احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 967

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال اگر زید کے والد کے وارثین میں کل تین ہی افراد ہیں تو کل جائداد کو چار حصوں میں  تقسیم کرکے دو حصے زید کو اور  ایک وہ حصہ جو اس بہن کے حصہ میں آتا ہے جو مصالحت کرچکی ہے زید ہی کو دے کر یعنی زید کو کل تین حصے ملیں گے، باقی ایک حصہ مطالبہ کرنے والی بہن کو دیدیا جائے۔ بہن جس پر راضی ہو وہی صورت اختیار کریں ۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 989

الجواب وباللہ التوفیق

بلا ضرورت شوہر کا بیوی کو غسل دینا درست نہیں۔ (شامی ج2 ص 198)

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 147/1210 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ صورت مسئلہ میں شرعی ضابطہ کے مطابق اخت عصبہ ہے، اور ذوی الفروض کو حصہ دینے کے بعد اگر کچھ بچے گا تو وہ اخت (عصبہ)  کو ملے گا۔ صورت مذکورہ میں ترکہ مکمل تقسیم ہوگیا ، کچھ بچا نہیں اس لئے اخت کو یہاں کچھ نہیں ملے گا۔ تخریج حسب ذیل  ہے۔

مسئلہ ۱۲  ؀ ۱۳

زوج–ام –بنت –بنت –اخت

۳–۲–۴–۴–عصبہ

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 991 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحم الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں بغیر بناؤ سنگھار کے، عورت پردہ کے ساتھ باہر جاسکتی ہے، لیکن جلد واپس آجائے؛ باہر نکل کر کسی اور کام میں وقت ضائع نہ کرے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1232 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال، جب بھائی نے پیسے ما ں کو دیدئے  اور ان کو اختیار دیدیا تو وہ اب ماں کے ہوگئے؛ اگر وہ کسی کو کچھ دینا چاہیں تو ان کو اختیار ہے، ان پر کوئی دباو نہیں ڈالاجائےگا۔ آپ نے بہن کی شادی میں جو تعاون کیا وہ تبرع ہے اس کا اجرعظیم آخرت میں آپ کو ملے گا انشاء اللہ۔ ماں نے ایک موقع پر خوش ہوکر ایک بات کہہ دی اور پھر بعد میں مصلحت اس کے خلاف میں نظر آئی اور اس پر عمل نہ کیا تو اس کی گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ صورت مسئلہ: ایک بیوہ عورت اپنی زندگی میں ہی اپنا گھر اور جائداد اپنے بچوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں تو وہ کس طرح سے اپنا تمام مال اپنے وارثوں میں تقسیم کریگی ؟ جائداد و مال: اس کے پاس 80 گز کا ایک مکان ہے لیاری ایکسپریس تیسر ٹاؤن سیکٹر 51 میں جس کی قیمت تقریباً 20 لاکھ روپے ہیں۔ اور 3 تولہ سونا اور 3 لاکھ 60 ہزار روپے ان کی ملکیت میں ہیں۔۔۔ ورثاء: پہلے شوہر سے 2 بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک حیات ہیں اور دوسری کا انتقال ہو گیا ہے لیکن ان کی اولاد موجود ہیں۔ جبکہ دوسرے شوہر سے 5 بیٹیاں اور 1 بیٹا ہے۔۔۔ آپ حضرات سے التماس ہے کہ مسئلہ کی وضاحت فرما دیں کہ کیسے مال کو تقسیم کیا جائیگا؟ جزاک اللہ خیرا کثیرا

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1686/43-1337

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مندرجہ بالا سوال سے واضح ہے کہ اب زندہ لوگوں میں میت کی  ایک بیوی، ایک بیٹی، اور تین بھائی ہیں ۔ مرحوم کا کل ترکہ آٹھ حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے (ثمن) ایک حصہ موجودہ بیوی کو اور (نصف) چار حصے بیٹی کو اور(بطور عصبہ)  ایک ایک  حصہ ہر ایک  بھائی  کو ملے گا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1292/42-663

الجواب وباللہ التوفیق                                          

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    اگر دونوں لڑکے پیسے کماکر باپ کو بھیجتے ہیں، تو گویا وہ باپ کو ہبہ کردیتے ہیں ، اب باپ اپنی مرضی سے اپنی صوابدید پر زمین خریدتاہے ، مکان بناتا  ہے، یا گھر کا خرچ چلاتاہے۔ ایسی صورت میں والد نے جوزمین خرید کر اپنے نام کرائی تویہ اس کی ملکیت شمار ہوگی اس میں وراثت جاری ہوگی اور اس میں سب بیٹےبرابر شریک ہوں گے، لیکن اگر ان دونوں  بیٹوں نے کماکر جو زمین خریدی والد کو  اس کا مالک نہیں بنایا بلکہ صرف ان کا نام کاغذ میں ڈالدیا تھا تو اس میں چھوٹے بھائی کا حصہ نہیں ہوگا۔  تاہم دونوں صورتوں میں چھوٹے بھائی کی پڑھائی وغیرہ میں جو کچھ خرچ ہوا وہ سب تبرع سمجھاجائےگا،اس کا کسی حساب میں شمار نہ ہوگا ۔

وکذا لو اجتمع اخوۃ یعملون فی ترکۃ ابیھم ونمی المال فھو بینھم سویۃ ولو اختلفوا فی العمل والرائ (شامی3/383) الاب وابنہ یکتسبان  فی صنعۃ واحدۃ ولم یکن لھما شیئ فالکسب کلہ للاب ان کان الابن فی عیالہ (شامی 6/392، کتاب الشرکۃ،الشرکۃ الفاسدۃ) الااذاکان لھاکسب علی حدۃ فھو لھاکذافی القنیۃ (الھندیۃ، کتاب الشرکۃ 2/329) (مشترکہ وجداگانہ خاندانی نظام، ایفا پبلی کیشنز، دہلی  ص128)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1907/43-1799

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   صورت مسئولہ میں ان رشتہ داروں کے لئے تو وصیت نافذ نہیں ہوگی جن کو وراثت میں سے حصہ ملے گا، ہاں جو محروم ہورہے ہوں گے، ان کے حق میں وصیت نافذ ہوجائے گی، مثلا بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے محروم ہوتے ہیں تو پوتوں کے حق میں وصیت نافذ ہوگی۔ اور اگر میت کا کائی بیٹا زندہ نہ ہو صرف پوتے موجود ہوں تو پھر پوتوں کے حق میں بھی وصیت نافذ نہیں ہوگی، کیونکہ اب وہ وارث بن رہے ہیں۔ اور حدیث میں ہے:

عن ابی امامۃ قال سمعت رسول اللہ  ﷺ یقول فی خطبتہ عام حجۃ الوداع ان اللہ قد اعطی کل ذی حق حقہ فلاوصیۃ لوارث (رواہ ابو داؤد۔ مشکوۃ 1/265، باب الوصایا، نعیمیہ دیوبند)

 باق وہ رشتہ دار جو جو وصیت کے حقدار بنیں گے ان میں جو رشتہ دار درجہ اور قرابت میں میت کے زیادہ قریب ہیں وہی مستحق ہوں گے۔

الاقرب فالاقرب یرجحون بقرب الدرجۃ الخ ثم یرجحون بقوۃ القرابۃ ( السراجی فی المیراث ص22، باب العصبات، مکتبہ بلال دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2447/45-3711

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم عبدالرحمن کی کل جائداد کو 120 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے آٹھواں یعنی 15 حصے موجودہ بیوی کو، چھٹا یعنی 20 حصے ماں کو، 34 حصے بیٹے کو اور 17 حصے تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ملیں گے یعنی  پہلی بیوی سے  جو دو لڑکیاں ہیں ان کو وراثت میں حصہ ملے گا، البتہ وہ بیوی جس کو مرحوم نے اپنی زندگی میں ہی طلاق دے کر الگ کردیا تھا اس کو وراثت میں کچھ بھی حصہ نہیں ملے گا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند