طلاق و تفریق

Ref. No. 2662/45-4190

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق دیدو کے جواب میں ٹھیک ہے کہنے کا مطلب ہے کہ میں اس سلسلہ میں سوچوں گا ، یا دیدوں گا۔ طلاق دینے کے لئے صریح طور پر اپنی بیوی کی جانب نسبت کرکے طلاق کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ اس لئے آپ کسی وہم اور وسوسہ کے شکار نہ ہوں، آپ کی بیوی آپ کے نکاح میں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2663/45-4433

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہونے والی بیوی کا مطلب وہ عورت جس سے میرا نکاح ہو، اس لئے معنی کے اعتبار سے طلاق کو نکاح کی  طرف منسوب کیاگیا ہے ،  اور اس طرح طلاق کی تعلیق درست ہے اور اس سے احناف کے نزدیک  نکاح کے بعد طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس لیے صورت مسئولہ میں نکاح کرتے ہی اس شخص کی ہونے والی بیوی پر ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی، البتہ قسم بھی پوری ہوجائے گی، اس کے بعد اسی عورت سے دوبارہ یا کسی اور عورت سے نکاح کرنے پر ہونے والی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔ یہ بھی خیال رہے کہ اگر پہلی عورت ہی سے نکاح کیا تواس کو صرف دو طلاق کااختیار حاصل  ہوگا، اس لئے کہ اس کی جانب سے اس  کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔

ثم اعلم أن المراد ہنا بالإضافة معناہا اللغوي الشاملة للتعلیق المحض وللإضافة الاصطلاحیة الخ (شامی: ۴: ۵۹۳، ۵۹۴ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) بخلاف غیر المعینة فلو قال: المرأة التي أتزوجہا طالق طلقت بتزوجہا (الدر المنتقی: ۲/۵۷، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1886/43-1757

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   طلاق نامہ پر دستخط کرنے کے لئے مجبور کرنے کی مذکورہ صورت  اکراہ ملجی کی ہے، کیونکہ مذکورہ بالا کیسیز سخت بے عزتی کا باعث ہیں، اورآج کل  اس طرح کے پولیس کیس میں جان و مال اورتلف عضو کا بھی شدید خطرہ ہے۔ اس لئے مذکورہ صورت میں صرف دستخط کردینے سے جبکہ زبان سے طلاق کا لفظ نہیں بولا ہے، کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

وأما ) ( أنواعه ) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد" (الھندیۃ.(35/5)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند  

طلاق و تفریق

Ref. No. 2612/45-4052

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت  مسئولہ میں اس شخص کی دماغی حالت یقینا خراب ہے، لیکن جو کچھ وہ کرتاہے یا بولتاہے وہ اپنے اختیار سے کرتا اور بولتاہے گوکہ اس کو غلطی کا احساس کم ہوتاہے یا بالکل نہیں ہوتاہے، ایسا شخص سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے کم  ہونے کی وجہ سے مجنون یا پاگل یا مغلوب العقل نہیں کہاجائے گا۔   اس لئے شخص مذکور نے اگر تین طلاقیں دی ہیں تو تینوں طلاقیں واقع گردانی جائیں گی، اور اب اس کی بیوی کو اس سے الگ کردیا جائے گا، تاکہ وہ عدت شرعی گزار کر کسی دوسرے مرد سے شادی کرنے میں آزاد ہو۔

"لایقع طلاق المولی علی امرأة عبدہ والمجنون". (تنویر) وفي الشامية: "قال في التلویح: الجنون اختلال القوة الممیزة بین الأمور الحسنة والقبحة المدرکة للعواقب بأن لا تظهر آثارها وتتعطل أفعالها". (شامي: ۴/۴۵۰)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2613/45-4051

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  "میرا آپ سے سب کچھ ختم" کہنے سے صورت مسئولہ میں  مذکورشخص کی  بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

"ولو قال لم يبق بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع، كذا في العتابية." (الفتاوى الهندية (1 / 376))

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/1029

الجواب وباللہ التوفیق:

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احکام شرعیہ سے ناواقفیت قابل قبول عذر نہیں ہے؟ لہذا صورت مسئولہ میں شرعی اعتبار سے فقہ حنفی میں  تین طلاقیں واقع ہوگئیں۔ اب واپسی کی کوئی شکل نہیں ہے۔ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

 دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1278/42-617

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   پہلی طلاق کے بعد  رجوع کرکے آپ ساتھ رہتے رہے، پھر آپ نے اب دوسری طلاق دی ہے،  تو گرچہ پہلی طلاق یاد نہیں تھی لیکن یہ دوسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔ اب پھر رجوع کرکے اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔البتہ اس کا خیال رکھیں کہ آئندہ صرف ایک طلاق اور باقی ہے، اگر آپ نے تیسری طلاق بھی دیدی تو آپ کی بیوی سے آپ کا نکاح مکمل طور پر ختم ہوجائے گا اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوگا۔ اس لئے اگر آئندہ پھر کبھی ایسی نوبت آئے تو آپسی مصالحت سے اس کو حل کرنے کی کوشش کریں اور طلاق ہرگز نہ دیں۔ الطلاق مرتان، فامساک بمعروف او تسریح باحسان الی قولہ فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ (القرآن: 229/2)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1796/43-1562

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  وساوس  سے  بچنے کی کوشش کریں ورنہ زندگی اجیرن ہوجائے گی۔  شریعت میں دل کے اندر آنے والے وسوسوں کا اعتبار نہیں ہے جب تک ان کو زبان سے نہ کہاجائے یا اس کے مطابق عمل نہ کیا جائے۔ اس لئے آپ کا طلاق کا وسوسہ بے معنی ہے۔ اگر دل میں خیال آیا کہ میری بیوی فلاں کام کرے تو اس کو طلاق، مگر آپ نے اس کو زبان سے نہیں کہا تو اس کے وہ کام کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ:  محمد اسعد

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1072/41-243

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  ان پیپرز میں کیا لکھا تھا اس کی مختصر وضاحت بھیجیں تاکہ جواب لکھاجاسکے۔ فائل اٹیچ نہیں کرسکتے تو فائل میں جو لکھا ہے اس کا اختصار بھیجیں۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 39/ 940

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حلالہ درست ہوجائے گا، اور عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند