Frequently Asked Questions
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2116/44-2142
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم کا کل ترکہ چھیانوے ( 96) حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے بارہ حصے مرحوم کی بیوی کو ، چودہ چودہ حصے ہر ایک بیٹے کو اور سات سات حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1440/42-901
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس عمر کی بچی کو قبرستان لے جانے میں کسی مفسدہ کا اندیشہ نہیں ہے، اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں۔ جوان عورتیں بہت سارے خرافات میں لگ جاتی ہیں اور صبروتحمل ان میں کم ہوتاہے اس لئے ان کو منع کیاجاتاہے۔
وإن کان للاعتبار والترحم من غیر بکاء والتبرک بزیارة قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز (شامي زکریا: ۳/۱۵۱)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1089/42-282
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آدمی اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا مالک ہے، اور خودمختار ہے۔ وراثت کی تقسیم مرنے کے بعد ہوتی ہے، تاہم اگر کوئی اپنی زندگی میں قرآنی اصول وراثت کے مطابق تقسیم کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے ، البتہ بہتر یہی ہے کہ سب میں برابر برابر تقسیم کرے۔ نیز اگر کوئی بیٹا یا بیٹی زیادہ ضرورتمند ہو تو اس کو زیادہ بھی دے سکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 39 / 0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: مہر کا مال عورت کی ملک ہے۔مرنے والے کی وصیت اس کے تہائی مال میں جاری ہوتی ہے۔ لہذا اس عورت کے مرنے کے بعداس کے ایک تہائی مال سے اس گود لئے بچے کی بیوی کو زیور بناکر دیدیاجائے اور بقیہ دو تہائی مال وارثوں کے درمیان بطور میراث تقسیم کرلیا جائے۔ میراث کی تقسیم کے لئے وارثین کی تفصیلات لکھ کر بھیجیں تواسکا جواب لکھاجائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2465/45-3778
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مرحوم کے بیٹے موجود ہیں تو پوتوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا، اور اگر میت کی کوئی مذکر اولاد نہیں ہے تو پھر پوتے بھی میراث کے مستحق ہوں گے۔ اب رہی یہ بات کہ کس کو کتنا ملے گا، اس کے لئے تمام ورثاء کی تفصیل مطلوب ہے مثلا والد کے انتقال کے وقت ان کی زوجہ باحیات تھیں یا نہیں، اولاد میں کتنے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، اور اگر بیٹے نہیں ہیں تو کتنے پوتے اور پوتیاں ہیں؟ تمام تفصیلات لکھ کر دوبارہ سوال کریں تاکہ صحیح تقسیم کے ساتھ جواب ارسال کیاجاسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 40/1099
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، حقوق متقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد کل ترکہ کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے۔ مرحوم کی بیوی کو64 میں سے آٹھ حصے، ہر ایک بیٹی کو سات سات، اور ہر ایک بیٹے کو چودہ چودہ حصے ملیں گے۔ لہذا بارہ لاکھ میں سےمرحوم کی بیوی کو ایک لاکھ پچاس ہزار (150000) ملیں گے، ہر ایک بیٹی کو ایک لاکھ اکتیس ہزار دو سو پچاس (131250) ملیں گے، اور ہر ایک بیٹے کو دو لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو روپئے (262500) ملیں گے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1325/42-708
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقف قبرستان کے بیچ سے عام راستہ نکالنا درست نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ قبریں نئی ہیں تو ان کو مسمار کرنا اور ان کو بلاوجہ شرعی زمین بوس کرکے برابر کردینا جائز نہیں ہے۔ البتہ جنازہ دوسری طرف لیجانے کے لئے اگر راستہ نہ ہوتو مردے کو قبرتک پہنچانے کےلیے بقدر ضرورت عارضی راستہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن خیال رہے کہ یہ عام راستہ نہیں ہوسکتاہے اور ضرورپڑنے پر تدفین کے کام میں اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ولو وجد طريقاً في المقبرة وهو يظن أنه طريق أحدثوا لا يمشي في ذلك وإن لم يقع ذلك في ضميره لا بأس بأن يمشي فيه (فتاوى قاضيخان (1/ 95) وفی السراج :فان لم یکن لہ طریق الاعلی القبر،جاز لہ المشی علیہ للضرورۃ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ص:620)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2638/45-4014
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انسان اپنی زندگی میں اپنی جائداد پر مکمل اختیار رکھتاہے، وہ جس کو چاہے جتنا چاہے دے سکتاہے، البتہ اگر اپنے مرنے کے بعد دینے کی وصیت کرتاہے تو صرف تہائی مال میں وصیت نافذ ہوگی ۔ صورت مسئولہ میں آپ اپنی زندگی میں اپنے بھتیجے و بھتیجی کو جو دینا چاہیں دے سکتے ہیں یا ایک تہائی مال یا اس سے کم کی وصیت بھی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں دیدیں تو زیادہ بہتر ہے اور اگر وصیت کرنا چاہیں تو ایک وصیت نامہ تحریر کردیں جس میں متعینہ رقم دینے کی صراحت کے ساتھ وصیت درج ہو۔ اسی طرح کسی مدرسہ یا مسجد یا کسی دینی کام کے لئے وصیت کرنا ہو تو اس کی بھی وصیت مع متعینہ رقم کے وصیت نامہ میں درج کردیں۔
آپ کے انتقال اور تجہیزوتکفین و دین کی ادائیگی کے بعد سب سے پہلے آپ کے تہائی مال سے وصیت کردہ رقم اداکی جائے گی، پھر جو کچھ بچے گا وہ آپ کی بیوی وبچوں میں اگر ان کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں ہے تو اس طرح تقسیم ہوگا کہ بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد مابقیہ لڑکے کو دوہرے اور لڑکیوں کو اکہرے کے حساب سے تقسیم کیاجائے گا؛ یعنی وصیت کی رقم اداکرنے کے بعد باقی مال کو 32 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے چار حصے بیوی کو، چودہ حصے بیٹے کو اور سات سات حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1002/41-000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال شرعی اعتبار سے، کل رقم 40 لاکھ کو 259200 حصوں میں تقسیم کریں گے۔
1. جن کے مطابق بیوی کو بیوی اور بیٹوں اور بیٹی کی ماں ہونے کے اعتبار سے کل 797499 روپئے دئے جائیں گے۔ اور پہلے بطن میں جو بیٹا زندہ ہے اس کو 700000 روپئے دئے جائیں گے۔ اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 350000 دئے جائیں گے۔
2. پھر بیٹی کے ورثہ میں دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو 97222 روپئے اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 48611 روپئے دئے جائیں گے۔
3. پھر پہلے بیٹے کے ورثہ میں سے اس کی بیوی کو 87500 روپئے، اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 245000 روپئے دئے جائیں گے۔
4. پھر دوسرے بیٹے کے ورثہ میں سے اس کی بیوی کو 87500 روپئے اور دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو 165277 روپئے دئے جائیں گے۔ اور اس کی دونوں بیٹیوں کو 82638 روپئے دئے جائیں گے۔
نوٹ: کل تقسیم شدہ روپئے ہوئے 3999995 اب باقی ماندہ پانچ روپئے کوباہمی اتفاق سے صدقہ کردیا جائے تو بہترہے۔
نوٹ: آئندہ وراثت کی تقسیم میں تمام ورثہ کا نام ضرور لکھیں تاکہ سمجھنے میں سہولت ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1569/43-1084
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نابالغ پر گرچہ کوئی عبادت فرض نہیں ہے لیکن اگر وہ عبادت کرتاہے تو اس کواس کا ثواب ملتاہے، جب اس کو ثواب ملتاہے تو ایصال ثواب بھی کرسکتاہے۔اس لئے نابالغ بچہ بھی اگر قرآن کی تلاوت کرکے ثواب مردوں کو(رشتہ دار واجنبی) پہونچا ئے تو اس کا یہ ایصال ثواب درست ہے اور اس سے مردوں کو فائدہ پہونچے گا۔
عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم لقي ركبا بالروحاء، فقال: «من القوم؟» قالوا: المسلمون، فقالوا: من أنت؟ قال: «رسول الله»، فرفعت إليه امرأة صبيا، فقالت: ألهذا حج؟ قال: «نعم، ولك أجر»(صحیح مسلم کتاب الحج ،باب صحۃ حج الصبی واجر من حج بہ 2/974)
’ان المراد ان ذلك بسبب حملها له وتجنيبها اياه ما يجتنبہ المحرم واستدل به بعضهم على ان الصبي يثاب على طاعته ويكتب له حسناته وهو قول اكثر اهل العلم (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج7،ص553،مطبوعہ ملتان)
وتصح عباداته وان لم تجب عليه واختلفوا في ثوابها والمعتمد انه له وللمعلم ثواب التعليم وكذا جميع حسناته‘‘(الاشباہ والنظائر،ص264،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت) الاصل فی ھذا الباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره) يعني سواء كان جعل ثواب عمله لغيره(صلاةاو صوما او صدقة او غيرها)كالحج وقراءة القران والاذكار وزيارة قبور الانبياءوالشهداء والاولياءوالصالحين وتكفين الموتى وجميع انواع البر (البنایہ شرح ھدایہ،کتاب الحج ،باب الحج عن الغیر،ج4،ص422،مطبوعہ کوئٹہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند