ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 41/1005

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   کمپنی اپنے تعارف کے لئے  اور گراہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے  آن لائن ٹرانزیکشن پر بطور کیش بیک اورریوارڈ جو رقم دیتی ہے وہ انعام کے درجہ میں ہے، وہ سود کے زمرے میں نہیں ہے اس لئے اس انعامی رقم کواستعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔یہ ایسے ہی ہے  جیسےکہ آپ نے کوئی چیز خریدی اور کمپنی نے اس کے ساتھ ایک چیز مفت میں دیدی۔  تاہم اس بات کا خیال رہے کہ پے ٹی ایم اور دیگر والیٹ یا اپپس اگر جمع شدہ پیسے پر بطور سود کچھ متعین رقم دیتے ہیں تو اس کو سود کہا جائے گا اور اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا بلکہ دیگر سود کی طرح اس سود کو بھی بلانیت ثواب فقراء پر صدقہ کردینا واجب ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1995/44-1942

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انشورنس ایک سودی معاملہ ہے،   بلاکسی مجبوری کے انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔  اس لئے اگر سرکاری طور پر کوئی انشورنس لازم ہے یا انشورنس نہ لینے کی صورت میں اپنی حلال کمائی خطرہ میں پڑسکتی ہے تو ایسی شرعی مجبوریوں میں انشورنس کرانے کی اجازت ہے۔ آپ کو جو مسئلہ درپیش ہو، اس کو کسی ماہر مفتی کے سامنے رکھ کر اس کے  حدود و قیود  کو سمجھ لیں ۔

﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ (المائدة: 90)

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»". (صحیح مسلم 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)

عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر (مصنف ابن ابی شیبہ (4/483، کتاب البیوع  والأقضیة، ط: مکتبة رشد، ریاض)

"وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ" (فتاوی شامی .(6 / 403 ، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 40/

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اس کی گنجائش ہے

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1065/41-244

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ کمپنی اپنے یوزرس کو اس طرح کے پیسے بطور انعام دیتی ہے، اس لئے اس کا استعمال  جائز ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1067/41-234

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  اس طرح متعین نفع پر تجارت کرنا جائز نہیں ہے۔ جو متعین نفع لیاجارہا ہے وہ سود ہے۔ اس کو اسی شخص کے پاس لوٹادیا جائے جس سے لیا گیا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1168/42-419

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کرنا جائز  نہیں ہے۔ پہلے وہ پیسے اس غریب رشتہ دار کو دیدیجئے پھر اس کو پارٹنرشپ کرنے کی بات کہئے، اگر وہ راضی ہو اور پیسے دے تو شرکت میں لگادیجئے۔ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2689/45-4457

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں سودی قرض کا لین دین سخت ممنوع ہے، اگر کوئی چیز (مثلاً سونے چاندی کے زیورات) گروی رکھ کر بلا سود قرض مل جائے تو اس کی اجازت ہے، لیکن گروی رکھ کر کم شرح سود پر قرض لینا بھی درست نہیں ہے، سود کم ہو زیادہ بہر حال سود ہے، تجارت کے فروغ کے لئے سود لینا بھی سود ہی ہے اس لئے جائز نہیں ہے۔

ہاں ،اگرایک متعین مدت کے لئے ضرورت شدیدہ کی وجہ سے بلا سود قرض مل جائے اور قرض لے کر متعینہ مدت گزرنے سے قبل اگر قرض کی رقم ادا کردی جائے تاکہ اضافی رقم یعنی سود دینے کی نوبت نہ آئے تو اس کی گنجائش ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1073/41-260

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  بینک سے جو اضافی رقم ملتی ہے وہ سود ہے، اور سود جس طرح دارالاسلام  میں حرام ہے، اسی طرح دارالحرب  میں بھی حرام ہے اس لئے کہ نصوص قطعیہ اس باب میں مطلق ہیں، احل اللہ البیع وحرم الربوا۔ حدیث میں ہے: آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال ھم سواء (مشکوۃ 244) سوال میں مذکور حدیث غریب ہے، نصوص قطعیہ کے مقابلہ میں اس سے استدلال درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1998/44-1955

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

الجواب وباللہ التوفیق: بشرط صحت سوال کسی بھی صورت میں اپنے حق سے زیادہ کا دعویٰ کرنا اور اس دعویٰ کے نتیجہ میں زائد مال حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے چاہے مقروض کے ٹال مٹول کی وجہ سے نقصان ہی ہو رہا ہو، لہٰذا مذکورہ مسئلے میں زائد رقم سود شمار ہوگی اگر آپ کے والد بھی اس کام میں شریک ہیں تو وہ بھی گنہگار ہوں گے اور اگر وہ اس سے لا تعلق ہیں یا رہے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

’’وفیہا وفي الأشباہ: لا یجوز الاعتیاض عن الحقوق المجردۃ کحق الشفعۃ وعلی ہذا لا یجوز الاعتیاض عن الوظائف بالأوقاف‘‘ (رد المحتار: ج ۴، ص: ۵۱۸)

’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لصاحب الحق فذ حقک في عفاف واف أو غیر واف‘‘ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2301/44-3458

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ جرمانہ چونکہ سرکار کی طرف سے ہے، اور سرکاری بینک کا سود بھی سرکار کا ہے، اور سودی رقم میں اصل یہ ہے  کہ جس کا پیسہ ہو اسی کو واپس کردیاجائے چاہے کسی طرح بھی واپس کیاجائے۔ اس لئے مذکورہ جرمانہ میں سرکاری بینک کا سود دے سکتے ہیں۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند