احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2043/44-2136

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحومہ نے جو کچھ زمین و جائداد و روپیہ پیسہ چھوڑا ہے،  اس کو کل بیس (20) حصوں میں تقسیم کریں، جن میں سے پانچ حصے مرحومہ کے شوہرکو ، چھ 6 حصے ہر ایک بیٹے کو اور تین حصے بیٹی کو ملیں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 919/41-37

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ زمین جو باپ نے چھوڑی ہے، اگر اس کے علاوہ بھی کوئی مال ہو تو تمام  مال و جائداد کو جمع کر کے سب میں تقسیم کیاجائے گا۔ اگر صرف یہی زمین ہے جس کا معاوضہ پچاس لاکھ ملنے والا ہے تو اس  رقم کو تمام ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا اور بیٹی کو بھی حصہ ملے گا جیسے بیٹوں کو ملے گا۔ فقہ اسلامی کے اعتبار سے پوری جائداد میں سے ماں کو آٹھواں حصہ دے کر باقی سات حصے اولاد میں اس طرح تقسیم ہوں گے کہ بیٹی کو اکہرا اور بیٹوں کو دوہرا حصہ ملےگا۔ اب کل پچاس لاکھ میں سے مرحوم کی بیوی کو چھ لاکھ پچیس ہزار (625000)اور بیٹی کو چار لاکھ چھیاسی ہزار ایکسو گیارہ (486111)، اور ہر ایک بیٹے کو نو لاکھ بہتر ہزار دو سو بائیس (972222) روپئے حصہ میں ملیں گے۔ بیٹی  کو شریعت نے  حصہ دار بنایا ہے، والد وصیت کرے یا نہ کرے اس کو شریعت کا متعین کردہ حصہ ضرور ملے گا، اگر اس کے بھائیوں نے اپنی بہن کو حصہ نہیں دیا تو گنہگار ہوں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1951/44-1857

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کی موت کے بعد اسکی بیوی کو سرکار کی جانب سے بطور تبرع ملنے والی پینشن خاص بیوی کے لئے ہی  ہوتی ہے، اس میں دیگر لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے، اس لئے آپ کی والدہ اس مال کی مکمل مالک ہیں، وہ جیسے چاہیں تصرف کریں، اور جس کو چاہیں جتنا دیدیں، یہ ان کا اپنا اختیار ہے۔ ان پر کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہئے۔

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم." (بدائع الصنائع، (کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود جلد ۷ ص : ۵۷ ط : دار الکتب العلمیة) "لأن ‌الملك ‌ما ‌من ‌شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص."( فتاوی شامی، (کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۵۱ ط : دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت
زید کی راشدہ سے چار ماہ قبل شادی ہوءی۔ شادی سے پہلے راشدہ کے بینک اکاونٹ میں ۵ لاکھ روپءے تھے۔ ابھی راشدہ کا اکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ گاڑی وغیرہ کا انشورنس تھا۔ اب انشورنس میں تقریبا دس لاکھ روپءے مل رہے ہیں۔ زید کہتا ہے کہ وہ پیسے میرے ہیں جبکہ لڑکی کے والدین کہتے ہیں کہ وہ پیسے میرے ہیں۔ آپ شریعت کی روشنی میں فیصلہ فرماءیں کہ شادی سے پہلے سے جو ۵ لاکھ روپءے اس کی ملکیت میں چلے آرہے تھے اس کا مالک کون ہے اور اس انشورنس رقم کا مالک کون ہے؟ والسلام اختر ممبءی

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2316/44-3468

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال غیرواضح ہے، والد کے بھائی کتنے تھے، ان کے نام اور سن وفات، تمام بھائیوں کی اولاد اور ان کے نام وغیرہ  تفصیل کے ساتھ لکھ کر دوبارہ بھیجیں تاکہ جواب دیاجاسکے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1060 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں آپ کے بھائیوں کا اس دوکان میں جس کو آپ کی والدہ نے آپ کی ملکیت میں دیدیا تھا کوئی حصہ نہیں ہے۔تاہم  اگر وہ ضرورت مند ہیں تو بطور صلہ رحمی ان  کو اپنی گنجائش کے بقدر کچھ دیدیں تو کارثواب ہوگا۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1353/42-753

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد صاحب کی  شہرسے باہر دوسرے قبرستان میں دفن کرنے کے وصیت  شرعا درست نہیں ہے۔ اس لئے ورثہ کا  ان کی اس وصیت  پرعمل  نہ کرنا جائز اور درست ہے۔ اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔

ولو أوصى بأن يحمل بعد موته إلى موضع كذا ويدفن هناك ويبنى هناك رباطا من ثلث ماله فمات ولم يحمل إلى ذلك الموضع قال أبو القاسم: وصيته بالرباط جائزة ووصيته بالحمل باطلة، ولو حمله الوصي يضمن ما أنفق في الحمل إذا حمله الوصي بغير إذن الورثة، وإن حمل بإذن الورثة لا يضمن (الفتاوی الھندیۃ ، الباب الثانی فی بیان الالفاظ التی تکون 6/95)

(قوله ولا بأس بنقله قبل دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر، وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين لأن مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد. قال في النهر عن عقد الفرائد: وهو الظاهر اهـ وأما نقله بعد دفنه فلا مطلقا(درمختار، فروع فی الجنائز 2/239)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1057 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ راشدہ کے انتقال کے وقت جو کچھ بھی  اس کی ملکیت میں تھا  چاہے وہ بینک میں شادی سے پہلے یا بعد میں  جمع شدہ رقم ہو یا کسی کمپنی میں لگائی گئی رقم ہو سب میں وراثت جاری ہوگی اور شوہر اور لڑکی کے والدین سب کا حصہ ہوگا۔  انشورنس کرانا چونکہ ناجائز ہے اس لئے مرحومہ نے جس قدر مال انشورنس کمپنی کو دیا تھا صرف اس قدر مال  وراثت میں تقسیم ہوگا اور جو زائد رقم انشورنس کمپنی دے رہی ہے وہ حرام مال ہے اس کو بلا نیت ثواب غریبوں میں تقسیم کردیا جائے، اس میں نہ تو شوہر کا حصہ لینا درست اور نہ ہی والدین کا۔ دونوں فریق لازمی طور پر اس حرام مال سے احتراز کریں اور اللہ سے ڈریں۔ تاہم اگر سرکاری و غیرسرکاری طور پر صرف بطور تعاون کوئی رقم کسی کی طرف سے دی جائے تو اس کا حقدار وہی ہوگا جس کو وہ رقم دی جائے گی۔  جب مرحومہ کی ساری جائداد﴿ چاہے روپیہ پیسہ ہو یا زمین و مکان جو بھی اس کی ملکیت میں تھے﴾   جمع کرلیں  تو سب سے پہلے اگر مرحومہ پر کسی کا قرض ہے تو اس کو ادا کریں  پھر بقیہ ما ل فقہ اسلامی کی روشنی میں اس طرح تقسیم کریں  گے کہ شوہر کے لیے کل مال کا نصف یعنی آدھا حصہ ہوگا ، باپ کیلئے کل مال کاثلث یعنی  تہائی حصہ ہوگا اور ماں کے لئے  سدس یعنی چھٹا حصہ ہو گا، مثال کے طور پر بالفرض  اگر کل مال 9 لاکھ روپئے کے بقدر ہے تو  لڑکی کے شوہر کو چار لاکھ پچاس ہزار ،  لڑکی کے باپ کو تین لاکھ اور لڑکی کی ماں کو ایک لاکھ پچاس ہزار ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 999/41-182

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال ، زید مرحوم کا کل ترکہ 64 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے بیوی کو آٹھ حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے دئے جائیں گے۔ 

چنانچہ 50 لاکھ میں سے بیوی کو 625000 روپئے ملیں گے۔ ہر ایک  بیٹے کو 1093750 روپئے اور ہر ایک بیٹی کو 546875 روپئے  ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2731/45-4212

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زانی اور فاسق گناہ گار بلکہ مرتکب کبیرہ ہے لیکن ایمان سے خارج نہیں ہے اس لیے اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے تاہم مقتدا حضرات اگر تنبیہ کے لیے نہ پڑھیں تو بہتر ہے یہی حکم جنازہ کو کندھا دینے کا ہے کہ عام لوگوں کے لیے فاسق کے جنازہ کو کندھا دینا باعث اجر و ثواب ہے اس لیے کہ وہ مومن کا جنازہ ہے ہاں اگر تنبیہ کےلیے مقتدا حضرات کندھا نہ دیں تو بہتر ہے ،میت کو کندھا دینے کا ثواب مومن کی قید کے ساتھ ہے اور فاسق بھی مومن ہے ،فاسق کے جنازہ کو کندھا دینے کوعام لوگوں کے لئے مکروہ کہنا یا منع کرنا درست نہیں ہے۔ ان رجلا من أسلم جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاعترف بالزنا، فأعرض عنه حتى شهد على نفسه أربع مرات، فقال: أبك جنون؟ قال: لا قال: أحصنت؟ قال: نعم فأمر به فرجم بالمصلى فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم حتى مات فقال له - أي عنه - النبي صلى الله عليه وسلم خيرا وصلى عليه(سنن ابی داؤد،6/480)ان رجلا مات بخيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلوا على صاحبكم إنه قد غل في سبيل الله» قال: ففتشنا متاعه، فوجدنا خرزا لا يساوي درهمين.قال عطاء: لا أدع الصلاة على من قال: لا إله إلا الله قال تعالى: {من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم}.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند