Frequently Asked Questions
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 952/41-000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں آپ کے لئے بہتر یہی ہے کہ بناہوا گھر قسطوں پر لے لیں اور قسطوار پیسے اداکریں، اگرچہ اس صورت میں پیسے زیادہ دینے ہوں گے۔ لیکن یہ صورت جائز ہے۔ جبکہ لون لے کر گھر بنانا بلاشدید ضرورت کے جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2066/44-2057
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسابقہ کے انعقاد کے اخراجات کے لئے فیس لینا جائز ہے البتہ فیس کے طور پر لئے گئے پیسوں کو انعام میں دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں قمار کی صورت پائی جاتی ہے، البتہ اگر انعام دوسرے پیسوں سے دیا جائے تو اس مسابقہ میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی فیس کی رقم انعام کے لئے مشروط نہ ہو۔
القرآن الکریم: (المائدۃ، الایة: 90- 91)
یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأنْصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضآءَ فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ، فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَo
روح المعاني: (694/2، ط: رشیدیة)
وفی حکم ذلک جمیع انواع القمار من النرد والشطرنج وغیرھما حتی ادخلوا فیه لعب الصبیان بالجوز والکعاب والقرۃ فی غیر القسمة و جمیع انواع المخاطرۃ والرھان وعن ابن سیرین کل شئی فیه خطر فھو من المیسر۔
فتح القدیر للشوکاني: (336/1)
المیسر میسران، میسر اللھو، میسر القمار، فمن میسر اللھو النرد، والشطرنج، والملاھی کلھا، ومیسر القمار ما یتخاطر الناس علیه، ای فیه مخاطرۃ الربح والخسارۃ بانواع من الالعاب وا لشروط ککل انواع القمار الموجودۃ والتی یمکن ان توجد۔
رد المحتار: (355/3، ط: سعید)
تعلیق التملیک علی الخطر والمال من الجانبیین۔
"معالم السنن "(2/ 255):
أما إذا سبق الأمير بين الخيل وجعل للسابق منهما جعلا أو قال الرجل لصاحبه إن سبقت فلانا فلك عشرة دراهم فهذا جائز من غير محلل،
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 41/1005
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کمپنی اپنے تعارف کے لئے اور گراہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے آن لائن ٹرانزیکشن پر بطور کیش بیک اورریوارڈ جو رقم دیتی ہے وہ انعام کے درجہ میں ہے، وہ سود کے زمرے میں نہیں ہے اس لئے اس انعامی رقم کواستعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسےکہ آپ نے کوئی چیز خریدی اور کمپنی نے اس کے ساتھ ایک چیز مفت میں دیدی۔ تاہم اس بات کا خیال رہے کہ پے ٹی ایم اور دیگر والیٹ یا اپپس اگر جمع شدہ پیسے پر بطور سود کچھ متعین رقم دیتے ہیں تو اس کو سود کہا جائے گا اور اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا بلکہ دیگر سود کی طرح اس سود کو بھی بلانیت ثواب فقراء پر صدقہ کردینا واجب ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1995/44-1942
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انشورنس ایک سودی معاملہ ہے، بلاکسی مجبوری کے انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔ اس لئے اگر سرکاری طور پر کوئی انشورنس لازم ہے یا انشورنس نہ لینے کی صورت میں اپنی حلال کمائی خطرہ میں پڑسکتی ہے تو ایسی شرعی مجبوریوں میں انشورنس کرانے کی اجازت ہے۔ آپ کو جو مسئلہ درپیش ہو، اس کو کسی ماہر مفتی کے سامنے رکھ کر اس کے حدود و قیود کو سمجھ لیں ۔
﴿يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ (المائدة: 90)
"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»". (صحیح مسلم 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)
عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر (مصنف ابن ابی شیبہ (4/483، کتاب البیوع والأقضیة، ط: مکتبة رشد، ریاض)
"وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ" (فتاوی شامی .(6 / 403 ، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 40/
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اس کی گنجائش ہے
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1065/41-244
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ کمپنی اپنے یوزرس کو اس طرح کے پیسے بطور انعام دیتی ہے، اس لئے اس کا استعمال جائز ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1067/41-234
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ اس طرح متعین نفع پر تجارت کرنا جائز نہیں ہے۔ جو متعین نفع لیاجارہا ہے وہ سود ہے۔ اس کو اسی شخص کے پاس لوٹادیا جائے جس سے لیا گیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1168/42-419
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کرنا جائز نہیں ہے۔ پہلے وہ پیسے اس غریب رشتہ دار کو دیدیجئے پھر اس کو پارٹنرشپ کرنے کی بات کہئے، اگر وہ راضی ہو اور پیسے دے تو شرکت میں لگادیجئے۔ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2689/45-4457
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں سودی قرض کا لین دین سخت ممنوع ہے، اگر کوئی چیز (مثلاً سونے چاندی کے زیورات) گروی رکھ کر بلا سود قرض مل جائے تو اس کی اجازت ہے، لیکن گروی رکھ کر کم شرح سود پر قرض لینا بھی درست نہیں ہے، سود کم ہو زیادہ بہر حال سود ہے، تجارت کے فروغ کے لئے سود لینا بھی سود ہی ہے اس لئے جائز نہیں ہے۔
ہاں ،اگرایک متعین مدت کے لئے ضرورت شدیدہ کی وجہ سے بلا سود قرض مل جائے اور قرض لے کر متعینہ مدت گزرنے سے قبل اگر قرض کی رقم ادا کردی جائے تاکہ اضافی رقم یعنی سود دینے کی نوبت نہ آئے تو اس کی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1073/41-260
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ بینک سے جو اضافی رقم ملتی ہے وہ سود ہے، اور سود جس طرح دارالاسلام میں حرام ہے، اسی طرح دارالحرب میں بھی حرام ہے اس لئے کہ نصوص قطعیہ اس باب میں مطلق ہیں، احل اللہ البیع وحرم الربوا۔ حدیث میں ہے: آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال ھم سواء (مشکوۃ 244) سوال میں مذکور حدیث غریب ہے، نصوص قطعیہ کے مقابلہ میں اس سے استدلال درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند