Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1335/42-722
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کی شرط بھی مقتضائے عقد کے خلاف ہے۔ اگر کسی وقت بالکل فائدہ نہ ہوا تو کام کرنے والا پندرہ فیصد فائدہ آپ کو کہاں سے دے گا۔ کوئی بھی متعین فائدہ خاص کرلینا مضاربت میں درست نہیں ہے۔
(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد. ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة۔ (شامی، کتاب المضاربۃ 5/648)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1012 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بینک کا کاروبار سود پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ قرآن کریم میں سود کوحرام کہا گیا ہے، اللہ تعالی نے سودی کاروبار والے کوجنگ کی دھمکی دی ہے، اور حدیث پاک میں نبی اکرم ﷺ نے سود کھانے کوماں سے زنا کے مانند قراردیا ہے۔ اس لئے سودی معاملات بھی حرام ہیں اور ہر ایسے کام کی ملازمت بھی جس میں لینے، دینے، لکھنے اور گواہی دینے کے اعتبار سے سود پر تعاون ہو ، یہ سارے امورناجائز اور حرام ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے پر، سود دینے والے پر، سود کے لکھنے والے پر اور سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں، (مشکوٰۃ)۔ جو حکم قرآن وحدیث سے صراحت سے ثابت ہے اس میں کسی قسم کا شک کرنا ایمانی تقاضہ کے منافی ہے، جب سود حرام ہے تو اس کو محنت سے حاصل کیا جائے یا بلامحنت موصول ہو بہر صورت حرام ہی رہے گا۔ خنزیر پر بسم اللہ پڑھ دینے سے اس کا گوشت حلال نہیں ہوجائے گا، ماں، بہن، بیٹی سے نکاح پڑھا لینے سےوہ حلال نہیں ہوجائیں گی۔ اس لئے سودی کاروبار اور سود پر ہر طرح کے تعاون سے اجتناب لازم اور فرض ہے۔اللہ تعالی حلال اشیاء کی عظمت اور حرام اشیاء کی کراہت ہمارےدلوں میں بٹھادے کہ ہمارے دلوں کو پھیرنے والا وہی ہے ۔ آمین۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1340/42-718
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح متعین منافع پر کاروبار کرنا درست نہیں ہے۔ کاروبار میں جتنے لوگ شریک ہیں سب نفع و نقصان میں شریک ہوں تو معاملہ درست ہے۔ اس لئےمنافع فی صد کے اعتبار سے متعین ہونے چاہئیں۔ صورت مذکورہ میں پچاس ہزار سے زائد جوروپئے آپ کو ملیں گے وہ حلال نہیں ہیں۔
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (القرآن: سورۃ البقرۃ 275"(
ومنها : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح". (بدائع الصنائع 6/ 59، کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1924/43-1834
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ڈالر سے سامان خریدا گیا اور جس شخص کے لئے وہ سامان آپ نے خریدا وہ آپ کو بدلے میں ڈالر سے ہی ادائیگی کرے تب تو کمی و زیادتی جائز نہیں ہے، چاہے ڈالر کی ویلیو گھٹ جائے یا بڑھ جائے۔ البتہ دوسری کرنسی دینے کی صورت میں ادائیگی کے وقت ڈالر کی جو قیمت بازار میں ہوگی ، وہی قیمت معتبر ہوگی۔ اس لئے ادائیگی کے دن کی قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے آپ ان سے پاکستانی کرنسی لے سکتے ہیں۔
سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟ (الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى". (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 279) وفیه أیضاً (2/ 227):" الديون تقضى بأمثالها".
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1216/42-000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے دوستوں نے آپ پر اعتماد کرکے آپ سے گھی منگوایا ہے، آپ اس معاملہ میں ایک وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس لئے بغیر بتائے کمیشن اور نفع لینا جائز نہیں ہوگا۔
إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة (درر الحکام في شرح مجلة الأحکام الکتاب الحادي عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1927/44-2264
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گوگل ایڈسینس کمپنی آپ کی ویب سائٹ پر اشتہار دینے کے بدلہ میں آپ کو کچھ رقم دیتی ہے۔ اگر اشتہار کے مشمولات جائز ہیں تو ان سے ملنے والا معاوضہ بھی جائز ہوگا، اور اگر مشمولات ناجائز ہیں تو ان پر ملنے والی رقم بھی ناجائز ہوگی۔ تاہم یہ بات معلوم ہے کہ گوگل ایڈسینس کمپنی آپ کی ویب سائٹ پر اشتہار دینے میں آزاد ہوتی ہے، اس کے مشمولات کا حد جواز میں ہونا ضروری نہیں ہے، اس لئے بہت سے علماء نے گوگل ایدسینس سے پیسے کمانے کو ناجائز لکھا ہے، اور ظاہر ہے اس جیسی کمپنیاں جائز و ناجائز مشمولات میں فرق نہیں کرسکتی ہیں۔ اس لئے اس سے احتراز کیاجائے۔
"وفي المنتقى: إبراهيم عن محمد - رحمه الله تعالى - في امرأة نائحة أو صاحب طبل أو مزمار اكتسب مالاً، قال: إن كان على شرط رده على أصحابه إن عرفهم، يريد بقوله: "على شرط" إن شرطوا لها في أوله مالاً بإزاء النياحة أو بإزاء الغناء، وهذا؛ لأنه إذا كان الأخذ على الشرط كان المال بمقابلة المعصية، فكان الأخذ معصيةً، والسبيل في المعاصي ردها، وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه، وبالتصدق به إن لم يعرفه؛ ليصل إليه نفع ماله إن كان لايصل إليه عين ماله، أما إذا لم يكن الأخذ على شرط لم يكن الأخذ معصيةً، والدفع حصل من المالك برضاه فيكون له ويكون حلالاً له." (الفتاوى الهندية 5/ 349)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2341/44-3522
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جعلی ریویو دکھانا یا جعلی مارکیٹنگ کرنا جھوٹ اور دھوکہ دہی ہے، یہ جھوٹی گواہی کے زمرے میں آئے گا اور حرام ہوگا۔ اس لئے اس طرح کی دھوکہ دہی سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ کاروبار میں جھوٹ اور مکروفریب سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
صحیح مسلم: (باب قول النبی من غشنا، رقم الحدیث: 101، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: "من غشنا فلیس منا".)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1004/41-165
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دو بھائی ایک کاروبار میں شریک ہیں۔ ایک بھائی اعتماد کرکے اپنے دوسرے بھائی کو دوا لانے کے لئے بھیجتا ہے تو جتنے روپیوں میں دوا ملی ہے اسی قدر روپئے لینا جائز ہوگا، اس سے زیادہ لینا درست نہیں ہوگا۔
إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة۔ (درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2126/44-2179
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بینک سے لون لینے کی شدید ضرورت ہے مثلا کاروبار کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں اور غیرسودی قرض دینے والا کوئی نہیں ہے یا سودی قرض لئے بغیر پورے کاروبار کے ڈدوبنے کا اندیشہ ہے تو ایسی شدید مجبوری میں بقدر ضرورت لون لینے کی گنجائش ہے ، لیکن محض کاروبار کی ترقی کے لئے اور کاروبار کو پھیلانے کے لئے سودی قرض لینا جائز نہیں ہے۔ لمٹ بنوانےکی صورت میں بھی سود دینا پڑتاہے ، اگرچہ اس کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اس لئے اس سے بھی بچنا ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1647/43-1229
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے ان کے ساتھ کاروبار میں اس طرح پیسے لگائے کہ خریدنے اور بیچنے کی ذمہ داری آپ نے ان کو دیدی ، وہ اپنی صوابدید پر خریدتے اور بیچتے ہیں، اور آپ کے پیسے کو صحیح جگہ لگاتے ہیں ، اور پھر فائدے کو برابر تقسیم کرکے آپ کو آپ کا حصہ دیدیتے ہیں، تو اس معاملہ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اور خریدی ہوئی زمین کو جاننا اور دیکھنا وغیرہ کوئی چیز آپ کے لئے ضروری نہیں ہے؛ اس لئے ان کا آپ کی اجازت کے بغیر خریدنا اور بیچنا درست ہے، اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں اس میں کوئی شبہ کی چیز نہیں ہے۔
إلا في صورة الخلط والاختلاط استثناء من صحة البيع بلا إذن الشريك، وحاصله توقف الصحة على إذن الشريك (شامی، کتاب الشرکۃ 4/304) ولكل واحد منهما أن يبيع ما اشتراه، وما اشترى صاحبه مرابحة على ما اشترياه؛ لأن كل واحد منهما وكيل لصاحبه بالشراء والبيع، والوكيل بالبيع يملك البيع مرابحة وهل لأحدهما أن يسافر بالمال من غير رضا صاحبه؟ ذكر الكرخي أنه ليس له ذلك والصحيح من قول أبي يوسف ومحمد أن له ذلك (بدائع، فصل فی حکم الشرکۃ 6/71)
(مَا يَفْعَله الشَّرِيك فِي مَال الشّركَة) وَيجوز للشَّرِيك ان يفعل فِي مَال الشّركَة سِتَّة عشر شَيْئا احدهما ان يَبِيع وَيَشْتَرِي وَالثَّانِي ان يرْهن ويرتهن وَالثَّالِث ان يُؤجر ويستأجر وَالرَّابِع ان يقبل البيع وَالشِّرَاء وَالْخَامِس ان يُولى انسانا السّلْعَة بِمَا اشْتَرَاهُ وَالسَّادِس ان يُشْرك انسانا فِيمَا اشْترى وَالسَّابِع ان يودع المَال من الشّركَة وَالثَّامِن ان يعير شَيْئا من مَال التِّجَارَة وَالتَّاسِع ان يستبضع مَالا من مَال الشّركَة والعاشر ان يَبِيع بِالنَّقْدِ والنسيئة وَالْحَادِي عشر ان يَبِيع بالاثمان وَالْعرُوض وَالثَّانِي عشر ان يَأْذَن للْعَبد من مَال الشّركَة فِي التِّجَارَة وَالثَّالِث عشر ان يُوكل فِي البيع وَالشِّرَاء وَالرَّابِع عشر ان يَدْعُو احدا الى الطَّعَام وَالْخَامِس عشر ان يهدي الشَّيْء الْيَسِير وَالسَّادِس عشر ان يتَصَدَّق بِشَيْء يسير (النتف فی الفتاوی للسغدی، باب مالایجوز للشریک فعلہ فی مال الشرکۃ 1/537)
المادة (1372) إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن كان رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا , فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط , وإذا شرط العمل على صاحب الحصة القليلة من الربح أي صاحب رأس المال الكثير فهو غير جائز ويقسم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما. المادة (1373) يجوز لكل واحد من الشريكين أن يبيع مال الشركة نقدا أو نسيئة بما قل أو كثر. (مجلۃ الاحکام العدلیۃ، الفصل الخامس فی شرکۃ الاموال والاعمال 1/264)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند