخیر مکروہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص105

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی عذر نہ ہو، تو سجدے میں جاتے ہوئے، پہلے گھٹنے رکھے، پھر دونوں ہاتھ رکھے، یہ سنت طریقہ ہے، بلاعذر اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے؛ البتہ اگر کوئی عذر ہو جیسے بڑھاپا یا بدن بھاری ہو اور پہلے گھٹنے رکھنے میں تکلیف ہو، تو اس صورت میں، پہلے ہاتھ رکھنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ جیسا کہ مرقی الفلاح میں لکھا ہے:
’’ثم کبر کل مصل خاراً للسجود۔۔۔۔ ثم وضع رکبتیہ ثم یدیہ إن لم یکن بہ عذر یمنعہ من ہذہ الصفۃ‘‘(۱)

(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘:  ج۱، ص: ۱۰۵۔
عن وائل بن حجر -رضي اللّٰہ عنہ- قال رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سجد وضع رکبتیہ قبل یدیہ وإذا نہض رفع یدیہ قبل رکبتیہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۲، رقم: ۸۳۸)
أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في وضع الیدین قبل الرکبتین في السجود‘‘: ج ۱، ص:۶۱، رقم: ۲۶۸؛ وأخرجہ ابن ماجہ، في سننہ:، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیہا، السجود‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۶، رقم: ۸۸۲۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا سجد أحدکم فلا یبرک کما یبرک البعیر ولیضع یدیہ قبل رکبتیہ۔ (أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’مسند أبي ہریرۃؓ‘‘: ج ۵، ص: ۵۱۵، رقم: ۸۹۵۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص374

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں شراب یا پیشاب کی شیشی کے جیب میں موجود ہونے کی وجہ سے اس کی نماز درست نہیں ہوئی، اعادہ ضروری ہوگا۔
’’بخلاف ما لو حمل قارورۃ مضمومۃ فیہا بول فلا تجوز صلاتہ لأنہ في غیر معدنہ کما في البحر عن المحیط‘‘(۳)
’’رجل صلی وفي کمہ قارورۃ فیہا بول لا تجوز الصلاۃ سواء کانت ممتلئۃ أو لم تکن لأن ہذا لیس في مظانہ ومعدنہ‘‘(۴)

(۳) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۴، زکریا دیوبند۔
(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’ومما یتصل بذلک مسائل تحت شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص74

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/883

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ عالم  کی بات درست ہے، اسے سترہ سمجھنے کی صورت میں نمازی کو اسی تک نگاہ رکھنی چاہئے، نگاہ آگے نہ بڑھائے توجہ محدود رکھے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں بشرط صحت سوال ایسے شخص کی امامت درست ہے۔(۱)

(۱) وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ فالاقتداء بغیرہ أولٰی تاترخانیۃ وکذا أجذم، بیر جندي، ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحدۃ، فتاویٰ الصوفیۃ عن التحفۃ، والظاہر أن العلۃ النفرۃ ولذا قید الأبرص بالشیوع لیکون ظاہراً ولعدم إمکان إکمال الطہارۃ أیضاً في المفلوج والأقطع والمجبوب۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص233