طلاق و تفریق

Ref. No. 1266/42-609

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ مسئلہ نزاعی ہے، اس کے لئے کسی قریبی معتبرشرعی دارالقضاء سے رجوع کریں۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1392/42-812

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بشرط صحت سوال  صورت مسئولہ میں شرعا ایک طلاق بائن واقع ہوگئی، اب  اگر میاں بیوی ایک ساتھ رہنا چاہیں تو نکاح جدید کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ خیال رہے کہ مذکورہ صورت میں صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔ اب آئندہ شوہر دو طلاق کا مالک ہے۔ اس لئے آئندہ  دونوں بہت احتیاط سے رہیں اور آپسی صلح صفائی سے معاملہ کو سُلجھانے کی کوشش کریں اور شوہرنتائج پر خوب غور کرنے کے بعد جب کسی طرح نباہ کی شکل نہ بنے تب  ہی طلاق کا حق استعمال کرے۔

(قوله: والخلع من الكنايات قوله: فيعتبر فيه ما يعتبر فيها) ويقع به تطليقة بائنة إلا إن نوى ثلاثا فتكون ثلاثا، وإن نوى ثنتين كانت واحدة بائنة كما في الحاكم (قوله: من قرائن الطلاق) كمذاكرة الطلاق وسؤالها له (شامی، فائدۃ فی شرط قبول الخلع 3/444)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1521/43-1016

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  لفظ صریح سےطلاق بلانیت واقع ہوتی ہے اور لفظ کنائی سے نیت کے ساتھ واقع ہوتی ہے۔ لفظ صریح وہ ہے جو طلاق کے لئے ہی بولا جاتاہو اور اس لفظ کے بولنے سے وہی معنی طلاق متعارف ہوں۔ اور لفظ کنائی وہ ہے طلاق کے لئے اصلا وضع نہ کیا گیا ہو البتہ اس کو طلاق کے لئے بھی استعمال کیا جاتاہو اور غیر طلاق کے لئے بھی۔ لفظ کنائی میں اگر طلاق کی نیت کرے گا تو طلاق واقع ہوگی۔ اور اگر نیت نہیں کرے گا تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اب لفظ کنائی میں اس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس لفظ سے وہی معنی مردا لئے جاسکتے ہیں جن کا اس لفظ میں احتما ل ہو۔ پس کسی لفظ کنائی سے وہ معنی ہرگز نہیں مراد لئے جاسکتے جن کا اس لفظ سے کوئی تعلق نہ ہو اور وہ لفظ اس معنی میں کسی طرح  مستعمل نہ ہو اور اس سے کبھی بھی وہ معنی مراد نہ لئے جاتے ہوں۔ لفظ تبت طلاق اور غیرطلاق کا احتمال نہیں رکھتا، اس لئے صورت بالا میں لفظ تبت بول کر طلاق مراد لینا درست نہیں اور اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية الی قولہ - - - أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت  - - - (قوله ولو بالفارسية) فما لا يستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية، وما استعمل فيها استعمال الطلاق وغيره فحكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام بحر (شامی، باب صریح الطلاق 3/247-252)

ولو قال صفحت عن طلاقك ونوى الطلاق لم تطلق وكذا كل لفظ لا يحتمل الطلاق لا يقع به الطلاق وإن نوى مثل قوله بارك الله عليك أو قال لها أطعميني أو اسقيني ونحو ذلك ولو جمع بين ما يصلح للطلاق وبين ما لا يصلح له بأن قال اذهبي وكلي أو قال اذهبي وبيعي الثوب ونوى الطلاق بقوله اذهبي ذكر في اختلاف زفر ويعقوب أن في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لا يكون طلاقا وفي قول زفر يكون طلاقا كذا في البدائع. (الھندیۃ، الفصل الخامس فی الکنایات فی الطلاق 1/376)  (وأما الضرب الثاني وهو الكنايات لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة الحال) لأنها غير موضوعة للطلاق بل تحتمله وغيره فلا بد من التعيين أو دلالته. (فتح القدیر، فصل فی الطلاق قبل الدخول 4/61)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1520/43-1017

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کسی عمل پر طلاق کو دل ہی دل میں معلق کرنے سے تعلیق درست نہیں ہوتی  اور اس سے بلاتکلم کوئی  طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔  اس لئے اگر آپ نے زبان سے کچھ  نہیں بولا ، صرف دل میں نیت کرلی تو بیوی کے بولنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ طلاق کے لئے کسی لفظ کا ہونا ضروری ہے صریح ہو یا کنائی۔ دل میں اس طرح کی بات آنا وسوسہ کی حیثیت رکھتا ہے اوروسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

وقال الليث: الوسوسۃ حديث النفس وإنما قيل موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره وعن أبي الليث لا يجوز طلاق الموسوس يعني المغلوب في عقله عن الحاكم هو المصاب في عقله إذا تكلم تكلم بغير نظام (البحر، اکثر التعزیر 5/51) (شامی، باب المرتد 4/224)

(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية الی قولہ - - - أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت (شامی، باب صریح الطلاق 3/252)

 رجل قال: إن كذبت فامرأتي طالق فسئل عن أمر فحرك رأسه بالكذب لا يحنث في يمينه ما لم يتكلم كذا في فتاوى قاضي خان. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان 1/448

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1519/42-1004

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت بالا میں  بلا کوئی لفظ بولے ، کسی عمل پر طلاق کو دل ہی دل میں معلق کرنے سے تعلیق درست نہیں ہوئی اور کوئی  طلاق واقع نہیں ہوئی۔  اس لئے اگر آپ نے زبان سے کچھ بھی نہیں کہا صرف دل میں نیت کرلی اور دل ہی دل میں اس طرح طلاق کو معلق کیا اور  پھر تعلیق پوری بھی ہوئی تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ طلاق لفظ صریح   سےبلانیت  واقع ہوتی ہے اور لفظ کنائی سے نیت کے ساتھ واقع ہوتی ہے، لیکن اگر کوئی لفظ نہیں بولا گیا تو طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

وقال الليث: الوسوسۃ حديث النفس وإنما قيل موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره وعن أبي الليث لا يجوز طلاق الموسوس يعني المغلوب في عقله عن الحاكم هو المصاب في عقله إذا تكلم تكلم بغير نظام (البحر، اکثر التعزیر 5/51) (شامی، باب المرتد 4/224)

(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية الی قولہ - - - أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت (شامی، باب صریح الطلاق 3/252)

 رجل قال: إن كذبت فامرأتي طالق فسئل عن أمر فحرك رأسه بالكذب لا يحنث في يمينه ما لم يتكلم كذا في فتاوى قاضي خان. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان 1/448)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2662/45-4190

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق دیدو کے جواب میں ٹھیک ہے کہنے کا مطلب ہے کہ میں اس سلسلہ میں سوچوں گا ، یا دیدوں گا۔ طلاق دینے کے لئے صریح طور پر اپنی بیوی کی جانب نسبت کرکے طلاق کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ اس لئے آپ کسی وہم اور وسوسہ کے شکار نہ ہوں، آپ کی بیوی آپ کے نکاح میں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2663/45-4433

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہونے والی بیوی کا مطلب وہ عورت جس سے میرا نکاح ہو، اس لئے معنی کے اعتبار سے طلاق کو نکاح کی  طرف منسوب کیاگیا ہے ،  اور اس طرح طلاق کی تعلیق درست ہے اور اس سے احناف کے نزدیک  نکاح کے بعد طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس لیے صورت مسئولہ میں نکاح کرتے ہی اس شخص کی ہونے والی بیوی پر ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی، البتہ قسم بھی پوری ہوجائے گی، اس کے بعد اسی عورت سے دوبارہ یا کسی اور عورت سے نکاح کرنے پر ہونے والی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔ یہ بھی خیال رہے کہ اگر پہلی عورت ہی سے نکاح کیا تواس کو صرف دو طلاق کااختیار حاصل  ہوگا، اس لئے کہ اس کی جانب سے اس  کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔

ثم اعلم أن المراد ہنا بالإضافة معناہا اللغوي الشاملة للتعلیق المحض وللإضافة الاصطلاحیة الخ (شامی: ۴: ۵۹۳، ۵۹۴ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) بخلاف غیر المعینة فلو قال: المرأة التي أتزوجہا طالق طلقت بتزوجہا (الدر المنتقی: ۲/۵۷، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1886/43-1757

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   طلاق نامہ پر دستخط کرنے کے لئے مجبور کرنے کی مذکورہ صورت  اکراہ ملجی کی ہے، کیونکہ مذکورہ بالا کیسیز سخت بے عزتی کا باعث ہیں، اورآج کل  اس طرح کے پولیس کیس میں جان و مال اورتلف عضو کا بھی شدید خطرہ ہے۔ اس لئے مذکورہ صورت میں صرف دستخط کردینے سے جبکہ زبان سے طلاق کا لفظ نہیں بولا ہے، کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

وأما ) ( أنواعه ) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد" (الھندیۃ.(35/5)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند  

طلاق و تفریق

Ref. No. 2612/45-4052

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت  مسئولہ میں اس شخص کی دماغی حالت یقینا خراب ہے، لیکن جو کچھ وہ کرتاہے یا بولتاہے وہ اپنے اختیار سے کرتا اور بولتاہے گوکہ اس کو غلطی کا احساس کم ہوتاہے یا بالکل نہیں ہوتاہے، ایسا شخص سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے کم  ہونے کی وجہ سے مجنون یا پاگل یا مغلوب العقل نہیں کہاجائے گا۔   اس لئے شخص مذکور نے اگر تین طلاقیں دی ہیں تو تینوں طلاقیں واقع گردانی جائیں گی، اور اب اس کی بیوی کو اس سے الگ کردیا جائے گا، تاکہ وہ عدت شرعی گزار کر کسی دوسرے مرد سے شادی کرنے میں آزاد ہو۔

"لایقع طلاق المولی علی امرأة عبدہ والمجنون". (تنویر) وفي الشامية: "قال في التلویح: الجنون اختلال القوة الممیزة بین الأمور الحسنة والقبحة المدرکة للعواقب بأن لا تظهر آثارها وتتعطل أفعالها". (شامي: ۴/۴۵۰)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2613/45-4051

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  "میرا آپ سے سب کچھ ختم" کہنے سے صورت مسئولہ میں  مذکورشخص کی  بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

"ولو قال لم يبق بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع، كذا في العتابية." (الفتاوى الهندية (1 / 376))

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند