Frequently Asked Questions
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1863/43-1731
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) کریڈٹ کارڈ میں کمپنی پیسہ قرض دیتی ہے اور جو کچھ آپ اس میں سے خرچ کرتے ہیں اس کی ادائیگی کی ایک مدت متعین ہوتی ہے، اگر اس مدت میں آپ نے وہ رقم اپنے اکاؤنٹ سے کریڈٹ کارڈ میں ٹرانسفر کردیا تو چارج نہیں لگتاہے، لیکن اگر مدت میں ادائیگی نہیں ہوسکی تو پھر اس پر سود دینا پڑتاہے، اس سود سے بچنے کے لئے اس کا استعمال درست نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شدید مبجوری ہو تو کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرنے کی گنجائش ہے البتہ مدت میں ہی ادائیگی کردی جائے تاکہ سودی چارج سے بچاجاسکے، تاہم اس پر ملنے والے پوائنٹس کو استعمال میں لانا جائز ہے۔ (2) جمع شدہ رقم پر بینک جو انٹرسٹ اور سود دیتاہے اس کا اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔ بینک سے نکال کر کسی غریب کو بلانیٹ ثواب صدقہ کردینا لازم ہے۔ (3) آن لائن خریداری پر کچھ ایپس کیش بیک دیتے ہیں ، یہ رقم اپنے کسٹمر کے لئے ترغیبی انعام ہے، اس کو اپنے استعمال میں لانا جائز اور حلال ہے۔ (4) کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر ملنے والا ڈسکاؤنٹ بینک نہیں دیتاہے بلکہ ادارہ یا کمپنی دیتی ہے اس لئے وہ ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1864/43-1727
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی شخص اپنے باپ سے پیسے لیتاہے اور والد کی طرف سے متعینہ رقم سے زیادہ خرچ کرنے کی صراحۃ یا دلالۃ اجازت نہیں ہے تو زائد پیسہ واپس کرنا ضروری ہے۔ نیز باپ سے جس مقصد کے لئے پیسے مانگے تھے، اسی مقصد میں صرف کرنا ضروری ہے؛ سوال میں مذکور صورت کذب بیانی ہے،اور جھوٹ سے بہرحال پرہیز ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1089 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ لائف انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔ اگر کسی مجبوری میں کرایا گیا ہے توصرف اپنی جمع کردہ رقم لے سکتے ہیں ،اس کے علاوہ جو رقم کمپنی دے اس کو بلانیت ثواب صدقہ کردینا لازم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2193/44-2331
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سب کی رضامندی سے پہلی چیٹی آپ کے لئے لینا جائز ہے، البتہ آپ جب خود اس معاملہ میں شریک ہیں تو آپ کے لئے وصولیابی کے نام پر تین ہزار روپئے لینا جائز نہیں ہے۔ وصولیابی کی مزدوری میں اپنی وصولی کی مزدوری بھی شامل ہے، اور اس طرح کا معاملہ شرعا ناجائز ہے۔
ولو دفع غزلًا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ أی بنصف الغزل أو استأجر بغلًا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورًا لیطحن برّہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکلّ؛ لأنّہ استأجرہ بجزءٍ من عملہ، والأصل فی ذلک نہیہ - صلّی اللّہ علیہ وسلّم - عن قفیز الطّحّان إلخ (درمختار مع الشامي: ۹/۷۹، باب الإجارة الفاسدة، ط: زکریا، دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 40/970
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوم لون لے کر اپنی پریشانی میں اضافہ نہ کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ زیادہ کی لالچ میں اصل سرمایہ بھی ہاتھ سے نکل جائے۔ اخراجات کم کیجئے اور ذریعہ آمدنی بدل کر کوشش کیجئے اور دعاء کیجئے کہ اللہ تعالی آسانی پیدافرمائیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. no. 40/967
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ رقم کمپنی کی طرف سے بطور انعام دی جاتی ہے اس لئے یہ درست ہے، اس طرح کے آفر اپنی کمپنی کے تعارف کو عام کرنے کے لئے دئے جاتے ہیں ، اس کو سود نہیں کہا جاسکتا ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 39/1113
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بینک سے جو سودی رقم آپ کو ملے اس کو بلانیت ثواب غریبوں اور مستحقین پر صدقہ کرنا واجب ہے۔ اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ آپ خود غریب ومستحق ہوں تو آپ اس کو اپنے استعمال میں بھی لاسکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 39/1112
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔انشورنس کا معاملہ مکمل سود ی معاملہ ہے، اور سودی معاملہ کرنا حرام ہے۔ البتہ شریعت میں ضرورت کے مواقع میں گنجائش دی گئی ہے۔ اس لئے جن چیزوں کے استعمال کے لئے انشورنس کرانا لازم ہو اور قانونی مجبوری ہو تو ایسی صورت میں انشورنس کرانے کی گنجائش ہے۔ اور اگر قانونی مجبوری نہ ہو تو پھر انشورنس ضرورت نہیں ہے۔ جیون بیمہ قانونی طور پر لازم نہیں اس لئے حرام ہوگا۔ دوکان کا بیمہ بھی اسی طرح ہے کہ اگر قانونی مجبوری کے تحت کرایا جائے تو ہی جائز ہوگا ورنہ نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 39 / 884
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسجد میں دینا جبراً نہ ہو بلکہ دینے والے کی مرضی سے ہی ہو تو مذکورہ شکل اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2207/44-2317
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رشوت میں سودی رقم دینا جائز نہیں ہے۔ سود کی رقم اس کے مالک کو لوٹا نا لازم ہے، اور اگر مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو غریبوں میں بلانیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے، اس لئے اپنے کسی بھی کام میں سود کی رقم استعمال کرنا اور اس سے فائدہ اٹھاناجائز نہیں ہے، حتی کہ ناجائز مقدمہ کی پیروی میں یا رشوت میں دینا بھی جائز نہیں ہے۔
'' والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له، ويتصدق به بنية صاحبه''۔ (فتاوی شامی،5/99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند