Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 2656/45-4048
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ )اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔(
بظاہر طلاق کا ہی ذکر چل رہاتھا اور عورت کو طلاق دینے کی دھمکی دے رہاتھا اورپھر جب اس کو منع کیاگیا تو طلاق کی نیت سے اس نے کہا کہ پردہ کرلو۔ اس لئے صورت مسئولہ میں یہ تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی ۔ اور میاں بیوی کا رشتہ نکاح مکمل طور پر ختم ہوگیااور دونوں اجنبی ہوگئے۔ اب دونوں کا نکاح حرام ہے۔ عدت کے بعد عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کے لئے آزاد ہے ۔
كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) - الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب، فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة، والكنايات ثلاث: ما يحتمل الرد، أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك... (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 214)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2557/45-3911
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شوہر نے جب پہلی بار لکھا 'طلاق' تو اس سے ایک طلاق واقع ہوئی، پھر اس نے لکھا 'اب یہی باقی تھا ۔ ۔ طلاق' تو اگر اس سے تاکید مراد تھی تو اس کی بات قبول کی جائے گی اور اس لفظ سے طلاق واقع نہیں ہوگی، پھر جب عورت نے نہ آنے کی بات کہی تو اس نے کہا'نہیں تو جا طلاق' تو اس سے اب دوسری طلاق واقع ہوگئی۔ لہذا صورت مسئولہ میں دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، عدت کے اندر شوہر رجعت کرسکتاہے، نکاح کی ضرورت نہیں ہے، البتہ شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔ اگر شوہر نے آئندہ ایک طلاق دی تو عورت اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1605/43-1157
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور شخص طلاق کا انکار کررہاہے، اور طلاق کے وسوسہ کو ختم کرنے کے لئے کہتاہے کہ میں بھلا طلاق کیسے دے سکتاہوں یعنی نہیں دے سکتا، تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کا خیال آنا وقوع طلا ق کے لئے کافی نہیں ہے۔ وقوع طلاق کے لئے صریح یا کنائی الفاظ کا زبان سے ادا کرنا ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ الفاظ کنائیہ طلاق کے معنی کا احتمال رکھتے ہوں اور پھر طلاق کی نیت ہو تو ایسی صورت میں طلاق واقع ہوتی ہے۔ صورت مسئولہ میں آپ نے طلاق کے بارے میں ایک جملہ خود سے کہا جو طلاق کا انکارکرنے کے لئے تھا تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ جب آپ صراحت سے طلاق کا انکار کررہے ہیں تو طلاق کیونکر واقع ہوگی۔ اس لئے یہ محض وسوسہ ہے؛ جس کا کوئی اعتبار نہیں۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری: "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ۔ (شامی 3/247)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2285/44-3450
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند کے فتوی میں تعارض کو ظاہر کیا ہے، آپ کے لئے ضروری تھا کہ دونوں فتاوی کو بھی ساتھ میں منسلک کرتے، تاکہ دونوں فتاوی کو پڑھ کر فیصلہ کرنے میں سہولت ہوتی۔ جہاں تک سوال کاتعلق ہے تو طلاق کے باب میں حضرات فقہاء نے بیوی کی طرف اضافت کو ضروری قراردیاہے، اضافت چاہے حقیقی ہو یا معنوی ہو، یعنی بیوی کی طرف نسبت صراحتا ہو یا کنایۃ ہو یا اقتضاء ہو، کسی طرح بھی قرائن سے اضافت الی الزوجۃ متعین ہوجائے، تو طلاق واقع ہوجائے گی، لیکن اگر کسی طرح بھی زوجہ کی طرف نسبت نہ ہو، اور نہ ہی عرف و عادت کے مطابق زوجہ کی طرف نسبت کافی ہو، تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس سلسلہ میں دلائل حسب ذیل ہیں: لترکہ الاضافۃ ای المعنویۃ فانھا الشرط والخطاب من الاضافۃ المعنویۃ کذا الاشارۃ نحو ھذہ طالق وکذا نحو امرئتی طالق وزینب طالق – اقول وماذکرہ الشارح من التعلیل اصلہ لصاحب البحر آخذا من البزازیۃ فی الایمان قال لھا: لاتخرجی من الدار الا باذنی فانی حلفت بالطلاق فخرجت لایقع لعدم حلفہ بطلاقھا ویحتمل الحلف بطلاق غیرھافالقول لہ۔ (ردالمحتار 3/268)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
Ref. No. 1266/42-609
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ مسئلہ نزاعی ہے، اس کے لئے کسی قریبی معتبرشرعی دارالقضاء سے رجوع کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1392/42-812
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شرعا ایک طلاق بائن واقع ہوگئی، اب اگر میاں بیوی ایک ساتھ رہنا چاہیں تو نکاح جدید کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ خیال رہے کہ مذکورہ صورت میں صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔ اب آئندہ شوہر دو طلاق کا مالک ہے۔ اس لئے آئندہ دونوں بہت احتیاط سے رہیں اور آپسی صلح صفائی سے معاملہ کو سُلجھانے کی کوشش کریں اور شوہرنتائج پر خوب غور کرنے کے بعد جب کسی طرح نباہ کی شکل نہ بنے تب ہی طلاق کا حق استعمال کرے۔
(قوله: والخلع من الكنايات قوله: فيعتبر فيه ما يعتبر فيها) ويقع به تطليقة بائنة إلا إن نوى ثلاثا فتكون ثلاثا، وإن نوى ثنتين كانت واحدة بائنة كما في الحاكم (قوله: من قرائن الطلاق) كمذاكرة الطلاق وسؤالها له (شامی، فائدۃ فی شرط قبول الخلع 3/444)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1521/43-1016
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لفظ صریح سےطلاق بلانیت واقع ہوتی ہے اور لفظ کنائی سے نیت کے ساتھ واقع ہوتی ہے۔ لفظ صریح وہ ہے جو طلاق کے لئے ہی بولا جاتاہو اور اس لفظ کے بولنے سے وہی معنی طلاق متعارف ہوں۔ اور لفظ کنائی وہ ہے طلاق کے لئے اصلا وضع نہ کیا گیا ہو البتہ اس کو طلاق کے لئے بھی استعمال کیا جاتاہو اور غیر طلاق کے لئے بھی۔ لفظ کنائی میں اگر طلاق کی نیت کرے گا تو طلاق واقع ہوگی۔ اور اگر نیت نہیں کرے گا تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اب لفظ کنائی میں اس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس لفظ سے وہی معنی مردا لئے جاسکتے ہیں جن کا اس لفظ میں احتما ل ہو۔ پس کسی لفظ کنائی سے وہ معنی ہرگز نہیں مراد لئے جاسکتے جن کا اس لفظ سے کوئی تعلق نہ ہو اور وہ لفظ اس معنی میں کسی طرح مستعمل نہ ہو اور اس سے کبھی بھی وہ معنی مراد نہ لئے جاتے ہوں۔ لفظ تبت طلاق اور غیرطلاق کا احتمال نہیں رکھتا، اس لئے صورت بالا میں لفظ تبت بول کر طلاق مراد لینا درست نہیں اور اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية الی قولہ - - - أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت - - - (قوله ولو بالفارسية) فما لا يستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية، وما استعمل فيها استعمال الطلاق وغيره فحكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام بحر (شامی، باب صریح الطلاق 3/247-252)
ولو قال صفحت عن طلاقك ونوى الطلاق لم تطلق وكذا كل لفظ لا يحتمل الطلاق لا يقع به الطلاق وإن نوى مثل قوله بارك الله عليك أو قال لها أطعميني أو اسقيني ونحو ذلك ولو جمع بين ما يصلح للطلاق وبين ما لا يصلح له بأن قال اذهبي وكلي أو قال اذهبي وبيعي الثوب ونوى الطلاق بقوله اذهبي ذكر في اختلاف زفر ويعقوب أن في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لا يكون طلاقا وفي قول زفر يكون طلاقا كذا في البدائع. (الھندیۃ، الفصل الخامس فی الکنایات فی الطلاق 1/376) (وأما الضرب الثاني وهو الكنايات لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة الحال) لأنها غير موضوعة للطلاق بل تحتمله وغيره فلا بد من التعيين أو دلالته. (فتح القدیر، فصل فی الطلاق قبل الدخول 4/61)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1520/43-1017
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی عمل پر طلاق کو دل ہی دل میں معلق کرنے سے تعلیق درست نہیں ہوتی اور اس سے بلاتکلم کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے اگر آپ نے زبان سے کچھ نہیں بولا ، صرف دل میں نیت کرلی تو بیوی کے بولنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ طلاق کے لئے کسی لفظ کا ہونا ضروری ہے صریح ہو یا کنائی۔ دل میں اس طرح کی بات آنا وسوسہ کی حیثیت رکھتا ہے اوروسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔
وقال الليث: الوسوسۃ حديث النفس وإنما قيل موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره وعن أبي الليث لا يجوز طلاق الموسوس يعني المغلوب في عقله عن الحاكم هو المصاب في عقله إذا تكلم تكلم بغير نظام (البحر، اکثر التعزیر 5/51) (شامی، باب المرتد 4/224)
(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية الی قولہ - - - أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت (شامی، باب صریح الطلاق 3/252)
رجل قال: إن كذبت فامرأتي طالق فسئل عن أمر فحرك رأسه بالكذب لا يحنث في يمينه ما لم يتكلم كذا في فتاوى قاضي خان. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان 1/448
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1519/42-1004
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت بالا میں بلا کوئی لفظ بولے ، کسی عمل پر طلاق کو دل ہی دل میں معلق کرنے سے تعلیق درست نہیں ہوئی اور کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اس لئے اگر آپ نے زبان سے کچھ بھی نہیں کہا صرف دل میں نیت کرلی اور دل ہی دل میں اس طرح طلاق کو معلق کیا اور پھر تعلیق پوری بھی ہوئی تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ طلاق لفظ صریح سےبلانیت واقع ہوتی ہے اور لفظ کنائی سے نیت کے ساتھ واقع ہوتی ہے، لیکن اگر کوئی لفظ نہیں بولا گیا تو طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔
وقال الليث: الوسوسۃ حديث النفس وإنما قيل موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره وعن أبي الليث لا يجوز طلاق الموسوس يعني المغلوب في عقله عن الحاكم هو المصاب في عقله إذا تكلم تكلم بغير نظام (البحر، اکثر التعزیر 5/51) (شامی، باب المرتد 4/224)
(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية الی قولہ - - - أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت (شامی، باب صریح الطلاق 3/252)
رجل قال: إن كذبت فامرأتي طالق فسئل عن أمر فحرك رأسه بالكذب لا يحنث في يمينه ما لم يتكلم كذا في فتاوى قاضي خان. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان 1/448)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند