Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2962/46-4761
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے تمام سوالوں کا حاصل یہ ہے کہ کوئی کمپنی سامان بناتی ہےاور اس کا اکثر استعمال حلال کام کے لئے ہے لیکن سودی یا حرام میں بھی اس کا استعمال ہوتاہے یا وہ ککمپنی بینکوں اور شراب خانوں کو بھی اپنا پروڈکٹ فراہم کرتی ہے یا ان کو بھی اپنی سروس دیتی ہے ، اس طرح کی کمپنیوں کے شیئرز کو خریدنا جائز ہے یا نہیں، اس سلسلہ میں اصولی بات یہ ہے کہ شیئرز کے جواز کے دیگر شرائط کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ اگر کوئی کمپنی جس کا اصل سرمایہ حلال ہو لیکن کمپنی جزوی طور پر حرام کاروبار میں ملوث ہو اور حرام کاروبار میں لگنے والا سرمایہ کمپنی کے کل سرمایہ کے ایک تہائی سے کم ہو، تو ایسی کمپنیوں کے شیئرز خریدنے کی گنجائش ہے، بہ شرط کہ کمپنی کی حرام سرمایہ کے خلاف بقدر استطاعت اپنا اختلاف درج کرائے اور اس حرام سرمایہ کاری سے حاصل شدہ نفع کو صدقہ کردے۔
اعانت علی المعصیۃ اور تسبب للمعصیۃ سے متعلق عمدہ گفتگو جواہرالفقہ میں اور مفتی تقی صاحب کی فقہ البیوع میں موجود ہے، وہاں مطالعہ کرلیں وہ کافی و شافی بحث ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
تجارت و ملازمت
تجارت و ملازمت
تجارت و ملازمت
تجارت و ملازمت
تجارت و ملازمت
Ref. No.41/856
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایزی لوڈ کے بارے میں ہمیں تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ آپ تفصیلات کے ساتھ مشتبہ امور کی نشاندہی کریں تاکہ جواب میں سہولت ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 928/41-50B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنی زمین کسی کو اس طرح کرایہ پر دینا کہ اس میں جو بھی غلہ پیدا ہوگا وہ مالک زمین اور کاشتکار میں نصف نصف تقسیم ہوگا، یہ معاملہ درست ہے۔ البتہ اس کا خیال رہے کہ غلہ کی پیداوار کم یا زیادہ بھی ہوسکتی ہے اس لئے فی صد ہی متعین ہو، اگر کسی نے اپنے لئے کچھ غلہ متعین کرلیا کہ پیداوار جو بھی مجھے اس میں سے اتنی مقدار پہلے نکال دی جائے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔
فكل شرط يكون قاطعا للشركة يكون مفسدا للعقد ومنها أن يكون ذلك البعض من الخارج معلوم القدر من النصف أو الثلث أو الربع أو نحوه ومنها أن يكون جزءا شائعا من الجملة حتى لو شرط لأحدهما قفزان معلومة لا يصح العقد وكذا إذا ذكرا جزءا شائعا وشرطا زيادة أقفزة معلومة لا تصح المزارعة. (الفتاوی الھندیۃ 5/235)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 927/41-53B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بکری کو پا ل پر دینے کی جو شکلیں آج کل رائج ہیں (جس میں ایک آدمی اپنی بکری دوسرے کو اس کے نصف منافع کے عوض پال پر دیتا ہے کہ تم اس کو چارہ کھلاؤ دیکھ بھال کرو، اور جو بچہ یہ دے گی اس کو آدھا آدھا تقسیم کرلیں گے) وہ شرعاً ناجائز ہیں۔ اگر کسی نے ناجائز ہونے کے باوجود ایسا معاملہ کرلیا تو جلد از جلد اس کو ختم کردینا ضروری ہے، اور بکری کا مالک اپنی بکری اور اگر بچہ ہو تو اس کو بھی اپنی ملکیت میں واپس لے لے اور پالنے والے کو اس کی اجرت مثل دےدے۔
شرعی اعتبار سے ایک جائز شکل یہ ہوسکتی ہے کہ بکری کا مالک بکری پالنے والے کو آدھی بکری بیچ کر یا ہبہ کرکےاس کو بکری میں شریک بنالے اور پھر دونوں باہمی رضامندی سے منافع کی تقسیم کرلیں، توایسا کرنا درست ہوگا۔
فلو دفع بزر القز أو بقرة أو دجاجا لآخر بالعلف مناصفة فالخارج كله للمالك لحدوثه من ملكه وعليه قيمة العلف وأجر مثل العامل عيني ملخصا، ومثله دفع البيض كما لا يخفى (الدرالمختار 5/69)۔ وعلى هذا إذا دفع البقرة بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفين، فما حدث فهو لصاحب البقرة وللآخر مثل علفه وأجر مثله تتارخانية. (الدرالمختار 4/327)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2710/45-4226
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر معاملہ کرتے وقت اس طرح کی شرط تھی کہ مضارب اپنی مرضی سے کام کرے گااور رب المال نے اس اجازت کے ساتھ اس کو مال دیا تھا تو ایسی صورت میں مضارب کے لیے کسی دوسرے کو بطور مضاربت کے مال دینا اور اس سے نفع حاصل کرکے مضارب اول اور رب المال کے درمیان شر ط کے مطابق تقسیم کرنا جائز ہے۔
فإن كان قال له اعمل فيه برأيك، فله أن يعملجميع ذلك إلا القرض؛ لأنه فوض الأمر في هذا المال إلى رأيه على العموم وقد علمنا أن مراده التعميم فيما هو من صنع التجار عادة فيملك به المضاربة والشركة والخلط بماله؛ لأن ذلك من صنع التجار كما يملك الوكيل توكيل غيره بما وكل به إذا قيل له اعمل فيه برأيك ولا يملك القرض؛ لأنه تبرع ليس من صنع التجار عادة فلا يملكه بهذا اللفظ كالهبة والصدقة (المبسوط،22/40)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند