ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2774/45-4323

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سودی لون سے بچنا چاہئے تھا البتہ اب آپ اپنے انٹرسٹ کی رقم سے  بیٹی کے ہوم لون کا انٹرسٹ ادا کریں تو اس کی گنجائش ہے، اللہ سے توبہ کریں ، اور آئندہ ہر قسم سے سودی لین دین سے بچنے کا التزام کریں۔

قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہْ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلَاةِ، فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ۔(سورہٴ المائدہ ۹۰۔۹۱) ا

: لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ ۔ (موطا مالک، مسند احمد، ابن ماجہ، دار قطنی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 854 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ نقد قیمت  اداکرنے پر کم  قیمت میں دینا اور ادھار کی وجہ سے اصل قیمت پر اضافہ کردینا  درست ہے، بشرطیکہ  مجلس عقد ہی میں قیمت کا نقد یا ادھار ہونا متعین ہوگیا ہو۔   اور پھر جو قیمت طے ہوجائے خریدار سے اسی کا مطالبہ ہو ،  ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اس پر کوئی اوراضافہ  ہرگزنہ کیا جائے۔ اس  کو فقہاء نے جائز لکھا ہے ، اس میں شبہ نہ کیا جائے۔ آئندہ جو بھی صورت پیش آئے گرچہ بینک اس کو سود کا نام دے، آپ کسی  ماہر مفتی سے صورت حال بتاکر شرعی نقطہ نظر معلوم کرلیں کہ آیا شرعی اعتبار سے بھی وہ سود ہے یا نہیں۔ (ھدایہ) واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No 38 / 996

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بینک سے سود لے کر  غرباء ومساکین پربلانیت ثواب  صدقہ کردینا واجب ہے، اس کو کسی رفاہی کام میں صرف کرنا یا بیت الخلاء وغیرہ میں لگانا درست نہیں ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1260/42-594

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  لون سود وقمار پر مشتمل ہوتاہے ، اور مذکورہ صورت کوئی اضطراری و شدید مجبوری کی بھی نہیں ہے، اس لئے لون لینا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No 918 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The interest money you received from the bank is Haram and you have to get rid of it by giving it to poor and needy persons as charity. The charity should be made without the intention of reward. The interest received from the bank is haram for those who are wealthy as per shariah (Sahibe Nisab), but for those who are poor and needy, the interest is not Haram but it is Halal. Since the interest money is not lawful for us so we cannot like it for ourselves. But when it is Halal for others then we like it for them. Similarly we give the zakat of our wealth to widows, poor and needy who are eligible for zakat because it is halal for them and we cannot hold the zakat amount with us because it is haram for us.  

And Allah Knows Best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 952/41-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں آپ کے لئے بہتر یہی ہے کہ بناہوا گھر قسطوں پر لے لیں اور قسطوار پیسے اداکریں، اگرچہ اس صورت میں پیسے زیادہ دینے ہوں گے۔ لیکن یہ صورت جائز ہے۔ جبکہ لون لے کر گھر بنانا بلاشدید ضرورت کے جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2066/44-2057

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسابقہ کے انعقاد کے اخراجات کے لئے فیس لینا جائز ہے البتہ فیس کے طور پر لئے گئے پیسوں کو انعام میں دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں قمار کی صورت پائی جاتی ہے، البتہ اگر  انعام دوسرے پیسوں سے  دیا جائے تو اس مسابقہ میں  شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی فیس کی رقم انعام کے لئے مشروط نہ ہو۔

القرآن الکریم: (المائدۃ، الایة: 90- 91)
یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأنْصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضآءَ فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ، فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَo
روح المعاني: (694/2، ط: رشیدیة)
وفی حکم ذلک جمیع انواع القمار من النرد والشطرنج وغیرھما حتی ادخلوا فیه لعب الصبیان بالجوز والکعاب والقرۃ فی غیر القسمة و جمیع انواع المخاطرۃ والرھان وعن ابن سیرین کل شئی فیه خطر فھو من المیسر۔
فتح القدیر للشوکاني: (336/1)
المیسر میسران، میسر اللھو، میسر القمار، فمن میسر اللھو النرد، والشطرنج، والملاھی کلھا، ومیسر القمار ما یتخاطر الناس علیه، ای فیه مخاطرۃ الربح والخسارۃ بانواع من الالعاب وا لشروط ککل انواع القمار الموجودۃ والتی یمکن ان توجد۔
رد المحتار: (355/3، ط: سعید)
تعلیق التملیک علی الخطر والمال من الجانبیین۔

"معالم السنن "(2/ 255):
أما إذا سبق الأمير بين الخيل وجعل للسابق منهما جعلا أو قال الرجل لصاحبه إن سبقت فلانا فلك عشرة دراهم فهذا جائز من غير محلل،

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 41/1005

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   کمپنی اپنے تعارف کے لئے  اور گراہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے  آن لائن ٹرانزیکشن پر بطور کیش بیک اورریوارڈ جو رقم دیتی ہے وہ انعام کے درجہ میں ہے، وہ سود کے زمرے میں نہیں ہے اس لئے اس انعامی رقم کواستعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔یہ ایسے ہی ہے  جیسےکہ آپ نے کوئی چیز خریدی اور کمپنی نے اس کے ساتھ ایک چیز مفت میں دیدی۔  تاہم اس بات کا خیال رہے کہ پے ٹی ایم اور دیگر والیٹ یا اپپس اگر جمع شدہ پیسے پر بطور سود کچھ متعین رقم دیتے ہیں تو اس کو سود کہا جائے گا اور اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا بلکہ دیگر سود کی طرح اس سود کو بھی بلانیت ثواب فقراء پر صدقہ کردینا واجب ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1995/44-1942

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انشورنس ایک سودی معاملہ ہے،   بلاکسی مجبوری کے انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔  اس لئے اگر سرکاری طور پر کوئی انشورنس لازم ہے یا انشورنس نہ لینے کی صورت میں اپنی حلال کمائی خطرہ میں پڑسکتی ہے تو ایسی شرعی مجبوریوں میں انشورنس کرانے کی اجازت ہے۔ آپ کو جو مسئلہ درپیش ہو، اس کو کسی ماہر مفتی کے سامنے رکھ کر اس کے  حدود و قیود  کو سمجھ لیں ۔

﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ (المائدة: 90)

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»". (صحیح مسلم 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)

عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر (مصنف ابن ابی شیبہ (4/483، کتاب البیوع  والأقضیة، ط: مکتبة رشد، ریاض)

"وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ" (فتاوی شامی .(6 / 403 ، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 40/

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اس کی گنجائش ہے

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند