Frequently Asked Questions
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1694/43-1329
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرض کی ادائیگی میں اسی کرنسی کا اعتبار ہوگا جو کرنسی قرض میں دی تھی۔ جب دینے والے نے قرض میں ایرانی کرنسی دی تھی تو آپ بھی ایرانی کرنسی ہی واپس کردیں چاہے اس کی موجودہ حیثیت کم ہو یا زیادہ۔ البتہ اگر قرض کی ادائیگی کسی دوسری کرنسی سے کررہا ہے تو اس میں کرنسی کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا۔ اور قرض کی وصولی کے وقت مارکیٹ میں اس کرنسی کی جو قیمت ہوگی وہ اداکرنی ہوگی۔
هذا إذا كسدت وانقطعت أما إذا غلت قيمتها أو انتقضت فالبيع على حاله ولا يتخير المشتري، ويطالب بالنقد بذلك العيار الذي كان وقت البيع كذا في فتح القدير. وفي البزازية عن المنتقى غلت الفلوس أو رخصت فعند الإمام الأول والثاني، أولا ليس عليه غيرها، وقال: الثاني ثانيا عليه قيمتها من الدراهم يوم البيع والقبض وعليه الفتوى، وهكذا في الذخيرة - - - - - - - بقي هنا شيء وهو أنا قدمنا أنه على قول أبي يوسف المفتى به: لا فرق بين الكساد والانقطاع والرخص والغلاء في أنه تجب قيمتها يوم وقع البيع أو القرض إذا كانت فلوسا أو غالبة الغش، وإن كان فضة خالصة أو مغلوبة الغش تجب قيمتها من الذهب، يوم البيع على ما قاله الشارح، أو مثلها على ما بحثناه وهذا إذا اشترى بالريال أو الذهب، مما يراد نفسه، أما إذا اشترى بالقروش المراد بها ما يعم الكل كما قررناه، ثم رخص بعض أنواع العملة أو كلها واختلفت في الرخص، كما وقع مرارا في زماننا ففيه اشتباه فإنها إذا كانت غالبة الغش، وقلنا: تجب قيمتها يوم البيع، فهنا لا يمكن ذلك؛ لأنه ليس المراد بالقروش نوعا معينا من العملة حتى نوجب قيمته. (شامی، مطلب مھم فی احکام النقود اذاکسدت 4/537)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 39/1168
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیمہ کرانا ناجائز تھا لیکن اب اس رقم کو بیمہ کمپنی سے نکال لینا اور کسی غریب اور مستحق کو بلا نیت ثواب صدقہ کردینا لازم ہے ۔ اگر آپ خود صاحب نصاب نہیں ہیں ،مقروض بھی ہیں اوربیمہ کی رقم سے قرض کی ادائیگی چاہتے ہیں تو ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔ اور اگر قرض کی ادائیگی کے بعد بچ جائے تو آپ اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں، یا کسی اور مستحق کو بلا نیت ثواب صدقہ کردیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 40/805
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔سودی بنیاد پر لون لینا حرام ہے، اس سے اجتناب لازم ہے اور اس کے علاوہ کوئی اورجائز طریقہ اختیار کریں جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2160/44-2254
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں سودی لین دین پر لعنت وارد ہوئی ہے اور سخت وعید آئی ہے، اسلئے کاروبار کی ترقی کے لئے سودی لون لینے کی بالکل اجازت نہیں ہوگی۔ ہم مسلمانوں کو حدیث پر عمل کرتے ہوئے سودی قرض لینے اور دینے سے لازمی طور پر بچنا چاہئے ۔ دوسرے لوگ سودی لون سے بظاہر ترقی کرتے نظر آئیں گے مگر ہماری ترقی مال و دولت کی فراوانی میں نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں ہے۔ اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے جذبہ سے ہم سودی لین دین سے گریز کریں گے تو ان شاء اللہ ہمارے کاروبار میں برکت ہوگی اور پریشانیاں دور ہوں گی۔ جو کچھ آپ کے پاس ہے اسی میں محنت کیجئے، گراہک کے ساتھ نرم رویہ رکھئے، اور خوش خلقی کا مظاہرہ کیجئے۔ اور دھوکہ دہی سے گریز کیجئے۔
عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔
ولو أنھم آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکٰت من السماء والأرض الخ (سورة الأعراف،رقم الآیة:۹۶)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 40/1059
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وہ پیسے بعد میں آپ پورے واپس لے سکتے ہوں اور کمپنی اس میں سے کچھ بھی چارج نہ کرتی ہو تو پھر ان سہولیات کا استعمال درست نہیں ہوگا۔ اور اگر کچھ چارج کرے تو پھریہ سب درست ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2396/44-3626
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آر سی ایم (RCM)اور اس طرح کی دیگر تمام کمپنیاں جن میں چین سسٹم ہوتاہے، ان میں سرمایہ کاری اور تجارت ناجائز ہے، اس لئے کہ اس میں بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور ان میں ایسی شرطیں لگائی جاتی ہیں جو مقتضائے عقد کے خلاف ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر : اس میں خریداری کے لئے ممبر بننا شرط ہے جوکہ شرط فاسد ہے، اسی طرح ان کمپنیوں میں جُڑنے کا مقصد صرف ممبرسازی کو فروغ دینا ہوتاہے، لیکن اس کے ساتھ کوئی ایک متعین سامان لینا ضروری ہوتا ہے، اس سے کم یا زیادہ کا یا بالکل نہ لینے کا اختیار نہیں ہوتا ہے،نیز ہر سال تجدید ممبرسازی پر اجرت لی جاتی ہے ، ممبرسازی نہ کرنے کی صورت میں سامان سے زائد جمع شدہ رقم کو ضبط کرلیاجاتاہے وغیرہ وغیرہ ، یہ سارے امور اسلامی شریعت میں ناجائزہیں، اس وجہ سے اس طرح کی کسی کمپنی میں شرکت جائز نہیں ہے۔
وکل شرط لا یقتضیہ العقد وفیہ منفعة لأحد المتعاقدین أو للمعقود علیہ وهو من أهل الاستحقاق یفسدہ (هدایه: ۳/۵۹)
یٰاَیُّها الَّذِینَ آمَنُوْا لاَتَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلاَّ اَن تَکُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ (البقرة: ۱۸۸)
وشرطها (أي الإجارة) کون الأجرة والمنفعة معلومتین۔ ۔ ۔ ویعلم النفع ببیان المدّة کالسّکنی والزراعة مدّة کذا أيّ مدّة کانت وإن طالت (در مختار: ۹/۷، زکریا دیوبند)
یٰاَیُّها الَّذِینَ آمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالاَنصَابُ وَالاَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَo (المائدة:۹۰)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2629/45-4003
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح اپنی زمین گروی رکھ کر قرض لینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس معاملہ میں زمین والا مرتہن کو اس زمین میں تصرف کی اجازت دیتاہے حالانکہ یہ سود ہے۔ ہاں البتہ اگر زمین کا مالک زمین کا سودا کرے اور معاملہ کرتے وقت زمین واپس کرنے کی شرط نہ لگائے، بلکہ زمین کی قیمت وصول کرکے زمین کو خریدارکی ملکیت میں دیدے ، پھر جب زمین بیچنے والے شخص کے پاس زمین کی قیمت کے بقدر رقم آجائے اور وہ دوبارہ وہی زمین خریدلے تو اس کی اجازت ہوگی۔
’’وَنَماءُ الْرَّهنِ کَالوَلَدِ وَالْثَّمَرِ وَالْلَّبَنِ وَالصُوفِ والوَبرِ وَالاَرْشِ وَنَحوِ ذٰلکَ لِلْرَّاهنِ لِتَوَلُّدِه مِنْ مِلْکِه‘‘. (درمختار ج۵/ ص۳۳۵)
’’لاَ یَحِلُ لَه اَنْ یَنْتَفِعَ بِشَیٍٴ مِنه بِوَجْه مِنَ الْوُجُوه اِنْ اَذِنَ لَه الْرَّاهنُ لأنَّه أذِنَ لَه في الْرِبَوا‘‘. (شامی ج۵/ ص۳۱۰)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2338/44-3519
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سودی رقم کا اپنے استعمال میں لانا حرام ہے، اس لئے جو لوگ سودی رقم بینک سے وصول کرتے ہیں ان پر لازم ہے کہ سودی رقم غریبوں کو بلانیت ثواب دیدیں، اور اس مقصد کے لئے اگر مدرسہ والے لوگوں سے سودی رقم وصول کرکے مستحق لوگوں تک پہنچائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لہذا مدرسہ والے ان لوگوں سے سودی رقم لے کر غریب بچوں کو دے سکتے ہیں یا کھانے پینے کی چیزیں خریدکر غریب بچوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔
قال ابن عابدین نقلاً عن النہایة: ویردونھا علی أربابھا إن عرفوھم، وإلا تصدقوا بھا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار: ۹/۴۷۰، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فيالبیع، ط، دار إحیاء التراث العربي، بیروت) وقال القرطبي: إن سبیل التوبة مما بیدہ من الأموال الحرام إن کانت من ربا فلیردہا علی من أربی علیہ، ویطلبہ إن لم یکن حاضرًا، فإن أیِسَ من وجودہ فلیتصدّق عنہ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی: ۳/۲۴۸، البقرة: ۲۷۶، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) وقال البنوري: قال شیخنا: ویُستفادُ من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہ: أن من ملک بملکٍ خبیثٍ، ولم یمکنہ الردُّ إلی المالک، فسبیلہ التصدق علی الفقراء - والظاہرُ أن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغَ ذمتہ ولا یرجو بہ المثوبة، نعم یرجوہا بالعمل بأمر الشارع، وکیف یرجو الثوابَ بمال حرام ویکفیہ أن یخلص منہ کفافًا رأسًا برأس (معارف السنن: ۱/۳۴، أبواب الطہارة، باب ما جاء لا تقبل صلاة بغیر طہور، ط: دار الکتاب، دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1091/42-280
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح ہوم لون لینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کیونکہ بینک سے حاصل شدہ سود کی رقم وہ شخص لون کی وجہ سے لازم ہونے والے سود کی رقم میں ادا کررہا ہے اور بینک بھی ایک ہی ہے۔ البتہ اگر شدید مجبوری نہ ہو تو ہوم لون سے احتراز کرنا چاہئے۔ (نظام الفتاوی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 987/41-146
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سود کی رقم رفاہی کاموں میں استعمال کرنا درست نہیں ہے،۔ سود کا مصرف بھی وہی ہے جو زکوۃ کا ہے اور اس میں تملیک ضروری ہے ۔ اس لئے کسی مستحق اور غریب کو سود کی رقم دیدی جائے ۔
وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ (شامی 6/385)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند