نکاح و شادی

Ref. No. 1001 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ذات برادری اور خاندان کا لحاظ اس لئے کیا جاتا ہے کہ میاں بیوی کےآپسی رہن سہن  اور مزاج میں  یکسانیت ہو تاکہ  دونوں ایک  خوشگوار زندگی گزارسکیں۔ ذات برادری  میں تقسیم ،تفاخر اور دوسرے کو نیچا سمجھنے کے لئے نہیں بلکہ  تعارف کے لئے  ہے کہ اگر ایک نام کے دوشخص ہیں تو خاندان کے فرق سے امتیاز ہوجائے؛  والدین کو جوڑا تلاش کرتے وقت دینداری کا خیال کرنا چاہئے نہ کہ محض ذات پات کا۔ اسلئے اگر لڑکے یا لڑکی کا باپ دوسری برادری میں شادی  کرادے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ دینداری چھوڑ کر ذات پات میں لگ جانا مزاج شریعت کے خلاف ہے، اور محض جاہلانہ باتیں ہیں۔ قرآن  کریم میں ارشاد ہے، يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (الحجرات13)۔ اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو،  اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہی ہے جوسب سے زیادہ پرہیزگار ہو، اللہ تعالی خوب جاننے والا پورا خبردار ہے۔حدیث شریف میں ہے : تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَلِجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ (متفق علیہ) ۔ عورت سے چار وجہوں سے نکاح کیا جاتا ہے: مال، حسب نسب، حسن و جمال، یا دین کی وجہ سے۔ تم دیندار عورت کا انتخاب کرو۔(بخاری) اسی طرح نبی ﷺ نے نیک عورت کو دنیا کی سب سےبہتر متاع قرار دیا ہے۔(مسلم) ۔ 

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1563/43-1082

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔چچا کی  دوسری بیوی اس بھتیجے کے لئےغیرمحرم ہے، اس لئے چچا کے انتقال کے بعد عدت گزارکر بھتیجے کا اس سے نکاح ہوسکتاہے۔  سوتیلا باپ حقیقی باپ  کے  حکم میں  نہیں آئے گا۔

وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا} [4-22] (تفسير البغوي "معالم التنزيل)":

"أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ السِّجْزِيُّ أَنَا الْإِمَامُ أَبُو سُلَيْمَانَ الْخَطَّابِيُّ أَنَا أَحْمَدُ بْنُ هِشَامٍ الْحَضْرَمِيُّ أَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْعُطَارِدِيُّ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: مَرَّ بِي خَالِي وَمَعَهُ لِوَاءٌ فَقُلْتُ: أَيْنَ تَذْهَبُ؟ قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِيهِ آتِيهِ برأسه"..

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1733/43-1445

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکی نے جب کہ وہ عاقلہ بالغہ ہے  لڑکے کوخود کے ساتھ نکاح کرنے کا وکیل بنادیا تو اب لڑکے کا دوگواہوں کی موجودگی میں  اس نکاح کو قبول کرنا درست ہوگیا اور نکاح صحیح ہوگیا اور دونوں میاں بیوی بن گئے۔ اب دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔ 

كما للوكيل) الذي وكلته أن يزوجها على نفسه فإن له (ذلك) فيكون أصيلًا من جانب وكيلًا من آخر." (شامی، 3/ 98ط:سعيد

(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا". (شامی،3/55 کتاب النکاح ، باب الولی، ط: سعید)

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض". (بدائع الصنائع، 2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2812/45-4403

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The wife can ask her husband for divorce in return for payment. If he is somehow not ready to accept Khula or utter divorce, one should approach a nearby Shariah Darul-Qaza.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1108/42-350

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استخارہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ عشاء کی نماز سے فراغت کے بعد جب سونے کا ارادہ ہو تو وضو کرکے دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں، اور نماز کے بعد دعاء کریں کہ یا اللہ یہ معاملہ ہے ، اس میں جو خیر ہو میرے دل میں ڈال دیجئے۔ یادرکھیں استخارہ  کی نماز کے بعد ذکر ودعاء کرتے ہوئے سوجائیں ، دنیوی باتیں نہ کریں۔  *استخارہ خود ہی کرنا چاہئے ، دوسروں سے نہیں کرانا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1006/41-257

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ الفاظ طلاق کی دو قسمیں ہیں، صریح اور کنائی۔ صریح وہ الفاظ ہیں جو طلاق کے لئے استعمال ہوتے ہیں، جیسے طلاق۔ اور کنائی وہ لفظ ہے جس میں طلاق اور طلاق کے علاوہ دوسرے معنی کا بھی احتمال ہوتا ہے، مثلا چلی جاؤ، اس میں طلاق کا بھی معنی ہے کہ چلی جاؤ میں نے طلاق دیدی یا چلی جاؤ جو کرنا ہے کرو؛ یہ طلاق کے علاوہ معنی ہے۔ کنائی طلاق میں اگر طلاق کی نیت کرلے تو ایک طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔ جو لوگ نکاح کرتے ہیں ان کو نکاح کے ساتھ طلاق کے اصول کا بھی علم ہونا چاہئے، اگر طلاق دینے کے بعد وہ خلاف شرع بیوی کے ساتھ رہتے ہیں تو وہ گنہگار ہوں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1349/42-731

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔شادی کی تاریخ کی تعیین کے لئے لال خط بھیجنا محض ایک رسم ہے ، اسلام رسموں کو مٹانے کے لئے آیاہے، نہ کہ رواج دینے کے لئے۔ اس لئے لال خط بھیجنا اور یہ خط لکھنے و پڑھنے کے نام پر لوگوں کا جمع ہونا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح اس موقع پر اجرت لینے سے احتراز ضروری ہے۔تاہم بطور ہدیہ ہو تو اس کا لینا درست ہے۔ مگر اس طرح کی مجلسیں باعث گناہ ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1651/43-1228

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دعوت ولیمہ میں افراد کی تعداد متعین نہیں ہے، یہ خوشی کا موقع ہے ، تمام عزیز و اقارب کو حتی  الوسع اس خوشی میں شریک کرنا چاہئے۔ البتہ نام و نمود کی خاطرقرض لے کر دعوت میں بہت زیادہ  خرچ کرنا اچھا نہیں ہے، اپنی حیثیت کے مطابق ہی دعوت دیجا ئے۔

عن عبد العزيز بن صهيب، قال: سمعت أنس بن مالك، يقول: «ما أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم على امرأة من نسائه أكثر - أو أفضل - مما أولم على زينب»، فقال ثابت البناني: بما أولم؟ قال: «أطعمهم خبزا ولحما حتى تركوه» (صحیح مسلم، باب زواج زینب بنت جحش 2/1049، بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2253/44-2402

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح پڑھانے والے امام کا نکاح کی فیس لینا شرعا جائز ہے، اور یہ فیس امام یا قاضی اور نکاح پڑھوانے والے کے درمیان جو طے ہوجائے وہ درست ہے۔ البتہ مسجد کمیٹی کا امام صاحب سے 700 روپئے وصول کرنا اگر کسی معاہدہ کی بناء پر ہے یعنی امام مقرر کرتے وقت کوئی معاہدہ اس سلسلہ میں ہواہو  تو اس کے مطابق ان سے اس کی وصولیابی درست ہوگی ورنہ درست نہیں ہوگی۔ نکاح کا رجسٹر عموما امام کا ہی ہوتاہے۔  نکاح کا رجسٹر کس کا ہے یہ مسجد والوں سے ہی معلوم کیاجائے۔

"وَفِي فَتَاوَى النَّسَفِيِّ: إذَا كَانَ الْقَاضِي يَتَوَلَّى الْقِسْمَةَ بِنَفْسِهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ، وَكُلُّ نِكَاحٍ بَاشَرَهُ الْقَاضِي وَقَدْ وَجَبَتْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ كَنِكَاحِ الصِّغَارِ وَالصَّغَائِرِ فَلَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، وَمَا لَمْ تَجِبْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَاخْتَلَفُوا فِي تَقْدِيرِهِ، وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى أَنَّهُ إذَا عَقَدَ بِكْرًا يَأْخُذُ دِينَارًا وَفِي الثَّيِّبِ نِصْفَ دِينَارٍ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ هَكَذَا قَالُوا، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ". ( كتاب أدب القاضي، الْبَابُ الْخَامِسَ عَشَرَ فِي أَقْوَالِ الْقَاضِي وَمَا يَنْبَغِي لِلْقَاضِي أَنْ يَفْعَل، ٣ / ٣٤٥)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1475/42-914

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جن لوگوں کا سارا کاروبار اورآمدنی حرام کی ہو ان سے لیا ہوا ہدیہ وغیرہ سامان واپس کردینا چاہئے۔اور اگر وہ سامان اب موجود نہیں ہے بلکہ ختم ہوگیا اور استعمال کرلیا اگر وہ شخص صاحب وسعت ہے تو مال  کا عوض لوٹانا بہتر ہے، تاہم آئندہ ان سے کوئی چیز بالکل نہ لے۔ اور جو کچھ نادانی میں ہوگیا اس پر استغفار کرے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند