Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 2331/44-3500
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عاقلہ بالغہ عورت شدید مجبوری میں پورے پردہ کا اہتمام کرتے ہوئے اگر جائے تو اس کی اجازت ہوگی، تاہم اگر مسافت سفر پر جاناپڑے تو کسی محرم یعنی بھائی، چچا یا ماموں کو ساتھ لے کر جانا ضروری ہوگا۔
"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لايحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم»". (الصحیح لمسلم، 1/433، کتاب الحج، ط: قدیمی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 40/1068
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نشے کی حالت میں زجراً وقوع طلاق کا حکم ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No 2670/45-4135
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں جب شوہر تین طلاق کا اقرار کررہاہے تو تین طلاقیں واقع شمار ہوں گی۔ طلاق کے لئے گواہ کا ہونا یا کسی کا سننا شرط نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2514/45-3847
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں جب بیوی کھانے کو ختم کرنے پر قادر نہیں تھی، تو یمین منعقد ہی نہیں ہوگی، اور چونکہ بیوی شروع سے آخر تک کھانے میں شریک رہی اور کھانا ختم کردیا تویمین کے مطابق بھی عورت پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2628/45-4002
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال اگر نکاح کے بعد شوہر و بیوی کی ملاقات نہیں ہوئی اور خلوت صحیحہ بھی نہیں ہوئی اور شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی تو صورت مسئولہ میں ایک طلاق بائن واقع ہوئی۔ اگر دونوں دوبارہ نکاح کرکے رہنا چاہیں تو عدت کے اندر بھی نکاح کرسکتے ہیں ، البتہ آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
" وإذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها " لأن الوقاع مصدر محذوف لأن معناه طلاقا بائنا على ما بيناه فلم يكن قوله أنت طالق إيقاعا على حدة فيقعن جملة فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة " وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق لأن كل واحدة إيقاع على حدة إذا لم يذكر في آخر كلامه ما يغير صدره۔ (الھدایۃ: (233/1، ط: دار احیاء التراث العربی)
إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها۔۔۔الخ (الھندیۃ: (473/1، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1715/43-1392
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چار مہینے یا اس سے زیادہ کے حمل کو ضائع کرنا ناجائز عمل ہے اور سخت گناہ کی بات ہے، عورت پر اور ان تمام لوگوں پر جنھوں نے اس عمل میں اس عورت کا ساتھ دیاتوبہ واستغفارلازم ہے۔ تاہم چونکہ بچہ کے اعضاء بن چکے تھے، اور حیات اس میں آگئی تھی ، س لئے اسقاط حمل سے عورت کی عدت پوری ہوگئی ۔اب عورت آزاد ہے، اگرنکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:"(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما(ولد) حكما..... وتنقضي به العدة."
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:"(قوله أي مسقوط) الذي في البحر التعبير بالساقط،وهو الحق لفظا ومعنى؛.....وأما معنى فلأن المقصود سقوط الولد ،سواء سقط بنفسه،أو أسقطه غيره." (الدر المختار مع رد المحتار:1/302، دار الفکر،بیروت)
وقال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی:"وإذا أسقطت سقطا استبان بعض خلقه،انقضت به العدة؛ لأنه ولد." (البحر الرائق:4/147،دارالکتاب الإسلامی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2092/44-2132
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علی تقدیر صحۃ السوال المذکور وقع الطلاق الرجعی بقولہ 'اعتبریہ حصل من طرفی'۔ الآن الزوج مخیر ان یراجعھا فی العدۃ او یترکھا حتی تنقضی العدۃ۔ و لو یریدان ان یعیشا معا و قد انقضت عدتھا فلا بد من نکاح جدید۔ قال تعالی: اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ-وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (البقرۃ ۲۲۹)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1191/42-476
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) محض وسوسہ کی وجہ سے نہ تو کلما کی قسم واقع ہوتی ہے اور نہ ہی طلاق واقع ہوتی ہے وسوسے کی بنا پر کوئی حکم نہیں لگتا ہے اس لیے فضولی والے نکاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے (2) کلما کے علاوہ الفاظ سے بھی طلاق کی قسم منعقد ہو جاتی ہے لیکن جو مثال ذکر کی ہے کہ میں فلاں کے ساتھ نہیں جاؤں گا اس سے قسم منعقد نہیں ہوگی اور نہ ہی طلاق واقع ہوگی (3) سوال واضح نہیں ہے، مکمل کلما کے الفاظ کے ساتھ قسم کی وضاحت کر کے معلوم کر لیں (4) وسوسے کا علاج یہ ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ دی جائے اور درود شریف کی کثرت کے ساتھ یہ دعا پڑھیں: اللھم انی اعوذ بک من ھمزات الشیاطین واعوذ بک ربی ان یحضرون۔
قال الليث الوسوسه حديث النفس وانما قيل موسوس لانه يحدث بما في ضميره وعن الليث لا يجوز طلاق الموسوس (رد المحتار4/224) ان الله تجاوز عن امتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل بها او تتكلم بها (مشکوۃ ص18)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2518/45-3850
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں جب شوہر نے تین بار طلاق کا لفظ بول دیا توشرعا تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور عورت اپنے شوہر کے لئے حرام ہوگئی۔ عدت گزرنے کے بعد عورت کو مکمل اختیار ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2397/44-3630
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نشہ کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اور چھ سات بار طلاق بولنے سے شرعا تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اور بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے، نکاح فوری طور پر ختم ہوجاتاہے، اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتاہے۔ مطلقہ عورت اپنی عدت گزارکر دوسرے مرد سے نکاح کرنے میں آزاد ہوتی ہے۔
"إن كان سكره بطريق محرم لايبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق و العتاق." (حاشیۃ ابن عابدین، مطلب في تعريف السكران وحكمه : 3 / 239 ، ط : سعید)
"(و يقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) و لو تقديرًا، بدائع ، ليدخل السكران (ولو عبدًا أو مكرهًا) فإن طلاقه صحيح. (قوله: فإن طلاقه صحيح) أي طلاق المكره." (الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین، رکن الطلاق : 3 / 235 ، ط : سعید)
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."
(فتاوی ہندیہ، کتاب الطلاق ، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به ، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به : 473/1 ، ط : دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند