Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 1467/42-907
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں سلمان کی بیوی پر تین طلاقیں مغلظہ واقع ہوگئیں، صریح لفظوں سے طلاق دینے میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اب میاں بیوی کے درمیان نکاح باقی نہیں رہا۔ عورت کی عدت وضع حمل ہے، لہذا عورت بچہ کی ولادت کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ سلمان سے اس کا نکاح نہ اب جائز ہے اور نہ عدت کے بعد جائز ہے، اب دونوں آزاد ہیں۔ فی الحال بیوی کو اپنے نکاح میں لانے کی کوئی صورت نہیں ہے البتہ اگر عورت کسی دوسرے مرد اے نکاح کرلیتی ہے اور پھر وہ طلاق دیدیتاہے یا اس کا انتقال ہوجاتاہے تو سلمان کا اس عورت سے نکاح ہوسکتاہے۔
لأن الصريح لا يحتاج إلى النية. (شامی، باب صریح الطلاق، 3/249) والأصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيها لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية إذا أضيف إلى المرأة، مثل أن يقول في عرف ديارنا: دها كنم أو في عرف خراسان والعراق بهشتم؛ لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان في الفارسية من الألفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام والله أعلم. (بدائع الصنائع، فصل فی النیۃ فی احدنوعی الطلاق 3/102)
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(سورۃ البقرۃ 230)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1107/42-336
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر نے جب طلاق نامہ تیار کرایا اور دستخط کرکے آپ کے پاس بھیج دیا تو ان کاغذات پر جتنی طلاق لکھی تھی شرعا وہ ساری طلاقیں واقع ہوگئیں۔اگر ایک یا دو طلاقیں لکھی ہیں تو رجوع یا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے، اگر تین طلاق دیدی ہے تو دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں ہے۔
ولو قال للکاتب: اکتب طلاق امرأتي کان إقراراً بالطلاق وان لم یکتب۔ ہدایہ فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ (القرآن- سورۃ البقرۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1338/42-720
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق دینا یاد ہے مگر طلاق کتنی مرتبہ دی یہ یاد نہیں تو ایسی صورت میں جتنی طلاقیں یقینی ہیں وہ طلاقیں واقع ہوں گی لہذا ایک طلاق رجعی تو یقینی طور پر واقع ہوگئی، اور اگر تیسری طلاق میں شک ہو اور دوسری طلاق یقینی ہو تو دو طلاق رجعی کا حکم لگے گا۔ صورت مسئولہ میں ایک یا دو طلاق کا اگر یقین ہے تو عدت (تین حیض ) گزرنے سے پہلے رجعت کرسکتے ہیں اور اگر عدت کے دوران رجعت نہیں کی تو یہ ایک /دو طلاقیں بائن ہوجائیں گی اور عدت کے بعد نکاح جدید کرکے دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اور اگر تین طلاق کا یقین ہے تو فورا علیحدہ ہونا واجب ہے، یہ طلاق مغلظہ ہے جس کے بعد اب دونوں میں نکاح باقی نہیں رہا۔ مرد اپنا نکاح کہیں اور کرلے اور عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ الی قولہ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ (القرآن: سورۃ البقرۃ 229/230)
ولو شک أطلق واحدة أو أکثر بني علی الأقل أي کما ذکرہ الإسبیجابي إلا أن یستیقن بالأکثر أو یکون أکبر ظنہ․ (فتاوی شامی: 3/283)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1341/42-717
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح صرف تین پتھر ہاتھ میں دیدینے سے اور صرف یہ کہنے سے کہ تم گھر چلی جاؤ، اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی جبکہ شوہر کا بیان ہے کہ میں نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی۔
قَوْلُهُ: وَرُكْنُهُ لَفْظٌ مَخْصُوصٌ: هُوَ مَا جُعِلَ دَلَالَةً عَلَى مَعْنَى الطَّلَاقِ مِنْ صَرِيحٍ أَوْ كِنَايَةٍ فَخَرَجَ الْفُسُوخُ عَلَى مَا مَرَّ، وَأَرَادَ اللَّفْظَ وَلَوْ حُكْمًا لِيُدْخِلَ الْكِتَابَةَ الْمُسْتَبِينَةَ وَإِشَارَةَ الْأَخْرَسِ وَالْإِشَارَةَ إلَى الْعَدَدِ بِالْأَصَابِعِ فِي قَوْلِهِ: أَنْتِ طَالِقٌ هَكَذَا، كَمَا سَيَأْتِي. وَبِهِ ظَهَرَ أَنَّ مَنْ تَشَاجَرَ مَعَ زَوْجَتِهِ فَأَعْطَاهَا ثَلَاثَةَ أَحْجَارٍ يَنْوِي الطَّلَاقَ وَلَمْ يَذْكُرْ لَفْظًا لَا صَرِيحًا وَلَا كِنَايَةً لَايَقَعُ عَلَيْهِ، كَمَا أَفْتَى بِهِ الْخَيْرُ الرَّمْلِيُّ وَغَيْرُهُ". ( فتاوی شامی، کتاب الطلاق، رُكْن الطَّلَاق،3/230)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 40/000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں کسی قریبی معتبردارالقضاء سے رجوع کرلیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 39/1063
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ مسئلہ کو کسی شرعی دارالقضاء میں پیش کیا جائے، وہاں سے جو حکم شرعی معلوم ہو اس پر عمل کیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2105/44-2270
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کنائی الفاظ بولنے اور بیوی کی جانب منسوب کرنے کی صورت میں نیت کا اعتبار ہوگا، اور نکاح پر اثر پڑےگا، لیکن موبائل کا الارم بند کرنے کے لئے لفظ 'ڈسمس' پر کلک کرنے سے کسی طرح نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس لئے آپ وسوسہ کا شکار نہ ہوں، آپ کا نکاح بدستور باقی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 915/41-38
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں شوہر نے دوبار بیوی کی طلاق کو معلق کیا مگر بیوی شرط کے مطابق باہر آگئی، تو اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور اگر متعینہ وقت گزرنے کے بعد باہر آئی تو طلاق واقع ہوچکی ۔
وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق (الھدایۃ 1/244)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2131/44-2181
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زمین پر طلاق کے الفاظ اس طور پر لکھ دئے کہ ہر شخص اس کو پڑھ سکتاہو یعنی بالکل واضح طور پر طلاق لکھی ہوئی ہوتو اس سے بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔اور اگر اس طرح لکھا کہ زمین پر انگلی پھیری لیکن زمین پر کچھ واضح نہیں ہے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔
يجب أن يعلم بأن الكتابة نوعان: مرسومة وغير مرسومة. فالمرسومة: أن تكتب على صحيفة مصدرا ومعنونا وإنها على وجهين: الأول: أن تكتب هذا كتاب فلان بن فلان إلى فلانة أما بعد: فأنت طالق. وفي هذا الوجه يقع الطلاق عليها في الحال. وإن قال: لم أعن به الطلاق لم يصدق في الحكم، وهذا لأن الكتابة المرسومة بمنزلة المقال. (المحیط البرھانی: (274/3، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو (رد المحتار: (246/3، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2470/45-3744
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب اپنی علاتی بہن کی پوتی سے نکاح حرام تھا تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا، لہذا طلاق دینے کی ضرورت نہیں، البتہ زبانی طور پرضرورکہدے کہ میں نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی ،یا قاضی دونوں کے درمیان تفریق کا حکم کردے۔ اور ایسی صورت میں چونکہ خلوت ہوچکی ہے اس لئےعورت پر عدت ، اور شوہر پر مہر مثل اور مہر مسمی میں سے جو کم ہوگا وہ واجب ہوگا۔
(الباب الثامن في النكاح الفاسد وأحكامه) إذا وقع النكاح فاسدًا فرق القاضي بين الزوج والمرأة فإن لم يكن دخل بها فلا مهر لها ولا عدة." (الفتاوى الهندية"،الباب الثامن في النكاح الفاسد وأحكامه 1/ 330)
قولہ( في نكاح فاسد ) وحكم الدخول في النكاح الموقوف كالدخول في الفاسد فيسقط الحد ويثبت النسب ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل"(ردالمحتار،مطلب في النكاح الفاسد،ج4ص274)
"لأن الطلاق لا يتحقق في النكاح الفاسد بل هو متاركة۔۔۔في البزازية المتاركة في الفاسد بعد الدخول لا تكون إلا بالقول كخليت سبيلك أو تركتك ومجرد إنكار النكاح لا يكون متاركة"(ردالمحتار،مطلب في النكاح الفاسد،ج4ص276)
"وَلَا نَفَقَةَ في النِّكَاحِ الْفَاسِدِ وَلَا في الْعِدَّةِ منه"۔ (الهندية،النفقات ،ج1ص597)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند