Frequently Asked Questions
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2465/45-3778
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مرحوم کے بیٹے موجود ہیں تو پوتوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا، اور اگر میت کی کوئی مذکر اولاد نہیں ہے تو پھر پوتے بھی میراث کے مستحق ہوں گے۔ اب رہی یہ بات کہ کس کو کتنا ملے گا، اس کے لئے تمام ورثاء کی تفصیل مطلوب ہے مثلا والد کے انتقال کے وقت ان کی زوجہ باحیات تھیں یا نہیں، اولاد میں کتنے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، اور اگر بیٹے نہیں ہیں تو کتنے پوتے اور پوتیاں ہیں؟ تمام تفصیلات لکھ کر دوبارہ سوال کریں تاکہ صحیح تقسیم کے ساتھ جواب ارسال کیاجاسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 40/1099
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، حقوق متقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد کل ترکہ کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے۔ مرحوم کی بیوی کو64 میں سے آٹھ حصے، ہر ایک بیٹی کو سات سات، اور ہر ایک بیٹے کو چودہ چودہ حصے ملیں گے۔ لہذا بارہ لاکھ میں سےمرحوم کی بیوی کو ایک لاکھ پچاس ہزار (150000) ملیں گے، ہر ایک بیٹی کو ایک لاکھ اکتیس ہزار دو سو پچاس (131250) ملیں گے، اور ہر ایک بیٹے کو دو لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو روپئے (262500) ملیں گے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1325/42-708
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقف قبرستان کے بیچ سے عام راستہ نکالنا درست نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ قبریں نئی ہیں تو ان کو مسمار کرنا اور ان کو بلاوجہ شرعی زمین بوس کرکے برابر کردینا جائز نہیں ہے۔ البتہ جنازہ دوسری طرف لیجانے کے لئے اگر راستہ نہ ہوتو مردے کو قبرتک پہنچانے کےلیے بقدر ضرورت عارضی راستہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن خیال رہے کہ یہ عام راستہ نہیں ہوسکتاہے اور ضرورپڑنے پر تدفین کے کام میں اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ولو وجد طريقاً في المقبرة وهو يظن أنه طريق أحدثوا لا يمشي في ذلك وإن لم يقع ذلك في ضميره لا بأس بأن يمشي فيه (فتاوى قاضيخان (1/ 95) وفی السراج :فان لم یکن لہ طریق الاعلی القبر،جاز لہ المشی علیہ للضرورۃ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ص:620)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2638/45-4014
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انسان اپنی زندگی میں اپنی جائداد پر مکمل اختیار رکھتاہے، وہ جس کو چاہے جتنا چاہے دے سکتاہے، البتہ اگر اپنے مرنے کے بعد دینے کی وصیت کرتاہے تو صرف تہائی مال میں وصیت نافذ ہوگی ۔ صورت مسئولہ میں آپ اپنی زندگی میں اپنے بھتیجے و بھتیجی کو جو دینا چاہیں دے سکتے ہیں یا ایک تہائی مال یا اس سے کم کی وصیت بھی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں دیدیں تو زیادہ بہتر ہے اور اگر وصیت کرنا چاہیں تو ایک وصیت نامہ تحریر کردیں جس میں متعینہ رقم دینے کی صراحت کے ساتھ وصیت درج ہو۔ اسی طرح کسی مدرسہ یا مسجد یا کسی دینی کام کے لئے وصیت کرنا ہو تو اس کی بھی وصیت مع متعینہ رقم کے وصیت نامہ میں درج کردیں۔
آپ کے انتقال اور تجہیزوتکفین و دین کی ادائیگی کے بعد سب سے پہلے آپ کے تہائی مال سے وصیت کردہ رقم اداکی جائے گی، پھر جو کچھ بچے گا وہ آپ کی بیوی وبچوں میں اگر ان کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں ہے تو اس طرح تقسیم ہوگا کہ بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد مابقیہ لڑکے کو دوہرے اور لڑکیوں کو اکہرے کے حساب سے تقسیم کیاجائے گا؛ یعنی وصیت کی رقم اداکرنے کے بعد باقی مال کو 32 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے چار حصے بیوی کو، چودہ حصے بیٹے کو اور سات سات حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1002/41-000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال شرعی اعتبار سے، کل رقم 40 لاکھ کو 259200 حصوں میں تقسیم کریں گے۔
1. جن کے مطابق بیوی کو بیوی اور بیٹوں اور بیٹی کی ماں ہونے کے اعتبار سے کل 797499 روپئے دئے جائیں گے۔ اور پہلے بطن میں جو بیٹا زندہ ہے اس کو 700000 روپئے دئے جائیں گے۔ اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 350000 دئے جائیں گے۔
2. پھر بیٹی کے ورثہ میں دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو 97222 روپئے اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 48611 روپئے دئے جائیں گے۔
3. پھر پہلے بیٹے کے ورثہ میں سے اس کی بیوی کو 87500 روپئے، اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 245000 روپئے دئے جائیں گے۔
4. پھر دوسرے بیٹے کے ورثہ میں سے اس کی بیوی کو 87500 روپئے اور دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو 165277 روپئے دئے جائیں گے۔ اور اس کی دونوں بیٹیوں کو 82638 روپئے دئے جائیں گے۔
نوٹ: کل تقسیم شدہ روپئے ہوئے 3999995 اب باقی ماندہ پانچ روپئے کوباہمی اتفاق سے صدقہ کردیا جائے تو بہترہے۔
نوٹ: آئندہ وراثت کی تقسیم میں تمام ورثہ کا نام ضرور لکھیں تاکہ سمجھنے میں سہولت ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1569/43-1084
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نابالغ پر گرچہ کوئی عبادت فرض نہیں ہے لیکن اگر وہ عبادت کرتاہے تو اس کواس کا ثواب ملتاہے، جب اس کو ثواب ملتاہے تو ایصال ثواب بھی کرسکتاہے۔اس لئے نابالغ بچہ بھی اگر قرآن کی تلاوت کرکے ثواب مردوں کو(رشتہ دار واجنبی) پہونچا ئے تو اس کا یہ ایصال ثواب درست ہے اور اس سے مردوں کو فائدہ پہونچے گا۔
عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم لقي ركبا بالروحاء، فقال: «من القوم؟» قالوا: المسلمون، فقالوا: من أنت؟ قال: «رسول الله»، فرفعت إليه امرأة صبيا، فقالت: ألهذا حج؟ قال: «نعم، ولك أجر»(صحیح مسلم کتاب الحج ،باب صحۃ حج الصبی واجر من حج بہ 2/974)
’ان المراد ان ذلك بسبب حملها له وتجنيبها اياه ما يجتنبہ المحرم واستدل به بعضهم على ان الصبي يثاب على طاعته ويكتب له حسناته وهو قول اكثر اهل العلم (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج7،ص553،مطبوعہ ملتان)
وتصح عباداته وان لم تجب عليه واختلفوا في ثوابها والمعتمد انه له وللمعلم ثواب التعليم وكذا جميع حسناته‘‘(الاشباہ والنظائر،ص264،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت) الاصل فی ھذا الباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره) يعني سواء كان جعل ثواب عمله لغيره(صلاةاو صوما او صدقة او غيرها)كالحج وقراءة القران والاذكار وزيارة قبور الانبياءوالشهداء والاولياءوالصالحين وتكفين الموتى وجميع انواع البر (البنایہ شرح ھدایہ،کتاب الحج ،باب الحج عن الغیر،ج4،ص422،مطبوعہ کوئٹہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1843/43-1662
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی کے انتقال کے وقت جو کچھ اس کی ملکیت میں تھا نقد یا ادھار، سب میں وراثت جاری ہوگی۔ شوہر پر لازم ہے کہ مہر کی رقم بیوی کے ترکہ میں شامل کرے۔ بیوی کے کل مال بشمول مالِ مہر کو 15 حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے تین حصے مرحومہ کے شوہر کو، چار چار حصے ہر ایک بیٹی کو، دو دو حصے والدین میں سے ہر ایک کو ملیں گے۔ تقسیم کے بعد والدین اپنا حصہ جس کو چاہیں دیدیں یا مسجد ومدرسہ میں صدقہ کردیں، یہ ان کی صوابدید پر ہے۔ اگر موروثین میں سے کوئی کمزورہے تو اس کی مدد کرنا زیادہ بہتر ہے۔
مسئلہ کی تخریج حسب ذیل ہے: مسئلہ ۱۲ ۱۵
زوج ----- بنت ----- بنت ------ اب -------- ام
۳ ------ ۴ ------ ۴ ------ ۲ ------ ۲
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1343/42-716
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داماماد محرم ہے، داماد اور ساس میں حرمت مؤبدہ ہے، جو شخص ایک بار داماد بن گیا ، اس کا ساس سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتاہے چاہے اس ساس کی بیٹی زندہ ہو یا نہ ہو۔ اور جن لوگوں سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے ان سے پردہ نہیں ہے۔ اس لئے داماد اپنی ساس سے (بیوی کے انتقال کے بعد بھی ) ملاقات کرسکتا ہے۔داماد کا ساس سے لوگوں کا پردہ کرانا غلط ہے۔ البتہ اگر دونوں جوان ہوں اور فتنہ کا اندیشہ ہوتو فقہاء نے احتیاطا داماد کو ساس سے ملنے سے منع کیا ہے۔
اسباب التحریم انواع قرابۃ مصاھرۃ ....... الخ (شامی 3/38) وإن كانت الصهرة شابة فللجيران أن يمنعوها منه إذا خافوا عليهما الفتنة . (شامی :9/530، ط. زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2640/45-4044
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ماں کے کہنے پر دیگر لوگوں کے اتفاق رائے سے بھائیوں نے اپنی بہنوں کے نکاح پر خرچ کیا ہے تو میراث کی تقسیم میں پہلے قرض کی رقم ادا کی جائے گی اور پھر شرعی حساب سے میراث کی تقسیم عمل میں آئے گی۔
تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل ترکہ کا آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کو ملے گا پھر باقی کو اولاد میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ ملے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 37/1191
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں باپ نے اپنی زندگی میں جو جائداد جس کو دے کر مالک بنادیا وہ اس کی ہوگئی ، اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔ بہن کا مذکورہ مطالبہ درست نہیں ہے۔ تاہم اگر بہن ضرورتمند ہو تو بھائی کو اس کا خیال رکھنا چاہئے، ایک دوسرے کی مدد کرنا بڑی نیکی کی بات ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند