ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1089 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  لائف انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔ اگر کسی مجبوری میں کرایا گیا ہے توصرف  اپنی جمع کردہ رقم  لے سکتے ہیں ،اس کے علاوہ جو رقم کمپنی دے اس کو بلانیت ثواب صدقہ کردینا لازم ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2193/44-2331

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سب کی رضامندی سے پہلی چیٹی آپ کے لئے لینا جائز ہے، البتہ آپ جب خود اس معاملہ میں شریک ہیں تو آپ کے لئے وصولیابی کے نام پر تین ہزار روپئے لینا جائز نہیں ہے۔ وصولیابی کی مزدوری میں اپنی وصولی کی مزدوری بھی شامل ہے، اور اس طرح کا معاملہ شرعا ناجائز ہے۔

ولو دفع غزلًا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ أی بنصف الغزل أو استأجر بغلًا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورًا لیطحن برّہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکلّ؛ لأنّہ استأجرہ بجزءٍ من عملہ، والأصل فی ذلک نہیہ - صلّی اللّہ علیہ وسلّم - عن قفیز الطّحّان إلخ (درمختار مع الشامي: ۹/۷۹، باب الإجارة الفاسدة، ط: زکریا، دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 40/970

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوم لون لے کر اپنی پریشانی میں اضافہ نہ کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ زیادہ کی لالچ میں اصل سرمایہ بھی ہاتھ سے نکل جائے۔ اخراجات کم کیجئے اور ذریعہ آمدنی بدل کر کوشش کیجئے اور دعاء کیجئے کہ اللہ تعالی آسانی پیدافرمائیں۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. no. 40/967

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ رقم کمپنی کی طرف سے بطور انعام دی جاتی ہے اس لئے  یہ درست ہے، اس طرح  کے آفر اپنی کمپنی کے تعارف کو عام کرنے کے لئے دئے جاتے ہیں ، اس کو سود نہیں  کہا جاسکتا ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 39/1113

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بینک سے  جو سودی رقم آپ کو ملے اس کو بلانیت ثواب غریبوں اور مستحقین پر صدقہ کرنا واجب ہے۔  اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ آپ خود غریب ومستحق ہوں تو آپ اس کو اپنے استعمال میں بھی لاسکتے ہیں۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 39/1112

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔انشورنس  کا معاملہ مکمل سود ی معاملہ ہے، اور سودی معاملہ کرنا حرام ہے۔ البتہ شریعت میں ضرورت کے مواقع میں گنجائش دی گئی ہے۔ اس لئے جن چیزوں کے استعمال کے لئے انشورنس کرانا لازم ہو اور قانونی مجبوری ہو تو ایسی صورت میں انشورنس کرانے کی گنجائش ہے۔ اور اگر قانونی مجبوری نہ ہو تو پھر انشورنس ضرورت نہیں ہے۔ جیون بیمہ قانونی طور پر لازم نہیں اس لئے حرام ہوگا۔ دوکان کا بیمہ بھی اسی طرح ہے کہ اگر قانونی مجبوری کے تحت کرایا جائے تو ہی جائز ہوگا ورنہ نہیں۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 39 / 884

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسجد میں دینا جبراً نہ ہو بلکہ دینے والے کی مرضی سے ہی ہو تو مذکورہ شکل اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2207/44-2317

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  رشوت میں سودی رقم دینا جائز نہیں ہے۔ سود کی رقم  اس کے مالک کو لوٹا نا لازم ہے، اور اگر مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو غریبوں میں بلانیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے، اس لئے اپنے کسی بھی کام میں سود کی رقم استعمال کرنا اور اس سے فائدہ اٹھاناجائز نہیں ہے، حتی کہ ناجائز مقدمہ کی پیروی میں یا رشوت میں دینا بھی جائز نہیں ہے۔

'' والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له، ويتصدق به بنية صاحبه''۔ (فتاوی شامی،5/99،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2774/45-4323

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سودی لون سے بچنا چاہئے تھا البتہ اب آپ اپنے انٹرسٹ کی رقم سے  بیٹی کے ہوم لون کا انٹرسٹ ادا کریں تو اس کی گنجائش ہے، اللہ سے توبہ کریں ، اور آئندہ ہر قسم سے سودی لین دین سے بچنے کا التزام کریں۔

قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہْ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلَاةِ، فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ۔(سورہٴ المائدہ ۹۰۔۹۱) ا

: لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ ۔ (موطا مالک، مسند احمد، ابن ماجہ، دار قطنی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 854 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ نقد قیمت  اداکرنے پر کم  قیمت میں دینا اور ادھار کی وجہ سے اصل قیمت پر اضافہ کردینا  درست ہے، بشرطیکہ  مجلس عقد ہی میں قیمت کا نقد یا ادھار ہونا متعین ہوگیا ہو۔   اور پھر جو قیمت طے ہوجائے خریدار سے اسی کا مطالبہ ہو ،  ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اس پر کوئی اوراضافہ  ہرگزنہ کیا جائے۔ اس  کو فقہاء نے جائز لکھا ہے ، اس میں شبہ نہ کیا جائے۔ آئندہ جو بھی صورت پیش آئے گرچہ بینک اس کو سود کا نام دے، آپ کسی  ماہر مفتی سے صورت حال بتاکر شرعی نقطہ نظر معلوم کرلیں کہ آیا شرعی اعتبار سے بھی وہ سود ہے یا نہیں۔ (ھدایہ) واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند