تجارت و ملازمت

Ref. No. 1244/42-564

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لوہا اگرپیسے سے خریدا گیا ہے اور سامنے موجود ہے اور اسی کی قیمت بتائی گئی ہے جبکہ یہ نہیں معلوم کہ اس میں صحیح وزن کتنا ہوگا تو چونکہ اس میں کسی قسم کے نزاع کا خطرہ نہیں ہے ، اس لئے اس طرح لوہا خریدنے اور بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 39/ 1169

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں مالک کار کا ڈرائیور سے  فائدہ و نقصان دونوں  صورتوں میں متعینہ  رقم لینا درست نہیں ہے۔    جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ گاڑی روزانہ دن بھر کے لئےیا ہفتہ ومہینہ بھر کے لئے ایک متعین کرایہ پر دیدیں کہ ایک دن کایا ایک ہفتہ یا ایک مہینہ کا اتنا کرایہ ہوگا تو اب یہ معاملہ درست ہوگا۔ جس طرح مکان کرایہ پر لینے والا چاہے مکان میں رہے یا نہ رہے،  یا کم رہے ہر حال میں اس کو متعینہ کرایہ دینا لازم ہوگا۔  اسی طرح آپ نے جس کو کرایہ پر گاڑی دی ہے اس پر متعینہ کرایہ دینا لازم ہوگا چاہے  وہ گاڑی چلائے یا نہ چلائے، کم چلائے یا زیادہ ، اس کوفائدہ ہو یا نقصان ہو۔ھذا ماظہرعندی

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔حضرات مفتیانِ کرام کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ کےبارہ میں کہ آج کل ہاؤسنگ سوسائٹیز والےفائلیں بیچ دیتے ہیں بسااوقات پلاٹ متعین ہوتے ہیں اوربسااوقات پلاٹ متعین نہیں ہوتے۔اورخریدنےوالےفائلیں آگے بیچ دیتےہیں اور اس طرح یہ سلسلہ چل پڑتا ہے ۔جب کہ قبضہ کسی کابھی نہیں ہوتا۔کیااس طرح فائلوں کاخریدنااوربیچناجائزہے؟

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2686/45-4144

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بینک سودی کاروبار کرتاہے، اس لئے اس کے منافع سود پر مشتمل ہوتے ہیں ، لہذا بینک کے شیئر خریدنا جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 39 / 883

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جی،یہ تجارت  جائز ہے ۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ اگر ایسا کاروبار کیا جائے کہ جس میں فلم وغیرہ (جیسا کہ آج کل لوگوں نے ایسی دکانیں کهول رکهی ہیں کہ جس میں لوگ جاکر میموری کارڈ میں فلمیں اور گانے بهرواتے ہیں اور اس میں اپنے پیسے لگاتے ہیں کہ جسمیں بیع و شرا کی صورت معلوم ہوتی ہے ) تو اب دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا ایسی بیع و شرا جائز ہے؟ اور کیا اس سے کمایا ہوا پیسا صحیح ہوگا؟ جیسا بھی ہو مسئلے کی تشفی بخش جواب دیں نیز اس مسئلے کی بہی وضاحت فرما دیں کہ فلم انڈسٹری میں جانا اور اسکا رکن بننا اور اس سے بھی کمائے ہوئے پیسے کیسے ہیں اس بارے میں بھی مسئلے کی وضاحت فرمائیں

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2145/44-2204

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی ناجائز کام میں براہِ راست استعمال کے لئے اپنا مکان یا زمین دینا گناہ کے کام میں تعاون کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔ اس لئے فلم بنانے کے لئے اور  شوٹنگ  کے لئے کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے، البتہ  فلم والوں کی رہائش کے لئے یا کھانا بنانے کے لئے کرایہ پر دینے کی گنجائش ہے۔

تَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ. الْمَآئِدَة، 5: 2

وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤَاجِرَ الْمُسْلِمُ دَارًا مِنْ الذِّمِّيِّ لِيَسْكُنَهَا فَإِنْ شَرِبَ فِيهَا الْخَمْرَ، أَوْ عَبَدَ فِيهَا الصَّلِيبَ، أَوْ أَدْخَلَ فِيهَا الْخَنَازِيرَ لَمْ يَلْحَقْ الْمُسْلِمَ إثْمٌ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُؤَاجِرْهَا لِذَلِكَ وَالْمَعْصِيَةُ فِي فِعْلِ الْمُسْتَأْجِرِ وَفِعْلُهُ دُونَ قَصْدِ رَبِّ الدَّارِ فَلَا إثْمَ عَلَى رَبِّ الدَّارِ فِي ذَلِكَ. (سرخسى، المبسوط، 16: 39، بيروت: دارالمعرفة) (الشيخ نظام و جماعة من علماء الهنديه، الفتاویٰ الهنديه، 4: 450، بيروت: دارالفکر)

وَمَنْ أَجَّرَ بَيْتًا لِيُتَّخَذَ فِيهِ بَيْتُ نَارٍ أَوْ كَنِيسَةٌ أَوْ بِيعَةٌ أَوْ يُبَاعُ فِيهِ الْخَمْرُ بِالسَّوَادِ فَلَا بَأْسَ بِهِ.(مرغيناني، الهداية، 4: 94، المکتبة الاسلاميه)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 877 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم:تصویر کشی کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔ جان، مال، عزت و آبرو کے حفاظتی انتظام کے لئے بدرجہء مجبوری  اور بقدر ضرورت  اس کی  اجازت ہے ۔ لیکن خبروں میں دینا کوئی ایسی شرعی ضرورت نہیں ہے اس لئے اس سے گریز کیا جائے۔ اور اگر مالک اخبار اسی پر مصر ہو اور روزگار خطرہ میں پڑجائے تو جب تک دوسری ملازمت نہ مل جائے ، بادل ناخواستہ اس کی گنجائش ہوگی لیکن پوری دیانت کے ساتھ دوسری ملازمت کی تلاش جاری رکھیں  اور جوں ہی کسی متبادل کا انتظام ہوجائے یہ غیرشرعی امور چھوڑدیں ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1676/43-1289

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کولگیٹ، کلوزاپ وغیرہ پیسٹ  اور لکس صابن، اور چیونگم  کے اجزاء میں اگر کسی حرام چیز کی آمیزش نہیں ہے تو اس کا استعمال جائز ہوگا، اور جب تک تحقیق سے  اس کے اجزاء میں کسی حرام چیز کی آمیزش کا علم نہ ہو، اس کو  حلال قرار دیں گے اور اس کااستعمال کرنا جائز ہوگا۔ تاہم اگرتحقیق سے کسی حرام جزء کا ہونا معلوم ہوجائے تو پھر اس کا استعمال بھی حرام ہوگا۔ اور جس چیز کا استعمال کرنا جائز نہیں اس کا خریدنا و بیچنا بھی جائز نہیں ۔  حرام چیز کو حلال پیسے سے خریدنے سے وہ چیز حلال نہیں ہوگی۔  جس شخص کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کی آمدنی مکمل حرام  ہے، اس سے  کوئی سامان فروخت کرنا جائز ہے، اور اگر خریدنے والا حرام مال کی تعیین نہ کرے ، بلکہ حسب  عرف سامان لے لے اور پیسے دیدے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔   آج کل  حرام آمدنی کی کثرت کے باعث امام کرخی نے توسع سے کام لیا ہے اور اس کی گنجائش  دی ہے، گرچہ احتیاط اس کےخلاف میں ہے۔

قال اللہ تعالیٰ: وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ، وعن ابن عباس قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قاعداً في المسجد مستقبلاً الحجْرَ، قال: فنظر إلى السماء فضحك، ثم قال: "لعن الله اليهود، حُرَّمت علَيهم الشحومُ فباعوها وأكَلُوا أثمانَها، وإن الله عز وجل إذا حرَّم على قوم أكَلَ شيء حَرَّم عليهم ثمنه" (مسند احمد شاکر، کلمۃ الاستاذ الشیخ محمد حامد 3/22، الرقم 2221) (سنن ابی داؤد، باب فی ثمن الخمر والمیتۃ 5/352)

توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشتری فهذا علی خمسة أوجه أما إن دفع تلك الدراهم إلی البائع أولا ثم اشتری منه بها أو اشتری قبل الدفع بها ودفعها أو اشتری قبل الدفع بها ودفع غيرها أو اشتری مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشتری بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم قال أبو نصر يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول وإليه ذهب الفقيه أبو الليث لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير إذا غصب ألفا فاشتری بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح وقال الكرخي في الوجه الأول والثاني لا يطيب وفي الثلاث الأخيرة يطيب وقال أبو بكر لا يطيب في الكل لكن الفتوی الآن علی قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس وفي الولوالجية وقال بعضهم لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار لكن الفتوی اليوم علی قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام وعلی هذا مشی المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها. (حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه 5/235) الفتوی علی قول الكرخي لكثرة الحرام دفعا للحرج عن الناس في هذا الزمان وهذا قول الصدر الشهيد. (مجمع الانهر، كتاب الغصب، فصل غير الغاصب ما غصبه بالتصرف فيه 2/459)

اكتسب مالا من حرام ثم اشترى شيئا منه فإن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بتلك الدراهم فإنه لا يطيب له ويتصدق به، وإن اشترى قبل الدفع بتلك الدراهم ودفعها فكذلك في قول الكرخي وأبي بكر خلافا لأبي نصر، وإن اشترى قبل الدفع بتلك الدراهم ودفع غيرها أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشترى بدراهم أخرى ودفع تلك الدراهم قال أبو نصر يطيب ولا يجب عليه أن يتصدق وهو قول الكرخي والمختار قول أبي بكر إلا أن اليوم الفتوى على قول الكرخي كذا في الفتاوى الكبرى. (الھندیۃ، فصل فی الاحتکار 3/215)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1678/43-1384

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) خبروں کا چینل بنانا جائز ہے بشرطیکہ کسی غیرمحرم کی تصویراورناجائز اشتہار سے احتراز کیا جائے۔ (2) اگر یوٹیوب پر جاری امور جائزہیں تو ان سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی جائز ہوگی، اس لئے مذکورہ شرط کے ساتھ آمدنی حلال ہے، (3) بلاضرورت ڈیجیٹل تصاویر اور ویڈیوگرافی سے احترازکیا جائے، اور غیرمحرم کی  تصویر سے بہر صورت احتراز لازما کیاجائے۔ آج کے دور میں اشاعت دین، دفاع دین، وغیرہ کی ضرورت کی وجہ سے ڈیجیٹل تصاویر اور ویڈیوکی گنجائش  دی گئی ہے۔الضرورات تبیح المحظورات  (از تجاویز سیمینار،  اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، منعقدہ 3،4 /اکتوبر 2021 المعہدالعالی  حیدرآباد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند