Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 1371/42-783
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر پر لازم ہے کہ اپنی تمام بیویوں کے درمیان مساوات اور برابری کرے۔ رات گزارنے اور نان و نفقہ میں کوئی کوتاہی اور ناانصافی نہ کرے۔ اس سلسلہ میں اس سے قیامت میں پوچھ ہوگی۔ تاہم اگر آپ کو زیادہ پریشانی ہو تو خلع کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔ اور اگر صبر کریں تو زیادہ بہتر بات ہے۔
واذا کان للرجل امراتان حرتان فعلیہ ان یعدل بینھما فی القسم بکرین کانتا اور ثیبین او احداھما بکرا والاخری ثیبا لقولہ علیہ السلام من کانت لہ امراتان ومال الی احداھما فی القسم جاء یوم القیامۃ وشقہ مائل (فتح القدیر ، باب القسم 3/433) فدل ان العدل بینھن فی القسم والنفقۃ واجب والیہ اشار فی آخرالآیۃ بقولہ ذلک "ادنی ان لا تعولوا" ای تجوروا، والجور حرام فکان العدل واجبا ضرورۃ۔ (بدائع، فصل وجوب العدل بین النساء فی حقوقھن 2/332)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال واضح نہیں ہے، اس لئے دوبارہ صحیح صورت حال لکھ کر مسئلہ معلوم کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
Ref. No. 1145/42-367
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خلع سے عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔اس لئے خلع کے بعد بھی عورت پر عدت گذارنا لازم ہے۔ حیض والی عورت کے لئے عدت کی مدت تین حیض ہے، اور جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ہے ان کے لئے عدت تین ماہ ہے۔ اور حمل والی عورت کی عدت کی مدت وضع حمل یعنی بچہ کی ولادت ہے۔
والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء (سورۃ البقرہ 228) واللائي يئسن من المحيض من نسائكم إن ارتبتم فعدتهن ثلاثة أشهر واللائي لم يحضن وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن (سورۃ الطلاق 4)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2456/45-4428
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ منگنی کے بعد نکاح بھی ہو گیا تھا اگرچہ رخصتی نہیں ہوئی تھی اگر بات یہی ہے تو دنیوی عدالت کے ذریعہ بغیر شوہر کی مرضی کے نکاح فسخ نہیں ہو سکتا ہے دونوں کا نکاح بدستور باقی ہے، لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر لڑکی کو یا اس کے گھر والوں کو شرعی یا طبعی اعذار کی بنا پر نکاح ختم کرانا ہے تو شرعی دار القضاء سے رجوع کر سکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 943/41-87
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لفظ خلع الفاظ کنائی میں سے ہے۔ اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے خلع کے الفاظ کہے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔
لو قال: خالعتك ونوى الطلاق يقع الطلاق ولا يسقط شيء من المهر والنفقة. (الدرالمختار 3/595) وأما حكم الخلع فإن كان بغير بدل بأن قال خالعتك ونوى به الطلاق فحكمه أن يقع الطلاق ولا يسقط شيء من المهر والنفقة الماضية (البحرالرائق 4/206)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1115 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ صورت مسئولہ میں کسی معتبر شرعی دارالقضاء سے رجوع کیا جائے اور ان سے اس مسئلہ کے حل کی ترکیب سمجھ لی جائے اور اسی کے مطابق عمل کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1506/42-976
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی میں، نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق زجرا واقع ہوجاتی ہے۔ اس لئے اگر شوہر نے اپنی مدخول بہا کو تین طلاق دی توشرعاً تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔اب دونوں کا نکاح مکمل ختم ہوچکاہے۔
وفي الذخيرة ": طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر والنبيذ، ولو أكره على الشرب فسكر أو شرب للضرورة فذهب عقله يقع طلاقه. وفي جوامع الفقه عن أبي حنيفة: يقع، وبه أخذ شداد ولو ذهب عقله بدواء أو أكل البنج لايقع. (البنایۃ، طلاق السکران 5/300) ولا يقع طلاق السكران منه بمنزلة النائم ومن ذهب عقله بالبنج ولبن الرماك۔ وعن محمد أنه حرام ويحد شاربه ويقع طلاقه إذا سكر منه كما في سائر الأشربة المحرمة (فتح القدیر للکمال، فصل فی الدعوی ولاختلاف والتصرف فیہ 10/99) واختار الكرخي والطحاوي أن طلاق السكران لا يقع؛ لأنه لا قصد له كالنائم، وهذا لأن شرط صحة التصرف العقل، وقد زال فصار كزواله بالبنج وغيره من المباحات ولنا أنه مخاطب شرعا لقوله تعالى {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى} [النساء: 43] فوجب نفوذ تصرفه؛ ولأنه زال عقله بسبب هو معصية فيجعل باقيا زجرا له بخلاف ما إذا زال بالمباح حتى لو صدع رأسه وزال بالصداع لا يقع طلاقه (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق 2/196) وروى الطحاوي عن أبي سنان قال: سمعت عمر بن عبد العزيز يقول طلاق السكران والمكره واقع ولأنه قصد إيقاع الطلاق في منكوحته حال أهليته فلا يعرى عن قضيته وهذا لأنه عرف الشرين فاختار أهونهما وهذا علامة القصد والاختيار لأنه غير راض بحكمه وذلك غير مانع من وقوع الطلاق كالهازل. (الغرۃ المنیفۃ فی تحقیق بعض مسائل الامام، کتاب الطلاق 1/153)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 945/41-84
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر زبان سے طلاق یا اس کے مشابہ کوئی لفظ نہیں نکالا تھا تو صرف وسوسہ آنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وسوسوں سے احتراز لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2150/44-2227
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو عورت کسی کے نکاح میں پہلے سے ہے اس کا نکاح کسی دوسرے مَرد سے حرام ہے، اگر نکاح کرلیا تو نکاح باطل ہوگا، اور زنا کی مرتکبہ ہوگی، اور فوری تفریق لازم ہے، البتہ اگر عورت پہلے شوہر سے خلع لے لے یا قاضی کے یہاں فسخ نکاح کا دعوی کرے اور قاضی شرعی ضابطہ کو بروئے کار لاتے ہوئے نکاح کو فسخ کردے، تو پھر عدت گزار کر دوسرے مَرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
ومنھا ان لا تکون منکوحۃ الغیر لقولہ تعالی "والمحصنات من النساء وھی ذوات الازواج (بدائع الصنائع 2/548، زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند