نکاح و شادی

Ref. No. 1349/42-731

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔شادی کی تاریخ کی تعیین کے لئے لال خط بھیجنا محض ایک رسم ہے ، اسلام رسموں کو مٹانے کے لئے آیاہے، نہ کہ رواج دینے کے لئے۔ اس لئے لال خط بھیجنا اور یہ خط لکھنے و پڑھنے کے نام پر لوگوں کا جمع ہونا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح اس موقع پر اجرت لینے سے احتراز ضروری ہے۔تاہم بطور ہدیہ ہو تو اس کا لینا درست ہے۔ مگر اس طرح کی مجلسیں باعث گناہ ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1651/43-1228

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دعوت ولیمہ میں افراد کی تعداد متعین نہیں ہے، یہ خوشی کا موقع ہے ، تمام عزیز و اقارب کو حتی  الوسع اس خوشی میں شریک کرنا چاہئے۔ البتہ نام و نمود کی خاطرقرض لے کر دعوت میں بہت زیادہ  خرچ کرنا اچھا نہیں ہے، اپنی حیثیت کے مطابق ہی دعوت دیجا ئے۔

عن عبد العزيز بن صهيب، قال: سمعت أنس بن مالك، يقول: «ما أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم على امرأة من نسائه أكثر - أو أفضل - مما أولم على زينب»، فقال ثابت البناني: بما أولم؟ قال: «أطعمهم خبزا ولحما حتى تركوه» (صحیح مسلم، باب زواج زینب بنت جحش 2/1049، بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2253/44-2402

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح پڑھانے والے امام کا نکاح کی فیس لینا شرعا جائز ہے، اور یہ فیس امام یا قاضی اور نکاح پڑھوانے والے کے درمیان جو طے ہوجائے وہ درست ہے۔ البتہ مسجد کمیٹی کا امام صاحب سے 700 روپئے وصول کرنا اگر کسی معاہدہ کی بناء پر ہے یعنی امام مقرر کرتے وقت کوئی معاہدہ اس سلسلہ میں ہواہو  تو اس کے مطابق ان سے اس کی وصولیابی درست ہوگی ورنہ درست نہیں ہوگی۔ نکاح کا رجسٹر عموما امام کا ہی ہوتاہے۔  نکاح کا رجسٹر کس کا ہے یہ مسجد والوں سے ہی معلوم کیاجائے۔

"وَفِي فَتَاوَى النَّسَفِيِّ: إذَا كَانَ الْقَاضِي يَتَوَلَّى الْقِسْمَةَ بِنَفْسِهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ، وَكُلُّ نِكَاحٍ بَاشَرَهُ الْقَاضِي وَقَدْ وَجَبَتْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ كَنِكَاحِ الصِّغَارِ وَالصَّغَائِرِ فَلَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، وَمَا لَمْ تَجِبْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَاخْتَلَفُوا فِي تَقْدِيرِهِ، وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى أَنَّهُ إذَا عَقَدَ بِكْرًا يَأْخُذُ دِينَارًا وَفِي الثَّيِّبِ نِصْفَ دِينَارٍ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ هَكَذَا قَالُوا، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ". ( كتاب أدب القاضي، الْبَابُ الْخَامِسَ عَشَرَ فِي أَقْوَالِ الْقَاضِي وَمَا يَنْبَغِي لِلْقَاضِي أَنْ يَفْعَل، ٣ / ٣٤٥)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1475/42-914

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جن لوگوں کا سارا کاروبار اورآمدنی حرام کی ہو ان سے لیا ہوا ہدیہ وغیرہ سامان واپس کردینا چاہئے۔اور اگر وہ سامان اب موجود نہیں ہے بلکہ ختم ہوگیا اور استعمال کرلیا اگر وہ شخص صاحب وسعت ہے تو مال  کا عوض لوٹانا بہتر ہے، تاہم آئندہ ان سے کوئی چیز بالکل نہ لے۔ اور جو کچھ نادانی میں ہوگیا اس پر استغفار کرے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1746/43-1452

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حفنی میں، لواطت گوکہ یہ حرام اور غلیظ ترین عمل  ہے اور سچے دل سے توبہ واستغفار لازم ہے  لیکن اس سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ہے، ۔    حرمت مصاہرت کی علت جزئیت و بعضیت کا شائبہ ہونا ہے، جو کہ مذکورہ عمل میں ممکن نہیں ہے۔  اس لئے مذکورہ نکاح درست ہے۔

[تتمة] للواطة أحكام أخر: لا يجب بها المهر ولا العدة يحصل بها التحليل للزوج الأول، ولا تثبت بها الرجعة ولا حرمة المصاهرة عند الأكثر، ولا الكفارة في رمضان في رواية. (شامی، فرع الاستمناء 4/28) (البحر الرائق، وطئ امراۃ اجنبیۃ فی دبرھا 5/18)5

 و كذا لو وطئ في دبرها لاتثبت الحرمة، كذا في التبيين. و هو الأصح، هكذا في المحيط. و عليه الفتوى، هكذا في جواهر الأخلاطي." (الفتاوى الهندية (1/ 275، کتاب النکاح، الباب الثالث فی بیان المحرمات، القسم الثالث فی المحرمات بالصہریۃ،ط: دارالفکربیروت)

عقوق الوالدين المسلمين، و استحلال الحرام) . و ذكر شيخنا عن أبي طالب المكي أنه قال: الكبائر سبع عشرة، قال: جمعتها من جملة الأخبار وجملة ما اجتمع من قول ابن مسعود وابن عباس وابن عمر، رضي الله تعالى عنهم، وغيرهم: الشرك بالله، والإصرار على معصيته، والقنوط من رحمته، والأمن من مكره، وشهادة الزور، وقذف المحصن، واليمين الغموس، والسحر، وشرب الخمر، والمسكر، وأكل مال اليتيم ظلمًا وأكل الربا، والزنا، واللواطة، والقتل، والسرقة، والفرار من الزحف، وعقوق الوالدين. انتهى. " (عمدة القاري شرح صحيح البخاري (13 / 216)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2344/44-3531

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     نکاح کے لیے گواہ بنناشرعی شہادت ہے اور شرعی شہادت پراجرت و معاوضہ کا لین دین جائزنہیں ہے۔ ا لبتہ اگر اس طرح نکاح کیا گیا تو نکاح درست ہوجائے گا۔  نیز بوقت نکاح عقد کی مجلس میں وکیل  کرنا  ضروری نہیں ہے،  اگر لڑکا ولڑکی مجلس میں موجود ہیں تو نکاح بغیر وکیل کے ہوسکتاہے۔ اور اگر کسی کو وکیل بنایاگیا اور اس نے اس پر اجرت کا مطالبہ کیا تو متعین اجرت دینے کی گنجائش ہے۔

(کفایت المفتی 2/275دارالاشاعت) واَقِیمُوْا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہ(قرآن)

إذا أخذ الوكيل الأجرة لإقامة الوكالة، فانه غير ممنوع شرعا إذ الوكالة عقد جائز لايجب على الوكيل اقامتها، فيجوز أخذ الأجرة فيها. (فتح القدیر،کتاب الوکالة،ج۷/ص۲)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1748/43-1488

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سلسلہ میں بنیادی بات یاد رکھیں کہ نکاح درست ہونے کے لئے ضروری ہے کہ لڑکی یا اس کا وکیل مجلس نکاح میں موجود ہو، اور وہ ایجاب کرے اور لڑکا قبول کرے اور دو گواہ نکاح کے ایجاب و قبول کو سنیں اور یہ سب مجلس نکاح میں موجود ہوں؛ اگر ان چاروں میں سے کوئی ایک بھی مجلس نکاح سے غائب ہوگا یا آن لائن ہوگا تو اس کا عتبار نہیں ہوگا، اور نکاح درست نہیں ہوگا۔

آپ کے سوال میں پوری صورت حال واضح نہیں ہورہی ہے اس لئے اگر چاہیں تو دوبارہ وضاحت کے ساتھ لکھ کر سوال کریں۔ بہرحال  نکاح کے لئے بنیادی بات ذکرکردی گئی ہے۔

ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین الخ۔ (الدر المختار 4/76 زکریا)
وشرط حضور شاہدین حرین، أو حر وحرتین مکلفین سامعین قولہما معاً۔ (الدر المختار 4/91-87 زکریا)
ومنہا أن یکون الإیجاب والقبول في مجلس واحد حتی لو اختلف المجلس بأن کانا حاضرین فأوجب أحدہما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل یوجب اختلاف المجلس لا ینعقد، وکذا إذا کان أحدہما غائبًا لم ینعقد۔ (الفتاویٰ الہندیۃ 1/269زکریا)
ومنہا سماع الشاہدین کلامہما معًا، ہٰکذا في فتح القدیر … ولو سمعا کلام أحدہما دون الآخر أو سمع أحدہما کلام أحدہما والآخر کلام الآخر لا یجوز النکاح، ہٰکذا في البدائع۔
(الفتاویٰ الہندیۃ 1؍268زکریا، بدائع الصنائع، کتاب النکاح / عدالۃ الشاہدین 2؍527 زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1223/42-537

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہر فلور ایک الگ مکان ہے، اور بیوی کو رہنے کے لئے وہ مکان کافی بھی ہے اور شوہر کے گھر والوں کی اس میں کوئی مداخلت بھی نہیں ہے  ، تو ایسی صورت میں  بیوی کا  الگ سے ایک گھر کا مطالبہ شرعا جائز نہیں ہے۔  شریعت میں رہایش کا انتظام کرنے سے یہی مراد ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں ہے۔  اپنی ازدواجی زندگی کی حفاظت کے لئے بشرط استطاعت اور مصلحت ، الگ سے مکان دینے کی گنجائش ہے  تاہم والدین کی خدمت  اور حسن سلوک کو ہرگز ترک نہ کرے۔ 

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك (الھندیہ / الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)

إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك".  (شامی / مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)

وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدين إحسانا (القرآن: 17/23)  لا طاعة في معصية، إنما الطاعة في المعروف (صحیح البخاری 9/88 الرقم 7257)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2781/45-4363

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بالغ لڑکا وبالغ لڑکی دو بالغ مرد گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرلیں تو شرعاً نکاح منعقد ہو جاتا ہے، تاہم اگر لڑکی نے غیر کفو میں نکاح کیا تو لڑکی کے والد کو نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہے تاہم اولاد کو ایسے کام کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے جو والدین یا خاندان کے لئے بد نامی یا شرمندگی کا باعث ہو۔

عن سماك بن حرب قال: جاء رجل الي علی فقال امرأة أنا وليها تزوجت بغير اذن، فقال علي رضي الله عنه: تنظر فيماصنعت ان كانت تزوجت كفوا أجز نا ذلك لها وان كانت تزوجت من ليس لها كفوا جعلنا ذلك اليك‘‘ (سنن دار قطني)

ولا ينعقد نكاح المسلمين الا بحضور شاهدين عاقلين بالغين مسلمين الخ أما اشتراط الشهادة فلقوله عليه السلام لا نكاح الا بشهود‘‘ (فتح القدير: ج 3،ص: 199، زكريا)

وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضائها وان لم يعقد عليها ولی بكرا كانت أو ثبيا عند أبي حنيفة وأبي يوسف في ظاهر الرواية‘‘ (الهداية: ج 2، ص: 335)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2375/44-3588

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  احناف کے یہاں بالغہ لڑکی اگر اپنا نکاح از خود والدین کی مرضی کے بغیر کفوء میں کرلے تو نکاح درست ہوجاتاہے، آپ کی عمر 32 سال ہے، والدین کی ذمہ داری ہے کہ آپ کا نکاح مناسب جگہ کردیتے لیکن بظاہر انہوں نے اس دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جو ان کو کرنا چاہئے تھا ، اس لئے اگر آپ کو رشتہ مناسب معلوم ہوتاہے تو پہلے کوشش کریں کہ والدین راضی ہوجائیں اور ان کی مرضی سے نکاح ہو، ورنہ آپ از خود کسی کو وکیل بناکر نکاح کرسکتی ہیں، اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔ الایم احق بنفسھا من ولیھا (الحدیث)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند