طلاق و تفریق

Ref. No. 2566/45-3908

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاقیں   جمع کا صیغہ ہے، اور اردو میں جمع کا اطلاق ایک سے زیادہ پر ہوتاہے، لہذا اس لفظ 'طلاقیں' سے کم از دو طلاقیں  رجعی واقع ہوں گی، اور اگر تین کی نیت  کی ہو جو کہ طلاق کا عدد نہائی ہے تو  تین طلاقیں  واقع ہوجائیں گی ۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1001/41-163

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تین طلاق کے بعد نکاح بالکل ختم ہوجاتا ہے اور مرد و عورت دونوں اجنبی ہوجاتے ہیں۔ تین طلاق کے بعداب ایک ساتھ رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ لہذا عورت کو چاہئے کہ وہ پہلے شوہر سے جدا ہوجائے اور کسی دوسرے مرد سے نکاح کرکے اپنی زندگی گزارے۔ قرآن کریم نے سورہ بقرہ میں اس کو بیان کیا ہے:  فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔ الآیۃ (سورہ بقرہ)۔ 

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1643/43-1218

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں شوہر نے پیسے دینے پر "طلاق دے دوں گا" کہہ کر طلاق دینے کا وعدہ کیا تھا، طلاق نہیں دی تھی، اس لئے اگر اس نے اب تک طلاق نہیں دی ہے تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ پیسے لینے کے بعد وعدہ سے مکر گیا ، تو ایسی صورت میں شرعی عدالت سے رابطہ کریں، تاکہ آپ کو انصاف مل سکے۔

فقال الزوج أطلق (طلاق می کنم) فکررہ ثلاثاً طلقت ثلاثاً بخلاف قولہ: سأطلق (طلاق می کنم) لأنہ استقبالٌ فلم یکن تحقیقا بالشک۔

فِي الْمُحِيطِ: لَوْقَال بِالْعَرَبِيَّةِ: أُطَلِّقُ، لَايَكُون طَلَاقًا إلَّا إذَا غَلَبَ اسْتِعْمَالُهُ لِلْحَال؛ فَيَكُون طَلَاقًا (الھندیۃ، الفصل السابع فی الطلاق بالالفاظ الفارسیہ، 1/384)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2466/45-3769

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اشرف نے زمین کے معاملہ میں زاہد کو وکیل بنایا ہے، لہذا زاہد زمین ہی کے معاملہ میں وکیل شمار ہوگا، بلاکسی وجہ کے اس وکالت کو دوسری جانب موڑنا درست نہیں ہے۔ طلاق کی وکالت کا وسوسہ محض وسوسہ ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اس میں کوئی شبہہ نہ کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/1147

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ مسئلہ میں تین طلاق سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ مرد اپنی زوجہ کو ایک طلاق دے کر اس سے الگ رہے، رجعت نہ کرے، عدت پوری گزرجانے دے،  عدت گذرجانے کے بعدوہ عورت اس سے فون پر بات کرلے تو اس طرح تعلیق ختم ہوجائے گی۔ پھر عورت سے نکاح جدید کرلے۔ فحیلۃ من علق الثلاث بدخول الدار ان یطلقھا واحدۃ ثم بعد المدۃ تدخلھا فتنحل الیمین  فینکحھا۔ (شامی ج4ص609)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2678/45-4139

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں کسی  معتبر شرعی دارالقضاء سے رجوع کیاجائے،  اورپوری صورت حال بیان  کرنے کے بعد قاضی شرعی  جو فیصلہ کرے اس کے مطابق عمل کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1467/42-907

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں سلمان کی بیوی پر تین طلاقیں  مغلظہ واقع ہوگئیں، صریح لفظوں سے طلاق دینے میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔  اب  میاں بیوی  کے درمیان نکاح  باقی نہیں رہا۔ عورت کی عدت وضع حمل ہے، لہذا عورت بچہ کی ولادت کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ سلمان سے اس کا نکاح نہ اب جائز ہے اور نہ عدت کے بعد جائز ہے، اب دونوں آزاد ہیں۔  فی الحال بیوی کو اپنے نکاح میں لانے کی کوئی صورت نہیں ہے  البتہ اگر عورت کسی دوسرے مرد اے نکاح کرلیتی ہے اور پھر وہ طلاق دیدیتاہے یا اس کا انتقال ہوجاتاہے تو سلمان کا اس عورت سے نکاح ہوسکتاہے۔

لأن الصريح لا يحتاج إلى النية. (شامی، باب صریح الطلاق، 3/249) والأصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيها لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية إذا أضيف إلى المرأة، مثل أن يقول في عرف ديارنا: دها كنم أو في عرف خراسان والعراق بهشتم؛ لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان في الفارسية من الألفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام والله أعلم. (بدائع الصنائع، فصل فی النیۃ فی احدنوعی الطلاق 3/102)

فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(سورۃ البقرۃ 230)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1107/42-336

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر نے جب طلاق نامہ تیار کرایا اور دستخط کرکے آپ کے پاس بھیج دیا تو  ان کاغذات پر جتنی طلاق لکھی تھی شرعا وہ ساری طلاقیں واقع ہوگئیں۔اگر ایک یا دو طلاقیں لکھی ہیں تو رجوع یا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے، اگر تین طلاق دیدی ہے تو دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں ہے۔

 ولو قال للکاتب: اکتب طلاق امرأتي کان إقراراً بالطلاق وان لم یکتب۔ ہدایہ فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ (القرآن- سورۃ البقرۃ)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1338/42-720

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق دینا یاد ہے مگر طلاق کتنی مرتبہ دی  یہ یاد نہیں تو ایسی صورت میں جتنی طلاقیں یقینی ہیں وہ طلاقیں واقع ہوں گی لہذا ایک طلاق رجعی تو یقینی طور پر واقع ہوگئی، اور اگر تیسری طلاق میں شک ہو  اور دوسری طلاق یقینی ہو تو دو طلاق رجعی  کا حکم لگے گا۔ صورت مسئولہ میں ایک یا دو طلاق کا اگر یقین ہے تو عدت (تین حیض ) گزرنے سے پہلے رجعت کرسکتے ہیں  اور اگر عدت کے دوران رجعت نہیں کی تو یہ ایک /دو طلاقیں بائن ہوجائیں  گی اور عدت کے بعد نکاح جدید کرکے دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اور اگر تین  طلاق کا یقین ہے تو فورا علیحدہ ہونا واجب ہے، یہ طلاق مغلظہ ہے جس کے بعد اب دونوں میں نکاح باقی نہیں رہا۔ مرد اپنا نکاح کہیں اور کرلے اور عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ 

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ الی قولہ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ (القرآن: سورۃ البقرۃ 229/230)

ولو شک أطلق واحدة أو أکثر بني علی الأقل أي کما ذکرہ الإسبیجابي إلا أن یستیقن بالأکثر أو یکون أکبر ظنہ․ (فتاوی شامی: 3/283)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1341/42-717

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح صرف تین پتھر ہاتھ میں دیدینے سے   اور صرف یہ کہنے سے کہ تم گھر چلی جاؤ، اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی جبکہ شوہر کا بیان ہے کہ میں نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی۔

قَوْلُهُ: وَرُكْنُهُ لَفْظٌ مَخْصُوصٌ: هُوَ مَا جُعِلَ دَلَالَةً عَلَى مَعْنَى الطَّلَاقِ مِنْ صَرِيحٍ أَوْ كِنَايَةٍ فَخَرَجَ الْفُسُوخُ عَلَى مَا مَرَّ، وَأَرَادَ اللَّفْظَ وَلَوْ حُكْمًا لِيُدْخِلَ الْكِتَابَةَ الْمُسْتَبِينَةَ وَإِشَارَةَ الْأَخْرَسِ وَالْإِشَارَةَ إلَى الْعَدَدِ بِالْأَصَابِعِ فِي قَوْلِهِ: أَنْتِ طَالِقٌ هَكَذَا، كَمَا سَيَأْتِي. وَبِهِ ظَهَرَ أَنَّ مَنْ تَشَاجَرَ مَعَ زَوْجَتِهِ فَأَعْطَاهَا ثَلَاثَةَ أَحْجَارٍ يَنْوِي الطَّلَاقَ وَلَمْ يَذْكُرْ لَفْظًا لَا صَرِيحًا وَلَا كِنَايَةً لَايَقَعُ عَلَيْهِ، كَمَا أَفْتَى بِهِ الْخَيْرُ الرَّمْلِيُّ وَغَيْرُهُ". ( فتاوی شامی، کتاب الطلاق، رُكْن الطَّلَاق،3/230)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند