حج و عمرہ

Ref. No. 1532/43-1035

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا  کسی عذر کی بناء پر مکروہ  نہیں ہے، لیکن اس کی عادت بنالینا مکروہ ہوگا۔ اس لئے کہ سنت طریقہ یہی ہے کہ ہر طواف  کی تکمیل پر دو رکعت واجب ادا کرے، اور پھر اس کے بعد دوسرا طواف شروع کرے۔  

ويكره أن يجمع بين أسبوعين فصاعدا قبل أن يصلي الركعتين بينهما عند أبي حنيفة ومحمد، وهو مذهب عمر وجماعة أخر وقال أبو يوسف لا بأس به إن انصرف عن وتر مثل أن ينصرف عن ثلاثة أسابيع أو خمسة أو سبعة (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، باب الاحرام، 2/19)

(قال) ، ويكره أن يجمع بين أسبوعين من الطواف قبل أن يصلي في قول أبي حنيفة ومحمد رحمها الله تعالى، وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - لا بأس بذلك إذا انصرف على وتر ثلاثة أسابيع أو خمسة أسابيع لحديث عائشة - رضي الله عنها - أنها طافت ثلاثة أسابيع ثم صلت لكل أسبوع ركعتين، ولأن مبنى الطواف على الوتر في عدد الأشواط فإذا انصرف على وتر لم يخالف انصرافه مبنى الطواف، واشتغاله بأسبوع آخر قبل الصلاة كاشتغاله بأكل أو نوم، وذلك لا يوجب الكراهة فكذا هنا إذا انصرف على ما هو مبنى الطواف بخلاف ما إذا انصرف على شفع؛ لأن الكراهة هناك لانصرافه على ما هو خلاف مبنى الطواف لا لتأخيره الصلاة وأبو حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى قالا إتمام كل أسبوع من الطواف بركعتين فيكره له الاشتغال بالأسبوع الثاني قبل إكمال الأول كما أن إكمال كل شفع من التطوع لما كان بالتشهد يكره له الاشتغال بالشفع الثاني قبل إكمال الأول (المبسوط للسرخسی، الطواف قبل طلوع الشمس 4/47) (فتح القدیر، باب الاحرام 2/294) البنایۃ، حکم السعی بین الصفا والمروۃ 4/210)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 1684/43-1326

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نہیں، یعنی جس شخص کا حج فاسد ہوگیا اس پر طوافِ وداع  واجب نہیں  ہے۔

وليس على فائت الحج طواف الصدر؛ لأنه طواف عرف وجوبه في الشرع بعد الفراغ من الحج على ما قال النبي - صلى الله عليه وسلم - «من حج هذا البيت فليكن آخر عهده به الطواف» وهذا لم يحج فلا يجب عليه. (بدائع الصنائع: (221/2،ط:دار الکتب العلمیۃ) إن فائت الحج ليس عليه طواف الصدر...الخ (غنیۃ الناسک: (318) )ولیس علی فائت الحج طواف الصدر۔۔۔الخ )البحر الرائق: 377/2،ط:دار الکتاب الاسلامی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 2390/44-3622

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدود حرم کے اندر ہی بال کٹوانا ضروری ہے، اور عزیزیہ ہوٹل حدود حرم کے اندر ہے،  اس لئے  حلق کرانے کے لئے  عزیزیہ ہوٹل  جانا درست  ہے۔

الھدایۃ: (164/1، ط: دار احیاء التراث العربی)

" وإن حلق في أيام النحر في غير الحرم فعليه دم ومن اعتمر فخرج من الحرم وقصر فعليه دم عند أبي حنيفة ومحمد " رحمهما الله تعالى " وقال أبو يوسف " رحمه الله " لا شيء عليه "۔۔۔۔ولهما أن الحلق لما جعل محللا صار كالسلام في آخر الصلاة فإنه من واجباتها وإن كان محللا فإذا صار نسكا اختص بالحرم كالذبح

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ
Ref. No. 40/875 الجواب وباللہ التوفیق بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میقات سے بغیر احرام کے گزرنا درست نہیں ہے. اس لئے مذکور صورت میں آپ پر دم واجب ہے. اگر آپ انڈیا میں ہیں تو کسی وکیل کے ذریعہ حرم میں جانور ذبح کرادیں. اس لئے کہ دم کا محل حرم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 1184/42-461

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عمرہ کے طواف و سعی کے درمیان اتصال ضروری نہیں ہے بلکہ سنت ہے، بہتر ہے کہ طواف کے  فورا بعد سعی کرلی جائے، لیکن اگر مذکورہ عذر کی وجہ سے سعی کو مؤخر کیا تو کوئی حرج نہیں اور نہ ہی کوئی جزا لازم ہوگی۔

واما السنۃ  فمنھا ان یوالی بین الطواف والسعی فلو فصل بینھما بوقت ولو طویلا فقد ترک السنۃ ولیس علیہ جزاء۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ 1/459)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 1183/42-473

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سوال میں جو طریقے بیان کئے گئے ہیں وہ درست ہیں۔ آفاقی شخص اگر سیدھا مکہ مکرمہ میں  داخل ہونے کا ارداہ نہیں رکھتا ہے بلکہ قصد اولی حدود حل یا میقات مثلا جدہ وغیرہ میں رکنے کا ہے  اور اس کے بعد مکہ مکرمہ جانا ہے تو ایسی صورت میں میقات سے گزرتے وقت احرام باندھنا اس پر واجب نہیں ہے، کیونکہ اس کا قصد اولی مکہ مکرمہ نہیں ہے اس لئے اس پر اہل حل کا حکم ثابت ہوجاتاہے۔ ایسے لوگ جدہ سے احرام باندھ کر مکہ جاسکتے ہیں کیونکہ جدہ بھی میقات ہے۔ اور ان حضرات پر کوئی دَم واجب نہیں ہے، اور نہ ہی یہ کسی قسم کا دھوکہ ہے۔ (انوار مناسک ص266)

اما لو قصد موضعا من الحل کخلیص وجدۃ حل لہ مجاوزتہ بلااحرام (درمختار کراچی 2/477)

ان ذلک حیلۃ لآفاقی اراد دخول مکۃ بلااحرام ولم ار ان ھذا  القصد لابدمنہ حین خروجہ من بیتہ اولا والذی یظھر ھو الاول ۔۔۔ ۔

-وحاصلہ ان الشرط ای یکون سفرہ لاجل دخول الحل والا فلاتحل لہ المجاوزۃ بلااحرام قال فی النھر ان وجود ذلک القصد عند المجاوزۃ کاف (شامی کتاب الحج، باب الجنایات زکریا دیوبند  3/624)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند
 

حج و عمرہ

Ref. No. 2458/45-3725

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مکہ شہر سے مدینہ جانے والے راستہ پر تنعیم کے مقام پر حرم مکہ کی حدود ختم ہوجاتی  ہے، یہاں ایک مسجد ہے جو حضرت عائشہ ؓ سے موسوم ہے۔ اہل مکہ یا جو لوگ مکہ مکرمہ میں قیام پذیر ہوں اور وہ عمرہ کرنا چاہیں تو حدود حرم سے باہر نکل کر حل میں سے کہیں سے بھی احرام باندھ سکتے ہیں، البتہ مسجد عائشہ سے افضل ہے۔ تاہم مسجد عائشہ میقات نہیں ہے، بلکہ تنعیم میقات ہے، اور مکہ مکرمہ کی توسیع سے حدود حرم کا دائرہ وسیع نہیں ہوگا، ۔

"ولایکره الإکثار منها أي من العمرة في جمیع السنة، بل یستحب أي الإکثار منها، وأفضل مواقیتها لمن بمکة التنعیم والجعرانة، والأول أفضل عندنا". (مناسك ملا علي القاري ۴۶۷)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 479):
"(و) الميقات (لمن بمكة) يعني من بداخل الحرم (للحج الحرم وللعمرة الحل)؛ ليتحقق نوع سفر، والتنعيم أفضل".

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 479):
"(قوله: والتنعيم أفضل) هو موضع قريب من مكة عند مسجد عائشة، وهو أقرب موضع من الحل، ط أي الإحرام منه للعمرة أفضل من الإحرام لها من الجعرانة وغيرها من الحل عندنا، وإن كان صلى الله عليه وسلم أحرم منها؛ لأمره عليه الصلاة والسلام عبد الرحمن بأن يذهب بأخته عائشة إلى التنعيم؛ لتحرم منه، والدليل القولي مقدم عندنا على الفعلي".

"المغني“  لابن قدامة  (3/111 ):

قال ابن قدامة رحمه الله:"إن ميقات العمرة لمن كان بمكة سواء من أهلها أو ممن قدموا عليها هو الحل، وقال: لانعلم في هذا خلافاً". ("المغني" لابن قدامة 3/111).

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 2512/45-3845

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معتمر کے لیے عمرہ کے تمام اَرکان ادا کرلینے کے بعد، اسی طرح حاجی کے لئے تمام مناسک حج ادا کرلینے کے بعد صرف احرام کی پابندیوں سے نکلنے اور حلال ہونےکی نیت سے، خود اپنے سر کا حلق کرناجائز ہے، اس سے کوئی دم وغیرہ لازم نہیں آئے گا۔

 "(واذا حلق) ای المحرم (رأسہ) ای رأس نفسہ (أو رأس غیرہ) ای ولو کان محرما (عند جواز التحلل) ای الخروج من الاحرام بأداء أفعال النسک (لم یلزمہ شیٔ) الاولی لم یلزمھما شیٔ وھذا حکم یعم کل محرم فی کل وقت". (مناسک لملا علی القاری: (ص: 230)
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 1916/43-1814

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اللہ کی اجازت سے کل قیامت میں سفارش  کرنے والوں میں اعمال بھی ہوں گے اور اشخاص بھی۔ نماز، روزہ، وغیرہ اعمال بھی سفارش کریں گے، اور انبیاء، اولیا، شہداء، علماء، حفاظ اورحجاج  اپنے اپنے متعلقین کے لئے سفارش کریں گے۔  نابالغ اولاد کی سفارش، عام لوگوں کی سفارش، فرشتوں کی سفارش بھی ثابت ہے۔ اللہ جس کو اجازت دیں گے، اسی کو حق ہوگا سفارش کا۔ بعض لوگوں کی سفارش  احادیث میں مصرح ہے اور جس کی بابت کوئی  صراحت نہیں ہے اس کو بھی اللہ کی اجازت سے سفارش کا حق مل سکتاہے۔  بعض ضعیف احادیث میں حاجی کی سفارش کا بھی ذکر ہے اور فضائل کے باب میں ضعیف احادیث کو قبول کرلیا جاتاہے۔ اس لئے مذکورہ بات درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

 

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-: شوال وذی قعدہ اشہر حج میں سے ہیں، لیکن ان مہینوں میں عمرہ کرنے یا مکہ چلے جانے سے حج فرض نہیں ہوجا تا بلکہ جب تک وہ صاحب استطاعت نہیں ہوگا اس پر حج فرض نہیں ہوگا،علاوہ ازیں حج زندگی میں صرف ایک بار ہی فرض ہوتا ہے۔اسی طرح اگر کوئی اشہر حج میں عمرہ کرکے گھر چلاگیااورپھر حج کے ایام میں حج کررہا ہے توپہلے عمرہ کا اس حج سے کوئی  تعلق نہیں ہوگا،  حج تمتع کےلیے  ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج اداکرنا  ضروری  ہے۔   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند