ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2396/44-3626

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آر سی ایم (RCM)اور اس طرح کی دیگر تمام کمپنیاں جن میں چین سسٹم ہوتاہے، ان میں سرمایہ کاری اور تجارت ناجائز ہے، اس لئے کہ اس میں بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور ان میں ایسی شرطیں لگائی جاتی  ہیں جو مقتضائے عقد کے  خلاف ہوتی ہیں۔  مثال کے طور پر : اس میں خریداری کے لئے ممبر بننا شرط ہے جوکہ شرط فاسد ہے، اسی طرح ان کمپنیوں میں جُڑنے کا مقصد صرف ممبرسازی کو فروغ دینا ہوتاہے، لیکن اس کے ساتھ کوئی ایک متعین سامان لینا ضروری ہوتا ہے، اس سے کم یا زیادہ کا یا بالکل نہ لینے کا اختیار نہیں ہوتا ہے،نیز  ہر سال تجدید ممبرسازی پر اجرت لی جاتی ہے ، ممبرسازی نہ کرنے کی صورت میں سامان سے زائد جمع شدہ رقم کو ضبط کرلیاجاتاہے  وغیرہ وغیرہ ، یہ سارے امور اسلامی شریعت میں  ناجائزہیں، اس وجہ سے اس طرح کی کسی کمپنی میں شرکت جائز نہیں ہے۔

وکل شرط لا یقتضیہ العقد وفیہ منفعة لأحد المتعاقدین أو للمعقود علیہ وهو من أهل الاستحقاق یفسدہ (هدایه: ۳/۵۹)

یٰاَیُّها الَّذِینَ آمَنُوْا لاَتَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلاَّ اَن تَکُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ (البقرة: ۱۸۸)

وشرطها (أي الإجارة) کون الأجرة والمنفعة معلومتین۔ ۔ ۔ ویعلم النفع ببیان المدّة کالسّکنی والزراعة مدّة کذا أيّ مدّة کانت وإن طالت (در مختار: ۹/۷، زکریا دیوبند)

یٰاَیُّها الَّذِینَ آمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالاَنصَابُ وَالاَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَo (المائدة:۹۰)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2629/45-4003

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اس طرح اپنی زمین گروی رکھ کر قرض لینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس  معاملہ میں زمین والا  مرتہن کو اس زمین میں تصرف کی اجازت دیتاہے حالانکہ یہ سود ہے۔ ہاں البتہ  اگر زمین  کا مالک زمین کا سودا کرے اور معاملہ کرتے وقت زمین واپس کرنے  کی شرط نہ لگائے، بلکہ زمین کی قیمت وصول کرکے زمین کو خریدارکی ملکیت میں دیدے ، پھر جب زمین بیچنے والے شخص کے پاس زمین کی قیمت کے بقدر رقم آجائے اور وہ دوبارہ وہی زمین خریدلے تو اس کی اجازت ہوگی۔ 

’’وَنَماءُ الْرَّهنِ کَالوَلَدِ وَالْثَّمَرِ وَالْلَّبَنِ وَالصُوفِ والوَبرِ وَالاَرْشِ وَنَحوِ ذٰلکَ لِلْرَّاهنِ لِتَوَلُّدِه مِنْ مِلْکِه‘‘. (درمختار ج۵/ ص۳۳۵)

’’لاَ یَحِلُ لَه اَنْ یَنْتَفِعَ بِشَیٍٴ مِنه بِوَجْه مِنَ الْوُجُوه اِنْ اَذِنَ لَه الْرَّاهنُ لأنَّه أذِنَ لَه في الْرِبَوا‘‘. (شامی ج۵/ ص۳۱۰)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2338/44-3519

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سودی رقم کا اپنے استعمال میں لانا حرام ہے، اس لئے جو لوگ سودی رقم بینک  سے وصول کرتے ہیں ان پر لازم ہے کہ سودی رقم غریبوں کو بلانیت ثواب دیدیں، اور اس مقصد کے لئے اگر مدرسہ والے لوگوں سے سودی رقم وصول کرکے مستحق لوگوں تک پہنچائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لہذا مدرسہ والے ان لوگوں سے سودی رقم لے کر غریب بچوں  کو دے سکتے ہیں یا  کھانے پینے کی چیزیں خریدکر غریب بچوں  میں  تقسیم کرسکتے ہیں ۔

قال ابن عابدین نقلاً عن النہایة: ویردونھا علی أربابھا إن عرفوھم، وإلا تصدقوا بھا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار: ۹/۴۷۰، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فيالبیع، ط، دار إحیاء التراث العربي، بیروت) وقال القرطبي: إن سبیل التوبة مما بیدہ من الأموال الحرام إن کانت من ربا فلیردہا علی من أربی علیہ، ویطلبہ إن لم یکن حاضرًا، فإن أیِسَ من وجودہ فلیتصدّق عنہ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی: ۳/۲۴۸، البقرة: ۲۷۶، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) وقال البنوري: قال شیخنا: ویُستفادُ من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہ: أن من ملک بملکٍ خبیثٍ، ولم یمکنہ الردُّ إلی المالک، فسبیلہ التصدق علی الفقراء - والظاہرُ أن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغَ ذمتہ ولا یرجو بہ المثوبة، نعم یرجوہا بالعمل بأمر الشارع، وکیف یرجو الثوابَ بمال حرام ویکفیہ أن یخلص منہ کفافًا رأسًا برأس (معارف السنن: ۱/۳۴، أبواب الطہارة، باب ما جاء لا تقبل صلاة بغیر طہور، ط: دار الکتاب، دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1091/42-280

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح ہوم لون لینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کیونکہ بینک سے حاصل شدہ سود کی رقم  وہ شخص لون کی وجہ سے لازم ہونے والے سود کی رقم میں ادا کررہا ہے اور بینک بھی ایک ہی ہے۔ البتہ اگر شدید مجبوری نہ ہو تو ہوم لون سے احتراز کرنا چاہئے۔ (نظام الفتاوی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 987/41-146

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سود کی رقم رفاہی کاموں میں استعمال کرنا درست نہیں ہے،۔ سود کا مصرف بھی وہی ہے جو زکوۃ کا ہے اور اس میں تملیک ضروری ہے ۔ اس لئے کسی مستحق  اور غریب کو سود کی رقم دیدی جائے ۔  

وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ  (شامی 6/385)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2460/45-3771

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  پینشن کی رسیدیں اور بینک کے چیک خریدنے سے کیا مراد ہے، اور خریداری کے بعد کمیشن لینے کا کیا مطلب ہے، یہ چیزیں سوال میں واضح نہیں ہیں، سائل پر لازم ہے کہ پہلے اس کاروبار کی مکمل تفصیل تحریر کرے، پھر تفصیلی جواب لکھاجائےگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 40/864

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کی اسکیم سے فائدہ اٹھانا درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس پر سود کی تعریف صادق آتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1198/42-491

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ادھار قسط وار بیع میں نقد ثمن کے مقابلہ میں زیادہ قیمت وصول کرنا درست ہے بشرط کہ عقد کے وقت ہی ایک معاملہ طے کرلیا جائے  اور قسط وار کی وجہ سے جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ سود نہیں ہے بلکہ قیمت کا ہی حصہ ہے۔ مذکورہ صورت میں اگر گاڑی کو فائنانس کے ذریعہ قسط وار خریدا اور فائنانس کا معاملہ براہ راست کمپنی سے ہے بینک سے نہیں ہے تو اس صورت میں قسط وار خریدنے کی یہ صورت درست ہے۔ البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطہ صحیح، یلزم ان تکون المدۃ معلومۃ فی البیع بالتاجیل والتقسیط (شرح المجلۃ، رقم المادۃ 245/246) والثمن ماتراضی علیہ المتعاقدان سواء زاد علی القیمۃ او نقص (ردالمحتار علی الدرالمختار: 1227، مطلب فی الفرق بین القیمۃ والثمن، ط زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 886 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کمیٹی میں کسی کو کم یا زیادہ رقم نہ ملے بلکہ صرف یہ مقصود ہو کہ ہر ایک کو اکٹھی رقم مل جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

 

سوال مذکور کا جواب دیا جاچکا ہے، فتوی نمبر 886 دیکھئے۔

Ref. No. 886 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کمیٹی میں کسی کو کم یا زیادہ رقم نہ ملے بلکہ صرف یہ مقصود ہو کہ ہر ایک کو اکٹھی رقم مل جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند