تجارت و ملازمت

Ref. No. 39 / 859

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شاپنگ مال بنوانے میں کیا قباحت ہے، اور کس طرح کی بے حیائی تیزی سے پھیلتی ہے  اس کی وضاحت کریں۔ ہمارے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ شاید آپ گراہکوں کی بات کررہے ہیں کہ وہاں  نیم عریاں خواتین  آتی ہیں،  تو یہ بات شاپنگ مال کے ساتھ کیا خاص ہے یہ تو آپ کی دوکان پر بھی کوئی نیم عریاں خاتون آ سکتی ہے، اس میں آپ کو احیتاط کی ضرورت ہے، ان کو کیسے منع کرسکتے ہیں؟ایسی صورت میں  آپ کی  تجارت پر ظاہر ہے کوئی فرق  نہیں آئے گا۔ واللہ اعلم بالصواب 

۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1760/43-1491

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب دونوں نے پیسے لگاکر کاروبار شروع کیا تو دونوں برابر کے حصہ دار اور حقدار ہوئے، اب اگر ایک شخص نے سارے کاروبار پر قبضہ کرلیا اور نفع و نقصان کا کلی طور پر مالک ہوگیا تو شرکت کے خلاف عمل ہوا، اب شرکت ختم ہوگئی  اور جو کچھ رقم اس کے پاس دوسرے کی ہے وہ لوٹانا ضروری ہے۔ دوسرے کو بلا اسکی رقم لوٹائے سارے کاروبار پر اور سارے مال پر قبضہ کرلینا حرام ہے۔ البتہ اس کاروبار میں چونکہ اس کا مال بھی شامل ہے، اس لئے اس کی پوری آمدنی حرام نہیں ہے بلکہ جو کچھ حصہ دوسرے کا ہے اس میں تصرف حرام ہے۔ اس لئے  اس کا مدرسہ میں چندہ دینا درست ہے اور مدرسہ والے اس پیسے کو اس کے مصرف میں خرچ کرسکتے ہیں، تاہم اگر بطور تنبیہ مدرسہ والے ایسے شخص کا پیسہ قبول نہ کریں تو زیادہ بہتر ہے۔  

ولو خلط السلطان المال المغصوب بمالہ ملکہ فتجب الزکاة فیہ ویورث عنہ لأن الخلط استہلاک إذا لم یمکن تمییزہ عند أبي حنیفة ․․․ ففي البزازیة قبیل کتاب الزکاة: ما یأخذہ من المال ظلماً ویخلطہ بمالہ وبمال مظلوم آخر یصیر ملکاً لہ وینقطع حق الأوّل فلا یکون أخذہ عندنا حراماً محضاً ( الدر المختار مع رد المحتار 3/217 کتاب الزکاة، زکریا دیوبند)

توضيح المسألة ما في التاتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام ۔(رد المحتار ، كتاب البيوع ، باب المتفرقات ، ج: 7 ص: 490)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1867/43-1726

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ کمپنی کے طریقہ کار کا علم نہیں ہے، اس لئے اس کے تعلق سے کوئی بات نہیں کہی جاسکتی ہے، البتہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں بہت سی خرابیوں کی بناء پر خطرات ہیں اس لئے احتیاط ضروری ہے۔   

قال اللّٰہ تعالی: وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵) ، یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون ( المائدة، ۹۰) ، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر (المسند للإمام أحمد، ۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱) ، ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة (معالم التنزیل ۲: ۵۰) ، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1668/43-1267

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر آڈیو یا ویڈیو کے مشتملات شرعی اعتبار سے درست ہوں تو ان کو سننے دیکھنے اور دوسرے شخص کو بھیجنے پر کمپنی جو پیسہ دیتی ہے اس کا لینا جائز ہے، البتہ ویڈیو کی نشرواشاعت کے لئے ناجائز یا غیرمصدقہ اشتہارات کو اختیاری طور پر شامل کرنا درست نہیں ہے۔ (از تجاویز سیمینار،  اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، منعقدہ 3،4 /اکتوبر 2021 المعہدالعالی  حیدرآباد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1699/45-2224

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔  صورت مذکورہ میں ادھار مال لینے والے پر لازم ہے کہ وہ فورا اپنے قرض کی ادائیگی کرکے اپنے ذمہ کو فارغ کرلے۔اگر دوسرے کا حق اداکرنے سے قبل موت آگئی تو آخرت میں مؤاخذہ ہوگا، دنیوی عدالت کے حکم کے باوجود ادائیگی میں جلدی کرے، اور عدالت کی طرف سے مقررہ رقم سے زائد ادائیگی کی صورت میں زید مذکورہ رقم اس شخص کو واپس کردے، اس کے لئے یہ زائد رقم لینا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 219/44-2339

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مریض نے جو دوا آرڈر پر بنوائی ہے اور وہ دوا بن کر تیار ہوگئی تو اب مریض کو اختیار نہیں کہ وہ دوا لینے سے انکار کردے، اس لئے جب دوا بن کر تیار ہوگئی تو وہ دوا مریض کی ملک ہوگئی۔ کمپنی نے دوا بھیجی تو کمپنی نے اپنی ذمہ داری پوری کردی، اب اگر دوا پہنچنے سے پہل؛ے میرض فوت ہوگیا تو چونکہ کمپنی نے اپنا کام پورا کردیاتھا اس لئے وہ پوری رقم کی مستحق ہے۔ ہیلتھ کیئر کمیشن کے قانون پر دستخط کرنے کی بناء پر اس کی پاسداری آپ پر لازم ہوگی، فقہ کا قاعدہ ہے: :"الناس عند شروطہم"۔ لہذا مریض کے اہل خانہ اس دوا کو وصول کرکے کسی سے بیچ سکتے ہیں۔

وعن ابی یوسف انہ لاخیار لہما ، اما الصانع فلما ذکرنا، واما المستصنع فلان فی اثبات الخیار لہ اضرارا بالصانع لانہ لایشتریہ غیرہ بمثلہ  (ہدایہ ج3ص107 ، اشرفی بکڈپو دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2585/45-4115

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   شیئر مارکیٹ میں پیسہ لگانے سے پہلے متعلقہ لوگوں سے معلوم کرنا چاہئے کہ وہ سرمایہ کاری کے کس ضابطہ کو اختیار کرتے ہیں، اور شرعی طور پر اس کی حیثیت کیا ہے۔ کسی  قریبی ماہرمفتی کے سامنے بالمشافہ اس کو سمجھ لیں یا اپنا سوال تفصیل سے لکھ کر دوبارہ ارسال کریں ۔دوسرا سوال بھی واضح نہیں ہے تاہم   اگر کسی صحیح کمپنی میں آپ نے پیسہ لگایا ہے تو سالانہ حساب  رکھنا زیادہ بہتر ہوگا اور ہر سال کل مالیت پر واجب زکوۃ کی ادائیگی بھی ضروری ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 41/892

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ صورت درست نہیں ہے، یہ قرض سے انتفاع کی ایک شکل ہے جو حرام ہے۔ جائز صورت یہ ہے کہ نفع و نقصان میں شریک ہوں اور منافع فی صد کے اعتبار سے متعین ہوں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1674/43-1287

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کمیٹی کی رضامندی سے ایسا کرنا درست ہے۔  تاہم معاملہ بالکل صاف ستھرا ہونا چاہئے تاکہ بعد میں کسی نزاع کا اندیشہ نہ ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 40/797

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علماء نے اس صورت کو ناجائز لکھا ہے۔ اس لئے ان کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ڈپازٹ کی صورت ختم کرکے کچھ کرایہ طے کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند