احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2496/45-3798

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بشرط صحت سوال، صورت مسئولہ میں والد کی وفات کے وقت ان کی اولاد میں سے جو لوگ باحیات تھے، ان کے درمیان ہی وراثت کی تقسیم عمل میں آئے گی، اور جس بیٹے کا انتقال ہوگیا تھا اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ مرحوم کی کل جائداد کو 10 حصوں میں تقسیم کریں گے، ہر ایک بیٹے کو دو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ یعنی لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو ااکہرا حصہ ملے گا۔ اور بڑے بھائی کی اولاد یعنی مرحوم کے پوتوں کو وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا، ان کا حصہ کا مطالبہ کرنا از روئے شرع جائز نہیں ہے، تاہم اگر وراثت میں حصہ پانے والے افراد اپنے حصہ میں سے کچھ  نکال کر بطور حسن سلوک   اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کی  مدد کریں اور ان کی ضروریات کا خیال کریں  تو  بڑے اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) صورت مذکورہ میں چچا کے بیٹے عصبہ ہوں گے؛ اور ساری جائداد چچا کی مذکر اولاد کے درمیان تقسیم ہوگی، اس طور پر کہ جائداد کے چار حصے کئے جائیں گے،  اور ہر ایک بیٹے کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ باقی تمام رشتہ دار محروم ہوں گے اور ان کو کوئی بھی حصہ نہیں ملے گا۔ (2) اگر مذکورہ چچاؤں کے چاروں لڑکے بالغ ہیں اور وہ اپنی مرضی سے جائداد سے دستبردار ہوجائیں اور میت کے ایصال ثواب کے لئے خرچ کرنے پر راضی ہوں تو اس کی گنجائش ہے۔ ولایجوز لاحدھما ان یتصرف فی نصیب الآخر الابامرہ وکل واحد منہما کالاجنبی فی نصیب صاحبہ (عالمگیری ۲؍۳۰۱) 

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2163/44-2248

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال، اگر وارثین میں صرف چار بیٹیاں باحیات ہیں اور ان کے ماں باپ بھی مرحوم کے انتقال کے وقت باحیات نہیں تھے تو مرحوم کی جائداد کو چار حصوں میں تقسیم کردیاجائے گا ۔ لیکن اگر اصحاب فرائض  یا ذو الارحام میں سے کوئی  ہو تو اس کی تفصیل لکھ کر دوبارہ معلوم کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1253 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-: درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1299/42-662

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایسا  کرنے میں  بظاہرکوئی حرج نہیں ہے، تاہم اگر اس کو لازم سمجھاجانے لگے توترک کردینا ضروری ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2102/44-2125

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خالدہ کا یہ عمل یقینا غلط ہے اور تکلیف دہ ہے، اس کو ایسانہیں کرنا چاہئے تھا، البتہ چونکہ وہ عاقلہ بالغہ ہے اس لئے اس کا کیا ہوا نکاح  شرعا معتبر ہے، اور اس کو دیگر ورثہ کی طرح وراثت کی تقسیم میں حصہ بھی ملے گا۔ اس کی اپنی مرضی سے شادی کی بناء پر اس کو وراثت سے محروم کرنا جائز نہیں ہوگا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 977/41-133

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ صحت کے زمانے کے جتنے قرض خواہ ہیں، ان سب کو ان کے قرض  کے تناسب سے ادائیگی کیجائے گی ۔  کسی ایک کا پورا قرض چکانا اور دوسروں کو بالکل محروم کردینا درست نہیں ہے۔ اس لئے مرحومہ کی بیوی کا قرض اور اجنبی شخص کا قرض جو بھی ہو اسی تناسب سے ان دونوں میںمرحوم کا ترکہ تقسیم کردیا  جائے۔ مثلا مرحومہ کا حق مہر   دس ہزار ہے اور اجنبی کا قرض بھی دس ہزار ہے جبکہ کل ترکہ دس ہزار ہی ہے تو دونوں کو پانچ پانچ ہزار ادا کردئے جائیں گے۔ اگر وارثین میں صاحب استطاعت لوگ ہوں تو ان کو مکمل قرض کی ادائیگی میں  از راہ ہمدردی تعاون کرنا چاہئے، گوتعاون کرنا لازم نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2506/45-3825

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   پوسٹ مارٹم کے بعد غسل دیا جائے  ۔ اگر پہلے غسل دیدیاگیا تو بھی پوسٹ مارٹم کے بعد دوبارہ غسل دیاجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 37 / 1044

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ہاں اداکرسکتے ہیں۔ ہدایہ ج١ص ۸٦۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 981/41-135

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فقہ اسلامی کے اعتبار سے والد کے انتقال کے بعد اگر والد پر قرض یا کوئی وصیت ہو تو قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعد ان کی کل جائداد کو اسّی (80) حصوں میں تقسیم کریں گے  جن میں سے بیوی کو دس(10) حصے ، ہر ایک بیٹے کو چودہ(14) اور ہر ایک بیٹی کو سات (7) حصے ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند