Frequently Asked Questions
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1843/43-1662
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی کے انتقال کے وقت جو کچھ اس کی ملکیت میں تھا نقد یا ادھار، سب میں وراثت جاری ہوگی۔ شوہر پر لازم ہے کہ مہر کی رقم بیوی کے ترکہ میں شامل کرے۔ بیوی کے کل مال بشمول مالِ مہر کو 15 حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے تین حصے مرحومہ کے شوہر کو، چار چار حصے ہر ایک بیٹی کو، دو دو حصے والدین میں سے ہر ایک کو ملیں گے۔ تقسیم کے بعد والدین اپنا حصہ جس کو چاہیں دیدیں یا مسجد ومدرسہ میں صدقہ کردیں، یہ ان کی صوابدید پر ہے۔ اگر موروثین میں سے کوئی کمزورہے تو اس کی مدد کرنا زیادہ بہتر ہے۔
مسئلہ کی تخریج حسب ذیل ہے: مسئلہ ۱۲ ۱۵
زوج ----- بنت ----- بنت ------ اب -------- ام
۳ ------ ۴ ------ ۴ ------ ۲ ------ ۲
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1343/42-716
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داماماد محرم ہے، داماد اور ساس میں حرمت مؤبدہ ہے، جو شخص ایک بار داماد بن گیا ، اس کا ساس سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتاہے چاہے اس ساس کی بیٹی زندہ ہو یا نہ ہو۔ اور جن لوگوں سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے ان سے پردہ نہیں ہے۔ اس لئے داماد اپنی ساس سے (بیوی کے انتقال کے بعد بھی ) ملاقات کرسکتا ہے۔داماد کا ساس سے لوگوں کا پردہ کرانا غلط ہے۔ البتہ اگر دونوں جوان ہوں اور فتنہ کا اندیشہ ہوتو فقہاء نے احتیاطا داماد کو ساس سے ملنے سے منع کیا ہے۔
اسباب التحریم انواع قرابۃ مصاھرۃ ....... الخ (شامی 3/38) وإن كانت الصهرة شابة فللجيران أن يمنعوها منه إذا خافوا عليهما الفتنة . (شامی :9/530، ط. زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2640/45-4044
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ماں کے کہنے پر دیگر لوگوں کے اتفاق رائے سے بھائیوں نے اپنی بہنوں کے نکاح پر خرچ کیا ہے تو میراث کی تقسیم میں پہلے قرض کی رقم ادا کی جائے گی اور پھر شرعی حساب سے میراث کی تقسیم عمل میں آئے گی۔
تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل ترکہ کا آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کو ملے گا پھر باقی کو اولاد میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ ملے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 37/1191
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں باپ نے اپنی زندگی میں جو جائداد جس کو دے کر مالک بنادیا وہ اس کی ہوگئی ، اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔ بہن کا مذکورہ مطالبہ درست نہیں ہے۔ تاہم اگر بہن ضرورتمند ہو تو بھائی کو اس کا خیال رکھنا چاہئے، ایک دوسرے کی مدد کرنا بڑی نیکی کی بات ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2043/44-2136
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحومہ نے جو کچھ زمین و جائداد و روپیہ پیسہ چھوڑا ہے، اس کو کل بیس (20) حصوں میں تقسیم کریں، جن میں سے پانچ حصے مرحومہ کے شوہرکو ، چھ 6 حصے ہر ایک بیٹے کو اور تین حصے بیٹی کو ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 919/41-37
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ زمین جو باپ نے چھوڑی ہے، اگر اس کے علاوہ بھی کوئی مال ہو تو تمام مال و جائداد کو جمع کر کے سب میں تقسیم کیاجائے گا۔ اگر صرف یہی زمین ہے جس کا معاوضہ پچاس لاکھ ملنے والا ہے تو اس رقم کو تمام ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا اور بیٹی کو بھی حصہ ملے گا جیسے بیٹوں کو ملے گا۔ فقہ اسلامی کے اعتبار سے پوری جائداد میں سے ماں کو آٹھواں حصہ دے کر باقی سات حصے اولاد میں اس طرح تقسیم ہوں گے کہ بیٹی کو اکہرا اور بیٹوں کو دوہرا حصہ ملےگا۔ اب کل پچاس لاکھ میں سے مرحوم کی بیوی کو چھ لاکھ پچیس ہزار (625000)اور بیٹی کو چار لاکھ چھیاسی ہزار ایکسو گیارہ (486111)، اور ہر ایک بیٹے کو نو لاکھ بہتر ہزار دو سو بائیس (972222) روپئے حصہ میں ملیں گے۔ بیٹی کو شریعت نے حصہ دار بنایا ہے، والد وصیت کرے یا نہ کرے اس کو شریعت کا متعین کردہ حصہ ضرور ملے گا، اگر اس کے بھائیوں نے اپنی بہن کو حصہ نہیں دیا تو گنہگار ہوں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1951/44-1857
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کی موت کے بعد اسکی بیوی کو سرکار کی جانب سے بطور تبرع ملنے والی پینشن خاص بیوی کے لئے ہی ہوتی ہے، اس میں دیگر لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے، اس لئے آپ کی والدہ اس مال کی مکمل مالک ہیں، وہ جیسے چاہیں تصرف کریں، اور جس کو چاہیں جتنا دیدیں، یہ ان کا اپنا اختیار ہے۔ ان پر کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہئے۔
"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم." (بدائع الصنائع، (کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود جلد ۷ ص : ۵۷ ط : دار الکتب العلمیة) "لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص."( فتاوی شامی، (کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۵۱ ط : دارالفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2316/44-3468
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال غیرواضح ہے، والد کے بھائی کتنے تھے، ان کے نام اور سن وفات، تمام بھائیوں کی اولاد اور ان کے نام وغیرہ تفصیل کے ساتھ لکھ کر دوبارہ بھیجیں تاکہ جواب دیاجاسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1060 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں آپ کے بھائیوں کا اس دوکان میں جس کو آپ کی والدہ نے آپ کی ملکیت میں دیدیا تھا کوئی حصہ نہیں ہے۔تاہم اگر وہ ضرورت مند ہیں تو بطور صلہ رحمی ان کو اپنی گنجائش کے بقدر کچھ دیدیں تو کارثواب ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند