Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 1506/42-976
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی میں، نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق زجرا واقع ہوجاتی ہے۔ اس لئے اگر شوہر نے اپنی مدخول بہا کو تین طلاق دی توشرعاً تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔اب دونوں کا نکاح مکمل ختم ہوچکاہے۔
وفي الذخيرة ": طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر والنبيذ، ولو أكره على الشرب فسكر أو شرب للضرورة فذهب عقله يقع طلاقه. وفي جوامع الفقه عن أبي حنيفة: يقع، وبه أخذ شداد ولو ذهب عقله بدواء أو أكل البنج لايقع. (البنایۃ، طلاق السکران 5/300) ولا يقع طلاق السكران منه بمنزلة النائم ومن ذهب عقله بالبنج ولبن الرماك۔ وعن محمد أنه حرام ويحد شاربه ويقع طلاقه إذا سكر منه كما في سائر الأشربة المحرمة (فتح القدیر للکمال، فصل فی الدعوی ولاختلاف والتصرف فیہ 10/99) واختار الكرخي والطحاوي أن طلاق السكران لا يقع؛ لأنه لا قصد له كالنائم، وهذا لأن شرط صحة التصرف العقل، وقد زال فصار كزواله بالبنج وغيره من المباحات ولنا أنه مخاطب شرعا لقوله تعالى {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى} [النساء: 43] فوجب نفوذ تصرفه؛ ولأنه زال عقله بسبب هو معصية فيجعل باقيا زجرا له بخلاف ما إذا زال بالمباح حتى لو صدع رأسه وزال بالصداع لا يقع طلاقه (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق 2/196) وروى الطحاوي عن أبي سنان قال: سمعت عمر بن عبد العزيز يقول طلاق السكران والمكره واقع ولأنه قصد إيقاع الطلاق في منكوحته حال أهليته فلا يعرى عن قضيته وهذا لأنه عرف الشرين فاختار أهونهما وهذا علامة القصد والاختيار لأنه غير راض بحكمه وذلك غير مانع من وقوع الطلاق كالهازل. (الغرۃ المنیفۃ فی تحقیق بعض مسائل الامام، کتاب الطلاق 1/153)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 945/41-84
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر زبان سے طلاق یا اس کے مشابہ کوئی لفظ نہیں نکالا تھا تو صرف وسوسہ آنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وسوسوں سے احتراز لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2150/44-2227
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو عورت کسی کے نکاح میں پہلے سے ہے اس کا نکاح کسی دوسرے مَرد سے حرام ہے، اگر نکاح کرلیا تو نکاح باطل ہوگا، اور زنا کی مرتکبہ ہوگی، اور فوری تفریق لازم ہے، البتہ اگر عورت پہلے شوہر سے خلع لے لے یا قاضی کے یہاں فسخ نکاح کا دعوی کرے اور قاضی شرعی ضابطہ کو بروئے کار لاتے ہوئے نکاح کو فسخ کردے، تو پھر عدت گزار کر دوسرے مَرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
ومنھا ان لا تکون منکوحۃ الغیر لقولہ تعالی "والمحصنات من النساء وھی ذوات الازواج (بدائع الصنائع 2/548، زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 944/41-86
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، تاہم اس طرح کے وسوسوں سے بچنا لازم ہے۔ وسوسوں کو بالکل جگہ نہ دیں۔ اس فتوی کو ذہن پر سوار نہ کریں۔ اور جب بھی اس طرح کا وسوسہ آئے، ذہن کو اس جانب سے ہٹاکر اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھیں. کثرت سے اس کا ورد کرتے رہنے سے بھی وسوسوں سے نجات ملے گی ان شاء اللہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2353/44-3558
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دادی کے حقیقی بھائی بہن محارم ہیں ان سے پردہ نہیں، دادی کی بہن کی لڑکی آپ کے لیے غیر محرم ہے ان سے پردہ ہے، اگر کوئی شخص کسی عورت سے وطی کرے یا شہوت کے ساتھ بوس وکنار کرے تو اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے حرمت مصاہرت کی وجہ سے چار رشتے حرام ہوتے ہیں (۱) بیوی کے اصول، (۲) بیوی کے فروع، (۳) اصول کی بیوی، (۴) فروع کی بیوی۔
’’أراد بحرمۃ المصاہرۃ الحرمات الأربع حرمۃ لمرأۃ علی أصول الزاني وفروعہ نسباً ورضاعاً حرمۃ أصولہا وفروعہا علی الزاني نسباً ورضاعاً کما في الوطئ الحلال‘‘ (رد المحتار: ج ۴، ص: ۳۲)
حرمت مصاہرت کے سلسلے میں مفتی سعید احمد پالنپوریؒ کی حرمت مصاہرت، اور مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ کی کتاب حرمت مصاہرت کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2656/45-4048
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ )اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔(
بظاہر طلاق کا ہی ذکر چل رہاتھا اور عورت کو طلاق دینے کی دھمکی دے رہاتھا اورپھر جب اس کو منع کیاگیا تو طلاق کی نیت سے اس نے کہا کہ پردہ کرلو۔ اس لئے صورت مسئولہ میں یہ تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی ۔ اور میاں بیوی کا رشتہ نکاح مکمل طور پر ختم ہوگیااور دونوں اجنبی ہوگئے۔ اب دونوں کا نکاح حرام ہے۔ عدت کے بعد عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کے لئے آزاد ہے ۔
كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) - الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب، فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة، والكنايات ثلاث: ما يحتمل الرد، أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك... (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 214)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2557/45-3911
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شوہر نے جب پہلی بار لکھا 'طلاق' تو اس سے ایک طلاق واقع ہوئی، پھر اس نے لکھا 'اب یہی باقی تھا ۔ ۔ طلاق' تو اگر اس سے تاکید مراد تھی تو اس کی بات قبول کی جائے گی اور اس لفظ سے طلاق واقع نہیں ہوگی، پھر جب عورت نے نہ آنے کی بات کہی تو اس نے کہا'نہیں تو جا طلاق' تو اس سے اب دوسری طلاق واقع ہوگئی۔ لہذا صورت مسئولہ میں دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، عدت کے اندر شوہر رجعت کرسکتاہے، نکاح کی ضرورت نہیں ہے، البتہ شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔ اگر شوہر نے آئندہ ایک طلاق دی تو عورت اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1605/43-1157
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور شخص طلاق کا انکار کررہاہے، اور طلاق کے وسوسہ کو ختم کرنے کے لئے کہتاہے کہ میں بھلا طلاق کیسے دے سکتاہوں یعنی نہیں دے سکتا، تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کا خیال آنا وقوع طلا ق کے لئے کافی نہیں ہے۔ وقوع طلاق کے لئے صریح یا کنائی الفاظ کا زبان سے ادا کرنا ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ الفاظ کنائیہ طلاق کے معنی کا احتمال رکھتے ہوں اور پھر طلاق کی نیت ہو تو ایسی صورت میں طلاق واقع ہوتی ہے۔ صورت مسئولہ میں آپ نے طلاق کے بارے میں ایک جملہ خود سے کہا جو طلاق کا انکارکرنے کے لئے تھا تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ جب آپ صراحت سے طلاق کا انکار کررہے ہیں تو طلاق کیونکر واقع ہوگی۔ اس لئے یہ محض وسوسہ ہے؛ جس کا کوئی اعتبار نہیں۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری: "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ۔ (شامی 3/247)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2285/44-3450
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند کے فتوی میں تعارض کو ظاہر کیا ہے، آپ کے لئے ضروری تھا کہ دونوں فتاوی کو بھی ساتھ میں منسلک کرتے، تاکہ دونوں فتاوی کو پڑھ کر فیصلہ کرنے میں سہولت ہوتی۔ جہاں تک سوال کاتعلق ہے تو طلاق کے باب میں حضرات فقہاء نے بیوی کی طرف اضافت کو ضروری قراردیاہے، اضافت چاہے حقیقی ہو یا معنوی ہو، یعنی بیوی کی طرف نسبت صراحتا ہو یا کنایۃ ہو یا اقتضاء ہو، کسی طرح بھی قرائن سے اضافت الی الزوجۃ متعین ہوجائے، تو طلاق واقع ہوجائے گی، لیکن اگر کسی طرح بھی زوجہ کی طرف نسبت نہ ہو، اور نہ ہی عرف و عادت کے مطابق زوجہ کی طرف نسبت کافی ہو، تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس سلسلہ میں دلائل حسب ذیل ہیں: لترکہ الاضافۃ ای المعنویۃ فانھا الشرط والخطاب من الاضافۃ المعنویۃ کذا الاشارۃ نحو ھذہ طالق وکذا نحو امرئتی طالق وزینب طالق – اقول وماذکرہ الشارح من التعلیل اصلہ لصاحب البحر آخذا من البزازیۃ فی الایمان قال لھا: لاتخرجی من الدار الا باذنی فانی حلفت بالطلاق فخرجت لایقع لعدم حلفہ بطلاقھا ویحتمل الحلف بطلاق غیرھافالقول لہ۔ (ردالمحتار 3/268)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند