احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2638/45-4014

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  انسان اپنی زندگی میں اپنی جائداد پر مکمل اختیار رکھتاہے، وہ جس کو چاہے جتنا چاہے دے سکتاہے، البتہ اگر اپنے مرنے کے بعد دینے کی وصیت کرتاہے تو صرف تہائی مال میں وصیت نافذ ہوگی ۔ صورت مسئولہ میں آپ اپنی زندگی میں اپنے بھتیجے و بھتیجی کو جو دینا چاہیں دے سکتے ہیں یا ایک تہائی مال یا اس سے کم کی وصیت  بھی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں دیدیں تو زیادہ بہتر ہے اور اگر وصیت کرنا چاہیں تو  ایک وصیت نامہ تحریر کردیں جس میں متعینہ رقم دینے کی صراحت کے ساتھ وصیت درج ہو۔ اسی طرح کسی مدرسہ یا مسجد یا کسی دینی کام کے لئے وصیت کرنا ہو تو اس کی بھی وصیت مع متعینہ رقم کے وصیت نامہ میں درج کردیں۔

آپ کے انتقال  اور تجہیزوتکفین و دین کی ادائیگی کے بعد سب سے پہلے آپ کے تہائی مال سے وصیت کردہ رقم  اداکی جائے گی، پھر جو کچھ بچے گا وہ   آپ کی بیوی وبچوں میں اگر ان کے علاوہ  کوئی اور وارث نہیں ہے تو  اس طرح تقسیم ہوگا کہ بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد مابقیہ لڑکے کو دوہرے اور لڑکیوں کو اکہرے کے حساب سے تقسیم کیاجائے گا؛ یعنی وصیت کی رقم اداکرنے کے بعد باقی مال کو 32 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے چار حصے بیوی کو، چودہ  حصے بیٹے کو اور سات سات حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1002/41-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال شرعی اعتبار سے، کل رقم 40 لاکھ کو 259200 حصوں میں تقسیم کریں گے۔

1.       جن کے مطابق بیوی کو بیوی اور بیٹوں اور بیٹی کی ماں ہونے کے اعتبار سے کل 797499 روپئے دئے جائیں گے۔ اور پہلے بطن میں جو بیٹا زندہ ہے اس کو 700000 روپئے دئے جائیں گے۔ اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک  کو 350000 دئے جائیں گے۔

2.      پھر بیٹی کے ورثہ میں دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو 97222 روپئے اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 48611 روپئے دئے جائیں گے۔

3.      پھر پہلے بیٹے کے ورثہ میں سے اس کی بیوی کو 87500 روپئے، اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 245000 روپئے دئے جائیں گے۔

4.      پھر دوسرے بیٹے کے ورثہ میں سے  اس کی بیوی کو 87500 روپئے اور دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو 165277 روپئے دئے جائیں گے۔ اور اس کی دونوں بیٹیوں کو 82638 روپئے دئے جائیں گے۔

نوٹ:  کل تقسیم شدہ روپئے ہوئے 3999995 اب باقی ماندہ پانچ روپئے  کوباہمی اتفاق سے صدقہ کردیا جائے تو بہترہے۔

نوٹ: آئندہ وراثت کی تقسیم میں تمام  ورثہ کا نام ضرور لکھیں تاکہ سمجھنے میں سہولت ہو۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1569/43-1084

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نابالغ پر گرچہ کوئی عبادت فرض نہیں ہے لیکن  اگر وہ عبادت کرتاہے تو اس کواس کا ثواب ملتاہے، جب اس کو ثواب ملتاہے تو ایصال ثواب بھی کرسکتاہے۔اس لئے نابالغ بچہ بھی اگر قرآن کی تلاوت کرکے ثواب مردوں کو(رشتہ دار واجنبی) پہونچا ئے تو اس  کا یہ ایصال ثواب درست ہے اور اس سے مردوں کو فائدہ پہونچے گا۔

عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم لقي ركبا بالروحاء، فقال: «من القوم؟» قالوا: المسلمون، فقالوا: من أنت؟ قال: «رسول الله»، فرفعت إليه امرأة صبيا، فقالت: ألهذا حج؟ قال: «نعم، ولك أجر»(صحیح مسلم کتاب الحج ،باب صحۃ حج الصبی واجر من حج بہ 2/974)

ان المراد ان ذلك بسبب حملها له وتجنيبها اياه ما يجتنبہ المحرم واستدل به بعضهم على ان الصبي يثاب على طاعته ويكتب له حسناته وهو قول اكثر اهل العلم (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج7،ص553،مطبوعہ ملتان)

وتصح عباداته وان لم تجب عليه واختلفوا في ثوابها والمعتمد انه له وللمعلم ثواب التعليم وكذا جميع حسناته‘‘(الاشباہ والنظائر،ص264،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت) الاصل فی ھذا الباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره) يعني سواء كان جعل ثواب عمله لغيره(صلاةاو صوما او صدقة او غيرها)كالحج وقراءة القران والاذكار وزيارة قبور الانبياءوالشهداء والاولياءوالصالحين وتكفين الموتى وجميع انواع البر (البنایہ شرح ھدایہ،کتاب الحج ،باب الحج عن الغیر،ج4،ص422،مطبوعہ کوئٹہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1843/43-1662

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی کے انتقال کے وقت جو کچھ اس کی ملکیت میں تھا نقد یا ادھار،  سب میں وراثت جاری ہوگی۔ شوہر پر لازم ہے کہ مہر کی رقم بیوی کے ترکہ میں شامل کرے۔ بیوی کے کل مال بشمول مالِ مہر کو 15 حصوں میں تقسیم کریں  گے جن میں سے تین حصے مرحومہ کے شوہر کو، چار چار حصے ہر ایک بیٹی کو، دو دو حصے والدین میں سے ہر ایک کو ملیں گے۔  تقسیم کے بعد والدین اپنا حصہ جس کو چاہیں دیدیں یا مسجد ومدرسہ میں صدقہ کردیں، یہ ان کی صوابدید پر ہے۔ اگر موروثین میں سے کوئی کمزورہے تو اس کی مدد کرنا زیادہ بہتر ہے۔

 مسئلہ کی تخریج حسب ذیل ہے:   مسئلہ ۱۲      ؀۱۵

 زوج ----- بنت  -----  بنت ------ اب --------  ام

 ۳ ------ ۴  ------  ۴   ------  ۲  ------ ۲

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1343/42-716

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داماماد محرم ہے، داماد اور ساس میں حرمت مؤبدہ ہے، جو شخص ایک بار داماد بن گیا ، اس کا ساس سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتاہے چاہے اس ساس کی بیٹی زندہ ہو یا نہ ہو۔  اور جن لوگوں سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے ان سے پردہ نہیں ہے۔ اس لئے داماد اپنی ساس سے (بیوی کے انتقال کے بعد بھی ) ملاقات کرسکتا ہے۔داماد کا ساس سے  لوگوں کا پردہ کرانا غلط ہے۔  البتہ اگر دونوں جوان ہوں اور فتنہ کا اندیشہ ہوتو فقہاء نے احتیاطا داماد کو ساس سے ملنے سے منع کیا ہے۔

اسباب التحریم انواع قرابۃ مصاھرۃ ....... الخ (شامی 3/38) وإن كانت الصهرة شابة فللجيران أن يمنعوها منه إذا خافوا عليهما الفتنة .   (شامی :9/530، ط. زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2640/45-4044

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر ماں کے کہنے پر دیگر لوگوں کے اتفاق رائے سے بھائیوں نے اپنی بہنوں کے نکاح پر خرچ کیا ہے تو میراث کی تقسیم میں پہلے قرض کی رقم ادا کی جائے گی اور پھر شرعی حساب سے  میراث کی تقسیم عمل میں آئے گی۔

تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل ترکہ کا آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کو ملے گا پھر باقی کو اولاد میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ ملے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 37/1191

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں باپ نے اپنی زندگی میں جو جائداد جس کو دے کر مالک بنادیا وہ اس کی ہوگئی ، اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔  بہن کا مذکورہ مطالبہ درست نہیں ہے۔ تاہم اگر بہن ضرورتمند ہو تو بھائی کو اس کا خیال رکھنا چاہئے، ایک دوسرے کی مدد کرنا بڑی نیکی کی بات ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2043/44-2136

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحومہ نے جو کچھ زمین و جائداد و روپیہ پیسہ چھوڑا ہے،  اس کو کل بیس (20) حصوں میں تقسیم کریں، جن میں سے پانچ حصے مرحومہ کے شوہرکو ، چھ 6 حصے ہر ایک بیٹے کو اور تین حصے بیٹی کو ملیں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 919/41-37

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ زمین جو باپ نے چھوڑی ہے، اگر اس کے علاوہ بھی کوئی مال ہو تو تمام  مال و جائداد کو جمع کر کے سب میں تقسیم کیاجائے گا۔ اگر صرف یہی زمین ہے جس کا معاوضہ پچاس لاکھ ملنے والا ہے تو اس  رقم کو تمام ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا اور بیٹی کو بھی حصہ ملے گا جیسے بیٹوں کو ملے گا۔ فقہ اسلامی کے اعتبار سے پوری جائداد میں سے ماں کو آٹھواں حصہ دے کر باقی سات حصے اولاد میں اس طرح تقسیم ہوں گے کہ بیٹی کو اکہرا اور بیٹوں کو دوہرا حصہ ملےگا۔ اب کل پچاس لاکھ میں سے مرحوم کی بیوی کو چھ لاکھ پچیس ہزار (625000)اور بیٹی کو چار لاکھ چھیاسی ہزار ایکسو گیارہ (486111)، اور ہر ایک بیٹے کو نو لاکھ بہتر ہزار دو سو بائیس (972222) روپئے حصہ میں ملیں گے۔ بیٹی  کو شریعت نے  حصہ دار بنایا ہے، والد وصیت کرے یا نہ کرے اس کو شریعت کا متعین کردہ حصہ ضرور ملے گا، اگر اس کے بھائیوں نے اپنی بہن کو حصہ نہیں دیا تو گنہگار ہوں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1951/44-1857

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کی موت کے بعد اسکی بیوی کو سرکار کی جانب سے بطور تبرع ملنے والی پینشن خاص بیوی کے لئے ہی  ہوتی ہے، اس میں دیگر لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے، اس لئے آپ کی والدہ اس مال کی مکمل مالک ہیں، وہ جیسے چاہیں تصرف کریں، اور جس کو چاہیں جتنا دیدیں، یہ ان کا اپنا اختیار ہے۔ ان پر کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہئے۔

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم." (بدائع الصنائع، (کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود جلد ۷ ص : ۵۷ ط : دار الکتب العلمیة) "لأن ‌الملك ‌ما ‌من ‌شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص."( فتاوی شامی، (کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۵۱ ط : دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند