احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 949/41-0000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ باپ جب تک زندہ ہے اس کی جائداد میں کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ بیٹوں کا مطالبہ بے جا ہے۔ تاہم یہ بھی خیال رہے کہ میراث ایک شرعی حق ہے، باپ اپنے بیٹوں کو محروم کرنے کے لئے کوئی اقدام کرے گا تو گنہگار ہوگا۔ آپ اپنی زندگی میں اپنی جائداد جس کو چاہیں دے سکتے ہیں، کسی عزیز کو یا کسی مسجد و مدرسہ کو بھی دے سکتے ہیں مگر ناراضگی کی بناء پر  بیٹوں کو محروم کرنے کی نیت سے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔  بیٹوں نے باپ کے ساتھ جو بھی زیادتی کی اس کا حساب ان  کو کل قیامت میں دینا ہوگا۔

الارث جبری لا یسقط بالاسقاط ( العقود الدریۃ 2/51) 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2817/45-4450

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مرحوم کے بھائی بہن کے مکمل طور پر دستبردار ہونے کی صورت میں مرحوم کا کل ترکہ 80 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے 10 حصے مرحوم کی بیوی کو اور پانچ بیٹیوں  میں سے ہر ایک بیٹی کو  چودہ 14 حصے ملیں گے۔  مرحوم نے جو مکان چھوڑا ہے اس کی موجودہ  قیمت کو مذکورہ طریقہ پر تقسیم کرلیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 40/000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔درست ہے

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 954

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: زید اپنی ملکیت میں مکمل بااختیار ہے، چاہے برابر تقسیم کرے  اور یہ بہتر ہے اور چاہے حصہ میراث کے اعتبار سے تقسیم کرے اور چاہے تو کسی کوکچھ  کم اور کسی کچھ کو زیادہ جیسی ضرورت ہو دیدے تاہم اس کا خیال رکھے  کسی  پر عرفاً ظلم  نہ سمجھاجائے؛ ورثہ کے علاوہ کسی اور کو بھی کچھ دینا چاہے  تو دے سکتا ہے ، اس کو اپنی ملکیت میں تصرف کا مکمل اختیار ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1160/42-384

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) میت کے چھوڑے ہوئے کل سامان و جائداد  کل چالیس حصوں میں بانٹیں گے جن میں سے مرحوم کی بیوہ کو 5 حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 (کل 28حصے) اور ایک بیٹی کو7 حصے ملیں گے۔ بہن بھائیوں کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ (2) انشورنس کمپنی کو مرحوم نے جتنی رقم جمع کی ہے اتنی ہی رقم لینے کی اجازت ہے، اس سے زیادہ سب سود ہے جو بلانیٹ ثواب واجب التصدق ہے۔ البتہ اگر مرحوم کے ورثہ خود غریب اور محتاج ہوں تو سودی رقم کو اپنے استعمال میں بھی لاسکتے ہیں۔ (3) سودی رقم کا حکم یہی ہے کہ اس کو فقراء پر بلانیت ثواب صدقہ کردیا جائے۔  (4) انشورنس  کی زائد رقم حرام ہے، البتہ اگر حکومت کی طرف سے کچھ رقم ملے تو اس کو وراثت کے طریقہ پر تقسیم کرلیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1190 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بشرط صحت سوال مذکورہ قبرستان کو صاف کروانا درست ہے اور جس قبر میں گڈھا ہوگیا ہو اس کو مٹی ڈال کر برابر کرنا بھی درست ہے۔ واللہ اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1166/42-422

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دوکان و مکان کی خیروبرکت کے لئے قرآن خوانی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے، اس لئے جاسکتے ہیں۔ ایصال ثواب کے لئے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اور اگر لوگ چائے پانی، ناشتہ وغیرہ کرادیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ ہمارے یہاں کا عرف ہے  کہ آنے والے کو کچھ نہ کچھ ضرور پیش کرتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 38 / 1072 

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مذکورہ مسئلہ کی دوصورتیں ہیں: (1) بیٹا کماکر باپ کو دیتا  ہے اور صراحۃ ً یا عرفاً باپ کو مالک بناتا ہے۔ (2) کماکر باپ کو دیتا ہے اور باپ کو مالک نہیں بناتا ہے۔ ؛ پہلی صورت میں وہ مال باپ کی ملکیت ہے اور اس میں وراثت جاری ہوگی، اور دوسری صورت میں وہ خود بیٹے کی ملکیت ہے۔ (مشکوۃ شریف، ہدایہ)۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 967

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال اگر زید کے والد کے وارثین میں کل تین ہی افراد ہیں تو کل جائداد کو چار حصوں میں  تقسیم کرکے دو حصے زید کو اور  ایک وہ حصہ جو اس بہن کے حصہ میں آتا ہے جو مصالحت کرچکی ہے زید ہی کو دے کر یعنی زید کو کل تین حصے ملیں گے، باقی ایک حصہ مطالبہ کرنے والی بہن کو دیدیا جائے۔ بہن جس پر راضی ہو وہی صورت اختیار کریں ۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 989

الجواب وباللہ التوفیق

بلا ضرورت شوہر کا بیوی کو غسل دینا درست نہیں۔ (شامی ج2 ص 198)

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند