احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1197/42-488

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سے مہر کی ادائیگی نہیں ہوگی، کیونکہ یہ جو کچھ مل رہا ہے وہ سرکار کی طرف سے بطور تبرع  اس کی بیوی کو مل رہا ہے جس کی مالک خود اس کی بیوی ہے، اس میں شوہرمرحوم کا کوئی حق نہیں ہے۔تاہم اگر شوہر نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا ہے جس سے بیوی کا مہرادا کیا جاسکے تو بیوی کو چاہئے کہ شوہر کو مہر سے بری کردے، خاص طور پر جب کہ عورت شوہر کی وجہ سے پینشن بھی پارہی ہے۔ عورت کے مہر معاف کرنے سے بھی شوہر کے ذمہ سے مہر کا دین ساقط ہوجائے گا۔ اور ان شاء اللہ آخرت میں مواخذہ کا باعث بھی نہیں ہوگا۔

(قوله وصح حطها) أي حط المرأة من مهرها؛ لأن المهر في حالة البقاء حقها والحط يلاقيه حالة البقاء والحط في اللغة الإسقاط كما في المغرب أطلقه فشمل حط الكل أو البعض وشمل ما إذا قبل الزوج أو لم يقبل (البحرالرائق باب المھر 3/161)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1446/42-910

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی کی رو سے، میمونہ کا کل ترکہ 18 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے میمونہ کی والدہ کو 3 حصے اور بھائی کو دس اور بہن کو پانچ حصے ملیں گے۔  بھتیجے، بھتیجی اور بھانجی کو کچھ نہیں ملے گا۔

وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ (سورۃ النساء 11)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2116/44-2142

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم کا کل ترکہ چھیانوے ( 96) حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے بارہ  حصے مرحوم کی بیوی کو ، چودہ چودہ حصے ہر ایک بیٹے کو اور سات سات حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1440/42-901

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس عمر کی بچی کو قبرستان لے جانے میں کسی مفسدہ کا اندیشہ نہیں ہے، اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں۔ جوان عورتیں بہت سارے خرافات میں لگ جاتی ہیں اور صبروتحمل ان میں کم ہوتاہے اس لئے ان کو منع کیاجاتاہے۔

وإن کان للاعتبار والترحم من غیر بکاء والتبرک بزیارة قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز (شامي زکریا: ۳/۱۵۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1089/42-282

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آدمی اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا مالک ہے، اور خودمختار ہے۔ وراثت کی تقسیم مرنے کے بعد ہوتی ہے، تاہم اگر کوئی اپنی زندگی میں قرآنی اصول وراثت کے مطابق تقسیم کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے ، البتہ بہتر یہی ہے کہ سب میں برابر برابر تقسیم کرے۔ نیز اگر کوئی بیٹا یا بیٹی زیادہ ضرورتمند ہو تو اس کو زیادہ بھی دے سکتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  مہر کا مال عورت کی ملک ہے۔مرنے والے کی وصیت اس کے تہائی مال میں جاری ہوتی ہے۔ لہذا  اس عورت کے مرنے کے بعداس کے ایک  تہائی مال سے اس  گود لئے بچے کی بیوی کو زیور بناکر دیدیاجائے  اور بقیہ دو تہائی  مال وارثوں کے درمیان بطور میراث تقسیم کرلیا جائے۔ میراث کی تقسیم کے لئے وارثین کی تفصیلات لکھ کر بھیجیں تواسکا جواب لکھاجائے گا۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2465/45-3778

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر مرحوم کے بیٹے موجود ہیں تو پوتوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا، اور اگر میت کی کوئی مذکر اولاد نہیں  ہے تو پھر پوتے بھی  میراث کے مستحق ہوں گے۔  اب رہی یہ بات کہ کس کو کتنا ملے گا، اس کے لئے تمام ورثاء کی تفصیل مطلوب ہے مثلا والد کے انتقال کے وقت ان کی زوجہ  باحیات تھیں یا نہیں، اولاد میں کتنے بیٹے اور بیٹیاں ہیں، اور اگر بیٹے نہیں ہیں تو کتنے پوتے اور پوتیاں ہیں؟  تمام تفصیلات لکھ کر دوبارہ سوال کریں تاکہ صحیح تقسیم کے ساتھ جواب  ارسال کیاجاسکے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 40/1099

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال، حقوق متقدمہ علی الارث کی ادائیگی  کے بعد کل ترکہ کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے۔ مرحوم کی بیوی کو64 میں سے آٹھ حصے، ہر ایک بیٹی کو سات سات، اور ہر ایک بیٹے کو چودہ چودہ حصے ملیں گے۔ لہذا بارہ لاکھ میں سےمرحوم کی بیوی کو ایک لاکھ پچاس ہزار (150000) ملیں گے،  ہر ایک بیٹی کو ایک لاکھ اکتیس ہزار دو سو پچاس  (131250) ملیں گے،  اور ہر ایک بیٹے کو دو لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو  روپئے (262500) ملیں گے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1325/42-708

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقف قبرستان کے بیچ  سے عام  راستہ  نکالنا درست نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ  قبریں نئی ہیں تو ان کو مسمار کرنا اور ان کو بلاوجہ شرعی  زمین بوس کرکے برابر کردینا جائز نہیں ہے۔ البتہ جنازہ دوسری طرف لیجانے کے لئے اگر راستہ نہ ہوتو مردے کو قبرتک پہنچانے کےلیے بقدر ضرورت عارضی راستہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن خیال رہے کہ یہ عام راستہ نہیں ہوسکتاہے اور ضرورپڑنے پر  تدفین کے کام میں  اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ولو وجد طريقاً في المقبرة وهو يظن أنه طريق أحدثوا لا يمشي في ذلك وإن لم يقع ذلك في ضميره لا بأس بأن يمشي فيه (فتاوى قاضيخان (1/ 95) وفی السراج :فان لم یکن لہ طریق الاعلی القبر،جاز لہ المشی علیہ للضرورۃ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ص:620)
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2638/45-4014

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  انسان اپنی زندگی میں اپنی جائداد پر مکمل اختیار رکھتاہے، وہ جس کو چاہے جتنا چاہے دے سکتاہے، البتہ اگر اپنے مرنے کے بعد دینے کی وصیت کرتاہے تو صرف تہائی مال میں وصیت نافذ ہوگی ۔ صورت مسئولہ میں آپ اپنی زندگی میں اپنے بھتیجے و بھتیجی کو جو دینا چاہیں دے سکتے ہیں یا ایک تہائی مال یا اس سے کم کی وصیت  بھی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں دیدیں تو زیادہ بہتر ہے اور اگر وصیت کرنا چاہیں تو  ایک وصیت نامہ تحریر کردیں جس میں متعینہ رقم دینے کی صراحت کے ساتھ وصیت درج ہو۔ اسی طرح کسی مدرسہ یا مسجد یا کسی دینی کام کے لئے وصیت کرنا ہو تو اس کی بھی وصیت مع متعینہ رقم کے وصیت نامہ میں درج کردیں۔

آپ کے انتقال  اور تجہیزوتکفین و دین کی ادائیگی کے بعد سب سے پہلے آپ کے تہائی مال سے وصیت کردہ رقم  اداکی جائے گی، پھر جو کچھ بچے گا وہ   آپ کی بیوی وبچوں میں اگر ان کے علاوہ  کوئی اور وارث نہیں ہے تو  اس طرح تقسیم ہوگا کہ بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد مابقیہ لڑکے کو دوہرے اور لڑکیوں کو اکہرے کے حساب سے تقسیم کیاجائے گا؛ یعنی وصیت کی رقم اداکرنے کے بعد باقی مال کو 32 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے چار حصے بیوی کو، چودہ  حصے بیٹے کو اور سات سات حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند