Frequently Asked Questions
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1065/41-244
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ کمپنی اپنے یوزرس کو اس طرح کے پیسے بطور انعام دیتی ہے، اس لئے اس کا استعمال جائز ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1067/41-234
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ اس طرح متعین نفع پر تجارت کرنا جائز نہیں ہے۔ جو متعین نفع لیاجارہا ہے وہ سود ہے۔ اس کو اسی شخص کے پاس لوٹادیا جائے جس سے لیا گیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1168/42-419
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کرنا جائز نہیں ہے۔ پہلے وہ پیسے اس غریب رشتہ دار کو دیدیجئے پھر اس کو پارٹنرشپ کرنے کی بات کہئے، اگر وہ راضی ہو اور پیسے دے تو شرکت میں لگادیجئے۔ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2689/45-4457
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں سودی قرض کا لین دین سخت ممنوع ہے، اگر کوئی چیز (مثلاً سونے چاندی کے زیورات) گروی رکھ کر بلا سود قرض مل جائے تو اس کی اجازت ہے، لیکن گروی رکھ کر کم شرح سود پر قرض لینا بھی درست نہیں ہے، سود کم ہو زیادہ بہر حال سود ہے، تجارت کے فروغ کے لئے سود لینا بھی سود ہی ہے اس لئے جائز نہیں ہے۔
ہاں ،اگرایک متعین مدت کے لئے ضرورت شدیدہ کی وجہ سے بلا سود قرض مل جائے اور قرض لے کر متعینہ مدت گزرنے سے قبل اگر قرض کی رقم ادا کردی جائے تاکہ اضافی رقم یعنی سود دینے کی نوبت نہ آئے تو اس کی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1073/41-260
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ بینک سے جو اضافی رقم ملتی ہے وہ سود ہے، اور سود جس طرح دارالاسلام میں حرام ہے، اسی طرح دارالحرب میں بھی حرام ہے اس لئے کہ نصوص قطعیہ اس باب میں مطلق ہیں، احل اللہ البیع وحرم الربوا۔ حدیث میں ہے: آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال ھم سواء (مشکوۃ 244) سوال میں مذکور حدیث غریب ہے، نصوص قطعیہ کے مقابلہ میں اس سے استدلال درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1998/44-1955
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
الجواب وباللہ التوفیق: بشرط صحت سوال کسی بھی صورت میں اپنے حق سے زیادہ کا دعویٰ کرنا اور اس دعویٰ کے نتیجہ میں زائد مال حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے چاہے مقروض کے ٹال مٹول کی وجہ سے نقصان ہی ہو رہا ہو، لہٰذا مذکورہ مسئلے میں زائد رقم سود شمار ہوگی اگر آپ کے والد بھی اس کام میں شریک ہیں تو وہ بھی گنہگار ہوں گے اور اگر وہ اس سے لا تعلق ہیں یا رہے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
’’وفیہا وفي الأشباہ: لا یجوز الاعتیاض عن الحقوق المجردۃ کحق الشفعۃ وعلی ہذا لا یجوز الاعتیاض عن الوظائف بالأوقاف‘‘ (رد المحتار: ج ۴، ص: ۵۱۸)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لصاحب الحق فذ حقک في عفاف واف أو غیر واف‘‘ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2301/44-3458
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ جرمانہ چونکہ سرکار کی طرف سے ہے، اور سرکاری بینک کا سود بھی سرکار کا ہے، اور سودی رقم میں اصل یہ ہے کہ جس کا پیسہ ہو اسی کو واپس کردیاجائے چاہے کسی طرح بھی واپس کیاجائے۔ اس لئے مذکورہ جرمانہ میں سرکاری بینک کا سود دے سکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1694/43-1329
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرض کی ادائیگی میں اسی کرنسی کا اعتبار ہوگا جو کرنسی قرض میں دی تھی۔ جب دینے والے نے قرض میں ایرانی کرنسی دی تھی تو آپ بھی ایرانی کرنسی ہی واپس کردیں چاہے اس کی موجودہ حیثیت کم ہو یا زیادہ۔ البتہ اگر قرض کی ادائیگی کسی دوسری کرنسی سے کررہا ہے تو اس میں کرنسی کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا۔ اور قرض کی وصولی کے وقت مارکیٹ میں اس کرنسی کی جو قیمت ہوگی وہ اداکرنی ہوگی۔
هذا إذا كسدت وانقطعت أما إذا غلت قيمتها أو انتقضت فالبيع على حاله ولا يتخير المشتري، ويطالب بالنقد بذلك العيار الذي كان وقت البيع كذا في فتح القدير. وفي البزازية عن المنتقى غلت الفلوس أو رخصت فعند الإمام الأول والثاني، أولا ليس عليه غيرها، وقال: الثاني ثانيا عليه قيمتها من الدراهم يوم البيع والقبض وعليه الفتوى، وهكذا في الذخيرة - - - - - - - بقي هنا شيء وهو أنا قدمنا أنه على قول أبي يوسف المفتى به: لا فرق بين الكساد والانقطاع والرخص والغلاء في أنه تجب قيمتها يوم وقع البيع أو القرض إذا كانت فلوسا أو غالبة الغش، وإن كان فضة خالصة أو مغلوبة الغش تجب قيمتها من الذهب، يوم البيع على ما قاله الشارح، أو مثلها على ما بحثناه وهذا إذا اشترى بالريال أو الذهب، مما يراد نفسه، أما إذا اشترى بالقروش المراد بها ما يعم الكل كما قررناه، ثم رخص بعض أنواع العملة أو كلها واختلفت في الرخص، كما وقع مرارا في زماننا ففيه اشتباه فإنها إذا كانت غالبة الغش، وقلنا: تجب قيمتها يوم البيع، فهنا لا يمكن ذلك؛ لأنه ليس المراد بالقروش نوعا معينا من العملة حتى نوجب قيمته. (شامی، مطلب مھم فی احکام النقود اذاکسدت 4/537)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 39/1168
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیمہ کرانا ناجائز تھا لیکن اب اس رقم کو بیمہ کمپنی سے نکال لینا اور کسی غریب اور مستحق کو بلا نیت ثواب صدقہ کردینا لازم ہے ۔ اگر آپ خود صاحب نصاب نہیں ہیں ،مقروض بھی ہیں اوربیمہ کی رقم سے قرض کی ادائیگی چاہتے ہیں تو ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔ اور اگر قرض کی ادائیگی کے بعد بچ جائے تو آپ اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں، یا کسی اور مستحق کو بلا نیت ثواب صدقہ کردیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 40/805
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔سودی بنیاد پر لون لینا حرام ہے، اس سے اجتناب لازم ہے اور اس کے علاوہ کوئی اورجائز طریقہ اختیار کریں جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند