Frequently Asked Questions
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2102/44-2125
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خالدہ کا یہ عمل یقینا غلط ہے اور تکلیف دہ ہے، اس کو ایسانہیں کرنا چاہئے تھا، البتہ چونکہ وہ عاقلہ بالغہ ہے اس لئے اس کا کیا ہوا نکاح شرعا معتبر ہے، اور اس کو دیگر ورثہ کی طرح وراثت کی تقسیم میں حصہ بھی ملے گا۔ اس کی اپنی مرضی سے شادی کی بناء پر اس کو وراثت سے محروم کرنا جائز نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 977/41-133
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ صحت کے زمانے کے جتنے قرض خواہ ہیں، ان سب کو ان کے قرض کے تناسب سے ادائیگی کیجائے گی ۔ کسی ایک کا پورا قرض چکانا اور دوسروں کو بالکل محروم کردینا درست نہیں ہے۔ اس لئے مرحومہ کی بیوی کا قرض اور اجنبی شخص کا قرض جو بھی ہو اسی تناسب سے ان دونوں میںمرحوم کا ترکہ تقسیم کردیا جائے۔ مثلا مرحومہ کا حق مہر دس ہزار ہے اور اجنبی کا قرض بھی دس ہزار ہے جبکہ کل ترکہ دس ہزار ہی ہے تو دونوں کو پانچ پانچ ہزار ادا کردئے جائیں گے۔ اگر وارثین میں صاحب استطاعت لوگ ہوں تو ان کو مکمل قرض کی ادائیگی میں از راہ ہمدردی تعاون کرنا چاہئے، گوتعاون کرنا لازم نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2506/45-3825
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پوسٹ مارٹم کے بعد غسل دیا جائے ۔ اگر پہلے غسل دیدیاگیا تو بھی پوسٹ مارٹم کے بعد دوبارہ غسل دیاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 37 / 1044
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ہاں اداکرسکتے ہیں۔ ہدایہ ج١ص ۸٦۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 981/41-135
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ اسلامی کے اعتبار سے والد کے انتقال کے بعد اگر والد پر قرض یا کوئی وصیت ہو تو قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعد ان کی کل جائداد کو اسّی (80) حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے بیوی کو دس(10) حصے ، ہر ایک بیٹے کو چودہ(14) اور ہر ایک بیٹی کو سات (7) حصے ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1269
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: لڑکے پر ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت واجب ہے، اگر اس نے اس میں کوتاہی کی تو اس کا وبال اسی پر ہوگا، اور ایسا شخص انتہائی خسارہ میں ہے جو اپنے بوڑھے اورمحتاج والدین کی خدمت کرکے جنت پانے کی کوشش نہ کرے۔ تاہم والد کا اپنی اولاد میں سے کسی کو محروم کرنا کہ مرنے کے بعد اس کو کوئی حصہ نہ ملے خلاف شرع ہے۔ والد کا خوش ہوکر کسی ایک بیٹے کو کچھ دیدینا درست ہے لیکن کل جائداد تقسیم کردینا اور ایک بیٹے کو بالکل محروم کردینا درست نہیں ہے۔ باپ کے انتقال کے بعد کل جائداد تقسیم کی جائے گی اور کسی بھی لڑکے کو محروم نہیں کیا جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 890/41-1132
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سسر نے مکان فروخت کرکے اپنی مرضی سے بیٹیوں کو مالک بنادیا ہے تو یہ باپ کا اپنی بیٹی کو ہبہ کرنا ہے۔ اور قبضہ کی وجہ سے ہبہ تام ہوگیا ہے۔ ان پیسوں میں بیٹوں کا کوئی حق نہیں ہے۔
الھبۃ لاتتم الا بالقبض فھو السبب للملک وبہ یزول الاشتباہ (البحرالرائق 5/305)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 891/41-1135
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بھائی کا بہن کو وراثت میں حصہ نہ دینا ناجائز اور حرام کام ہے۔ شریعت نے جس طرح بھائی کا حصہ متعین کا ہے اسی طرح بہن کا حصہ بھی متعین کیا ہے ۔ لیکن اگر بھائی بہن کا حصہ نہیں دیتا ہے تو وہ بہن کا حصہ غصب کرنے والاہوگا۔ اور بہن کے حصہ کا مال اس کے قبضہ میں مال حرام ہے، جس کو کھانے سے پرہیز لازم ہے۔ لیکن اگر بھائی کے پاس دوسرا بھی مال ہے یا وہ اپنے حصہ کے پیسوں سے کھلاتا ہے تو بہن کا کھانا جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 853 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کی چادر استعمال کرنا چونکہ سنت سے ثابت نہیں ہے اور اس میں بے حرمتی کا اندیشہ بھی ہے اس لئے اس سے بچنا اور ایسی چادر جس پر قرآنی آیات نہ ہوں استعمال کرنا احوط ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1090/42/281
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ حدیث درست ہے، لہذا اگر کوئی غیرمسلم مسلمان ہوجائے تو اس کی وراثت میں غیرمسلم رشتہ داروں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اسی طرح ان کے مال میں اس کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اگر کوئی مسلمان ہوجائے تو بھی اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے والد کا نام تبدیل کرے۔ اس کو اپنے باپ کی طرف ہی نسبت کرنی چاہئے۔ اگر کوئی مسلمان اپنے مسلمان باپ کانام بدل کر کسی دوسرے کا نام لکھ دے تو بھی اپنے باپ کی وراثت سے محروم نہیں ہوگا۔ غیر کی طرف نسبت کرنے سے اس غیر کا یہ وارث نہیں بنے گا۔ اگر آپ کا مقصد کچھ اور معلوم کرنا تھا تو دوبارہ وضاحت کے ساتھ لکھیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند